نکاح اور تعلیم -اکتوبر 2017 کے جواب پر سوال

ایڈمن

نکاح اور تعلیم سوال: اکتوبر ۲۰۱۷ کے کالم جستجو میں ایک سوال سے متعلق درج ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ (۱) شریعت ایک گواہ لڑکی کی طرف سے اور ایک گواہ لڑکے کی طرف موجود رہنے پر…

نکاح اور تعلیم

سوال: اکتوبر ۲۰۱۷ کے کالم جستجو میں ایک سوال سے متعلق درج ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ (۱) شریعت ایک گواہ لڑکی کی طرف سے اور ایک گواہ لڑکے کی طرف موجود رہنے پر ہی نکاح کو درست قرار دیتی ہے۔ ’چپکے‘ سے نکاح باطل قرار پائے گا۔ بلکہ لڑکی کی جگ ہنسائی ہوگی۔ اور کیا کچھ ہوگا متصور کریں۔ (۲) ’کم ا ز کم شریعت کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔۔۔۔‘ اس کو زرا سمجھائیں۔

جواب: اکتوبر کے شمارے میں جو سوال نکاح کی ضرورت سے متعلق پوچھا گیا تھا۔اس کے جواب میں سے ایک پیراگراف قارائین کی دلچسپی کے لئے ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔’’ایک صورت یہ بھی ہے، گو انقلابی ہے لیکن شرعی طور پر درست ہے۔ وہ یہ کہ آپ وسائل کا انتظام کر سکتے ہوں اور اپنی جوانی کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تو اس ’ظالم‘ سماج کی پرواہ کیے بغیر آپ چپکے سے مسجد میں جاکر نکاح کرلیں۔ مشکلات تو یقیناً درپیش ہوں گی، مگر آپ کم از کم شریعت کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ سماج سے لوہا لے کر آپ اللہ کے نزدیک ہو جائیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے صرف اللہ ناراض نہ ہو اس بات کو یقینی بنائیں۔‘‘۔۔۔۔

اس مکمل جواب میں پہلے شادی کرنے اور جنسی ضروریات کو پورا کرنے سے متعلق ممکنہ اقدامات کا تذکرہ کیا گیا۔ پھر آخری پیراگراف میں اس انقلابی قدم کی طرف اشارہ دیا گیا۔ یہ ترتیب اس بات کی طرف اشارہ دیتی ہے کہ راقم کے نزدیک یہ مثالی صورت حال نہیں ہے۔ آپ کے سوال کا پہلا جز ، نکاح کے درست طریقہ سے متعلق ہے۔ بہت ہی اختصار کے ساتھ کہا جائے تو نکاح کے اجزاء میں شہادت ، مہر اور ایجاب و قبول کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ بہت ساری اور شرائط ہمارا تہذیبی ورثہ ہیں لیکن شریعت ان کو لازم قرار نہیں دیتی۔ کچھ لوگ ولی کی اجازت کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن نہ تو شریعت اس کی قائل ہے اورنہ ہی یہ بات معقول ہے۔(یہ گفتگو بالغ مرد و عورت کے نکاح کے تناظر میں کی جارہی ہے۔) اب غور کریں تو پہلے متذکرہ تین شرائط پوری ہوجائیں تو شرعی طور پر درست نکاح واقع ہو جاتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ ان شرائط کو پورا کرنا بہت آسان کام ہے۔ اسی کی بنیاد پر اسلام آسان شادی کے تصور کا دم بھرتا ہے۔

راقم نے جب چپکے سے نکاح کے عمل کے بارے میں لکھا تو ظاہر ہے ،ان شرائط کو پورا کرنے کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہونے والے نکاح سے متعلق ہی لکھا ہے۔ ورنہ یہ کہا جاتا کہ آپ چپکے سے اپنی جنسی ضرورت پوری کرلیں۔ یہ ’چپکے‘ سے نکاح کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ بڑا اہم سوال ہے ۔ اس مشکل میں ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس لئے پڑے ہوئے ہیں کیونکہ جس سماج کو اپنی دینداری کا زعم ہے وہ شرعی سہولتوں کو اپنے پندارِ عظمت و تہذیب کے مقابلہ میں کمتر سمجھتا ہے۔اب شریعت بمقابلہ روایت کا معاملہ ہو تو ظاہر ہے اصل عزت تو شریعت کے مطابق عمل کرنے ہی میں مضمر ہے۔ اور اگر اکثریت شریعت کے مطابق عمل کرنے لگی تو بڑی آسانی سے ایک صحت مند روایت کی بناء رکھی جا سکتی ہے۔ اس لئے اگر والدین اور سرپرست حضرات تھوڑی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں تو جلد اور آسان نکاح کی شاہکار روایت کو ترویج دے سکتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی ضروریات کی بر وقت تکمیل ہو، ان کی آزادی پر بے جا قدغنیں نہ لگائی جائیں اور شادی ایک مہنگاامر نہ ہو یہ معاشرہ درست تہذیبی اقدار کا نمونہ ہے۔ اور ہر وہ عمل جو ان اقدار کی ترویج کرے چاہے وہ ’چپکے‘ سے شادی کرکے ہی کیوں نہ ہو ، اپنے میں آپ ایک مجاہدہ ہے۔
’چپکے‘ سے نکاح دو امور کی طرف اشارہ دیتا ہے۔ ایک، زوجین اللہ سے ڈر کر زندگی گذارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیونکہ بغیر نکاح کے بھی وہ اپنی جنسی ضروریات پوری کرسکتے تھے۔ دو، ان کے سرپرست حضرات کے نزدیک شریعت کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔راقم کے نزدیک ’چپکے سے شادی‘ کوئی مثالی صورت حال نہیں ہے۔ اس لئے کہ نکاح کے عمل میں سماج کو شامل رکھنا مستحسن ہے۔ اس لئے یہ بہتر ہے کہ شادی کا فوراً اعلان ہوجائے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ’جگ ہنسائی‘ اس دور میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ایک زمانے میں جس طرح اگر کوئی مسلمان داڑھی رکھتا تو لوگ اس پر ہنسا کرتے تھے۔ اسی طرح آج کے زمانے میں کوئی لڑکا یا لڑکی آسان طریقے پر شادی کرے، یا بہ حالت مجبوری شریعت کے مطابق چپکے سے شادی کرے، تو بھی لوگ ضرور ہنسیں گے۔ ان کی ہنسی اور تضحیک سے بے پرواہ ہوکر، اللہ کے رسول کی اس سنت کا احیا کرنے کا داعیہ ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہونا چاہیے۔ انہیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عزت و ذلت کا مالک اللہ ہے۔ انسان کی ذات کو صرف اللہ کی نظر میں معتبر ہونا کافی ہے۔ ؎کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں۔

والدین اور سرپرستوں کے علم کے بغیر شادی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس لئے کہ اگر والدین دین دار مزاج کے نہ ہوں تو شاید گھر بار سے رشتہ منقطع ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ معاشی ذمہ داریاں اور کفالت کا بوجھ ایک مشکل کام ہے۔ اکثر نوجوان جو جلد شادی نہیں کرتے وہ ان عملی دشواریوں کے سبب شادی سے دور رہ کر پریشان رہتے ہیں۔ اور جو ان عملی دشواریوں کا بیش بینی سے اندازہ نہیں کرتے وہ شادی کے بعد پریشان رہتے ہیں۔ پریشانی کا امکان بہر حال دونوں صورتوں میں ہے۔ ایسی صورت میں وہ کام کرنا زیادہ بہتر ہے جس سے شریعت کی خلاف ورزی کے راستے مکمل بند ہوجائیں۔ ظاہر ہے شادی کرنے کی صورت میں جنسی سکون اور ذہنی آسودہ حالی بہت ساری برائیوں سے بچاتی ہے۔ اس لئے میرا مشورہ نوجوانوں کے لئے بہر حال یہی ہے کہ وہ جلد از جلد شادی کرلیں۔ چاہے ان کے والدین کی مرضی اور امداد شامل ہو یا نہ ہو۔ اگر آپ حکمت سے کام لیں تو اللہ کم وسائل میں ایک صالح شریک حیات کے ساتھ آپ کی زندگی کو شریعت پر عمل پیرا رکھے گا۔اصل چیز یہ ہے کہ والدین اور سرپرست حضرات کو شادی کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہونا چاہیے۔ اس بے حیائی کے دور میں نوجوانوں کو یہ مشورہ دیتے رہنا کہ وہ صبر و ضبط سے کام لیں ، اس معاشی بد حالی کے دور میں یہ تقاضاء کرنا کہ وہ ایک مستحکم روزگار حاصل کرلیں، اس الحاد کے زمانے میں خوبصورت لڑکیوں کی تلاش میں انتظار کرتے رہیں ؛ یہ تمام امور بڑی ہی نا عاقبت اندیشی کی علامات ہیں۔ جس قسم کے اسلامی معاشرہ کے خواب ہم دیکھتے ہیں اس کے اقدار میں ؛ جلد شادی، ایک سے زائد شادیاں، آسان شادی، آسان طلاق و خلع، سستی شادی ، بہت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اقدار کا حصول کیسے کیا جائے ؟ اس کو سماج میں ترویج کیسے دی جائے؟ ان اقدار پر مداومت کے ساتھ عمل کس طرح کیا جائے؟ اس راہ کی رکاوٹوں کو کس طرح ختم کیا جائے؟ ان تمام سوالات کے جواب، فرد کو بھی اور معاشرے کو بھی تلاش کرنے چاہئیں۔

اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں