ذہن میں جب بھی انقلاب کاتصور آتا ہے توآنکھوں کے سامنے ایک ہیولا سا بنتا ہے۔یہ ہیولا نوجوانوں کا ہوتا ہے ۔ جنہوں نے اپنے کارناموں سے تاریخ کے کئی ابواب اپنے نام درج کرا لئے ہیں اور اب بھی مسلسل اسی کوشش میں سرگرداں ہیں ۔ عالم اسلام میں رونما ہونے والے انقلابا ت کی طرف نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سب سے نمایاں کردار نوجوانوں کا رہا ہے۔ ان کی قوت، حوصلے اور عزائم زیادہ قوی اور غالب رہے۔ ان کی جدو جہد ایک مثبت تبدیلی کا نمونہ رہی ہے ۔ ان کی سربراہی میں بڑے بڑے ملک فتح ہوئے۔جنہوں نے بلند کارنامے انجام دے کر دنیا کو متحیر کر ڈالا۔ جن کا نصب العین خدا کی خوشنودی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی رہی ہے، جنہیں دنیا میں برپاہی اسی لئے کیا گیا ہے کہ وہ اقامتِ دین کا عظیم فریضہ انجام دیں ۔جو امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا پیکر رہے ہیں ۔اللہ پاک خود قرآن پاک میں اپنے جاں نثاروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
کنتم خیرا امتہ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ۔’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ ( تلخیص تفہیم القرآن، آل عمران: ۱۱۰)
خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اسی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوئے تھے ۔ صحابہ کرامؓ میں بیش تر نوجوان ہی تھے۔ دور حاضر میں اسلام کے اصل چہرے کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں۔ ایسے میں تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دین کی روح اور حقیقت دنیاپر واضح کی جائے۔ یہ ذمہ داری نوجوان بہتر طور سے انجام دے سکتے ہیں۔ دعوت دین کی ذمہ داری مرد وزن دونوں پر عائد کی گئی ہے ۔دونوں کا اس میں اہم رول ہے۔ خدا نے دونوں کو یکساں طور پر مواقع فراہم کیے ہیں۔
آج جبکہ عالم اسلام کے خلاف دنیا کی ساری باطل قوتیں متحد ہو گئیں ہیں ایسے میں ثبات کی روش پر قائم رہنا نوجوانوں کے لئے ایک چیلنج ہے ۔ایک پروپگنڈہ چل رہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو دنیا کی نظروں میں دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے، مسلم نوجوانوں کو طرح طرح کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ان کی صلاحیتیں برباد کی جا رہی ہیں ۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے۔مومنوں کے سامنے ہمیشہ آزمائشوں کا دور آتا رہا ہے ۔ شیطنت اپنی چال چلتی رہے گی ۔ یہی وہ موقع ہے جب نوجوانوں کو مردِ مومن بننے کا موقع ملتا ہے ۔دین اسلام مسلمانوں سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ مومن و مسلم ہونے کی شہادت دیں ۔ حق کا علَم بلند کرنے کی ذمہ داری کے لیے آگے بڑھیں۔ اپنے السابقون الا وّلون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقامتِ دین کا فریضہ انجام دیں ۔ اس کے لئے اسی راستے کا انتخاب کریں جس پر ’خلیل اللہ ‘سے ’سیف اللہ‘ تک نے سفر کیا۔ دین اسلام کے وفاداروں کو معلوم ہے کہ وہ محمد ؐ کے پیرو کار ہیں ۔ جن کی راہ میں چلنے والوں کو صدیقؓ ،فاروقؓ اعظم ، غنیؓ اور حیدرؓ کالقب ملا۔جنہیں حوارئ رسول حضرت زبیرؓ ہونے کا شرف حاصل ہوا ،جسے ’خیر‘ (حضرت طلحہؓ) کہہ کر مخاطب کیا گیا ۔جس کی عظمت سے متأثر ہو کر آں حضرتؐ نے کہا ’ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں ‘(حضرت سعدؓؓ ) اے مومنو! تمہارا رشتہ امینِ الامت (حضرت ابو عبیدہؓ) سے ہے ۔تم ا ن ہی طارق بن زیاد کی نسل سے ہو جنہوں نے سمندر پار کرنے کے بعد اپنی کشتی جلا دی تھی، اور اپنی فوج سے کہا تھا’ یا تو جنگ میں فتح حاصل کرنی ہے یا شہید ہو جانا ہے ‘۔اے نوجوانو! تمہاری وہی شناخت ہے جس سے دنیا میں تاریخ رقم کرنے کا آغاز ہوا ۔ رب کے سپاہیوں کو ثابت کرنا ہے کہ وہ اسی خلدون کے بیٹے ہیں جس نے دنیا کو تاریخ لکھنا سکھایا تھا۔آج دین اسلام ان سے اُسی روایت کوزندہ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ مسلمانوں یہ وقت اپنی استقامت کا جائزہ لینے کا ہے۔
آج وہ تمام اشیاء اورآلات موجود ہیں جن کا ایک زمانے میں فقدان تھا۔ ان کے پاس ایمانی قوت تھی اور آج ایمان میں ضعف ہے۔ آلات و وسائل بے شمار ہیں ۔علم و ہنر سے مالا مال ہو چکے ہیں۔اب علم کو عمل میں تبدیل کر نے کی ضرورت ہے ۔میدان میں اتر کر اپنی قوت و ہمت ، صبر و استقامت ، صلہ رحمی ووفاداری ،قوم پروری ورحم دلی ، خدمت گزاری وکارگزاری پیش کرنے کا وقت ہے۔ اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں نرمی پیدا کرنی ہوگی ۔ انہیں حسنِ اخلاق کا گوہر دکھلانا ہوگا۔ خدا نے جو حکمت بخشی ہے اس کا استعمال کرنے کا سنہرا موقع ہے۔ اپنی محبت اور سخاوت سے دلوں کو موم بنا نا ہو گا ۔ پھر ایسی روشنی پھیلے گی کہ تا ریکی یقیناًسر بسجود ہوگی۔ وہ قول مبارک جو محمدؐ نے حضرت علیؓ سے کہا تھا:’’ اے علیؓ! تم انہیں جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرو تمہارے ذریعے کسی ایک انسان کو ہدایت مل جائے ، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تمہیں (مالِ غنیمت میں) بہت سے سرخ اونٹ مل جائیں‘‘۔ (نو عمر صحابہؓ اور اقامت دین )
امتِ مسلمہ کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ جب تک ان کا طریقۂ کا ر اللہ اور اس کے رسولؐ کے اسوے کے مطابق نہیں ہوگا کامیابی نہیں ملے گی ۔ان سے اس کے سوا کچھ نہیں مطلوب ہے کہ قرآن حکیم کو مضبوطی سے تھام لیں ۔ اس کے ذریعے حقیقی معارف تبلیغ کا راستہ کھلتا ہے ۔اب وہ وقت ہے کہ مرسلین و صادقین کی جماعت تیار کی جائے ۔ تربیت عام کا وہ منظر پیش کیا جائے جس سے باطل اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو جائے ۔ اب اپنے جوہر اخلاق کو پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ اپنے نیک بندوں کو جو اپنے گھر اور بچوں سے دور ہیں صرف خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ برداشت کر رہیں ہیں، انہیں کبھی مایوس نہیں کرے گا۔ وقتی پریشانیاں ضرور آئیں گی۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جائیں گے، اور بالآخر کامیابی و کا مرانی مومنوں کا مقدر بننے پر نازاں ہوں گی۔خدا نے ا پنے راستے میں جدو جہد کرنے والوں کے ہرفعل کے بدلے متعدد اجر و انعام لکھ دیئے ہیں تو بڑھیں خدا کے راستے میں اور اپنے حصے کی نیکیاں سمیٹ لیں ۔ یقیناًدین کی پاسبانی مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے ۔
یہ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ صنف نازک پر بھی خصوصی توجہ صرف کی جائے۔ اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی تربیت کا بھی ذمہ ادا کیا تو بیشک اللہ ایسے بندوں کو نوازے گا۔ آ ج ہم مسابقت کے دور میں جی رہیں ہیں۔ ایسے میں مسلم خواتین کو بھی زمانے کے ساتھ چلانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ حضرت خدیجہؓ ، عائشہؓ ، فاطمہ زہراؓ ، امِ عمارہؓ، سمیہؓ، خولہ بنت ازورؓ، زینب غزالیؒ ، مریم جمیلہؒ ان کے لیے بہترین نمونہ ہیں،ہماری خواتین ایسی ہوں جو اپنی حفاظت خو دکر سکیں اورضرورت پڑنے پر دوسروں کی بھی حفاظت کر سکیں۔ مولانا مودودی ؒ نے فرمایا تھا:
’’ہم مسلمان عورتوں کو بھی ضروری فوجی تعلیم دینے کا انتظام کریں گے اور یہ بھی ان شاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہو ئے ہوگا ۔میں بارہا اپنے رفقاء سے کہہ چکا ہوں کہ اب قومیت کی لڑائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور انسان درندگی کی بد تر شکلیں اختیار کررہا ہے ۔ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاندنے میں تأمل نہیں ہے ۔ کل اگرخدا نخواستہ کوئی جنگ پیش آجائے تو نہ معلوم کیا کیا درندگی اور وحشت ان سے صادر ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لئے تیار کریں اور ہر مسلمان عورت اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔انہیں اسلحہ کا استعمال سیکھنا چاہئے ،وہ سواری کر سکتی ہوں، سائیکل اور موٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ جانتی ہوں، پھر صرف ذاتی حفاظت کی تیاری ہی نہ کریں بلکہ ضرورت ہو تو ہر قدم میں مردوں کا ہاتھ بٹا سکیں ۔ہم یہ سب کرنا چاہتے ہیں مگر اسلامی حدود کے اندر کرنا چاہتے ہیں، ان حدود کو توڑ کر کرنا نہیں چاہتے۔قدیم زمانے میں بھی مسلمان عورتوں نے اسلحے کے استعمال اور مدافعت کے فنون کی تربیت حاصل کی تھی………اسلامی حکومت میں عور توں کو محض گڑیا بناکر نہیں رکھا گیا جیسا کہ بعض نادانوں کا گمان ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ترقی کا موقع دیا گیا۔‘ ‘ (دین اور خواتین ،ص ۱۸۔۱۹)
مندرجہ بالا عبارت یقیناًتوجہ اور گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتی ہیں۔
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
ناز آفرین، رانچی یونیورسٹی، رانچی