طہ صدیقی
طہ صدیقی الجزیرہ میں کام کرنے والے ایوارڈ یافتہ پاکستانی صحافی ہیں ۔ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس سے پہلے مختلف عالمی شہرت یافتہ صحافتی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔
ٹھیک ایک سال قبل نقیب اللہ محسود نامی ایک نوجوان کو پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں ایک مبینہ انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ابتدا میں پولیس نے دعوی کیا تھا کہ نقیب اللہ محسودپاکستانی طالبان کاایک’ایک انتہا پسند‘ رکن تھا اور وہ’دہشت گردوں کے خفیہ اڈے‘ پر چھاپہ مارنے کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔
لیکن محسود کے اہل خانہ، احباب اور حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے محسود کو ایک بے گناہ معمولی دکاندار قرار دیتے ہوئے پولس کے اس دعوی کو مسترد کردیا۔
حکومت نے تفتیش کے احکام جاری کیے ۔ تحقیقاتی ایجنسی اس نتیجہ پر پہنچی کہ محسود کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ محسود پولس کے ذریعے ایک’جعلی انکاؤنٹر‘میں مارا گیا۔جعلی انکاؤنٹر ایک ایسا عمل ہے جس میں پاکستانی سلامتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے الزامات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔محسود کے جعلی انکاؤنٹر میں ملزم افسران پر مقدمہ درج کیا گیاجو ہنوز جاری ہے۔
ماضی میں ماورائے عدالت قتل کی شکایتوں کو حکام کی جانب سے پابندی سے نظر انداز کیا جاتا رہا۔دوسری طرف سلامتی فورسیس کو آزادی کے ساتھ کاروائیاں کرنے کی اجازت دی جاتی رہی۔جس چیز نے محسود کے سانحے کو اہم بنا دیا اور حکومت کو فوری کاروائی کرنے پر مجبور کردیا وہ در اصل ایک کم معروف تحریک پشتون تحفظ مومنٹ (PTM) تھی جس نے اپنے کام کا آغاز وزیرستان میں اپنے علاقے ماکن سے کیا۔پشتون تحفظ مومنٹ کا آغاز پشتونی عوام، جو پاکستان کی دوسری بڑی اکثریت ہیں اور پاکستان کے افغانی سرحد سے قریب شمال۔ مغربی خطے میں آباد ہیں،کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے منظور پشتین نے کیا تھا۔
پشتون عوام تقریبا دو دہائیوں سے نام نہاد’وارآن ٹیررازم ‘کے نام پر ناکردہ جرائم کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد جب امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے افغانستان پر حملہ کیا تو دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ بعض افراد سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوگئے اور پشتونی علاقوں میں پناہ گزیں ہوگئے۔ رد عمل کے طور پر پاکستان کی ملٹری نے ’علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے‘اپنی کاروائیاں شروع کردیں۔
بہرحال ملٹری کی کاروائیوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے بجائے معصوم شہریوں پر ظلم ہی کا اضافہ کیا۔ پورے پاکستان میں پشتون عوام کو باوجود اس کے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار تھے، دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا۔
انصاف کا مطالبہ:
کراچی میں محسود کے قتل کے بعد منظور پشتین نے وزیرستان سے اسلام آباد کی طرف ایک مارچ کی گوہار دی۔ہزاروں لوگوں نے نہ صرف مقتول محسود کے لئے بلکہ تمام مظلوم پشتون عوام کے ساتھ انصاف کا مطالبہ لے کر، دار الحکومت کی طرف ہونے والے اس مارچ کی پکار پر لبیک کہا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ مارچ حقوق انسانی کی قومی تحریک میں تبدیل ہوگیا اور پشتون تحفظ مومنٹ وجود میں آگئی۔ ملک بھر میں منعقد کی گئی ریلیوں میں منظور پشتین اور ان کے حمایتی افراد نے سوال اٹھایا ان کے علاقوں سے تشدد کے خاتمے میں ملٹری کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں اور کیا پاکستانی حکام کی نیت فی الواقع اس علاقے سے ’دہشت گرد‘گروہوں کا خاتمہ ہی تھا؟
ایک نعرہ جسے اس تحریک سے وابستہ افراد نے ملٹری کی دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگاتے ہوئے ہمیشہ بلند کیا، یہ تھا کہ ’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے!‘
پشتون تحفظ مومنٹ نے ماورائے عدالت ہوئے قتل کے تمام معاملات کی آزادانہ تفتیش اور بالجبر غائب کردینے (enforced disappearance) کی پاکستان ملٹری کی عادت کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔نیز منظور پشتین نے سخت ظالمانہ قوانین (draconian laws) میں، جو کہ حقوق انسانی کے خلاف ہیں، اصلاح کے لئے بھی حکومت پاکستان پردباؤ بنیا۔اجتماعی ذمہ داری(collective responsibility) اس قسم کے قوانین کی ایک مثال ہے جس کا استعمال پاکستانی ریاست قبائلی خطوں کے باشندگان کے خلاف اکثر کرتی ہے۔ جس میں کسی ایک فرد کے ارتکاب جرم کی پاداش میں پورے کنبہ کو مورد الزام اور گنہگار قرار دیا جاتا ہے۔
مضبوط ہوتی ہوئی اس تحریک کے ذریعے توجہ دلائے گئے اصل مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے حکومت پاکستان اس تحریک ہی کو کچل دینے کے درپے ہوگئی۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس تحریک سے متعلق خبریں نشر کرنا بند کردیا۔پولس کی جانب سے تحریک کے کئی ارکان و قائدین کو متعدد مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ قائدین کو پاکستان کے ان علاقوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جہاں وہ ریلی منعقد کرنا چاہتے تھے ۔حالیہ دنوں میں پشتون تحفظ مومنٹ کے چند ارکان پر بیرون ملک جانے پر پاندی عائد کردی گئی۔
ایک پریس کانفرنس میں ملٹری میڈیا کے ترجمان نے پشتون تحفظ مومنٹ پر الزام لگایا کہ وہ دشمن ممالک کی مدد سے’ایک پاکستان مخالف ایجنڈے‘پر عمل پیرا ہے ۔یہ الزام تراشی دراصل ایک ’حربہ‘ہے جسے پاکستانی ملٹری اپنے ناقدین کو غلط ثابت کرنے کے لئے اکثر استعمال کرتی ہے۔
لیکن تحریک کو خاموش اور بند کرنے کی ریاست پاکستان کی ان کوششوں نے الٹے نتائج پیدا کیے ۔ریاست کی سربراہی میں جاری اس ایذا دہی کے نتیجے میں پشتون تحریک مومنٹ مزید مضبوط ہی ہوئی اور اس میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا۔
اگرچہ کہ مومنٹ کا دعوی ہے کہ ان کی جدوجہد پرامن ہے، لیکن خدشہ ہے کہ مومنٹ کو کچلنے کے لئے مسلسل اختیار کی جانے والی خطرناک تدابیر کہیں ایک ایسی مزاحمت پر منتج نہ ہوجائیں جسے قابو میں کرنا مشکل ہوجائے، جیسا کہ پاکستان میں اس سے پہلے دیکھا گیا ہے۔
تاریخ سے سبق آموزی
ماضی میں مشرقی پاکستان کے باشندوں کی جانب سے حقوق کی بحالی کے لئے شروع کردہ اسی قسم کی ایک تحریک بالآخر تقسیم پاکستان پر منتج ہوئی اور 1971 میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔
1960 کی دہائی میں، مشرقی پاکستان میں متوطن بنگالی عوام جو کہ اس وقت نسلی اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے گروہ کا حصہ تھے، نے محسوس کیا کہ جنرل ایوب خان کی قیادت والی مرکزی حکومت ان کے مسائل کو نظرانداز کررہی ہے۔عوام کی بات سننے، ان کے مسائل کو ختم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے ملٹری نے الٹا مظلوموں ہی پر آپریشن شروع کردیاہے۔اس طرز عمل نے بنگالی عام کے لئے مسلح مزاحمت کی راہ ہموار کی۔
تقریبا 50 برس کے بعد، محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمراں اشرافیہ نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا ہے اور 1970 کی دہائی کی انہی غلطیوں کو دہرارہے ہیں جو خوں آشامی اور ناقابل تلافی تقسیم ملک جیسی سخت اذیت کا باعث ہوئیں۔
اب جب کہ پشتون تحفظ مومنٹ کی جدوجہد کو ایک سال ہوچکا ہے، ذمہ دار شہریوں اور حکمراں طبقے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پشتون آبادی کے حقیقی مسائل سے خطاب کریں، آئین پاکستان کے دائرے میں آنے والے ان کے مطالبات پورے کریں اور ان افراد کو سزا دینا فوری طور پر روکیں جو اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اگر ایسا نہیں ہوتا ہے، تو پشتون تحفظ مومنٹ پہلے ہی تقسیم شدہ ملک کی تقسیم در تقسیم کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔