ڈاکٹر سلیم خان
الیکشن کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہیں چوکیدار کے دل میں چوری کے پکڑے جانے کا ڈر بڑھتا جارہا ہے۔ اپنے آپ کو چور کے بجائے ساہوکار ثابت کرنے کے لیے چوکیداروں کی فوج نے ایک نیا ڈرامہ رچا۔ اس ناٹک میں نریندر مودی کے بجائے نیرو مودی اچانک ٹیلیویژن کے پردے پر نمودار ہوگیا ۔ لندن کی سڑکوں پر سورت کے ٹپوریوں کی مانند مونچھوں کے ساتھ نیرو مودی جس وقت پردے پر آیا اس نے ۹ لاکھ روپئے کی شتر مرغ کے کھال سے بنی جاکیٹ پہن رکھی تھی ۔ گرو اگر دس لاکھ کا کوٹ پہن سکتاہے تو اس کا چیلا کم تھوڑی نا ہے۔
نیرو کے بارے میں بتایا گیا کہ لندن کے جس مکان میں وہ رہتا ہے اس کا کرایہ تقریباً ساڑھے پندرہ لاکھ روپئے ماہانہ ہوسکتا ہے ۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس عیش و طرب کے باوجود نیرومودی کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے اور ٹیکسی کے پیچھے بھاگ رہا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اگر وہ اس وقت اپنی نجی گاڑی میں سفرکررہا ہوتا تو رپورٹر کے ہتھے کیسے چڑھتا ؟ اور رپورٹر بھی ایسا کہ جس کے پاس سوالات اور کیمرہ دونوں تیار تھے ۔کیا مودی جی اور ان کی ٹیم سارے ہندوستانیوں کو نرا بیوقوف سمجھتی ہے ؟ کیا عوام کی سمجھ اتنی بھی بات نہیں آتی کہ عین انتخاب سے قبل نیرو مودی کو ہندوستان لاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ چوکیدار چور نہیں ہے؟ کیا وہ اتنا بھی نہیں سوچتے اگر چوکیدار چور نہیں ہوتا تو نیرو مودی فرار کیسے ہوتا؟
وزیراعظم مودی کی حالت بھی فی الحال شتر مرغ کی سی ہے کہ جو ریت میں سر چھپا کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ۔ شومئی قسمت دیکھیں ، نریندر مودی جس شترمرغ کی کھال کے اندر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کررہے تھے اس میں سے اچانک یدو رپا ّ کا ’جِن‘ یعنی ڈائری نکل آئی اور جس سے ۹ لاکھ کے جیکٹ میں بڑا سا سوراخ کردیا۔ کاروان جریدے کے اس سرجیکل اسٹرائیک نے بی جے پی کے تقدس مآب رہنماوں کو ڈھیر کردیا۔ اس سوراخ کے اندر سے ارون جیٹلی اور نتن گڈکری کا نام دکھائی دیا جن کو فی نفر ۱۵۰ کروڑ دیئے گئے۔ ان سے نیچے کے درجہ پر راج ناتھ سنگھ کا نام ہے جنہیں ۱۰۰ کروڑ کی ادائیگی کی گئی اور سب سے کم دکشنا پانے والوں میں گروجی مرلی منوہر جوشی اور مہاگرولال کرشن اڈوانی کا نام ہے جن کو ۵۰۔ ۵۰ کروڑ دیئے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی مرکزی مجلس کو ۱۰۰۰ کروڑ روپے کا نذرانہ دینے کا راز بھی فاش ہوا ہے۔
اس ڈائری کے ہر صفحہ پر یدورپاّ کے دستخط بتائے جاتے ہیں۔ اس میں حیرت کسی کو نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ نوٹ بندی کے دوران بی جے پی کے سابق صدر نتن گڈکری نے اپنی نورچشمی کے شادی میں مہمانوں کی خاطر ۵۰ چارٹرڈ ہوائی جہازوں کا اہتمام کیا تھا۔ ہندوستان کا عام ووٹر رکشا تو دور ۵۰ سائیکلیں بھی کرائے پر نہیں لے سکتا ہے۔سنگھ کے سنسکاری نیتاوں کے پاس یہ روپیہ کہاں سے آتا ہے ؟ یدورپاّ جیسے دلال ہی سرمایہ داروں سے موٹی رقم وصول کرکے اپنے آقاوں کو پہنچاتے ہیں۔
لوگوں کو تعجب ہے کہ اس فہرست میں مودی اور شاہ کا نام کیوں نہیں ہے؟ یہ جوڑی اس معاملے میں خود کفیل ہے۔ انہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ ان کا اونچا ہاتھ لینے والے کا نہیں بلکہ دینے والے کا ہے۔ یدورپاّ کی طرح مودی بھی ایک صوبے کے وزیراعلیٰ تھے۔ یدورپاّ تو ریڈی بردران جیسے غیر قانونی کان کنی کرنے والوں کی دلالی کرتے تھے لیکن مودی جی نے تو امبانی ، اڈانی اور ٹاٹا جیسی بڑی مچھلیوں کو اپنے جال میں پھنسا رکھا تھا ۔ ان کو بھلا یدورپاّ جیسے ٹٹ پونجئے کی کیا ضرورت؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دھن دولت کے سبب مودی جی نے یدورپاّ کو ۷۸ سال کی عمر میں وزیراعلیٰ کا حلف دلایا جبکہ اپنے گرو کو ۷۵ سال میں وان پرستھ آشرم یعنی بن باس پر بھیج دیا ۔ یدورپاّ کی ڈائری کے بعد اب نیرو مودی کا ڈرامہ پھیکا پڑ چکا ہے۔ اب اس کو شتر مرغ کے بجائے شیر کی کھال اوڑھا کر بھی لایا جائے تو فرق نہیں پڑےگا۔ اس لیےکہ بھیڑیا تو آخر بھیڑیا ہی ہوتا ہے۔