شہمینہ سبحان ،ریاض
گہر سناٹا، تاریک رات، ہر طرف گھپ اندھیرا تھا ظلمتوں کا دور دورہ تھا، جہل اپنے عروج پر تھی مختلف قسم کے’سامری’ بنالئے گئے تھے ان کا دین، ان کا مذہب ان کی مرضی کا مالک ہو گیا تھا وہ مختلف خرافات میں ملوث ہوکر اپنی ’اصل ‘سے ہٹ گئے تھے ان کی ظاہری انسانی حیثیت اور شکلوں میں بس وہ انسان باقی رہ گئے تھے ۔ ہر طرف گہرا اندھیرا اور جہل جب جب بڑھتی رہی تو اْن وقتوں میں اللہ تعالی کی ہمیشہ سنت یہ رہی ہے کہ ایک رہنما بھیج کر اس ظلمت کو مٹانے کا سبب بنایا جائے۔
ایسے میں انھیں ایک مجدد و مصلح کی شدید ضرورت تھی اور اس تاریک وگہری شب کے پردے پر خدائے رب و رحمن نے ’روشنی ‘کو نمودار کیا تاکہ وہ ان اصل سے ہٹ جانے والوں کے لئے راستی کا ، خدا ترسی کا پیغام لیکر آئے اس کے مخاطب دنیا جہاں کے لوگ تھے اس کے اپنے وطن کے ، قبیلے کے لوگ بھی تھے وہ روشنی مستقبل کے بطن میں پوشیدہ سارے زمانوں کے لئے تھی، وہ ساری انسانیت کے لئے تھی کوہ صفاء سے قیامت تک آنے والی بنی نوع انسان کی ساری نسلوں کے لئے تھی تاکہ ظلمتوں کا خاتمہ ہوسکے۔ اس کا خطاب زندگی کے آخری کنارے تک کے لئے تھا، ان سب کے لئے جو پیدا ہوچکے تھے اور جو عالم وجود میں آنے والے تھے۔ نسل در نسل!! عصر بہ عصر!!
اور پھر اسی طرح ہوا زمانہ در زمانہ، پیغام پھیلتا چلا گیا سلیم الفطرت لوگ اس کے گرد جمع ہوتے گئے اور سیکھ سیکھا کر تربیت یافتہ ہو کر دنیا کے ملکوں میں پھیلتے چلے گئے اس کے نام لیوا کبھی مشرق میں ہندوستان تک، کبھی شمال میں ازبکستان و تاجکستان تک ، کبھی جنوب میں افریقہ کے ریگزاروں تک اور تو کہیں مغرب میں اسپین کی سرحدوں کو چھو لیا۔
جہاں جہاں اس کے نام لیوا پہنچے ان کے بلند ترین اخلاق نے اسلام کی صداقت کو وہاں بسنے والوں کے سامنے واشگاف کیا وہ اس دین کو اپناتے چلے گئے اور پھر انہوں نے بھی اس دین کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں علوم و فنون میں مہارت پیدا کی فتوحات کے جھنڈے گاڑدئیے اور وہ اپنی زمینوں میں جہاںوہ بستے تھے ان کے حوالے سے وہ پہچانی جانے لگیں نئے جہاں انہوں نے آباد کیے۔
مدتوں ہوئی ان کو وہاں بسے ہوئے، ان کی کتنی ہی نسلوں نے وہاں جنم لیا، وہ ان زمینوں سے پیوست ہوگئے تھے۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ وہ اپنی ہی زمینوں میں ’زندگی‘ کے حق سے محروم کیے جانے لگے وہ درد سے چور ، ان کی نسلیں سہمی ہوئی، ان کے گھر تباہ و برباد۔
عیش کوشی’سہولت پسندی‘ بزدلی ان کا خاصہ بن چکی تھی دشمنوں نے ان کے گھر پہ قبضہ کیا تھا تو وہ دیوار گریہ کے پاس جمع ہوئے اور انھوں نے ان محرومین کی بے بسی کا یوں مذاق بنا یا تھا،
’’ آج کا دن خیبر کے دن کا بدلہ ہے، خیبر کا انتقام لیا جا چکا ہے انہوں نے مزید یہ کہا تھا محمدؐ کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ اپنے پیچھے بیٹیاں چھوڑ چکے ہیں۔‘‘ العیاذ باللہ
اس تمام صورت حال پر ایک اسلامی شاعر کا ایک شاندار لیکن غم ناک قصیدہ قابل غور ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلعم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔ اے میرے آقا! اے میرے آقا!! صلی اللہ علیہ وسلم! ’’آپ پر تا ابد بہترین صلوۃ و سلام نازل ہوتا رہے ایک ایسی امت کی جانب سے جو اب تباہ و برباد ہو چکی ہے اسے ظلمت اور تباہی و بربادی کی تہذیب و ثقافت (یورپی تہذیب) ٹھوکریں پر ٹھوکریں لگا رہی ہے۔
اے میرے آقا!! اگرچہ ہم نے دریاؤں پر بند باندھے ہیں اور سمندروں کو عبور کیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ کے اور ہمارے درمیان رکاوٹیں حائل ہوچکی ہیں اور ان رکاوٹوں کی وجہ سے آپ صلعم کے اور ہمارے مابین اس جدائی اور ان فاصلوں نے ہم پر موت طاری کردی ہے یہی وجہ ہے کہ اب ہمیں یہودیوں کے مویشی بھی اپنے پاؤں تلے روندتے چلے جارہے ہیں۔‘‘
قیصرو کسری کو فتح کرنے والی یہ امت جنہوں نے دنیا میں انقلابات کے دروازے کھول دئیے تھے علوم و فنون کے ماہرین پیدا کرنے والی یہ امت بے یار و مددگار ، اپنے ہی ملکوں میں جس کی زمینوں کوانھوں نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا وہی اب زندگی کے حق کے لئے ترستے ہوئے ہیں۔ انحطاط اور ذلت کی حد یہ ہے کہ ان کی وفاداری کی ان کو کہیں شہادت دینی پڑتی ہے اور کہیں حب الوطنی کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اور اب حال یہ ہے کہ جہاں وہ بستے ہیں وہاں اب ان کی قبریں رہ گئی ہیں جن کے نشان گنے جاچکے ہوں۔اور یہ نشان کبھی (ماضی میں) قرطبہ کی طرف لے جاتے ہیں تو کبھی بیت المقدس کی طرف، کبھی قندھار ،کبھی کشمیر ،برما اور کبھی حلب کی طرف۔ ان نشانوں کی تاریخ تلاش کرتے ہوئے ڈائری ڈھونڈتی ہوں تو، ڈائری (قرآن) ڈائری تو گم ہوگئی ،، صدیاں کھو گئی۔
قومیں جب اپنی ’اصل‘ سے ہٹ جاتی ہیں تو پھر ان کی تاریخ کھو جاتی ہے اور وہ بہت بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہیں بہت ہی بے بس!!
ان کی زبانیں حق گوئی سے محروم، ان کے سر جھکے ہوئے اور وہ اپنی ہی ہاری ہوئی جنگیں لڑنے لگ جاتی ہیں ، باطل کے آگے سرنگوں ، ان کی بخششوں (ڈالرس) کے عوض اپنے سودے کرنے والی ، ان ہی بخششوں کے حوالے سے اسلحہ بارود و پینٹنگس خریدنے والی اس مردہ و بے اختیار امت (جس کے تمام فیصلے مغرب کے اداروں میں ہوتے ہیں) میں سے کوئی مصلح اٹھے اور اس امت کو یاد دلائے کہ ’یہ دنیا ہمارے لئے جائے قیام نہیں۔۔!
اٹھو اور با اختیار لوگوں کی طرح فیصلے کرتے ہوئے اس دنیا میں اپنے وجود کا احساس دلاؤ۔۔۔۔۔!! اور یاد رہے مصلح یا مجدد یوں ہی نہیں اٹھتے اس امت کی ماؤں کو یہ کام کرنا ہے اور اس امت کے باپوں کا بھی یہ فریضہ ہے کی وہ اپنی آنے والی نسلوں میں اپنی بہترین وراثت منتقل کریں ان کو صداقت، شجاعت، تقدس کے اسباق پڑھائیں۔ ان کو یہ یاد دلائیں کہ حکمت مومن کی میراث ہے اور شہادت منزل!!
جو قوم دنیامیں عدل و اعتدال کی امانت لے کر آئی تھی اور جس سے دنیا کی قوموں نے میانہ روی، راستی کا سبق سیکھ کر تہذیب و ثقافت کی منزلیں طے کیں اسی امت کے نوجوانوں کو اٹھنا ہے کہ گویا۔۔۔۔
اٹھو و گر نہ حشرنہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا