انور حسین ، ناندیڑ
نوجوانوں کا نام ذہن میں آتے ہی طاقت، قوت، جوانی، جوش، جنون، انقلاب، حرکت پذیری جیسے تصوّرات نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تاریخ انسانی کے ہر دور میں عروج و زوال کی جتنی بھی داستانیںلکھی گئ ہیں وہ نوجوانوں نے ہی لکھی ہیں۔ ان ہی نوجوانوں نے خون کی ہولیاں بھی کھیلی ہیں اور انہی نوجوانوں نے محّبت کے نغمے بھی گائے ہیں۔ عشق و جنون کی کہانیاں بھی ترتیب دی ہیں۔ تحقیق و تصنیف، سائنس و تکنالوجی اور ادب کی ترقی کے ذریعے ان ہی نوجوانوں نے انسانیت کو زیب و زینت عطا کی۔
کسی بھی قوم و ملک کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنے سے قبل اس کے نوجوانوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جس قوم و ملک کے نوجوان مضبوط قوت و فکر رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک مقصد اور نصب العین رکھتے ہوں تو اس قوم و ملک کا مستقبل ان مقاصد کی تکمیل کیلئے سا زگار ہو جاتا ہے۔ جب یوروپ نے ساری دنیا پر حکومت کی کوشش کی تو اس کا سہارا بھی نوجوان ہی تھے، جب جاپان نے تکنالوجی کے میدان میں سپر پاور بننے کا ارادہ کیا تو اس نے بھی نوجوانوں کے سہارے اپنے عزائم پورے کئے۔ اسی طرح جب اسلام کے ذریعے سارےی دنیا میں امن و انصاف قائم کیا جا رہا تھا تب بھی خالد، قاسم، طارق، اور ایوبی جیسے ہزاروں نوجوانوں کی روشن زندگیاں ہم کو نظر آتی ہیں جو آج تک ہمارے لئے مینارہ نور کی طرح چمک رہی ہیں۔ نوجوانوں کا طرز زندگی ہی کسی بھی قوم کا طرز زندگی ہوتا ہے۔ نوجوان کے طرز زندگی کا رخ، سمت اور مقصد درست ہو تو روشن مستقبل تک رسائی مشکل نہیں رہتی اور اگر سمت سفر اور مقصد میں انتشار ہو تو زوال بھی تیزی کے ساتھ آتا ہے۔
آئے ہم جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ نوجوانوں کا موجودہ طرز زندگی مستقبل کی کونسی تصویر ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے۔ ہمارے پیش نظر ملک کے عام نوجوانوں کے ساتھ اُمت مسّلمہ کے نوجوان بھی خصوصیت کے ساتھ ہیں۔
نوجوانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو امیر گھرانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ طبقہ پیسے کے بل بو تے پر ایک نئے کلچر کو فروغ دے رہا ہے۔ پاپ کلچر، رات دیر گئے تک بار اور شراب خانوں میں ناچ گانا، قیمتی گاڑیاں، مہنگے سات، خرچیلی پارٹیاں، نشہ خوری، فیشن کے نام پر عریانیت، زنا، لیو ان ریلیشن شپ، ڈیٹنگ اور ڈرگس جیسی قباحتیں فروغ پا رہی ہیں۔بڑھتے ہوئے جرائم اور ان کے درمیان پروان چڑھتی خود غرضی، خود پسندی، نفرت، حسد اور خودکشی کے واقعات نے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
نوجوانوں کا دوسرا طبقہ وہ ہے جوغریب ہے، بے روزگار ہے، روزانہ صبح اُٹھتے ہی روزی روٹی اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ دن رات محنت کرکے چند پیسے کماتا ہے۔ باوجود غربت کے اس طبقہ کا ایک بڑا حصہّ امیر طبقہ کی نقالی میں اپنی محنت کی کمائی ضائع کرنے میں مشغول ہے۔ اس طبقہ میں بھی اخلاقی گراوٹ، نشہ، شراب، جوا، ماردھاڑ، گروہ بندیاں، سیاسی پارٹیوں کا آلئہ کاربن کر پر تشدد ہو جانا عام بات بنتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی مایوسی اور غصّہ بھی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تیسرا طبقہ وہ ہے جو سنجیدگی سے ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حامل کر رہا ہے اور اپنے کریئر کو بہتر بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ اس میں متوسط اورامیر قسم کے نوجوان شامل ہیں۔ سماجی زندگی کا شعور اور Social Activism بھی ان کے اندر پاتا جا تا ہے۔ ملک اور قوم سے محبت کا جذبہ اور اپنے ملک کی ترقی کی فکر بھی اس طبقہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن جدید فکر و فلسفہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے کچھ اخلاقی خرابیاں بھی ان کے اندر پروان چڑھ رہی ہیں۔
ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے۔ وہ اچھا دکھنا چاہتا ہے، وہ مشہور ہو نا چاہتا ہے، طاقت ور اور دولت مند ہو نا چاہتا ہے۔ یہ تمام چیزیں فطری ہیں اسی لیے نوجوانوں میں خود پسندی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ خود پسندی ان کے اندر تکبّر اور حرص جیسی صفات کو پروان چڑھارہی ہے۔ کریئر کی مسابقت ان کو خود مرکزیت پر مجبور کر رہی ہے۔ خود مرکزیت سرمایہ دارانہ ذہنیت کو جنم دیتی ہے اور سرمایہ کی حرص کرپشن، بے ایمانی، دھوکہ اور ظلم جیسی خرابیاں پروان چڑھنے کی وجہ بن رہی ہے۔
نوجوانی کی عمر میں دوسری جنس کی طرف میلان زیادہ ہوتا ہے۔ ہر ایک نوجوان چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک دوسرے کے سامنے خوبصورت جاذب نظر دکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو متاثر کرکے اس کی قربت کی تمنّا میں رہتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو اس کو خودپسند بناتی چلی جاتی ہے۔ زندگی میں نمایاں دکھنے اور سماج میں نمایاں مقام حاصل کرنے کیلئے، دولت کا حصول ضروری ہوتا ہے اور جب یہ نوجوان دولت کمانے کا آغاز کرتے ہیں تو خواہشات کی ہی تعداد ان کے اندر کرپشن، بے ایمانی، دھوکہ، ظلم، مارتوڑ جیسی خرابیاں پروان چڑھنے کی وجہ بن رہی ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے ذریعے کئے گئےایک سروے کے مطابق ۸۱ فی صد نوجوان اپنی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کسی بھی حدتک جا سکتے ہیں۔ اس کام کو کرنے کیلئے اگر انھیں ادھار لینا پڑے، چوری کرنا پڑے، یہاں تک کہ اگر بھیک مانگنا پڑے تو بھی اس کیلئے تیار ہیں۔۷۳ فی صدی نوجوان اپنی ہی مرضی کو اہمیت دیتے ہیں اور والدین کی رائے ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ جبکہ ۸۲ فی صدی نوجوان اپنی پسند اور خواہش کو پورا کرنے میں بے صبر پائے گئے ہیں۔
نوجوانوں میں ظاہری اطوار و بنائو سنگھارپر توجہ زیادہ ہے اور باطنی اخلاق اور اصلاح قلب کی طرف ان کی توجہ کم ہے۔ ظاہری طور پر خوبرو دیکھنے کیلئے جمخانوں میں جسمانی مشقّت جو جسمانی ٹارچر کی حد تک کی جا رہی ہے۔ باڈی بلڈنگ کے نام پر جسم کو ایک مخصوص خوبصورتی میں ڈھالا جا تا ہے۔لیکن صحت پر ہونے والے منفی اثرات سے بے خبر ہوتے ہیں۔
ظاہری حسن میں بالوں کی تراش و خراش کا مذاق اور معیار گرتا جا رہا ہے۔۳۹ فی صد نوجوان خوبصورت دکھنے کیلئے Fairness کریم کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں خوبصورت نظر آنے کا رجحان زیادہ تر فلمی ستاروں کو دیکھ کر پروان چڑھتا ہے۔ بھارت کے علاوہ ہالی ووڈ کی فلمیں بھی فیشن، ہیر اسٹائل، باڈی بلڈنگ، داڑھیوں کی تراش خراش، ٹاٹوز وغیرہ میں نوجوانوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا کا کلچر کافی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ سروے کے مطابق ۸۱ فی صد نوجوان موبائل رکھتے ہیں اور تقریباََ ۵۰ فی صد نوجوان سوشل میڈیا سے جڑے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق نوجوان سوشل میڈیا پر اپنی ضروری نیند سے زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔ اس کے استعمال سے انھیں تعلیم، سیاست، سماجی صورتحال، خبروں وغیرہ سے واقفیت اور دوستی و تعلقات جیسے فائدے ہو رہے ہیں، وہیں وقت کا زیاں، Privacy کا خاتمہ، جرم کی طرف رغبت، بے راہ روی، خودکشی کا رجحان، دھوکہ بازی، غلط معلومات کی ترسیل سے بدنامی اور بدامنی پھیلانا جیسے نقصانات ظاہر ہو رہے ہیں اور اس کا شکار زیادہ تر نوجوان ہی ہیں۔
سیلفی کلچر جہاں نوجوانوں کے لئے اپنی شخصیت اور سرگرمیوں کے اظہار کا ذریعہ ہے وہیں ان میں خود نمائی کی بیماری پروان چڑھانے کا باعث بھی ہے۔ سیلفی ایک عادت بنتی جا رہی ہے۔ لنڈن کا ڈینی براون نامی ۱۹ سالہ نوجوان جوسیلفی کی لت کا شکار ہو گیا تھا روزانہ دس گھنٹےاپنے آئی فون پر سیلفی کیلئے خرچ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ سیلفی بے حیائی کو عام کرنے اور اپنی جسم کی نمائش کرنے جیسی عادتو ں کو پروان چڑھارہی ہے۔
بھارت میں فلموں کا چلن بہت عام ہےلہٰذا اس کے اثرات بھی نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہے۔ بہت کم فلمیں جو سماجی، سیاسی، نفسیاتی موضوعات پر بنائی جا رہی ہو۔ رومانس، سیکس، بے حیائی ، پاپ کلچر، ناچ گانا، دھوکہ بازی، جھوٹا عشق وغیرہ نئی فلموں کے Subject ہیں۔ اب تو ہالی ووڈ اور انٹرنیٹ کے دوسرے ویڈیو سائٹس بھی بے حیائی فحاشی اور جرائم کو فروغ دے رہے ہیں اور نوجوانوں کی زندگیاں ان تمام خرابیوںکاپر تو ہیں۔
کچھ اور حقائق ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ذہنیت کس طرح تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۱۸تا۲۵سال کے درمیان کے نوجوانوں میں ۷۸ فی صد نوجوان اپنی نوکری کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ۶۵ فی صد نوجوان سرکاری نوکریوں کی خواہش رکھتے ہیں، تا کہ کرپشن کے راستے سے زیادہ دولت حاصل کی جائے۔ ۴۸ فی صد نوجوان ریزرویشن کے قائل ہیں۔ ۶۸ فی صد ٹریفک کے قوانین کا لحاظ نہیں کرتے۔ ۸۳ فی صد نوجوانوں میں اپنی خواہشات کو لے کر بے صبر پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف ۶۱ فی صد نوجوان ہم جنس پرستی کو برا سمجھتے ہیں۔ ۶۷ فی صد لیواِن ریلیشن کے خلاف ہیں، صرف ۴۰ فی صد نوجوان ویلنٹائن ڈےکی مخالفت کرتے ہیں۔ اس عمومی جائزہ کے بعد ملت کے نوجوانوں میں پائے جانے والے رجحانات کا جائزہ لیں گے۔ بد قسمتی سے ہمارے پاس وہ تحقیقی ادارے موجود ہیں جو ان حالات کا سروے پیش کر سکیں۔ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں میں ایک گروہ وہ ہے جو بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، وہ روزانہ کام کی تلاش میں نکلتا ہے، محنت و مشقت کے ذریعے اپنی روزانہ کی ضروریات پوری کرتا ہے ۔ اس میں ایک طبقہ ایسا ہے جو روایتی دیندار ہے، دین سے محبت کرتا ہے مگر دین کا واضح تصور اس کے پاس موجود نہیں۔ دوسرا گروہ ایسا ہے جو دین سے بہت دور ہے۔ محنت اور مشقت سے کمائی ہوئی دولت مروجہ فیشن اور عیش پسندی پر اڑاتا ہے۔ سگریٹ، شراب، گٹکا، بے حیائی اور جرائم میں مبتلا ہے اور یہی طبقہ سیاسی شدت پسند گروہوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے، جو مسلم نوجوان کی غلط تصویر معاشرے کے سامنے پیش کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔
ملت کا دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں تعلیم کے میدان میں ترقی کی ہے۔ اس میں بھی الگ الگ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو سوچتا ہے کہ کرئیر ہی زندگی کا مقصد ہے۔ اس کو مقصد زندگی کا شعور نہیں ہے۔ کریئر بنانا، پیسہ کمانا اور عیش کی زندگی گزارنا ہی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ اسلام کے بار ے میں جو علم بھی اس کے پاس موجود ہے وہ سطحی قسم کا ہے، لہٰذا اخلاق، ایمانداری اور دینداری جیسی قدریں اس کے پاس ثانوی درجہ کی حامل ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جوتعلیم یافتہ تو ہے لیکن مختلف مکاتب فکر کے جھگڑوں کے باعث فکری غیر یکسوئی کا شکار ہے۔ اس میں دینداری تو پائی جاتی ہے، اخلاق بھی موجود ہے، دین پر کوئی آنچ آئی تو جذباتی بھی ہو جاتا ہے، ملت کی وحدانیت کی بڑی آرزو رکھتا ہے، اختلاف امت میں صحیح راہ کا انتخاب کرنے میں الجھن کا شکار ہے۔ کسی بھی اجتماعیت سے غیر وابستہ رہ کر اپنی صلاحیتیں برباد کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں فکر میں بے اعتدالی، غصہ، تنقید و تضحیک جیسے رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک قلیل طبقہ ایسا ہے جس کو مقصد زندگی کا شعور ہے۔ وہ الٰہی ہدایات کے مطابق سماج کی تعمیر نو کرنے کا جذبہ رکھتا ہے اور مسلسل جدوجہد کر رہا ہےاور ساری امت کی آرزو اس سے وابستہ ہے۔ اس پورے منظر نامے میں جو تصویر اُبھر کر آرہی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ:
نوجوانوں کی قیمتی صلاحیت، طاقت اور توانائی فضول اور لایعنی چیزوں میں صرف ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں کی بے مقصد زندگیاں ان کو گمراہی کی طرف ڈھکیل رہی ہیں۔
نوجوانوں کی حرکت پذیری غلط سمت میں بڑھ رہی ہیں۔
اخلاقی معیارات دن بہ دن زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن اسی مایوسی میں امیدیں بھی موجود ہیں۔
صورتحال کے مثبت پہلو یہ ہیں کہ:
نوجوانوں کی سوچ اور فکر کو کسی ایک ہی نقطہ پر ہمیشہ کے لئے مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ غلط افکار سے صحیح افکار کی طرف سفر سے ہو سکتا ہے۔
نوجوانوں میں مثبت سوچ اور سائنسی نقطہ نظر کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کا ذہن روایت پسندی کے بجائے ہر نئی سوچ کو قبول کرنے کے لئے تیار رہتا ہے، یہ ہمارے لئے مثبت پہلو ہے۔
فیشن اور کلچر دیر پا نہیں ہوتے، اس کی جگہ اچھا کلچر اور فیشن پروان چڑھایا جائے تو تبدیلی کا امکان بہت زیادہ ہے۔
علم کے ذرائع عام ہونے کی وجہ سے علم کی ترسیل عام ہوتی جا رہی ہے۔
یورپ بوڑھا ہو رہا ہے اور اس کوسب سے زیادہ خوف اسلام پسند نوجوانوں سے ہے، کیونکہ اسلام نوجوانوں میں اخلاق و کردار کو پروان چڑھاتا ہے۔ نوجوانوں میں اخلاق و کردار کا مطلب ہے تبدیلی، ترقی اور غلبہ۔ اس لئے یورپ اپنی سازشوں کے ذریعے پوری دنیا کی نوجوان نسل کو زوال اخلاق کی انتہا تک گرا دینا چاہتا ہے۔ اس میںہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم نوجوانوں کو بتائیں کہ ان کا مقصد زندگی ایک اللہ کی بندگی ہے اور اللہ کے دین کو اس سرزمین پر قائم کرنے کی عظیم الشان ذمہ داری انہی نوجوانوں پر ہے۔
’’اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دال کا بہلاوہ، اصل زندگی کا گھر تو دورِ آخرت ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے۔ (العنکبوت ۶۴)
یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قران کہیں نوجوانوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دے رہا ہے تو کہیں شرم گاہوں کی حفاظت کی تلقین کر رہا ہے۔ کہیں شراب اور جوئے سے روک رہا ہے تو کہیں بے حیائی اور بدکاری کو بد ترین جرم قرار دے رہا ہے، اور یہ یاد دلا رہا ہے کہ تم طاقت کے نشے میں یہ سب برائیاں کر رہے ہو۔ جب ضعف اور کمزوری کا وقت آئے گا تو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔ یہ سارے کھیل تماشے ختم ہو جائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے نوجوانوں کے سامنے اسلام کو واحد نظام زندگی کی حیثیت میں پیش کیا جائے۔ ملت کے نوجوانوں میں دین کا صحیح شعور اور فہم پیدا کیا جائے اور ان کو اسلام کی سر بلندی کی جدوجہد کے لئے تیار کیا جائے۔