ون نیشن ون الیکشن بل: ایک تجزیہ

آصف جاوید

ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی حیثیت سے اپنی سیاسی اکائیوں کے لیے بہت سی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے، ان تقاضوں میں انتخابات سر فہرست ہے۔

 

26/ نومبر کو ہندوستان نے یوم آئین منایا، اس کے اگلے مہینے یعنی 17 دسمبر کو پارلیمنٹ میں 129 واں آئینی ترمیمی بل4 202 ء پیش کیا گیا جس کے حق میں کل 269 ووٹ اور خلاف میں 198 ووٹ ڈالے گئے۔ اس بل کا مقصد ہندوستانی انتخابی نظام میں بڑی تبدیلی لانا ہے۔ بل کے مطابق ہندوستان میں ہونے والے تینوں سطح کے الیکشن (مرکزی، ریاستی اور علاقائی) جو مختلف مواقع سے ہوتے رہتے ہیں، کو ایک ساتھ کروانا ہے۔ حکومت کے مطابق موجودہ طریقہ انتخابات حکومت پر بڑا بوجھ ہے اور حکومتی کاموں اور پالیسی کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس مضمون میں ہم ون نیشن ون الیکشن (ONOE)کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

‘ون نیشن ون الیکشن’ کے لیے دلائل

  • ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی حیثیت سے اپنی سیاسی اکائیوں کے لیے بہت سی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے، ان تقاضوں میں انتخابات سر فہرست ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا یہ ملک انتخابات کے لیے ایک بڑی رقم کا تقاضا کرتا ہے، الیکشن کے پورے عمل کو بروئے کار لانےاور باقاعدگی سے چلانے کے لیے بے شمار افراد، اداروں اور مشینریوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان تمام لوازمات کے لیے ایک خطیر رقم کی، جو حکومت پر ایک بڑا بوجھ ہوتا ہے۔ ان اخراجات کے حل کے لیے حکومت نے پارلیمنٹ میں اس بل کو پیش کیا ہے۔
  • دوسری بڑی وجہ پالیسی پیرالایسس (policy paralysis) ہے۔ ہندوستان میں انتخابات کو صحیح طور سے انجام دینے کے لیے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (MCC) کو لاگو کیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق(الیکشن کے دوران) حکومت کوئی ترقیاتی، تجارتی اور تعمیری اقدامات نہیں کر سکتی تاکہ ووٹرز پر اس کا غلط اثر نہ ہو۔چونکہ ہندوستان میں مسلسل انتخابات ہوتے رہتے ہیں اس لیے ترقیاتی پروجیکٹ، تعمیراتی اقدامات اور مالیاتی پالیسیاں سرے سے رک جاتی ہیں۔
  • تیسری وجہ انتظامی رکاوٹ ہے۔ پورے انتخابی عمل میں مختلف سطح کے افسران جس میں پولیس ٹیچرز، ملٹری فورسز کے علاوہ بہت سے انفراسٹرکچر مثلا ًاسکول سرکاری عمارتوں اور بسوں وغیرہ کا استعمال الیکشن کی انجام دہی کے لیے کیا جاتا ہےجس کی وجہ سے شہریوں کے بہت سے بنیادی کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
  • چوتھی وجہ چونکہ الیکشن کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے سیاست داں سیاسی ریلیوں اور پارٹی کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور نتیجتاً گورننس پر اثر پڑتا ہے۔

کووند کمیٹی رپورٹ

انہی وجوہات کی بنا پر حکومت نے اس بِل کو لوک سبھا میں پیش کیا۔ اس بِل کو پیش کرنے سے پہلے حکومت نے ایک ہائی لیول کمیٹی بنائی جس کے چیئرمین سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند تھے۔ کمیٹی نے مختلف تجاویز پیش کی:

اگر ون نیشن ون الیکشن کو لاگو کیا گیا تو ہندوستان کی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ افراط زرمیں تقریباً 1 فیصد کی کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

بیک وقت الیکشن کے لیے کمیٹی نے ایسے فریم ورک کو تجویز کیا جس کو لاگو کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 85 /83 /172/ 175/ 356 میں ترمیم کی ضرورت ہوگی اور سبھی ریاستی اسمبلیوں کو ان کی میقات کے مکمل ہونے یا نہ ہونے سے پہلے ہی ختم کر کے لوک سبھا کی میقات کے برابر کرنا ہوگا تاکہ سبھی الیکشن کو ایک ساتھ کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ کمیٹی کی تجویز ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کیے جائیں اور اگلے 100 دنوں کے اندر ہی لوکل باڈی یعنی علاقائی الیکشن کرائے جائیں۔

اگر بائی الیکشن کی ضرورت پڑے تو وہ صرف اور صرف بچی ہوئی مدت کے لیے کرایا جائے گا تاکہ میقات میں فرق نہ آئے۔ مثال کے طور پر اگر دو سال کی مدت میں کہیں پر بائی الیکشن کی ضرورت پڑ جائے تو بچے ہوئے تین سالوں کے لیے ہی انتخابات کرائے جائیں گے اور میقات بقیہ دو سال میں پوری کی جائے گی تاکہ ہونے والے انتخابات کے ساتھ ہی سبھی انتخابات آسانی سے ہو پائیں۔

کمیٹی نے تجویز کیا کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کی مدت کے حوالے سے آئینی ترامیم کے لیے ریاستوں کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوگی تا ہم مقامی اداروں کے حوالے سے آئینی ترامیم کو کم از کم نصف ریاستوں کی توثیق کے ساتھ منظور کرنا ضروری ہوگا۔

واحد انتخابی فہرست بنائی جائے تاکہ بدعنوانی  کو کم کیا جا سکے۔  یہ کام الیکشن کمیشن آف انڈیا، اسٹیٹ الیکشن کمیشن کے تعاون سے کرے گی، کمیٹی نے تجویز کیا کہ انتخابات کے وقت لوجسٹک انتظامات کے لیے کمیشن منصوبہ بندی اور تخمینہ کو پیش کرے۔

دعووں اور تجویزوں کا تجزیہ

اب تک ہم نے بل کے پیش کیے جانے کے پیچھے کی وجوہات پر بات کی۔ آگے ہم کووند رپورٹ اور حکومتی دعوؤں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بیک وقت الیکشن کے منفی اثرات پر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔

مجوزہ طریقہ الیکشن کے خلاف اپوزیشن نے جس بڑے اندیشے کا اظہار کیا ہے وہ آئین کے بیسک اسٹرکچر یعنی فیڈرلزم سے متعلق ہے۔ ہندوستان ایک وفاقی ملک ہے، یہاں مرکز اور ریاست مل کر فنکشن کرتے ہیں۔ مجوزہ طریقہ الیکشن کا بلاواسطہ اثر ہندوستان کے فیڈرل اسٹرکچر پر پڑے گا۔

علاقائی مسائل، لوکل مدعوں اور اقلیتوں کے حقوق پر نہایت ہی منفی اثرات پڑنے کا شدید خطرہ ہے۔ ہندوستان سینکڑوں زبانوں اور طرح طرح کے شہریوں سے مل کر بنا ہے، ہر کمیونٹی، ریاست اور اقلیت کے اپنے مسائل ہیں، یہ مسائل انتخابات کے وقت بہت واضح طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں اور انہی مسائل کے حل کی بنیاد پر شہری اپنے ووٹ طے کرتے ہیں۔ اس الیکشن کے لاگو ہو جانے کے بعد اقلیتوں کی غربت، تحفظ اور ان کے اداروں کی حفاظت کے مسائل دب جائیں گے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے مسائل، شمال مشرقی علاقوں کے ترقیاتی مسائل، تامل ناڈو اور کرناٹک وغیرہ کی ریاستوں میں پانی کے مسائل سب کی نظروں سے نہ صرف اوجھل ہو جائیں گے بلکہ مرکزی مسائل مثلاً دفاع، نیشنل انٹرسٹ، معیشت وغیرہ جیسے بڑے موضوعات کے بیچ دب کر رہ جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق سارے الیکشن دو مراحل میں ہوں گے، پہلےمرحلےمیں اسمبلی اور لوک سبھا کے الیکشنز ایک ساتھ کیے جائیں گے اور اگلے 100 دنوں میں لوکل باڈی یعنی علاقائی انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس صورتحال میں 15 ملین سے زائد اسٹاف جو ابھی لوک سبھا اور اسمبلی کے الیکشن سے فارغ ہوا ہے بھلا کیسےارینج  ہو پائے گا۔ اس کے علاوہ ووٹنگ ٹرن آؤٹ میں اضافہ کا دعویٰ بھلا کیسے ممکن ہو سکے گا جبکہ تین مہینے پہلے ملک میں رہنے والے، ادھر ادھر کام کرنے والے جب اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گے تو کیا یہ ممکن ہو سکے گا کہ الیکشن کے لیے وہ پھر تین مہینے بعد فوراً آجائیں؟

اس کے علاوہ جب الیکشن کو ایک ساتھ کیا جائے گا تو یہ چانس بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ووٹرز سینٹر اور اسٹیٹ اسمبلی دونوں کے لیے ایک ہی پارٹی کا انتخاب کریں۔ اس صورت میں ایک پارٹی ایک لیڈر اور ایک ہی حکومت کے لیے مواقع ہمیشہ بنے رہیں گے اور اس طریقے سے طاقت کا ارتکاز بڑھتا جائے گا۔

عوامی مسائل، اقلیتوں کے حقوق اور ترقیاتی ڈیمانڈ زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کی جانب سے ہی ہوتی ہیں، جب بیک وقت انتخاب ہوگا تو اس صورت میں علاقائی موضوعات کے ساتھ ساتھ علاقائی پارٹیاں جو توازن کا کام کرتی ہیں ختم ہو کر رہ جائیں گی اور مرکزی پارٹیوں میں مضبوط پارٹی کے لئے راہیں ہموار ہوتی جائیں۔

ہندوستان کسی ایک گروہ کا نام نہیں ہے، ہندوستان میں سینکڑوں طبقات موجود ہیں،  سب کے اپنے مسائل اور سب کی اپنی اپنی شناخت ہے۔ اس تنوع  کو  بھلا نظر انداز کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ون نیشن ون الیکشن کا  راگ ہندتووادی طاقتوں کا ہی ہو سکتا ہےاور  اس کے پیچھے چھپے ہندوتوا عزائم کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ان نکات پر سوچنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گرچہ انتخابات کروانے میں حکومت کو کافی زیادہ مالی صرفہ لگانا پڑتا ہے مگر یہ ہندوستان کے تنوع اور تکثیریت جو ہندوستان کی پہچان ہے ،کو بچائے رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ون نیشن ون الیکشن بل آئین کے بنیادی ڈھانچے، آئیڈیا آف انڈیا اور متنوع ہندوستانی شہریوں کے متنوع مسائل کے یکسر خلاف ہے۔ انتخابات کا یہ ماڈل ہندوستانی جمہوری نظام اور علاقائی مفادات کے خلاف ہے۔ یہ ماڈل طاقت کے ارتکاز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جو کسی بھی طرح جمہوریت کے لیے مفید نہیں ہوگا۔

 

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ایم اے ہیومن رائٹس کے طالب علم ہیں، ان سے  [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)

 

 

حالیہ شمارے

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں