ٹیکنالوجیکل تسلط کے خلاف جدوجہد

ایڈمن

مجاہد الاسلاماکیسویں صدی کی انفارمیشن اورکمیونیکیشن ٹیکنالوجیز نے ’عوامی اقتدار والی، مبنی بر انصاف دنیا‘ کے بے شمار خواب دکھائے۔کمپیوٹر اور ٹیکنالوجیز کی آمد نے ہماری دنیا کو ایک صنعتی معاشرے سے ایک انفارمیشن معاشرے میں تبدیل کردیا۔اس نے کمپیوٹر…


مجاہد الاسلام


اکیسویں صدی کی انفارمیشن اورکمیونیکیشن ٹیکنالوجیز نے ’عوامی اقتدار والی، مبنی بر انصاف دنیا‘ کے بے شمار خواب دکھائے۔کمپیوٹر اور ٹیکنالوجیز کی آمد نے ہماری دنیا کو ایک صنعتی معاشرے سے ایک انفارمیشن معاشرے میں تبدیل کردیا۔اس نے کمپیوٹر کو اس قدر اثر پذیر بنا دیا کہ انفارمیشن نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی۔آج زندگی کے ہر شعبہ میں ہم انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کے بغیر کچھ بھی تصور نہیں کرسکتے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے ہمیں ایک ایسی باہم مربوط دنیا فراہم کردی ہے کہ جہاں زمان و مکان کا فاصلہ سکڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مجازی اور حقیقی دنیا کی سرحدوں کو دھندلا کرتے ہوئے اس نے مابعد انسانی (Post Human)رجحانات کے ظہورکی شکل میں ، خود ہم سے متعلق حقائق کو بڑی حد تک تبدیل کردیا ہے۔
نیم مُوَصَلی ٹیکنالوجی مختصر کاری(Miniaturuzation) کی جانب دن بدن آگے بڑھتی رہی اور صنعتی معیار کی معیشت نے لاکھوں افراد کے ہاتھوں میں جادوئی موبائل فون فراہم کردیا۔ایسے موبائل فون کے ذریعے جو صارف کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے کے قابل بناتے ہیں، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جس سرعت رفتاری سے پھیلی ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔اس تبدیلی نے ایک ایسی دنیا کا وعدہ کیا تھا جہاں ما قبل انٹرنیٹ عہد کی اجارہ داریاں ہوا میں اڑ جائیں گی اور نوآبادیاتی عہد کے برخلاف انفارمیشن اور تخلیق علم کے مواقع چند مراکز قوت تک محصور رہنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ عوام کے ہاتھوں میں ہوں گے۔اسے تخلیقی تباہی (Creative Destruction)کا نام دیا گیا۔ کم از کم انٹرنیٹ کے موجدین نے تو ضرور ان ایجادات کے ذریعہ اس دنیا کے جمہوری کَرَن کاخواب دیکھا تھا۔
اسلام پسندوں نے بھی ان انفارمیشن اورکمیونیکیشن ٹیکنالوجیز میں متعدد مثبت پہلو دیکھے اور اپنے متقدمین، جنہوں نے گزشتہ صدیوں کی مواصلاتی ٹیکنالوجیز مثلاً طباعت،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے سلسلے میں متعدد اشکالات قائم کیے تھے اور اگر چہ بعد میں انہیں قبول بھی کرلیا تھا،کے برخلاف بلا کسی تردد اس میدان میں کود پڑے۔اکیسویں صدی کے اسلام پسندوں نے عالمی طاقتوں ، کارپوریٹس اور میڈیا ہاؤسس کے غلبہ یافتہ کنٹرول کو چیلنج کرنے کے لیے اسے ایک مضبوط ذریعہ اور طریقہ کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ان نئی ٹیکنالوجیز میں موجود آزاد کرنے کی طاقت کے خیال کو عرب بہاریہ اور انتظامیہ مخالف دیگر تحریکوں نے تقویت بہم پہنچائی۔متعدد ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کی طرف سے انٹر نیٹ کی سہولت والے موبائل فون کے ذریعہ فراہم کردہ ان کثیر الانواع خدمات نے اُن افراد کی زندگیوں میں مزید آسانیاں پیدا کردیں جواِن آلات کے متحمل ہوسکتے تھے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا تمام اقسام کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال بھی بغیر کسی تأمل کے کر رہی ہے، ساتھ ہی اسلام اور اس کے ذریعے پیغامِ اسلام کی اشاعت کی بات بھی کررہی ہے۔اسی طرح ہم دیگر اقوام، نظریات ،سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد میںبھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے سے ٹھیک ایسی ہی قبولیت دیکھتے ہیں۔
کیا انفارمیشن اورکمیونیکیشن انقلاب نے اس دنیا کو ایک بہتر جائے استقرار بنانے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا ہوچکا ہے یا کم از کم دنیا اس منزل کی جانب پیش قدمی کررہی ہے؟
کیا اب دنیا پہلے سے زیادہ جمہوری ہے جس کی زمام اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہے؟
کیا انفارمیشن اور علم پر گزشتہ صدی کی نوآبادیاتی اجارہ داری کے دن اب لد چکے ہیں؟
کیا پیداوار اور استحصال کا سرمایہ دارانہ طریقہ اب ختم ہوچکا ہے؟
کیا چند لوگوں کی مٹھی میں اقتدار کی کہانیاں اب قصہ پارینہ ہوچکی ہیں؟
کم از کم سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی نفرت اور جعلی خبروں کو دیکھ کر تو یہ نہیں لگتا کہ حالات ویسے ہیں جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا۔ انفارمیشن پر مبنی اس معیشت (Information Economy) کے مارکٹ شیئرپر اب بھی چند مٹھی بھر بین الاقوامی کارپوریٹ کمپنیوں کا ہی قبضہ ہے۔امیر اور غریب کے درمیان تفریق اور سماجی اخراج میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے ۔بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس معلوماتی معیشت کے سپلائی چین (یعنی مصنوعات کن مراحل سے گزر کر صارف کے لیے دستیاب ہوتی ہیں)میں مزدوروں اور کمزوروںکے استحصال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔بلکہ اس میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ایسی کوئی بھی تبدیلی کہ جس کی محرک ٹیکنالوجی رہی ہو، کبھی ممکن نہیں رہی ہے۔لہذا کیا ہمیں کسی بھی نئی ٹیکنالوجی جو ہماری زرعی،صنعتی اور معلوماتی دنیا کو تبدیل کرتی رہتی ہے،کے وعدوں پر اعتبار کرنے سے اب بازآجانا چاہیے؟یہ تمام ٹیکنالوجیز ایک ہی قسم کے وعدوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی تھیںکہ اس دنیا کو ایک بہترجگہ بنانا ہے۔لیکن ان کے بام عروج پر پہنچ جانے کے باوجود ہمیں کوئی بہتر ی نظر نہیں آتی۔
اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے؟یا ،آیا یہ سوال ایک مخصوص مذہب کے حوالے سے کوئی معنویت بھی رکھتا ہے؟کم از کم ان کے لیے تو ضرورجو اسلام کو افکار و نظریات کے ایک ایسے مربوط نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔لیکن انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیزکے ضمن میں مسلمانوں کا مباحثہ اس کے محض مفید یا مضر استعمال تک مرکوز رہا ہے۔اگر آپ اس کا استعمال کسی اچھے مقصد کے لیے کررہے ہیں تو آپ کو اس پر مزید غور وفکر کرنے کی کیا ضرورت ہے! لیکن کیا یہ معاملہ اسی قدر سادہ ہے؟یعنی اگر آپ سوشل میڈیا پر موجود اچھی چیزوں کو لے رہے ہیں توکیا آپ کایہ عمل وہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف موجود نفرت میں کچھ کمی کا ذریعہ بھی بن رہا ہے؟آخر کیوں کوئی جعلی خبر اصلی حقائق سے زیادہ تیزی سے پھیل جاتی ہے؟
ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل فون کے سپلائی چین کے حوالے سے میں ایک مثال دوں گا۔زیادہ تر موبائل فون بنانے کے لیے جن مختلف مواد کا استعمال ہوتا ہے ان میں سے اکثر افریقی کانوں سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ ان کانوں کے مالک عسکری قائدین ہوتے ہیں جو ان کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے تئیں سخت ظالم ہوتے ہیں۔اس کے بعد یہ موبائل زیادہ تر ایشیائی پُر مشقت کارخانوں میں بنائے جاتے ہیں۔یہاں بھی مزدوروں کا اس شکل میں استحصال ہوتا ہے کہ ان سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور محنتانہ کم سے کم دیا جاتا ہے۔پھر سب سے زیادہ منافع مزدوروں کو نہیں بلکہ ان کمپنیوں کو جاتا ہے جو موبائل فون بناتی ہیں۔کیا ہم کبھی اس پر اسلامی اخلاقی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں؟کیا ہم ان موبائل آلات کی ارزاں قیمت کا سبب جانتے ہیں؟اس کی ایک وجہ ایشیاء کے سستے مزدور ہیں۔کیا اس طرح ہم اس استحصالی سلسلہ فراہمی کا حصہ نہیں بن رہے ہیں؟اگر ہم ان کا اچھا استعمال کرتے ہیں تو کیا اس سے اس سپلائی چین میں پھیلے ہوئے کار ہائے گناہ ختم ہوجاتے ہیں؟
ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کا جبر
اب ان انٹرنیٹ خدمات، جن کا استعمال ہم اپنے کمپیوٹر اور موبائل فون پر کرتے ہیں،کی طرف سے فراہم کردہ مفت خدمات کی مثال لیں ۔کیا وہ خدمات فی الواقع مفت ہیں؟مثلاً گوگل اور فیس بک اپنی زیادہ تر خدمات ہمیںمفت میں فراہم کرتے ہیں۔امریکی ماہر معاشیات ملٹن فرائیڈمن کا قول یاد رکھیں ’’مفت کا دعویٰ محض ایک فریب ہے۔‘‘
ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کا تجارتی ماڈل بھی بنیادی طور پر وہی ہے جو پہلے میڈیا ہاؤسس کا ہوا کرتا تھا یعنی اشتہار۔اپنی مفت خدمات کے عوض وہ ہماری توجہ وصول کرتے ہیں۔ہدف مرکوز اشتہار،پرانے میڈیا ہاؤسس کے مقابلے میں ان نئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کے اشتہار کی حکمت عملی کا امتیازی پہلو ہے ۔یہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمس ہمیں ہمارے پروفائل کے ذریعے اور جس انداز میں ہم ڈیجیٹل آلات کا استعمال کرتے ہیں ، جو در اصل ہمارے ڈیجیٹل نقوش قدم (Digital Footprints)ہوتے ہیں،اس کی بنیاد پر ہم سے زیادہ سے زیادہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم انہیں اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں،اس سے ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کوہماری ممکنہ دلچسپیوں کا پتہ لگانے میںمدد ملتی ہے۔اسی بنیاد پر وہ اپنی مصنوعات فروخت کرتے ہیں،تاکہ خرید و فروخت کا امکان بڑھ جائے۔ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کا بنیادی مقصد اپنے منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہے۔چناں چہ وہ اپنی خدمات کو حتی الامکان لَت آور بناتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یوٹیوب ، فیس بک ، ٹِک ٹاک وغیرہ اس قدر لَت آور ہیں۔یہ تمام چیزیں ہمیں کہاں لے کر جاتی ہیں؟میڈیا کی لَت میں گرفتار، خرید و فروخت کے جنون میں مبتلاایک انتہائی صارفیت پسند معاشرے کی طرف!
موجودہ ڈیجیٹل دنیا میں چیزوں کو جنس بازار بنا دینے کے متعدد پہلو ہیں۔آپ مادی مصنوعات مثلاً کتابوں، ملبوسات اور غذاؤں کی خرید و فروخت آن لائن کرتے ہیں۔دوسرے پہلو کا تعلق ٹکٹ بکنگ ، بینکنگ ،کرایہ کاروں ، کرائے پر ہوٹل، ڈاکٹر سے ملاقات وغیرہ کی خدمات سے ہے۔تیسرے پہلو کا تعلق اخبار، فنون، تفریح اور سوشل میڈیا کی قسم کی خدمات سے ہے۔اگر کسی بھی کاروبارکے پیچھے اصل مقصد منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو،تو وہ لازماً سرمایہ دارانہ شکل اختیار کرلیتا ہے جہاں کبھی دولت کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی۔
اس کے بعدکیا ہوتا ہے؟ ہم دوبارہ بڑی مچھلیوں کو چھوٹی مچھلیوں کو نگلتے دیکھنے لگتے ہیں۔سرمایہ دارانہ طرز کا کاروبار مقامی تجارتی نظام کو ختم کردیتا ہے۔کیوں کہ سرمایہ دارانہ طرز کے کاروباری بہت بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔وہ عوام کو رعایتی نرخ پر خدمات فراہم کرنا شروع کردیتے ہیں۔جس سے مختصر نوعیت کے کاروبار خسارے کا شکار ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن معیشت میں منافع کی ایک بڑی شرح پر چند بین الاقوامی کارپوریٹس مثلاً گوگل، مائیکروسافٹ، فیس بک اور امیزون کا قبضہ ہوجاتا ہے۔اس نظام سے وابستہ مزدوروں مثلاً ڈیلیوری بوائے، ڈرائیوراور دوسری قسم کے مزدوروں سے گفتگو کریںتو معلوم ہوگا کہ یہاں بھی اسی طرح سے استحصال جاری ہے جس طرح سے گزشتہ صنعتی معیشت میں موجود تھا۔
انفارمیشن اور علم کو جنس بازار بنا دینے کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے جس میں ہرانسانی کاوش کا واحد مطمح نظر ’زیادہ سے زیادہ فروخت کرنا‘ ہوجاتا ہے۔ فن اور ادب انسان میں موجود تخلیقیت کو دریافت کرنے کے لیے نہیں بلکہ بِکنے کے لیے وجود میں آتے ہیں۔علم اور تعلیم بھی ایک جنس بازار بن کر رہ جاتے ہیں۔اخبار اور ذرائع ابلاغ کی خدمات کو کیا ہوتا ہے؟خبروں کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس کی بناء پر ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہو۔ایسا کیسے کیا جاتا ہے؟ اس طور پر کہ ان چیزوں میں تفریح کا مواد اور مرچ و مصالحہ کا اضافہ کردیں۔لالچ ،نفرت، حسد ،شہوت،کاہلی اور کذب و افتراء جیسی انسانی خصلتوں کا استعمال کریں اور خبر اور تفریح کو ایک ہی رنگ میں رنگ کر پیش کردیں۔آپ ان خصلتوں کو زیادہ تر میڈیا ہاؤس، فلموں، ویڈیو گیمز، نغمات وغیرہ میں سرایت پائیں گے۔ان تمام چیزوںمیں جس قدر تشدد، شہوت پرستی اور لالچ کا پہلو ہوگا اسی قدر وہ معروف و مقبول ہوں گی۔
سوشل میڈیا کی آمد نے ان تمام چیزوں کو نئی بلندی عطا کی۔سوشل میڈیا میں صارف کو صرف لائک اور شیئر نہیں ملتے بلکہ پیسہ بھی ملتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہرکوئی آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں کچھ نہ کچھ مواد تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو اور زیادہ سے زیادہ فروخت ہو۔لیکن یہ نظام ایسے ہیں کہ ان میں ہرکسی کو بہت کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔لہذآپ دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اپنے تخلیق کردہ مواد کے ذریعہ آمدنی بھی حاصل کرتے ہوں۔ان تمام پلیٹ فارمس کے ساخت اور ڈھانچے دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ ڈیجیٹل دنیا کے باشندوں میں سے زیادہ تر کی حیثیت محض ایک صارف کی سی ہے۔
گوگل سرچ انجن ’ ایک عظیم ڈیجیٹل ایجاد‘ کی مثال لیں ۔آج کل ہم کسی بھی چیز کی جانکاری کے لیے گوگل سے رجوع کرتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ یہ بنیادی طور پر گوگل کے پیج رینکنگ الگورتھم (Page Ranking Algorithm) کے ذریعے تفویض کردہ ویب پیج کی درجہ بندی کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔سرچ کیے گئے کلیدی لفظ کے حوالے سے جس صفحہ(Webpage) کی رینکنگ جتنی زیادہ ہوگی سرچ کے نتائج میں وہ صفحہ اتنا ہی اوپر نظر آئے گا۔لیکن ان صفحات کی درجہ بندی کی کیسے جاتی ہے؟ گوگل اسے صراحت کے ساتھ نہیں بتاتا۔لیکن کچھ چیزیں تو معلوم ہیں۔جیسے ایک صفحہ جتنی زیادہ مرتبہ وِزٹ کیا جائے گا اتنے ہی زیادہ اس کے نمبرات ہوں گے۔ان سرچ نتائج میں آ پ اسپانسر کی ہوئی لنکس بھی دیکھتے ہیں۔یہ وہ ویب سائٹس ہوتی ہیں کہ جو گوگل کو رقم دیتی ہیں تاکہ گوگل انہیں اوپر دکھائے۔بتدریج گوگل نے کون کسی خاص معلومات کے لیے کیا سرچ کر رہا ہے، اس کی بنیاد پر سرچ نتائج کوذاتی دلچسپیوں پرمبنی بنانا شروع کردیا ہے۔ یہ انفارمیشن کے متلاشی صارف کو اپنی پسند اور اپنے پس منظر کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔اور اس طرح سرچ کے تجربے کو مزید دوستانہ بناتا ہے۔لیکن اگر ہم اپنے ذاتی رجحانات کے مطابق نتائج حاصل کرنا شروع کردیں تو تنقیدی نظر کیسے پیدا ہوگی؟کیا یہ مناسب علمی ماحول ہے جسے موجودہ نیٹ ورک سوسائٹی میں پیش کیا جارہا ہے؟کسی صفحے کو سب سے زیادہ وِزِٹ کیا جانا اس ویب پیج کی صداقت کو نہیں ثابت کرتا۔حالیہ مثال اسلاموفوبیا پر مبنی ویب سائٹس کی تھی جو کہ اسلام سے متعلق سرچ کرنے پر اوپر اوپر ظاہر ہورہی تھیں۔ان میں سے اکثر ویب سائٹس نے اسلام سے متعلق کذب و افتراء پر مبنی مواد بھر رکھا تھا، لیکن سرچ کرنے پر یہ اوپر اوپرکیسے نظر آتی ہیں؟آسان سی بات ہے کہ ان ویب سائٹس کو زیادہ لوگوں نے وِزِٹ کیاتھا، اور جس ویب سائٹ کو جتنا زیادہ وِزِٹ کیا جائے گا اس کے نمبرات اتنے زیادہ ہوں گے۔کیا اس قسم کے سرچ انجن پر مبنی علمی ماحول سے ہم اتفاق کرتے ہیں؟
ہمیں مشغول رکھنے کے لیے یہ تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمس ،ہم جو کچھ کرتے ہیںاس کی سماعت، بصارت اور ادراک کے ذریعے، ہمیں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔وہ ہمیں نئی ویڈیوز،کہانیوں ، اخبارات ،مصنوعات کے ذریعہ سوشل میڈیا سائٹس یا ڈیجیٹل آلات سے چپکائے رکھنے کی نت نئی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔ڈوپامائن (ایک نامیاتی کیمیا ہے جو بطور ہارمون جسم اور دماغ میں مختلف اہم کام انجام دیتا ہے) کے اخراج کی مثال لے لیں جو ہمیں سوشل میڈیا پر حاصل ہونے والے لائک پر فوری خوشی کا احساس دلاتا ہے۔اس کے ذریعے تعریف اور خوشی کا حاصل ہونا ایک فطری انسانی رجحان ہے۔لیکن ا س کی لَت لگ جانا تشویس ناک ہے۔اپنے منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کے لیے، یہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمس ہمیں میڈیا کے استعمال کا عادی بنادیتے ہیں۔اگر ہماری زندگی کی پسندو ناپسند اوراعمال دوسروں کے لائک اور تعریفوں سے طے ہونے لگیں ، تو یہ ہمیں کس چیز میں تبدیل کرتا ہے؟اس طرح ہم اپنا خود کا فلٹر بَبل(Filter Bubble) تخلیق کرتے ہیں اورانٹرنیٹ کے ذریعے فراہم کردہ وسیع ذخیرہ علم سے وابستہ ہونے کے باوجود تنقیدی سوچ، اختلاف رائے اور مکالمہ کے تمام دروازوں کو بند کرکے اپنے ہی خول میں بند رہتے ہیں۔سائبر کلچر کا موجودہ قطبی اور منقسم مزاج اس بات کا بین ثبوت ہے کہ خود ہمارے اور ہمارے سماج کے ساتھ کیا غلط ہورہا ہے۔اپنی سماجی اور ملی زندگی سے منقطع ہوکر ہم اتنا زیادہ وقت ان ڈیجیٹل آلات پر گزار دیتے ہیں۔سب سے بری بات تب ہوتی ہے جب ہم مکمل طور سے مجازی (Virtual)دنیا میں ہی جینے کے عادی ہوجاتے ہیں اور اسی نقطہ نظر سے حقائق کے بارے میں رائے قائم کرنے لگتے ہیں۔
ایک عام سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ٹائم لائن کے بارے میں سوچیں اور دیکھیں یہ ہمیں کس طرف لے جارہی ہے۔پہلے ہم بڑی سرعت سے ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ کی طرف اسکرول کرتے رہتے ہیں۔ایک لمحہ میں ہم غمگین ہوتے ہیں،دوسرے لمحے میں خوش، تیسرے میں ہم قہقہہ لگا رہے ہوتے ہیں، چوتھے میں ہم کچھ سوچنے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ لگاتار چلتا رہتا ہے۔ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ کی طرف ہماری توجہ کی یہ تیز رفتار تبدیلی ہمیں اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی ایک چیز کے بارے میں کما حقہ سوچیں۔کیا یہ خسران توجہ (Attention Deficit)نہیں ہے؟اس کا اثر ہمارے دماغ اور نفسیات پر کیا پڑ تا ہے؟ احساس ہمدردی کا فقدان ، بے حس بن جانا۔کیا اب یہ حقیقت نہیں ہے کہ چوری، قتل، ہجومی تشدد ، عصمت دری جیسے جرائم اب ہمیںبہت زیادہ بے چین نہیں کرتے؟ان سے ہمارا تعلق صرف مجازی دنیا تک محدود ہے اور یہ مجازی تعلق ہمیں غیر شعوری طور پر اس قدر منفعل کردیتا ہے کہ ان کے سد باب کے لیے ہم لائک اور شیئر سے زیادہ کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ہماری ٹائم لائن، ہمارے لائکس اور ہماری آن لائن پیٹیشن ہمیں اس زعم میں مبتلا رکھتی ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ تو کر رہے ہیں۔
ملی بھگت والی سرمایہ داریت اور نگرانی کا مسئلہ
ان ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمس کے سرمایہ دارانہ رجحانات اور سیاسی شخصیات کے اقتدار حاصل کرنے کے عزائم نے ان دونوں کے درمیان ایک شیطانی تعلق پیدا کردیا ہے۔اسی کو ملی بھگت والی سرمایہ داریت (Crony Capitalism) کہتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کی ملی بھگت ’عوام کے غیرمحسوس کردہ مصائب ‘میں اضافہ کرنے کے لیے عمل میں آئی ہے۔ ’غیر محسوس کردہ مصائب‘ کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ عوام کی اکثریت نے ٹیکنالوجیکل کنٹرول کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات کا ابھی تک ادراک نہیں کیا ہے۔آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک جعلی خبر اتنی طاقت وَر ہوچکی ہے کہ وہ فرقہ وارنہ فساد بھڑکا سکتی ہے، ہجوم کے ذریعے کسی کا قتل کروا سکتی ہے۔اگرچہ سوشل میڈیا پوسٹس کو وائرل کرنے کے لیے کئی تکنیک تخلیق کی گئی ہیں، تاہم تحقیقات کا ماننا ہے کہ جعلی خبر کو پھیلانے میں انسانی عوامل زیادہ کارفرما ہیں۔جعلی خبروں کے تیزی سے پھیلنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کی تکنیکی ڈیزائن ہے۔کوئی چیز جتنی زیادہ عام ہوگی، اتنا زیادہ انہیںمنافع ہوگا، اور بدقسمتی سے جعلی اور غلط معلومات میں کچھ ایسی طاقت ہے کہ اس میں لوگ زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور یہ زیادہ پھیلتی ہے۔یہ پلیٹ فارم انہیں عام کرنے کے زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ سائبر دنیا میں اس قدر نفرت اور فرقہ پرستی کا بول بالا ہے۔چوں کہ ان پلیٹ فارمس پر آپ کسی بھی چیز کا اشتہار کر سکتے ہیں،سیاست داں بھی عوام میں خوف اور علاحدگی پسندی پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، تاکہ اقتدار کی زمام کو اپنی گرفت میں رکھ سکیں۔اب ان پلیٹ فارمس کا استعمال سیاسی شعبدہ بازی کے لیے بھی ہوتا ہے جو عوام کی سیاسی و سماجی نقطہ ہائے نظر پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور اس طرح عالمی سطح پر ڈیموکریسی پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔اورویلین اور ہکسالین مطلق العنان ڈسٹوپیا(Orwellian and Huxlian totalitarian dystopia)کایہ اچانک ادراک اب ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے رہا ہے۔آدھار کارڈ کی شکل میں منفرد شناختی منصوبہ (Unique Identification Project) ایسے ہی ایک ڈسٹوپیا کی واضح مثال ہے۔کیا ہم بتدریج ’نگراں ریاست‘ (Surveillance State)کی طرف منتقل نہیں ہورہے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی اس قسم کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمس پر سوالات کھڑے کیے ہیں یا آنکھ بند کر کے انہیں استعمال کرتے رہے؟کیا اسلام ہمیں اس خون چوس لینے والے نگراں سرمایہ دارانہ نظام کا آنکھ بند کرکے حصہ بن جانے کی اجازت دیتا ہے؟کیا اسلام کا تصور علم، تعلیم ،فن اور ثقافت اس قدر مادی ہے؟کیا اسلام اس قسم کے خسران توجہ ، میڈیا کا اسیر ہونے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے؟اسی طرح راز داری کے مسئلہ کو لے لیں۔کیا اسلامی اخلاقیات کسی قسم کی نگرانی کو پسند کرتی ہے؟تو پھر کیسے ہم اس نظام پر کسی تشویش کااظہارکیے بغیر اسے اجازت دیتے ہیں کہ خوب ترقی کرے۔کم از کم یہ سوال ان لوگوں کے لیے تو ضروراہم ہے جو اپنی جدوجہد کے ذریعے ظلم کے خلاف شب و روز صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے ہیں۔اگر ہم کسی تشویش کا اظہار کیے بغیر اسی نظام کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں، تو یہ سب ہم کو کس منزل سے ہمکنار کرے گا؟
ٹیکنالوجی سے منصوبہ بند احتراز
ایک اور مثال ٹیکنالوجیکل آلات سے منصوبہ بند احتراز کی لیں۔آلات بنانے والی اکثر بڑی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کی حکمت عملی بناتی رہتی ہیں۔اگر آلات زیادہ دن تک چلیں گے تو یہ مقصد کیسے پورا ہوگا؟چنانچہ آلات کو اس طور پر بنایاجاتا ہے کہ وہ زیادہ دن تک نہ چلیں۔ان میں معمولی سا نقص صارف کو اس قدر بھاری پڑ تا ہے کہ وہ آلے کی مرمت کروانے کے بجائے ایک نیا آلہ خریدلینے کافیصلہ کرلیتا ہے۔مزید یہ کہ ان میں سے زیادہ تر آلات کی ڈیزائن کم سے کم معیاری،دوسرے آلات سے کم سے کم مطابقت رکھنے والی ہوتی ہیں۔اس کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ اگر آلے کا صرف ایک ہی پرزہ خراب ہوگیا ہو اور صارف صرف ناقص پرزے کو بدلنا چاہے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ نیا خریدنے پر مجبورہوتا ہے۔ان آلات کے داخلی نظام کی پیچیدگی مستقل بڑھتی رہتی ہے تاکہ اگر صارف کسی خرابی از خود درست کرنا چاہے تووہ نہ کرسکے۔ آلات کے نظام کی پیچیدگی میں ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر دونوں شامل ہیں۔نظام میں اس قسم کی پیچیدگی مختلف طریقوں سے ان کمپنیوں کی مددکرتی ہے:
1) چوں کہ آپ آلات کے کام کرنے کے طریقے سے واقف نہیں ہوتے اس لیے آپ خود اس کی مرمت نہیں کرتے، بلکہ نیا خرید لیتے ہیں۔
2) اس کے اندر رکھے گئے نگرانی کے میکانزم کو آپ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے،اس لیے نہ اس کو چیلنج کرسکیں گے اور نہ ختم۔یہ میکانزم آپ کے ڈیجیٹل نقوش قدم کو زیادہ سے زیادہ بیچنے میں ان پلیٹ فارمس کی مدد کرتا ہے۔
3) کوئی اور اس قابل نہیں ہوگا کہ اس ٹیکنالوجی کی نقل کرسکے یاایجاد کرسکے۔اس سے مسابقت ختم ہوجاتی ہے۔اس لیے ان آلات کو بنانے والی کمپنیوں کے سامنے نئے کمپنیوں کا چیلنج کم سے کم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح سے حیثیت جتانے کی علامات، فیشن کا شوق اور مشہور شخصیات کی نقالی کا عمل بھی بہت سارے لوگوں کو ان آلات کے نئے وَرژن خریدنے پر مجبور کرتا ہے۔ان آلات کے نئے ورژن محض ظاہری تبدیلیوں کے ساتھ ہر سال بازار میں آتے رہتے ہیں۔اسمارٹ فون کے معاملے میں بہت سے افراد بلا کسی ضرورت جدید تر آلات خریدتے ہیں۔اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ایک طرف ان آلات کی مختصر زندگی کی وجہ سے بہت زیادہ ای-کوڑا(E-waste)پیداہوتا ہے، جس کے سپلائی چَین میں بھی ہر مرحلہ میں استحصال کا عمل جاری رہتا ہے۔دوسری جانب ان آلات کی زیادہ صنعت گری بڑے پیمانے پر کاربن فوٹ پرنٹ پیدا کرتی ہے جو کہ ماحول کوبری طرح متاثر کرتی ہے۔
یہاں بھی ہمارے صارفیت پسندرجحانات ہمیں اسی نظام کا حصہ بنا تے ہیں جو عالمی سطح پر بہت زیادہ انتشار پیداکرتا ہوانظر آتا ہے۔کیا ہم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی ٹیکنالوجیکل آلہ کا استعمال کرنے سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں؟ یا ہم بھی بازار کے گمراہ کن نعروں مثلا ً کتنا میگا پِکسل ہے،پروسیسنگ پاور کتنی ہے اور بیٹری کا بیک اَپ کتنا ہے ،وغیرہ کے دام میں آجاتے ہیں؟
حل کیا ہے؟
ہم جس ڈیجیٹل دنیا میں جی رہے ہیں، ہم نے اس کے صرف سیاہ رخ کو دکھایا ہے۔کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ ان سب میں اچھائی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے اور ہر چیز مایوس کن ہے؟بلا شبہ صالح افراد کسی بھی نظام میں مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور اپنی آواز بلند کر رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمس میں ہمیں بہت ساری اچھی چیزیں اور مثبت عناصر بھی ملیں گے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج کاباہم مربوط سماج مثبت پہلوؤں کے مقابلے میں منفی پہلو ، محبت کے مقابلے میں نفرت اور سخاوت کے مقابلے میں لالچ زیادہ رکھتا ہے۔لیکن ہمارا دعوی ہے کہ اچھی خاصی آوازیں اب بھی زندہ ہیں جو سرمایہ دارانہ ٹیکنالوجیکل ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔
کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اپنے سفر کا آغاز معلومات اور علم کو عوام تک پہنچانے کے بڑے مقصد کے ساتھ کیا لیکن آہستہ آہستہ سرمایہ دارانہ رجحانات غالب آگئے اور ان میںممکنہ اچھائیوں کے لیے سد راہ بن گئے۔ایسا ہوتا رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کے باب میں، انہیں آنکھیں بند کرکے قبول کرلینے کے بجائے ہمیں گہرے سوالات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ محض ٹیکنالوجی کے اچھے اور برے استعمال کے بارے میں سوال کرنے سے اوپر اٹھ کر ہمیں مختلف تناظرات میں اس کی مناسبت اور موزونیت کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔کیا موجودہ سماج جس میں ہم رہتے ہیں ،نئی ٹیکنالوجی کو اختیار کرنے کے لیے تیار بھی ہے؟کیا یہ فی الواقع عوام کے حق میں مفید ثابت ہوگی؟اس کے پیچھے کون لوگ ہیں اور ان کے خفیہ مقاصد کیا ہیں؟آج چوں کہ ٹیکنالوجی پر چند افراد کا قابو ہے ، اس لیے وہ بڑ ی تعداد میں عوام اور وہ افراد جو اختلاف رائے رکھتے ہیں، ان کی پریشانیوں میں اضافہ کررہے ہیں۔ہمیں اس دام فریب میں نہیں پھنسنا چاہیے۔
اگر آپ بحث میں اسلامی اقدار شامل کریں گے،توسرمایہ داریت ،مزدوروں کا استحصال ،رائے بنانے میں مجبوری، مطلق العنانیت، ماحول کا فساد،راز داری، انفعالیت، علم اور تعلیم ، فن اور ثقافت کو جنس بازار بنادینے کا عمل، صارفیت اور اصراف وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جنہیںموجودہ ڈیجیٹل زندگی میں موضوع بحث بنانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح ضرورت ہے کہ ہم اپنے دائرہ مزاحمت کو وسعت دیتے ہوئے تکنیکی تحفظات کے ساتھ ظالم اور استحصالی تکنیکی طاقتوں کے خلاف بھی اپنی آواز بلند کریں۔ اسی کا نام تکنیکی مزاحمت ہے۔
میرا خیال ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنا لوجیز کی خوبیا ں صرف اسی وقت قابل فہم ہیں جب کہ ہمارا معاشرہ مشترکہ کم از کم اخلاقیات کا لحاظ کرنے پر متفق ہو۔لہذاہم جس مزاحمت کی بات کررہے ہیں اس کی بناء مشترکہ اخلاقیات پر رکھی جانی چاہیے جہاںمختلف عناصر اپنے مذہب اور نظریات سے اخذ کردہ مختلف تصور ہائے اخلاق کے ساتھ یکجا ہوں۔
اگر ہم ڈیجیٹل مداخلت کی شکار اپنی زندگی میں اسلامی اخلاقیات کا اطلاق کریں تو اس کے پہلو میں ایسے گوناگوں ہدایات موجود ہیںجن کی بنیاد پر ہم اپنی زندگی بھی گزار سکتے ہیں اوراس ظلم کے خلاف مزاحمت بھی کرسکتے ہیں جو ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے فروغ پا رہا ہے۔ایک ایسا ظلم جو کسی مخصوص جغرافیائی حدود میں نظر نہیں آئے گا کیوں کہ یہ بادل کی مانند سیال ہے۔لہذا ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
1)ہمیں سرمایہ داریت کے ذریعے فروغ دیے گئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کے استعمال کو کم سے کم (Minimize)کرنا چاہیے۔
2) ہمیں نگراں سرمایہ داریت (Surveillance Capitalism) کے خلاف عوامی مہمات شروع کرنا چاہیے اور اسے ختم کرنے کے لیے ضوابط اور پالیسی سازی کے لیے قانون سازوں کی ذہن سازی کرنا چاہیے۔
3) مسابقت ختم کرنے ، مختصر اور مقامی کاروبار کو ہضم کرنے کے سرمایہ درانہ رجحانات ، جس کی مثال اُبر(Uber) اور امیزون(Amazon) جیسی کمپنیاں ہیں،کے خلاف ہمیں قانونی لڑائی لڑنی چاہیے۔
4)ہمیں ایسے ڈیجیٹل آلات خریدنے چاہئیں جن کے سلسہ فراہمی میں کم سے کم استحصال ہوتا ہو۔
5) ڈیجیٹل آلات تبھی خریدنا چاہیے جب کہ فی الواقع ان کی ضرورت ہو، محض فیشن کے اظہار کے لیے نہیں۔
6) ہمیں اوپن سورس (Open Source)ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور ملکیتی سافٹ وئیر کی حوصلہ شکنی۔
7) ہمیں کم از کم ڈیجیٹل میڈیا کے باب میں بند اور کاپی رائٹ نالج کلچر کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔تعلیم، اخبار اورتفریح کے مواد استفادہ عام کے لیے کھلے ہوئے ہونے چاہئیں۔اس سے علم، فن اور ثقافت کی جنس سازی کو کم کرنے میں بڑی مد د ملتی ہے۔ہمیں اپنے ڈیجیٹل نقوش قدم کو کم سے کم کرنا چاہیے۔یعنی ہم ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کا استعمال اس انداز میں کریں کہ وہ ہماری نگرانی نہ کرسکیں۔
9) ہمیں متبادل ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کا استعمال کرنا چاہیے جو زیادہ شفاف ہیں اور کو آپریٹیو ماڈل پر چلتے ہیں۔
10) ہمیں ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کا استعمال کرنا چاہیے جس کے کاربن فوٹ پرنٹس کے اثرات ہمارے ماحول پر کم سے کم پڑیں۔
11) ہمیں انٹرنیٹ کے ایک ایسے متبادل نظام کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے جو زیادہ مقامی خود مختاری پر مبنی (Decentralized)ہو۔
12)ہمیں ڈیجیٹل خواندگی (Digital Literacy)کا ایک ماحول پیدا کرنا چاہیے تاکہ عوام ٹیکنالوجیز کے صحیح استعمال سے واقف ہوں،اور ان سے وابستہ خطرات سے آگاہ ہوں۔
13) ہمیں حقیقی (Real)اور مجازی(Virtual) دنیامیں توازن پیدا کرنا چاہیے ۔ ملازمت کرنے کے لیے ہمیں ان کمپنیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو سماجی طور پر زیادہ ذمہ دار ہیں اور منافع حاصل کرنے کے سلسلے میں بہتر اخلاقیات کی پابند ہیں۔

(مضمون نگار عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلورمیں بحیثیت Edtech Expert خدمات انجام دے رہے ہیں۔)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں