ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی، ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبہ اسلامک اسٹڈیز،علی گڑھ۔ مسلم یونیورسٹی
اسلام اور جدید کاری (Modernization) میں نہ کوئی آویزش ہے، نہ علماء اور ارباب مدارس اسلامیہ نے وقت اور زمانہ کے تقاضوں سے کبھی آنکھیں بند کی ہیں۔ مسائل اس وقت کھڑے ہوئے جبکہ جدیدکاری کے نام پر الحاد ولادینیت اور مذہب بیزاری (Secularization) اور مغرب زدگی(Westernization) کو مسلط کرنے کی مذموم کوشش کی گئی اور پورے عالم اسلام میں ایمان اور مادیت کے درمیان کشمکش کو تھوپنے کی سازش تیار کی گئی۔
علامہ اقبال نے اسی صورت حال کی عکاسی اس طرح کی ہے
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
جدیدکاری کا عمل اگر صالح بنیادوں پرہو،اور اسلامی فکروعقیدہ کے جلو میں ہو تو قابل تحسین وتبریک اور عین مقصودو مطلوب ہے۔اسلامی تاریخ کے ہر دور میں حکماء،متکلمین اور مصلحین ومجددین نے زمانہ کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے اور بدلتے ہوئے حالات اور نئے تقاضوں کی بھر پور رعایت کی ہے۔آج ہمارے ملک میں زعفران کاری (Saffronization) کی لہر چل پڑی ہے۔سیاست، مذہب، سماج، تعلیمی وتجارتی ادارے،تاریخ کی نصابی کتابیں حتی کہ اقلیتوں کی تہذیب، معاشرت، روایات اور درسگاہیں بھی اس کی یلغار سے محفوظ نہیں ہیں۔ دینی مدارس کی جدید کاری پر زور وہ افراد ادارے اور قوتیں بھی دے رہی ہیں جو ملک کو ہڑپا موہن جو داڑو کی تہذیب میں رنگنا چاہتی ہیں اور ورن آشرم اور ستی اور دیواسی نظام پر یقین رکھتی ہیں، اسی لیے علماء اور ارباب مدارس کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ہندو تو اکے علم برداروں کی جانب سے جدید کاری کے یہ مطالبے یقیناًنیک نیتی اور اخلاص پر مبنی نہیں ہیں تاہم علماء اور ارباب مدارس جدید کاری کے عمل کی مخالفت محض اس بنیاد پر نہیں کرسکتے کہ یہ اغیار کی خواہش ہے۔اپنا محاسبہ کرتے رہنا،بدلتے ہوئے حالات میں ترمیم واضافہ کرنا زندہ قوموں کا شعار ہے
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
اور یہ کہ
آئین نوسے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
جدید کاری کے لئے فکر مندی
ہندوستان میں انگریزی استعمار کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری اور دین مبین کے دفاع وتحفظ کی خاطر انیسویں صدی میں مدارس وجود میں آئے، اور رفتہ رفتہ یہ مدارس تبلیغ و دعوت دین کے بڑے مضبوط مراکز اور اسلامی تہذیب وثقافت کی شناخت بن گئے۔آج یہ مدارس خود جدید کاری کے لیے فکر مند اور کوشاں ہیں۔ یہ خوش آئند پہلو ہے مگر تشویش اس سے ہوتی ہے کہ جدید کاری کا مطلب ان کے نزدیک انگریزی،ہندی اور سائنس وکمپیوٹر کی کچھ مبادیات کو داخل نصاب کرنا ہے، اور اگر کسی ادارہ نے کچھ مزید ہمت کی تو کچھ پیشہ ورانہ کورسیز کا آغاز کردیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ جدید کاری کا عمل مکمل ہوگیا، اور زمانہ کے تقاضوں کی تکمیل کرلی۔کسی ادارہ نے ایک دو قدم اور آگے بڑھایا اور سول سروسیز کے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کا کو چنگ سینٹر کھول لیا اور گویا زمانہ کی رفتار کاساتھ دینے کا انتظام کرلیا۔(۱)اس طرح کی جستہ جستہ پیوند کاری سے منزل مقصود ہاتھ نہ آئے گی۔حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے پورے نظام کی انقلابی اصلاح(Overhauling)کی ضرورت ہے۔اس میں قدیم درس نظامی کے ناگزیر مضامین کا انتخاب،جدید علوم وادب کا اضافہ،منہاج تدریس کی اصلاح،نظام امتحانات کی تجدید، غیرتدریسی سرگرمیوں کی تنظیم،دارالاقامہ کو مؤثرو مفید بنانے کی تدابیر، لائبریری کلچر کو فروغ دینے کی بھر پور جدو جہد، طلبہ انجمنوں کے دائرہ کار اور حدود وفرائض کی تعیین،ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی منصوبہ بندی،اساتذہ کی علمی سطح اوپر اٹھانے اور انہیں منہاج تدریس کا پابند کرنے کے لیے تربیت گاہوں، کار گاہوں اور معائنہ پروگراموں کا انعقادوغیرہ سب شامل ہیں۔نصاب تعلیم کے ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عام طور پر دینی مدارس نے سماجی عمرانی علوم(Social Sciences)سے پہلو تہی کی ہے جو افسوسناک ہے۔
عمرانی علوم کی اہمیت
یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے علماء عام طور پر سماج،اس کے عناصر ترکیبی،اس کی مختلف قوتوں اور رجحانات،اس میں کارفرما مختلف عوامل،اس کے ارتقائی مراحل اور اس کی تعمیر وتخریب کے لیے ذمہ دار مختلف افکارورجحانات سے زیادہ آشنا نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ سے ان کے فرائض منصبی کی بجا آوری کماحقہ،نہیں ہوپاتی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عالم اسلام کے ممتاز مفکر ومصنف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو وجدانی تفکر اور علمی تبحر کے مجمع البحرین،اپنی تالیفات وتخلیقات اور عملی مجاہدات کے ذریعہ امت مسلمہ کے معلم ومربی اور ممتاز مصلح ومجدد تھے، اپنی دوربیں اور دروں بیں نگاہوں سے وہ فتنہ عظیم نہ دیکھ سکے جو انگریز تاجروں کے بھیس میں ہندوستان پر مسلط ہورہا تھا۔تجارت کے بہانے وہ بنگال پر حاوی ہوچکے تھے اور الہ آباد تک ان کے اقتدار کی رسائی ہوچکی تھی مگر انہوں نے اس نئی ابھرنے والی قوت پر کوئی توجہ نہ دی۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے دور میں مغل بادشاہ انگریزوں کا پنشن خوار ہوچکا تھا اور پورا ملک انگریزوں کے رحم وکرم پر تھا مگر انہوں نے بھی اس فتنہ کو محسوس نہ کیا، نہ اس طاقت کے پس پردہ کار فرما عوامل،حالات، علمی ومنہاجی تفوق اور اس کے اسرار ورموز کا گہرائی سے جائزہ لیا۔
حالات سے علماء کی بے خبری اور سادہ لوحی کی دوسری مثال ترکی میں اسلام پسندرہنما پروفیسر نجم الدین اربکانؒ کے ساتھ علماء و مشائخ اور ارباب تصوف کے سلوک کی ہے۔ ۱۹۹۵ء کے پارلیمانی انتخابات میں شیخ بدیع الزماں سعید نورسی کے پیروکاروں نے شیخ فتح اللہ گولن کی قیادت میں اسلام پسندوں کی راہ کھوٹی کی۔ لادین اور مذہب مخالف عناصر کی پشت پناہی کی۔ ٹروپاتھ پارٹی اور مدر لینڈ پارٹی جیسی مذہب باغی سیاسی جماعتوں نے انہیں شہ دیا، اور اس طرح علماء و مشائخ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوکر اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے۔ (۲)
یہ گرد و پیش سے بے خبری اور بے ہدف تیراندازی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے واعظ، ناصح اور مقرر عالمی طاغوت پر تنقید کرتے ہیں،مغرب کی چپرہ دستیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔یہودیوں کی اسلام دشمنی پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ہمارے جرائد ورسائل اور مجلّے ان کا سیاہ پردہ فاش کرتے ہیں مگر ہمارا فوری دشمن اور خطرناک مقابل انہیں نظر نہیں آتا، یعنی ہندو توا کی علم بردار طاقتیں،افکار اور رجحانات جو اسلام ہی نہیں انسانیت اور انسانی اقدار کو ملیامیٹ کردینے پر کمر بستہ ہیں،جو اس ملک میں ایک ہی فکر اور ایک ہی تہذیب کی بالادستی چاہتی ہیں، جنہوں نے ہماری معاشرت، ہمارے طرز زندگی اور ہمارے نظام وعقیدہ کو کھلی مبارزت دے رکھی ہے اور اب ہمارے مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قراردے کر ان کے خلاف گھات لگائے بیٹھی ہیں، مگر ہمارے علماء اس دشمن کو ہدف بنانے سے کترا رہے ہیں،بلکہ بعض خان بہادر عالم ان ہی کی بولی بول رہے ہیں اور مسلمانوں کو پست ہمت اور احساس کمتری کا شکار بنارہے ہیں،تابش مہدی نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے
کیوں کفر کی جانب مجھے کھینچے ہے برہمن
اس کام کی خاطر تو مسلمان بہت ہے
سماج اور اس کے دھاروں سے واقفیت ہماری دعوتی وتبلیغی ضرورت بھی ہے ورنہ اسلام کے وکیل اور ترجمان،اندیشہ ہے کہ غیر اسلام کی وکالت کرنے لگیں اور دوسرے افکارونظریات سے متأثر ومرعوب ہوجائیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ مولوی محمد حسن بٹالوی (۱۲۵۶۔۱۳۳۸ھ) نے جہاد کو اسلام سے خارج کردیا؟(۳) خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی (۱۸۸۱۔۱۹۶۳ء) نے چرچل اور مسولینی کو مومن صادق کے لقب سے سرفراز کیا؟ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی(۲۴؍اگست۱۹۶۲ء)نے اشتراکیت اور اسلام کے اقتصادی نظاموں میں مماثلث تلاش کی؟مصطفی السباعی (۱۹۱۵۔۱۹۶۴ء)نے اشتراکیۃ الاسلام کا خاکہ پیش کیا؟بعض مسلمان دانشوروں نے قرآن پاک کی اصطلاحات کفر و کافر کونئے معنی پہنائے؟
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
سماجی علوم کے ناگزیر حصے
راقم کے خیال میں دینی مدارس کے نصاب میں جن سماجی علوم کو داخل کرنا ضروری ہے ان میں مبادئ سیاسیات، مبادئ معاشیات، اور تاریخ وجغرافیہ کے اہم مباحث شامل ہیں۔
علم سیاست کے مضمون میں علم سیاست کی تعریف اور دائرہ کار،اقتدار اعلی کی تعریف اور خصوصیات، ریاست کی اقسام وفرائض، عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات وفرائض،جمہوریت،سیکولرزم،بنیادی حقوق، دستور،معاشرہ اور شہریت،دستورہند اور اس کی امتیازی صفات،مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کا تصور، الیکشن،سیاسی پارٹیاں،ہندوستانی جمہوریت کو درپیش چیلنجز اور مسائل، اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے وغیرہ ناگزیر طور پر شامل ہونے چاہئیں۔ علم سیاست کی تدریس کے ساتھ اگر اسلام کے فکرو فلسف�ۂسیاست اور مسلمان علماء اور مفکرین کے نظریات وخدمات کا تعارف بھی کرادیا جائے تو نورعلی نور۔
علم تاریخ میں استعمار اور نوآبادیات،پہلی جنگ عظیم،روسی انقلاب،فرانسیسی انقلاب،دوسری جنگ عظیم،ہندوستان کی عہد قدیم،عہد وسطی اور عہد جدید کی سرسری تاریخ،ہندوستان کا ورثہ،قومی تحریک آزادی کے ساتھ مکمل اسلامی تاریخ شامل ہو۔یہاں اسلامی تاریخ سے مراد مسلمانوں کی چودہ سو سالہ علمی وتہذیبی تاریخ ہے، اس ضمن میں پروفیسر محمد یسین مظہر صدیقی کی کتاب ’تاریخ تہذیب اسلامی‘ قابل ذکر ہے، جو نصابی کتاب کے طور پر ہی بڑی محنت، دیدہ ریزی اور جانفشانی سے لکھی گئی ہے، اور پیش نظر مقصد کو بڑی خوبی سے پورا کرتی ہے۔ثروت صولت کی مختصر تاریخ ملتِ اسلامیہ بھی معاون کتاب کے طور پر شامل نصاب ہوسکتی ہے۔
علم معاشیات میں معاشیات کی تعریف،دائرہ کار،اقسام،پیداوار،وسائل ارتقاء،تعیین قیمت اور اس کی منصوبہ بندی،ہندوستانی معیشت کے خدوخال، اقتصادی ترقی اور ریاست کا کردار،فلاحی ریاست کا تصور اور اس کے امتیازات وغیرہ موضوعات کے ساتھ اگر اسلام کا معاشی نظام بھی طلبہ کے ذہن نشین ہوتا رہے تو اور بہتر ہوگا،علم جغرافیہ میں بطور خاص ہندوستان پر توجہ مرکوزکی جائے مگر عالم اسلام کا جغرافیہ بھی پیش نظر رہے۔
سماجی علوم کے یہ وہ ناگزیر حصے ہیں جو نصاب تعلیم میں بہرحال شامل ہونے چاہئیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدارس کے بوجھل نصاب تعلیم میں ان علوم کے لیے جگہ کیسے نکالی جائے کہ مدارس کی امہات علوم اور کلاسیکی مضامین پر بھی حرف نہ آئے اور ان علوم سے بھی طلبہ واقف ہوجائیں۔یہ مسئلہ سنجیدہ غور و فکر کا طالب ہے۔
اس ضمن میں یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ سماجی علوم میں درک بہم پہنچانامقصود نہیں ہے بلکہ ان کی مبادیات سے طلبہ کو واقف کرانا ہے اور یہ وہ مضامین ہیں جو عصری نظام تعلیم میں ہائی اسکول کے نصاب میں لازمی مضمون کی حیثیت سے داخل ہیں۔ یہاں بس اسلامی مشمولات کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگر یہ اضافہ گراں گزرے تو اس کے حل کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
اسلامی مشمولات پر استاذ دوران درس گفتگو کرلیا کریں، اور اسے نصاب کا حصہ نہ بنایا جائے مثال کے طور پر علم سیات میں اقتدار اعلی اور اس کی خصوصیات پر درس دیتے ہوئے استاذ یہ صراحت کردیں کہ قرآن کے مطابق اقتدار اعلی صرف اللہ کے لیے خاص ہے اور انسان کو اس کے عطا کردہ اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے خلیفہ اور نائب مقرر کیا گیا ہے۔ وہ مرض�ئالٰہی کا پابند ہے بالکل آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اسلامی مشمولات کی کتابیں بطور معاون کتب شامل نصاب کی جائیں۔اور طلبہ غیر درسی اوقات میں ان کا مطالعہ کریں۔امتحان میں ایک سوال لازما اسلامی مشمولات پر ہوتا ہے کہ ان مباحث کو یکسر نظر انداز نہ کردیا جائے۔
اس ضمن میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ان مضامین کو مرحلہ وار عربی درجات میں تقسیم کردیا جائے۔یعنی بیک وقت یہ سارے مضامین نہ پڑھائے جائیں بلکہ ان کی تقسیم اس طرح ہوکہ روزانہ محض ایک پیریڈ میں عربی اول سے لے کر فراغت کے سال تک ان سارے مضامین پر طلبہ کی نظر ہوجائے۔مثال کے طور پر عربی اول ودوم میں جغرافیہ اور تاریخ،عربی سوم اور چہارم میں معاشیات،عربی پنجم وششم میں سیاسیات اور عربی ہفتم میں ہندوستانی سیاست وحکومت کے مضامین شامل کردئیے جائیں۔اس طرح محض ایک پیریڈ میں ضروری سماجی علوم سے طلبہ کو واقف کرایا جاسکتا ہے۔رہی سہی کسرماہرین ومتخصصین کے توسیعی خطبات اور طلبہ کے درمیان مختلف علمی وتحریری مقابلوں کے ذریعے پوری کی جاسکتی ہے۔
نصابی کتب کی فراہمی
سب سے اہم مسئلہ سماجی علوم میں نصابی کتب کی فراہمی کا ہے، جو کتابیں بازار میں دستیاب ہیں وہ مطلوبہ مقصد کو پورا نہیں کرتیں، ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی ’مبادئ سیاسیات‘ ابتدائی کوشش ہے، اسی طرح علم معاشیات پر ڈاکٹر عبدالمعز کی کتاب بھی کافی پرانی ہے اور نئے مباحث کا حاطہ نہیں کرتی۔ البتہ این سی ای آرٹی کی تیار کردہ کتابیں کافی بہتر مواد پر مشتمل ہیں اور ان کے اردو تراجم بھی دستیاب ہیں مگر ان کتابوں کا منہج اور تجزیاتی جہت(Orientation) کہیں کہیں متعصّبانہ اور اکثر لادینی اور مذہب مخالف ہے۔ یہ ماہرین عمرانیات عام طورسے سماج میں مذہب کے کردار کو منفی یا کمتر کرتے دکھائی دیتے ہیں جوامر واقعہ کے خلاف بھی ہے اور تعصب کا آئینہ دار بھی۔
پڑوسی ملک پاکستان میں اردو زبان میں نصابی کتب تیار ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر سیداصغر علی شاہ جعفری کی کتاب ’مشرق ومغرب کے سیاسی افکار‘، مغربی اور مسلمان مفکرین کے سیاسی افکارو نظریات کو موضوع بحث بناتی ہے۔اسی طرح چودھری فاروق اختر نجیب کی کتاب ’سیاست وریاست‘ (دوحصے) بنیادی مسائل سیاست وریاست پر اچھی کوشش ہے مگر ایک تو فاضل مصنفین کا نقطہ نظر پاکستانی ہے اور اسلوب وانداز بیان پر پاکستانیت کی چھاپ ہے۔ دوسرے انداز تحریر سطحی اور غیر تجزیاتی ہے اور مسائل ومباحث کو کافی طول طویل بنادیاگیا ہے اور طلبہ کے معیار اور ان کی دلچسپیوں کی رعایت نہیں رکھی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محض تاجرانہ اصول پیش نظر رکھے گئے ہیں۔
اس لیے بہتریہ ہے کہ دینی مدارس کے مزاج اور ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر نصابی کتب تیار کروائی جائیں جو مختصر اور جامع ہونے کے ساتھ ضروری مسائل کا حاطہ کرتی ہوں۔اس کے لیے عصری جامعات کے ان فضلاء کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں جو مضمون پر عبور رکھنے کے ساتھ مدارس کے مزاج اور نفسیات سے بھی واقف ہوں اور اسلامی تعلیمات پر گہری نظر بھی رکھتے ہوں۔ جب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتااین سی ای آر ٹی کی کتابوں سے کام چلایا جائے اور اساتذہ دورانِ درس ومحاضرہ نقطہ،سمت اور رخ کی تصحیح کرتے رہیں۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ علوم سماجی وعمرانی سے یہ دلچسپی مسلمانوں اور علماء کے لیے نئی نہیں ہے کہ اس سے وحشت،غرابت اور تنفر کا اظہار ہو، یہ دراصل اسی عمل کی بازگشت ہوگی جس کی بنیاد علامہ ابن خلدونؒ نے ڈالی تھی،(۴) اور جسے دور جدید میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، ڈاکٹر علی شریعتی اور انجینئر مالک بن نبی(۱۹۰۳۔۱۹۷۳ء)نے پروان چڑھایا ہے۔(۵)
تعلقات وحواشی
(۱) اس کی بہترین مثال جامعۃ الہدایۃ جے پور راجستھان ہے جس کے ناظم اعلیٰ مولانا عبدالرحیم مجدّدی نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اپنے ادارہ کا الحاق کر رکھا ہے مگر بعض پیشہ ورانہ کور سینر کی تدریس کا اضافہ بھی کیا ہے جس سے طلبہ خود کفالت کی طرف پیش قدمی کرسکیں۔ قابل ذکرہے کہ ادارہ نے قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری، کو چنگ اور تربیت سے بھی خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے خوش گوار نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
(۲) دیکھئے مصطفی محمد الطحان، القیادۃ فی العمل الاسلامی، اردو ترجمہ: انقلابی شخصیات،محمد سمیع اختر، ہلال پبلی کیشنز، سنگاپور، اپریل ۱۹۸۸ء،ص:۲۴۵۔ ۲۵۱
(۳) دیکھئے، مسعود عالم ندوی، ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۸۱ء،ص۲۰۔۲۱
(۴) علامہ ابن خلدون کے عمرانی نظریات کے لیے دیکھئے راقم کا مضمون’’ابن خلدون کے تجربی سیاسی افکار‘‘، سہ ماہی فکرو نظر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جلد:۲۶، شمارہ: ۳، ۱۹۸۹ء، ص۵۷۔۷۹
(۵) مسلم مفکرین عمرانیات کے مختصر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے مفصل مطالعہ کے لیے دیکھئے راقم کی کتاب ’’اسلامی عمرانیات: شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار کا مطالعہ،‘‘ القلم پبلی کیشنز کشمیر ،اگست۲۰۱۱ء
نصابِ تعلیم اور عمرانی علوم کی شمولیت
ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی، ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبہ اسلامک اسٹڈیز،علی گڑھ۔ مسلم یونیورسٹی اسلام اور جدید کاری (Modernization) میں نہ کوئی آویزش ہے، نہ علماء اور ارباب مدارس اسلامیہ نے وقت اور زمانہ کے تقاضوں سے کبھی آنکھیں بند کی ہیں۔…