پولیٹکل اسلام‘ پس پردہ کیا ہے

ایڈمن

’پولیٹکل سرمایہ داری ‘ کوئی چیز نہیں ہے جبکہ سرمایہ داری ایک آئیڈیالوجی ہے جس نے سیاست میں باقاعدہ حصہ لیا اور فتح یافتہ ممالک میں سیاست کو سرمایہ دارانہ اصولوں پر قائم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ ’پولیٹکل…

’پولیٹکل سرمایہ داری ‘ کوئی چیز نہیں ہے جبکہ سرمایہ داری ایک آئیڈیالوجی ہے جس نے سیاست میں باقاعدہ حصہ لیا اور فتح یافتہ ممالک میں سیاست کو سرمایہ دارانہ اصولوں پر قائم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ ’پولیٹکل اشتراکیت ‘ کوئی چیز نہیں ہے حالانکہ اشتراکیت نے نہ صرف سیاست میں قدم رکھا بلکہ موقع ملنے پر سیاست کو اشتراکی بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ ’پولیٹکل یہودیت ‘کوئی چیز نہیں ہے جبکہ یہودیوں نے مذہب کے نام پر سیاست کونہ صرف فروغ دیا، بلکہ عالمی برادری کے مکمل تعاون سے غاصبانہ طور سے ایک مذہبی ریاست کی تشکیل بھی کی۔’پولیٹکل ہندوازم ‘کوئی چیز نہیں ہے جبکہ سوامی وویکانند نے باقاعدہ ہندوازم کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا اور مختلف تنظیمیں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے کوشاں بھی ہیں۔مسلمان جن کے پاس اول روز سے زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاسی شعبے کی بھی بھر پور رہنمائی موجود ہے ، اور تاریخ ان کے ایک شاندار سیاسی کردارکی شاہد بھی ہے ، انہوں نے بھی اسلامی اقدار اور تعلیمات پر مبنی فی زمانہ قابل عمل سیاسی نظام کو فروغ دیا اور اس کے مطابق سیاست کرنے کی کوشش کی ۔
پھر’ پولیٹکل اسلام‘ کیوں ؟ یہ ایک اہم اور توجہ طلب سوال ہے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ ’پولیٹکل اسلام ‘ آیا کہاں سے ؟ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ مغربی مفکرین کے ذریعے دنیا کے سامنے متعارف ہوا۔
’پولیٹکل اسلام ‘ کیا ہے ؟ یہ بالکل اسی طرح غیر واضح ہے جس طرح فلسفے کی دنیا میں مابعد جدیدیت اور میڈیا کی کائنات میں دہشت گردی غیر واضح ہے (مثال کے طور پر چارلی ہیبڈو کا حملہ دہشت گردانہ کارروائی ٹھہری جبکہ امریکہ میں تین مسلم طلبہ پر حملہ قاتل کے ذہنی توازن میں خلل کا نتیجہ قرار پایا)۔ چنانچہ ترکی ، مصر اور تیونس کی اسلامی سیاسی پارٹیاں جو جمہوریت اور حقوق انسانی کی سچی علمبردار بھی ہیں اور ایک متمدن ، پر امن ، انصاف پسند اور عوامی بیداری کے راستے حکومت میں آنے اور حکومت چلانے کی قائل بھی ہیں ۔جن کے یہاں رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کی پوری گنجائش ہے اور جو سیاست کے اصولوں اور منہج میں مغربی دنیا کے لئے بھی باحث حسرت اور رشک ہیں وہ بھی پولیٹکل اسلام ہیں اور القاعدہ و داعش جو تشدد اور انتہا پسندی کے راستے ایک غیر عملی اور فی زمانہ ناقابل عمل طرز حکومت کی کوشش میں مصروف ہیں وہ بھی پولیٹکل اسلام ہیں ۔ حالانکہ ہر ہوشمند اور عقلمند آدمی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان اس سے زیادہ فرق ہے جتنا سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت میں ہے ۔
’پولیٹکل اسلام ‘ کے استعمال کے نتائج و اثرات کیا پڑے ؟ قطع نظر اس سے کہ یہ اصطلاح وضع کرنے والوں کے سامنے مقصد اور محرک کیا تھا ؟ آیا انہوں نے نادانی اور ناواقفیت کی وجہ سے یہ اصطلاح وضع کی یا کسی باقاعدہ پلاننگ کے تحت اس کو وضع کیا گیا ، اس کے درج ذیل اثرات بہت ہی نقصاندہ ، منفی اور دور رس ہیں :
۔۔۔ ۔۔۔ اسلام جو ایک معتدل ، متوازن اور متوسط دین ، آئیڈیولوجی اور نظام زندگی ہے، اور جس میں زندگی کے ہر شعبے کو توازن اور عدل کے ساتھ اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کو ایک سیاسی قسم کی اور اقتدار کے لیے کوشاں مخصوص فکر میں محدود کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔
۔۔۔ ۔۔۔ اسلامی تحریکات جو اسلام کا ایک زندہ اور جامع تصور رکھتی ہیں اور انسانیت کے لئے ایک نئی صبح اور نئی زندگی کی پیامبر ہیں ، جن کا سیاسی نظریہ امن و سکون ، خوشحالی و خیرسگالی اور اخوت و محبت کا ضامن ہے ، جہاں انصاف اور حقوق کی بالادستی ہو ، اس کو انتہا پسند اور تشدد پسند ذہنیت اور فکر سے جوڑ کراور باہم خلط ملط کر کے دنیا کو اس سے متنفر کر دینا اور اس کی قوت کو کمزور کر نے کی کوشش کرنا ۔
۔۔۔ ۔۔۔ بعض غیر معتدل اور غیر حقیقی بلکہ غیر اسلامی سیاسی کوششوں کو پولیٹکل اسلام کے نام سے فروغ دینا ، مشہور کرنا اور نتیجہ کے طور پر اسلام کے پورے پولیٹکل ویو کی امیج خراب کر کے دنیا کو اس سے بیزار کرنا ۔
اس اصطلاح کے یہ وہ اثرات ہیں جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اصطلاحات چیزوں کو پیش کرنے اور سمجھنے میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کرتی ہیں چنانچہ اس کو قبول کرنے اور استعمال کرنے میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید زمانے میں مختلف اصطلاحات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور ان کی اصلیت پر پردہ ڈال کر ان کو اپنے مطابق استعمال کرنے کا طریقہ خوب اختیار کیا گیا، بالخصوص مغربی دنیا میں۔ علامہ اسد اپنی کتاب ’اسلام میں سیاست و حکومت کے رہنما اصول ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اصطلاحات کا مفہوم وہ نہیں ہوتا جو ہم یا آپ سمجھنے لگیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو وضع کرنے والے نے طے کیا ہو اور پس منظر اور سیاق جس کو بیان کرتے ہیں‘‘ ۔لہذا اس قسم کی اصطلاحات کے استعمال سے قبل اس کے مثبت ومنفی اثرات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
ذوالقرنین حیدر سبحانی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں