محمد معاذ
ماضی قریب میں جن شخصیات نے تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ خدمات انجام دی ہیں ان میں رابندر ناتھ ٹیگور سرِ فہرست ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور ان خوش نصیب ہستیوں میں ہیں جنھیں اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے کا بھی موقع ملا اور یوں علمی دنیا نے اس سے فیض اٹھایا اور طالبانِ علم کی ایک ضرورت کی کسی حد تک تکمیل ہوئی۔ آج ان کا قائم کردہ ادارہ شانتی نکیتن ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور ۱۸۶۱ء میں کلکتہ کی مردم خیز زمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اپنے وقت کے نامور اسکالر، سماجی کارکن اور فن کار تھے۔ اہلِ ثروت ہونے کے باوجود سادگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ان کے والد کی سرپرستی میں ہوئی۔ والد صاحب مذہبی ذہن کے آدمی تھے۔ انھوں نے اپنے نونہال کو فلسفہ، سنسکرت اور اپنشد کی تعلیم دی۔ ثانوی تعلیم کے لیے ٹیگور کو بنگال اکیڈمی کی ایک درسگاہ میں داخل کرایا گیا کیونکہ ٹیگور کو روایتی طرز تعلیم سے خدا واسطے کا بیر تھا لہٰذا انھوںنے قانون کی جانکاری کے لیے بیرونِ ملک کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل وہاں بھی نہ لگا اور وہ واپس ہندوستان لوٹ آئے۔
ادبی اور تعمیری سرگرمیوں کی ابتداء
۱۸۸۱ء میں رابندر ناتھ ٹیگور نے ادبی سرگرمیوں کی شروعات کی۔ ان کی تحریروں کا بنیادی مقصد سماج کی تعمیر نواور سیاسی بیداری تھا۔ بعد ازاں ٹیگور نے اپنی تحریروں میں اس وقت کے تعلیمی نظام پر تنقیدیں کرنا شروع کیں۔ ٹیگور نے نثر کے علاوہ نظم کو بھی اپنے خیالات کی ترجمانی کا ذریعہ بنایا۔ یہاں تک کہ ایک معروف شاعر اور نثر نگار کے طور پر بہت جلد معروف ہوگئے۔
۱۹۰۱ء میں رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے والد کی اجازت سے ایک ادارہ شانتی نکیتن کے نام سے قائم کیا جو کہ کلکتہ سے ۱۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ابتداء ً اس درسگاہ میں صرف ۵ طلباء نے حصہ لیا اور ٹیگور ان کے واحد استاد اور اتالیق تھے۔ درسگاہ یا اسکول کو قائم کرنے کا مقصد اپنے تعلیمی افکار کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور نے ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اسی اثنا میں ان کی منظوم تخلیقات کا ایک نادر نسخہ ’’گیتانجلی‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ۱۹۱۳ میں انہیں نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔ ٹیگور وہ پہلے ہندوستانی ہیں جنھیں نوبل انعام یافتہ ہونے کا فخر حاصل ہے۔ نوبل پرائز میں ملنے والی رقم کو انھوں نے شانتی نکیتن میں لگادیا اور ایک عظیم مثال قائم کی۔ ۱۹۲۰ سے ۱۹۳۰ء کے دوران ٹیگور نے بیرونِ ممالک کے اسفار کیے اور مختلف تعلیمی جامعات میں توسیعی خطبات پیش کیے۔ جہاں لوگوں نے ان کے افکار کو خوب سراہا۔ ٹیگور جہاں بھی رہے اور جو کچھ بھی ان کی تحریری سرگرمیاں رہیں شانتی نکیتن ان کی زندگی کا جزولاینفک رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۲۱ء تک شانتی نکیتن نے وشوبھارتی یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی۔ جہاں ملک اور بیرونِ ملک کے طلبا وطالبات کے لیے کسبِ علم کے کافی مواقع موجود تھے۔
ٹیگور کے تعلیمی افکار ایک نظر میں
رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستانی ثقافت اور اقدار کے علم بردار تھے۔ گو کہ انھوں نے تعلیم کے میدان میں کوئی الگ فلسفہ نہیں پیش کیا لیکن ان کے ادبی لٹریچر کے مطالعہ سے ان کے افکار تک رسائی کی جاسکتی ہے۔ ذیل میں ٹیگور کے افکار کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
ٹیگور ویدک فلسفہ کے حامی تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی ہے جو کہ ہر جگہ موجود ہے۔ کائنات اور یہ حسین دنیا خدا کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ انسان خدا کی سب سے عظیم تخلیق ہے۔ انسان اگر خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کا طالب ہے تو اس کے لیے اسے جنگل اور بیابانوں کا رخ کرنے کے بجائے انسانوں کی خدمت کرنی چاہیے۔
ٹیگور انسان کی آزادی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ ملک کی آزادی کا صحیح مطلب یہ ہے کہ یہاں کے باشندے سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر آزاد ہوں۔
ٹیگور کا ماننا ہے کہ ہر فرد کو روحانی ارتقاء کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے امید کی جاتی ہے کہ سماج میں بھائی چارہ، محبت اور اخوت پروان چڑھے گی۔ ٹیگور کا کہنا ہے کہ انسانیت سچائی اور ایمانداری جیسے اقدار کا پرتو ہے۔ ٹیگور کا یہ بھی ماننا ہے کہ قدرت اور فطرت کے مظاہر انسان کے بہترین استاد ہیں۔ انسان کو فطرت کے قوانین کو سمجھنا اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے جن اصولوں پر وشوبھارتی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اس کے اہم اجزاء درج ذیل ہیں:
(۱) اشیاء کی ہم آہنگی کا اصول
ٹیگور کا کہنا ہے کہ انسان کا فطرت کی تمام چیزوں کے ساتھ گہرا تعلق اور ہم آہنگی ہونی چاہیے کیونکہ فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم چیزوں سے ان کی طبیعت کے مطابق کام لیں۔ ٹیگور جان ڈیوی کے افکار سے کسی حد تک متاثر تھے۔ گو کہ ان کے تعلیمی فلسفہ میں عملیت کے علاوہ، سماجی اور روحانی اقدار کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
(۲) حریت کا اصول
رابندر ناتھ ٹیگور حریت فکر ونظر کے زبردست حامی تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ بچوں کو کھلے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ چیزوں کو ان کی فطرت کے مطابق سمجھ سکیں۔ ٹیگور سبق کو یاد کروانے اور زبردستی پڑھانے یا دماغ میں ٹھونس دینے جیسے طریقۂ تدریس کے سخت مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’تعلیم کا ایک ہی مقصد اور مطلب ہے اور وہ ہے آزادی۔‘‘ ان کا اس بات پر یقین تھا کہ قدرتی ماحول میں بچہ فطرت سے محبت کرنے لگتا ہے اور یہی حصول علم کا پہلا زینہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آزادی بچے کو ترقی کے منازل طے کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور یوں وہ فطرت سے قریب تر ہوجاتا ہے۔
(۳) اظہارِ خودی کا اصول
رابندر ناتھ ٹیگور کہتے ہیںکہ تعلیم کو انسان کی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے اپنے ادارہ میں فنونِ خطاطی، تصویر نگاری، موسیقی، ڈرامہ وغیرہ کو خاصی اہمیت دی ہے۔ ٹیگور کے نزدیک مقاصد تعلیم میں ایک اہم مقصد طالب علم کی جسمانی صحت کی نشوونما ہے بلکہ وہ اسے سب سے مقدم رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ اخلاقی قدروں کو بھی پروان چڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور ان چند اہم ہندوستانی مفکرین میں سے ہیں جو کہ تعلیم کو قومی اور بین الاقوامی اخوت کو پروان چڑھانے کا اہم ذریعہ تصور کرتے ہیں۔
وشوبھارتی یونیورسٹی
۱۹۵۱ء میں وشوبھارتی یونیورسٹی کو مرکزی ادارہ (سینٹرل یونیورسٹی) کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت سے یہ ایک اقامتی تعلیم گاہ کی حیثیت سے ملک اور بیرونِ ملک کے طلباء و طالبات کے لیے تسکین علم کا سامان کررہی ہے۔ یہاں لڑکیوں اور لڑکوں کے لے الگ الگ اقامت گاہیں ہیں۔ جہاں بلا تفریق مذہب و ملت سب ہی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یونیورسٹی کی اپنی ایک وسیع و عریض لائبریری ہے جہاں کم و بیش دو لاکھ سے زائد کتب مختلف زبانوں میں موجود ہیں۔ ۱۹۴۲ء میں یونیورسٹی کے احاطہ میں رابندر ہاؤس قائم کیا گیا تھا۔ جہاں ٹیگور کی زندگی اور تحریری سرمایہ کا نمونہ دیکھنے کے لائق ہے۔ یہاں ٹیگور کی ساری کتابیں، جرائد اور قلمی نسخے دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں گانوں کے ریکارڈ اور تصاویر بھی شائقین کی دلچسپی اور طلباء کی حوصلہ افزائی کا وافر سامان اپنے پہلو میں رکھتی ہیں۔ وشوبھارتی یونیورسٹی کے تین اہم شعبے ہیں:
(۱) شانتی نکیتن
(۲) یونیورسٹی
(۳) Village Reawakening Center
وشوبھارتی یونیورسٹی کے شعبوں کو ’’بھون‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً اسکول کا نام پاٹھ بھون (Lesson Bhawan) ہے ۔جہاں دسویں جماعت تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس بھون میں تمام مضامین بنگلہ زبان میں پڑھائے جاتے ہیں۔ دیگر ’’بھون‘‘ اس طرح ہیں:
ث شکشا بھون :
اس شعبہ کے تحت بارہویں جماعت تک کی تعلیم کا نظم ہے۔ جس میں بنگلہ، انگریزی، ہندی، سنسکرت، منطق، سیاسیات، تاریخ، ریاضی، جغرافیہ، معاشیات جیسے مضامین بطورِ خاص پڑھائے جاتے ہیں۔
ث ودیا بھون (Education Bhawan):
اس شعبہ کے تحت B.A.آنرس اور M.A.کے کورس کرائے جاتے ہیں۔ اس شعبہ سے طالب علم متعلقہ مضمون میں پی ایچ ڈی بھی کرسکتا ہے۔
ث وِنے بھون (Vinay Bhawan): یہ شعبہ B.Ed.اور M.Ed.جیسے پیشہ ورانہ کورسس پر مشتمل ہے۔
ث آرٹ بھون (Art Bhawan):
اس شعبہ کے تحت دو سالہ آرٹ اور مجسمہ سازی کا کورس کرایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں چار سالہ ڈپلومہ کورس میٹرک کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس شعبہ کے تحت خواتین کے لیے دو سالہ سرٹیفیکٹ کورس کا نظم بھی ہے۔ اس شعبہ کی عمارت میںایک وسیع ہال، میوزیم اور لائبریری بھی ہے۔
ث میوزک ہال(Music Hall):
اس شعبہ کے تحت موسیقی اور ڈانس کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ث چین بھون(China Bhawan):
اس شعبہ کے تحت چینی طلباء کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہندوستانی طلباء کو چینی زبان اور کلچر سے واقف کرایا جاتا ہے۔ یہاں چینی زبان و ادب پر مشتمل ایک لائبریری بھی ہے۔
ث شانتی نکیتن(Shanti Niketan):
اس شعبہ کے تحت دیہی زندگی کے مسائل کا مطالعہ اور ان کے حل کی جانب پیش قدمی کی جاتی ہے۔
ث ہندی بھون(Hindi Bhawan) :
اس شعبہ کے تحت ہندی زبان و ادب کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ث آرکیٹکچر بھون(Architecture Bhawan):
اس شعبہ کے تحت آرکیٹکچر اور متعلقہ فنون کی تعلیم کا نظم ہے۔
وشوبھارتی یونیورسٹی کے کسی بھی بھون سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کے ساتھ یہ رعایت ہے کہ وہ کسی دوسرے شعبے میں بنا کسی فیس کے مفت تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ یونیورسٹی میں کھلے ماحول کے اندر تعلیم حاصل کرنے کا نظم ہے۔ یہاں ایک طالب علم مختلف کلچر اور تہذیبوں کابیک وقت مطالعہ کرسکتا ہے۔ اور بین الاقوامی ہم آہنگی کے مظاہر سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ کثیر جہتی صلاحیتوں کے حامل طلباء کے لیے ان کی شخصیت کے ارتقاء کے کافی مواقع اس دانش کدہ میں موجود ہیں۔