تحریر ضیاء وحید
دور جدید ہو یا قدیم، ہر دور میں انسان مایوسی کا شکار ہوتارہا ہے ۔چونکہ انسانی فطرت میں اس کے عوامل پائے جاتے ہیں۔ اس لیئے انسان کو مایوسی سے بچنے کی ہدایتیں ہر مذہب کی تعلیم میں دی گئی ہے ۔مایوسی کے خاتمے کیلئے دنیا بھر میں مختلف افراد ،تنظیمیںاور مذاہب کوشاں ہیں۔ قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لیئے ہمیں علم ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر مسئلے پراللہ نے قرآن میں رہنمائی فرمائی ہے ۔اسلام نے مایوسی کو کس نظر سے دیکھا ہے اور اللہ نے مایوسی کی وجہ اور اس کا کیا علاج بتایا ہے ؟اس مضمون میں اسی موضوع پر ہم گفتگو کریں گے ۔
انسانی تاریخ میں سب سے پہلے مایوس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے ۔’پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے کیا مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں سے ہوگیا ‘ )سورۃ البقرۃ،34) ۔اللہ نے اُس نافرمان کو ابلیس کے نام سے خطاب کیا جس نے حکم عدولی کی ۔عربی میں ابلیس کے معنی ’دکھی ‘یا ’مایوس‘ کے ہوتے ہیں۔ یعنی تخلیق آدم اور تمام مخلوقات پر آدم کو فوقیت نے اس کو مایوس کردیا اور وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوگیاجس کے بعد اللہ نے اسے “اے دکھی یا اے مایوس” کہہ کر خطاب کیا ۔اس طرح معلوم انسانی تاریخ میں ابلیس سب سے پہلا مایوس قرارپایا ۔ لیکن فوری اسے اپنی اس غلطی کا احساس بھی ہوگیا ۔جس کے بعد اس نے اللہ سے مہلت مانگی اور آدم اور ان کی ذریت کو راہ راست سے بھٹکانے کا عہد کیا۔ابلیس نے کہا میرے رب جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں زمین میں زینت کے ذریعہ ان سب کوبہکاؤں گا(سورۃ الحجر،39)۔اس کا عملی نمونہ اس نے آدم ؑ پر پیش کیا۔ابلیس نے آدم ؑ پر سب سے پہلے اپنا داؤ پھیکا ۔ اور آدم کو اُس شجر کی ترغیب دی جس سے دور رہنے کو کہا گیا تھا ۔ پس شیطان نے اس کی طرف وسوسہ ڈالا اور کہا ،اے آدم کیا میں تجھے ابدی زندگی کا درخت بتاؤں اور ایسی مملکت جس کو کبھی زوال نہ آئے(سورۃ طہٰ،120)۔ آیت کی رو سے شیطان نے آدم میں مایوسی ڈالی کہ یہ درخت ہمیشگی کی زندگی والا ہے اس سے تمہیں محروم رکھا گیا ہے۔ آدم ؑ پر اس کے وسوسوں نے اثر کیا اور مایوسی میں آدم ؑ سے نے اللہ کی حکم عدولی کردی۔ شیطان نے اپنی شاطرانہ چال سے آدم ؑ کو بھی مایوسی میں ڈال دیا۔
شیطان کا طریقہ کار
شیطان نے اللہ سے جس وقت مہلت مانگی تھی اس وقت اللہ نے اس کیلئے ایک رہنما خطوط دے دیئے تھے کے تو کن راستوں سے اور کن لوگوں کو گمراہ کرسکتا ہے اور کس پر شیطان کو اختیار رہے گا۔اس کا اظہار اللہ تعالی ٰ نے سورۃ بنی اسرائیل کی 64اور65ویںآیت میں کیا ہے ۔” اور ان میں سے جس کسی پر تیری استطاعت ہواسے اپنی آواز سے بھڑکا دے اور ان پر اپنے خیالات کو اور اپنے مردانہ طور طریقوں کو استعمال کراور ان کے اموال اور اولادمیں شراکت کر اوران سے وعدے کراور شیطان کا وعدہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔بے شک میرے بندوں پرہر گزتیری کوئی سلطانیت نہیں ہوگی اور تیرارب وکالت کرنے کیلئے کافی ہے”۔)سورۃ بنی اسرائیل ،64-65)۔اللہ نے ان آیتوں میں واضح کردیا ہے کہ شیطان کن راستوں سے انسانوں کو نقصان پہنچاسکتا ہے ۔
اپنی آوازوں سے یعنیٰ موسیقی، گیت اور جھوٹے مقرر کی حیثیت سے ۔پھر اپنے خیالات کے ذریعہ مطلب وسوسوں کے ذریعہ مایوسی پیدا کرنا۔ کسی نہ ملنے والی چیز کی خواہش میں لگادیا جاناتاکہ مایوسی پیدا ہواور کفر کی طرف انسان کو ڈھکیلا جاسکے۔مردانہ طور طریقوں سے مطلب رعب یا ڈراوؤں کے ذریعہ۔پھر مال و اولاد کے ذریعہ ۔مال کی خواہش میں انسان کوئی بھی راستہ اپنالیتا ہے اولاد کی خوشی کیلئے کچھ بھی کرگذرنے کو تیار رہتا ہے ۔آخری راستہ وعدوں کا ہے شیطان اور اس کے ماننے والے مختلف وعدوں کے ذریعہ اچھے بھلے انسان کو خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں جس کا نہ ملنا انسان کو سوائے دکھ اور مایوسی کے کچھ نہیں دیتا۔اور اللہ کہتا ہے کہ بے شک شیطان کا وعدہ جھوٹا ہے ۔اللہ نے شیطان کو اپنی حدیں بھی بتادیں کہ جو اللہ کے خالص بندے ہیں یعنیٰ کسی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے ہیں اللہ کی دی ہوئی خوشی او رغم میں اس سے راضی ہوتے ہیں ان پر تیرازور نہیں ہوگا۔
تو معلوم یہ ہوا کہ شیطان جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں تھا آدم کی تخلیق اوران کو کئے جانے والے سجدے نے اسے مایوس کردیا کہ اللہ نے اس پر بھی کسی کو فوقیت دے دی ۔ اب اسی مایوسی کو وہ انسانوں میں ڈال کر گمراہ اور کفر کرنے پر اکساتا ہے ۔شیطان کا یہ حربہ بنی نوع انسان کے شروعات سے ہی اس کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔اللہ کی واضح ہدایت اور احکامات کے باوجود انسان اللہ سے راضی نہیں ہوتا ہے اور مایوسی کی طرف چلاجاتا ہے اور وہ اقدام اٹھا لیتا ہے جس سے اللہ نے اسے روکا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی خودکشی کے یا گمراہی کے وقعات ہوتے ہیں۔ان سب پر نظر ڈالیئے ہر خودکشی کرنے والا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی چیز سے مایوس ہی ہوتا ہے ۔ اور گمراہ انسان بھی اپنی زندگی سے مایوس ہوکر برائیوں کی طرف چل پڑتا ہے۔انسانوں میں مایوسی پیدا کرنا شیطان کا سب سے بڑااور اصل ہتھیار ہے۔ اس کے ذریعہ صرف ایک انسان نہیں بلکہ پوری کی پوری قوم کو بھی مایوسی میں ڈال دیتاہے۔ جہاں مایوسی شروع ہوئی سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ پر کام کررہا ہے ۔مایوسی ہی ہر برائی کی شروعات ہوتی ہے۔
مایوسی یا ابلیس سے بچنے کے طریقے
شیطان کے اس حربے سے بچنے کیلئے کثرت سے ذکر الٰہی میں لگ جائیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار کئی مقامات پر اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ جب شیطان تم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔شیطان پر اللہ کا ذکر غالب آتا ہے ۔ مایوسی میں گھرنے والوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت اور اس پر غور و خوض میں زیادہ وقت صرف کریں تاکہ شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
اللہ سے راضی رہیں
مایوسی کی شروعات ہی اللہ سے راضی نہ ہونے سے ہوتی ہے ۔اگر اپنے مستقبل کیلئے پریشان ہیں کوئی شادی اس لیئے نہیں کررہا ہے کہ اس کے پاس گذارنے کیلئے معقول رقم نہیں ہے اگر کوئی اپنی مصیبتوں کے نہ ختم سے پریشان ہیں تو سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کا دروازہ کھٹکھٹا چکا ہے ۔اس لیئے آپ کو اپنی ہر مشکل اور مصیبت اور مستقبل کے تئیں اللہ سے راضی رہنا چاہیئے ۔دعائیں قبول ہوں یا نہ ہو ۔اللہ سے ہر حال میں راضی رہنا ہی اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کو اپنی زندگی اور تقدیر پر راضی رہنا ہوگا آپ اس پر مایوس نہیں ہوسکتے ۔اللہ سے پر امید رہنااور ہر حالت میں اس کا شکر ادا کرتے رہنا ۔ہر خوشی اور ہر مصیبت میں اللہ سے راضی رہنا ہی مایوسی کو دور کردیتا ہے۔ ایسے راضی لوگوں کیلئے اللہ جنت کا تحفہ تیار رکھا ہے ۔