سعود فیروز
عورت اور مرد انسانی سماج کی بنیادی اکائی ہیں۔یہ دونوں ہیں تو دو مستقل بالذات وجود لیکن ایک مکمل و متوازن سماج کی تعمیر کے لیے ہر سطح پر دونوں کا اشتراک عمل کچھ اس حد تک ناگزیر ہے کہ دونوں کو ایک مانے بغیر چارہ نہیں۔اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں در اصل ایک ہی وجود،انسانی وجودکے دومختلف قالب ہیں جن میں سے ایک کی غیر موجود گی میں دوسرے کی تکمیل فطری طریقے سے ممکن نہیںہے۔یہ انسانی زندگی کی بنیادی حقیقتوںمیں سے ایک حقیقت ہے۔اس اعتراف حقیقت کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ عورت اور مرد کی انسانی حیثیت میں سرِ مو امتیاز گوارہ نہ کیا جائے، دونوں کے یکساں حقوق اور یکساں فرائض تسلیم کیے جائیں، نہ عورت یہ خیال کرے کہ وہ’اصل‘ ہے اور مرد کی حیثیت ثانوی ہے اور نہ مرد ہی یہ سمجھے کہ وہ ’اصل‘ ہے اور عورت کی حیثیت ثانوی ہے۔ دونوں ہی اصل ہیں اور انسانی تمدن میںدونوں کی حیثیت بنیادی و مرکزی ہے۔زمان و مکان کی حدود سے پرے،انسانی تمدن کی ترقی اور اس کا نمود بھی اسی حقیقت کے اعتراف پر موقوف ہے۔جس نظام تمدن میں اس حقیقت کا جس قدر اعتراف کیا جائے گااور اس اعتراف کے تقاضے جس قدر پورے کیے جائیں گے ،وہ نظام تمدن اسی قدر خیر اور حسن سے معمور ہوگا۔اس کے برخلاف جس نظام تمدن میں اس حقیقت کے اعتراف میں جس قدر کوتاہی کی جائے گی اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں جس قدر لاپرواہی برتی جائے گی وہ نظام تمدن اسی قدر شر اور فساد سے بھرتا چلا جائے گا۔
حیات انسانی کے اسرار و رموزاور اس کی بنیادی حقیقتوں کے مکمل ادراک ،عرفان اور اعتراف کے لیے لازمی ہے کہ انسان کا رشتہ اس کے خالق حقیقی سے جڑا ہوا ہو۔جب خدا سے یہ رشتہ استوار ہوتا ہے توانسان ایک غیبی سرپرستی میں ادراک و عرفان کی منزلیں طے کرتا چلاجاتاہے۔جب یہ رشتہ کمزور یا منقطع ہوتاہے تو انسان کی چشم بصیرت پر بھانت بھانت کے تعصب اورجہالت کے حجابات پڑ جاتے ہیں پھر انسان حقائق کے ادراک میں عملاً ناکام ہورہتا ہے۔ انسانی تاریخ کا ایک بڑا عرصہ خدا اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے بے توجہی، لا تعلقی اور بیزاری میں گزرا ہے۔چنانچہ زندگی کے متعدد حقائق کے سلسلے میں انسان صحیح رائے قائم کرنے سے معذور رہاہے۔یہی معذوری عورت اور مرد کے صحیح مقام و مرتبہ کے تعین میں بھی نظرآتی ہے۔
عورت اور مرد کی جسمانی ساخت،صلاحیتیں اور مزاج فطری طور پر مختلف ضرور ہیں لیکن یہ اختلاف کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر عورت اور مرد کی انسانی حیثیت میں امتیاز پیدا کردیا جائے۔ لیکن الہی ہدایات سے بے توجہی کا نتیجہ یہ رہا کہ ان ہی فطری اختلافات کو بنیاد بنا کربلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کا فائدہ اٹھا کرمذہبی ،سیاسی اور معاشی اعتبار سے بااختیار مردوں کے ایک طبقہ نے اپنے آپ کو سماج میںمرکزی حیثیت دے دی اورعورت کی حیثیت کو ثانوی قرار دے کر تعمیر سماج میں اس کے کردار کو بڑی حد تک محدود کردیا ۔ اتنامحدود کہ عورت ایک مفلوج ، محکوم ومظلوم وجود کا نام بن کررہ گئی۔ امتداد زمانہ کے ساتھ عورت کی یہ ثانوی حیثیت اس کے سماجی اورمعاشرتی استحصا ل کا عنوان بنتی چلی گئی۔
عورت کے استحصال کی تاریخ دنیا بھر میں بھی اور خود ہندوستان میں بھی صدیوں کو محیط ہے اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔اس استحصال کی راہ ہموار کرنے میں ایک تو عورت سے متعلق غیر آسمانی مذاہب کے تصورات نے،دوسرے، تحریف شدہ آسمانی مذاہب کے ماننے والے مَردوںکی خود ساختہ مذہبی روایات نے،تیسرے، سرمایہ داریت(Capitalism) بمعنی بازار واد نے اورچوتھے ،خالص جذباتی رد عمل پر مبنی نسائیت کی انتہا پسند تحریکوں نے کلیدی کردارادا کیا ہے۔مختلف مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عورت کے حوالے سے ان کی تعلیمات تعصب پر مبنی رہی ہیں۔کسی مذہب نے عورت کو ’ناگزیر برائی‘قرار دیا تو کسی نے اسے تمام برائیوں کا سرچشمہ قرار دیا۔کسی نے عورت کے وجودہی کو باعث نحوست قرار دیا۔تحریف شدہ آسمانی مذاہب میں ایسی روایات فروغ پا گئیں جن میں بتایا گیا کہ جنت میں حضرت آدم ؑکو اللہ کی نافرمانی پر (حضرت) حوا نے اکسایاتھا جس کی پاداش میں حضرت آدمؑ راندہ دربار ہوئے (نعوذ باللہ من ذلک)اور اس بناء پرحوا اور بنت حوا مرد کی ازلی بدخواہ اور دشمن قرار پائیں۔
خود اسلامی علمی تراث بھی پدری(Patriarchal) تعبیر و تشریح سے محفوظ نہیں رہ سکا۔قرآن و حدیث رسول میں وارد کئی نصوص کی ایسی تعبیر کی گئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں عورت مخالف ذہنیت گھر کرتی گئی۔مثال کے طور پر متعدد علماء و مفسرین نے سورہ نساء کی آیت ’’ وخلق منھا زوجھا‘‘ کی تفسیر میں وہ اسرائیلی روایت قبول کرلی جس کے مطابق حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس بناء پر یہ تصور عام ہوگیا کہ اس کا مقام ومرتبہ آدم سے کم تر ہے۔سرمایہ داریت نے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مادی منافع خوری کی دھن میں عورت کوغیر حقیقی آزادی،مساوات اور جدیدیت کاجھانسہ دے کر کارخانوں اوربازارمیں لا کھڑا کردیا۔ مَردوں کے انڈرگارمنٹس سے لے کر شیونگ کریم تک بیچنے کے لیے اس کے جسم کا استعمال کیا۔مذہب اور سرمایہ داریت کے استحصال سے چھٹکارا دلانے کا نعرہ لے کر نسائیت کی تحریکیں سامنے آئیں۔چوں کہ ان تحریکوں کی پشت پر کوئی مضبوط نظریاتی طاقت موجود نہیں تھی اس لیے یہ تحریکیں بھی نہ صرف ناکام ہوئیں بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ روپ دھار لیا جس نے عورتوں کو استحصال کے ایک بدنما گڑھے سے نکال کر استحصال کے ایک دوسرے بظاہر خوش نما گڑھے میں گرادیا۔
مغرب میں خواتین کی صورت حال اور ان کے استحصال پر ہمارے یہاں گفتگو ہوتی رہی ہے اور آج بھی ہورہی ہے حالانکہ کلچر کی عالمگیریت(گلوبلائزیشن) کے بعد مغرب و مشرق کی تقسیم عملا بے معنی ہوچکی ہے۔عورت کے کردار کے حوالے سے نظریاتی طور پر ہم مغرب پر ضرور طعن و تشنیع کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ خود ہمارے یہاں بھی عورت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کی صورت حال خوشگوار نہیں ہے۔خواتین کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں چند فیصد مسلمانوں کو مستثنی ضرور کیا جاسکتا ہے لیکن مسلمانوں کا عمومی رویہ غافلانہ و مجرمانہ بلکہ توہین آمیز ہے۔ہمارا نظریہ اسلام ہے اس لیے اس میں تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہمیں دنیا کے تمام نظریات پر ایک گونہ تفوق حاصل ہے۔تاہم جہاںتک خواتین کے حوالے سے اسلامی نظریہ کو روبہ عمل لانے اور خواتین کے حقوق ادا کرنے کی بات ہے ، ہمارارویہ انتہائی شرمناک ہے۔
خواتین کا کسی نہ کسی درجہ میں استحصال صدیوں سے جاری ہے۔ الغرض انسانوں کا اجتماعی ماحول صدیوں سے ہی عورت مخالف رہا ہے۔جس کے نتیجے میں آج ایک پدری سماج (Patriarchal Society)اور ایک پدری ذہنیت (Patriarcal Mindset) وجود میں آگئی ہے۔ہر مذہب کے ماننے والے اور ہر نظریہ کے علم بردار مرد ،عورت کے تئیں مختلف تعصبات (Prejudices)کا شکار ہوگئے ہیں۔یہ تعصبات کچھ اس طور پر مَردوں کے تحت الشعور کا حصہ بن چکے ہیں کہ اب انہیں تعصب مانا بھی نہیں جاتا۔خود مسلم طرز معاشرت میں ان تعصبات کے بے شمار مظاہر نوٹ کیے جا سکتے ہیں۔مسلمانوں کا اکثریتی طبقہ آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں اصل حیثیت مرد کی ہے جب کہ عورت کی حیثیت ثانوی ہے۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ عورت کی تخلیق اس لیے ہوئی ہے کہ وہ مرد کی خدمت کی کرے۔ اس کی سوچ یہ ہے کہ عورت جنسی ہیجان کی تسکین کا سامانِ محض (Sex Commodity)ہے۔کتنے گھرانے ایسے ہیں جو آج بھی لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے حق میں نہیں ہیں۔کتنے گھرانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکی اگر کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے تو لازما اس کا اخلاق خراب ہوگا۔
میراث میں بہنوں کا حق ہڑپ لینا عام دستورہوگیا ہے ۔بہنیں بھی اس وجہ سے اپنے شرعی حق سے خود ہی دستبردار ہوجاتی ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے حق کا تقاضہ کیا تو بھائیوں کی ناراضگی مول لینی پڑے گی اور بالآخر بھائی اپنے تعلقات منقطع کرلیں گے۔رشتے طے کرنے کے دوران جس طرح منڈی میں جانور دیکھے جاتے ہیں پھر پسند آنے یا نہ آنے کی بنیاد پر جانوروں کو خرید لیا یا مسترد کردیا جاتا ہے، اسی طرح مرد کو حق ہے کہ وہ لڑکی کو دیکھنے جائے ، پسند آئے تو خرید لے ورنہ رد کردے! البتہ اگر کوئی لڑکی یہ طے کرے کہ رشتہ طے ہونے سے پہلے وہ لڑکے کو اس کے گھر جا کر دیکھے گی،تو اسے اس کا حق حاصل نہیں ہے۔نکاح کے بعد عورت کی معاشی سرگرمی کا فیصلہ صرف شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اگر وہ اجازت دے تو ٹھیک ہے ورنہ عورت گھر میں بیٹھ کر شوہر کی آمدنی پر منحصر رہے۔اسے خود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔پہلے تو معاشی طور پر عورت کو عدم تحفظ کا شکار کردیا جاتا ہے پھر اس کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کے مزید استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
شوہر کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ چاہے جو بھی رویہ اختیار کرے،معاشی طور پر منحصر(Dependent) عورت اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنے پر مجبور ہوگی۔یک بارگی تین طلاق پر ہمیشہ بحث ہوتی رہی ہے۔ علماء و مفتیان اس کے جواز میں فقہی دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں۔در آں حالیکہ ہر وہ شخص جو فقہی عبارات کا حافظ محض نہیں ہے بلکہ اپنے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل بھی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ایک نشست میں تین طلاق کا رائج طریقہ عورت پربدترین ظلم ہے۔وہ عورتیں جن کے معاشی امکانات پر ان کے شوہر پہلے ہی قدغن لگاچکے ہیں اور جو اپنے حق خلع سے بھی ناواقف ہوتی ہیں ، ان کے شوہر طلاق کو اور دوسری شادی کو ایک دھمکی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔خوبصورتی کا جو غیر انسانی تصور بالی ووڈ اور اس قسم کے دوسرے اداروں نے پیش کیا ہے اس سے مرعوب ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوان معمولی وجوہات کی بناء پر لڑکیوں کو رجیکٹ کر رہے ہیں یا شادی کے بعد طلاق دے رہے ہیں۔ہزاروں نواجون لڑکیاں ایسی ہیں جن کی عمرنکلتی جارہی ہے لیکن ان کے لیے مناسب رشتہ کا بندوبست نہیں ہوپارہا ہے۔
ہمارے پدری سماج میں مطلقہ ہونا بھی لڑکیوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ لغو اسباب کی بناء پر لڑکیوں کا طلاق ہو جاتا ہے پھر پوری زندگی انہیں تجرد کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ نوجوان لڑکوں کی بے جا مثالیت پسندی(Idealism) نے مطلقہ لڑکیوںکے نکاح ثانی کے امکانات ختم کردیے ہیں۔گھر سے نکلتے وقت پاکدامنی کی ساری ہدایات صرف بیٹی کے لیے ہیں، بیٹے کے لیے کچھ نہیں۔گھروں میں ماں ،بیوی،بہن اور بیٹی کی حیثیت ایک ایسے مزدور سے زیادہ کی نہیں ہے جسے دن بھر ’خدمت‘ کا مکھوٹا پہن کر مزدوری کرنی ہے اور مزدوری بھی ایسی کہ جس کا معاوضہ ڈانٹ ڈپٹ اور دھتکار کی شکل میں ملنے والا ہے۔سیرو تفریح اور انجوائے منٹ کا حق صرف مردوں کو حاصل ہے، عورتوں کا کام کھانا بنانا، روتے ہوئے بچوں کو چپ کرانا اور اگر وہ بیمارہوں تو ان کی دیکھ ریکھ کرنا، گھر کی صاف صفائی کرنا، کپڑے اور برتن دھونا ہے۔
ہمارے تحت الشعور کا حصہ بن چکی ہماری پدری ذہنیت کے یہ محض چند مظاہر ہیں جن کا سرسری تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔حیف ہے کہ ان میں سے کئی تعصبات کا خود ساختہ مذہبی جوازتلاش کرنے میں ہم ناکام نہیں رہتے۔ تعصبات پر مبنی ا ن روایات کو ہم بلا تکلف مذہب کے نام پر جاری رکھتے ہیں اور یوں مذہب کی بدنامی کا موقع بھی ہم خود ہی اپنے عمل سے فراہم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام جس خدا شناس، مبنی بر انصاف، پرامن سماج کا نقشہ پیش کرتا ہے وہ ہمارے موجودہ سماج سے بالکل برعکس ہے۔ اسلام عورت اور مرد کی انسانی حیثیت میں نہ صرف یہ کہ خود کوئی تفریق گوارہ نہیں کرتا بلکہ اس کی تردید کرتا ہے۔
ہماری ملی قیادتوں میں’جلسہ ہائے اصلاح معاشرہ‘ کا بڑا غلغلہ ہے۔ضرورت ہے کہ ان جلسوں میں اس دکھتی رگ پر بھی ہاتھ رکھنے کی ہمت کی جائے جس کا تذکرہ اوپر کیا گیاہے۔ملت اسلامیہ کو جسے خیر امت کا خصوصی درجہ حاصل ہے ، شہادت علی الناس اور اقامت دین کا جو عظیم فرض منصبی ادا کرنا ہے وہ اس طور پر ممکن نہیں کہ امت کی نصف طاقت و قوت کو مفلوج و معطل رکھا جائے۔