نرم قوم پرستی

ایڈمن

نمتانشو سنگھ ہندوستان کی دانشورانہ اور سیاسی زندگی میں قوم پرستی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ یہاں قوم پرستی اور اس کی مختلف تعبیرات کے حوالے سے تنازعات بھی آزادی کے وقت بلکہ آزادی سے پہلے ہی سے موجود رہے…

نمتانشو سنگھ

ہندوستان کی دانشورانہ اور سیاسی زندگی میں قوم پرستی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ یہاں قوم پرستی اور اس کی مختلف تعبیرات کے حوالے سے تنازعات بھی آزادی کے وقت بلکہ آزادی سے پہلے ہی سے موجود رہے ہیں۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں قوم پرستی کے حوالے سے مختلف خیالات کا پایا جانا فطری ہے۔ قوم پرستی سے متعلق اختلافات کا سیاسی موضوع کی شکل میں استعمال بھی ہماری خصوصیت رہی ہے۔ ہندوستان میں قوم پرستی کو لے کر مختلف خیالات سے ہٹ کر اس کی سماجیاتی نکتہ نظر سے کھوج بین ضروری ہے۔

جدید دنیا مختلف قوموں کے ملنے سے بنی ہے۔ دنیا بھر کی نمائندگی کرنے والی واحد تنظیم اقوام متحدہ متعدد قوموں کی ایک عالمی تنظیم ہے۔ اس کے علاوہ ہم ایسی کئی قومیتوں کے بارے میں سنتے ہیں جو بنا کسی ملک یا طے شدہ خطہ زمین کے بغیر شناخت یافتہ انسانوں کی ایسی جماعتیں ہیں جو خود کو ایک قوم یا راشٹر کی اکائی مانتی ہیں۔ پوری دنیا میں ایسی قومی پہچانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو بین الاقوامی شناخت کے بغیر اپنے وجود کے لئے لگاتار متحرک ہیں۔ اقوام متحدہ کے ممبر کے طور پرشناخت یافتہ قوموں کے تشخص پر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایک قوم ہونے کے پیچھے تمام طرح کے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ یعنی قومیت کو متعارف کرنے والے عوامل بھی متعددہیں۔ قوموں کی شکل میں متعارف خطّہئ ارض کے باشندے مجموعی طور پر خود کو ایک قوم تسلیم کرتے ہیں۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ ہم ایک یکساں قانون اور مشترک مفاد ات کے ساتھ ایک دوسرے سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ وسیع قومی خطہ زمین میں رہائش پذیر عوام کے درمیان اختلافات کے باوجود کوئی جذباتی بندھن ان کے اندر اتحاد کے احساس کو بنائے رکھتا ہے۔ قومیت کا تصور قبائلی زندگی کے ارد گرد سیاسی،ثقافتی اور لسانی ارتقا کی ہی آخری شکل ہے۔

قوم پرستی کا سیاسی تصور یورپ میں پروان چڑھا۔جس کے پیچھے زبان، مذہب اور اس سے متعلق تاریخی جدوجہد کا اہم کردار رہا۔ کسی بھی ایک عامل کو قوم پرستی کی بنیاد نہیں مانا جا سکتا۔ کسی ملک میں ایک قوم ہونے کا شعور زبان کے اردگرد گھومتا ہے، دوسرے میں زبان کے ساتھ مذہب کا بھی اپنا کردار پایا جاتا ہے تو کسی اور میں قومی احساسات کی بنیاد میں کوئی اور عامل کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ قومی شعور کے ارتقا میں تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ بعض تاریخی عوامل کا کردار بھی پایا جاتا ہے۔

قومی شعور کا فروغ ایشیا اور افریقہ میں نو آبادیات کے ساتھ ہوا۔ ان ملکوں میں نو آبادیات نے جدید تعلیم اور سیاسی شعور کو بڑھاوا دیا۔ جس سے لوگوں کے قبائلی لگاؤ کے اوپر جغرافیائی، سیاسی، ثقافتی اتحاد کا جذبہ پروان چڑھا۔ عربوں کا قبیلوں میں بٹا ہوا سماج جب جغرافیائی اکائیوں میں جمع ہونا شروع ہوا تو اس میں نوآبادیاتی طاقتوں کی سیاسی دخل اندازی مخصوص طور سے متحرک رہی۔ ایک ہی زبان اور مذہب کے درمیان مختلف حکمراں خاندانوں اور طاقتوں کی قیادت میں مجتمع جغرافیائی علاقوں کو متعدد قوموں کی شکل میں ابھرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس میں معاشی اور نوآبادیاتی مفاد کی بیداری نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ مذکورہ بالا مثالوں میں ہم قوم پرستی کے پیچھے ایک سے زیادہ اسباب و عوامل متحرک پاتے ہیں۔ غور سے دیکھنے پر ہر ملک میں قومی شعور کے ارتقاء کا تاریخی سفر منفرد اور علاحدہ نظر آتا ہے۔ قوم پرستی کے تصور کے پیچھے کارفرما تاریخی عوامل کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔

دانشوروں نے اپنے مطالعے اور تحقیق سے یہی بات پیش کی ہے کہ قوم پرستی جاگیرداری کے کمزور ہونے کے ساتھ کسی طے شدہ خطہ زمین کے لوگوں میں ایک مشترک تہذیب و ثقافت یا کسی دوسری مشترک خصوصیت کے تئیں جذباتی لگاؤ کے گرد مجتمع سیاسی نظم کے ارتقائی سفر کی شکل میں سامنے آئی۔ احساسات کا یہ باہمی اشتراک توقع سے زیادہ پیچیدہ ثابت ہوئی۔

ہندوستان جیسے ملک میں بھی قوم پرستی کا ارتقاء نوآبادیات کے فروغ اور اس سے پیدا شدہ منفی اور مثبت دونوں طرح کے عوامل کے ملنے سے ہوا۔ اس میں پیچیدگی پیدا کرنے والی چیزوں میں ہم فرقہ واریت اور اس سے پیدا شدہ متضاد تہذیبی،ثقافتی خیالات کو پاتے ہیں۔ سامراجی نظام تعلیم اور انتظامی نظم و نسق کے ساتھ جدید سیاسی شعور کے ارتقاء نے برطانوی سامراجی حکومت کے خلاف ہر طرح کے لوگوں میں ایک مشترک جذبہ پیدا کیا۔ ہندوستانی قوم پرستی کے سیکولر تصورات کی بات کرنے والوں نے سامراجی استحصال اور منفی اثرات کے خلاف عدم اطمینا ن کو اس ملک میں جدید قوم پرستی کے ارتقاء کا سبب مانا ہے، جو ایک حد تک صحیح بھی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ جدید کلچرل شعور کی جب بات ہوئی ہے تو فرقہ وارانہ بٹوارے نے اس قومی احساس کو پوری طرح سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سبب یہ تھا کہ جدید تعلیم نے ملک کی ہندو اکثریت میں قدیم ثقافتی وراثت کے تئیں اصرار کا جذبہ بیدار کیا۔ ’تاریخی عظمت‘ کی مبالغہ آرائی نے ہمیشہ سے ہندوؤں کے اندر ایک قوم ہونے کے وہم کو inject کیا ہے۔ یوروپی دانشوروں کی تحقیقات کی غلط تشریح نے کم پڑھے لکھے لوگوں میں قوم جیسے جدید تصور کے متعلق غلط سمجھ پیدا کی۔‘

عہد وسطیٰ میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ تعلقات کی غلط تشریح نے ہندوؤں میں مسلم مخالفت کو کافی نمایاں اور مضبوط کیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کی مذہبی ثقافتی فکر نے انہیں اس ملک میں ایک الگ قوم ہونے کے جذبے سے جوڑے رکھا۔

قرون وسطی کی فرقہ وارانہ تعلقات کی تشریح کو مسلمانوں نے اپنی کم فہمی سے اور سنگین بنا دیا۔ اس مسئلے پر سنجیدہ تحقیق کرنے والوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فرقہ وارانہ ثقافتی احساسات کوسامراجی حکومت نے اپنی کرسی کے لئے سیاسی طور پر استعمال کیا۔ آخر کار دیکھا یہی گیا کہ ہندوستانی قومیت کے تصور کا فرقہ وارانہ بٹوارا نتیجہ خیز رہا۔ بھارت اور پاکستان دو الگ قوموں کا جنم ہوا۔ ہندو بھارت اور مسلم پاکستان کی الگ الگ قومیتوں کے سب سے بڑے پیروکاروں میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔580 صفحات پر مشتمل اپنی تحقیقی کتاب ”پاکستان یا ہندوستان کا بٹوارا“ میں انہوں نے قوم پرستی اور اس وقت کے بھارت میں ہندو اور مسلمانوں کے مختلف ثقافتی شعور کا سائنٹیفک تجزیہ پیش کیا ہے۔ ساتھ میں یہ غور کرنا بھی ضروری ہے کہ تقسیم شدہ ہندوستان یا پاکستان کا سماجی ثقافتی ترقی کا معیار 50-1940 کی دہائی میں جیسا تھا اسے ہم جدید نہیں کہہ سکتے۔ تب کے پاکستان کے مقابل ہندوستان میں جدید ثقافتی شعور کو ہم بہتر حالات میں پاتے ہیں۔ اس کے پیچھے اس وقت کی ہندوستانی قیادت کی جدیدیت پسندی کو ذمہ دار مان سکتے ہیں۔

ملک کی تحریک آزادی کے ساتھ ہندوؤں میں جو سماجی معاشی تبدیلیوں کی لڑائی لڑی گئی اور اس میں جو مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں اس نے نئے بھارت کے قومی تصور کی ترقی کو زیادہ پختہ کیا۔ دوسری طرف پاکستان میں ان اصلاحات کے تئیں کم بیداری نے وہاں کی جمہوریت کو کمزور بنایا اور ایک فرقہ وارانہ قومیت کے تصور کو کٹگھرے میں کھڑا کر دیا۔ جلد ہی فرقہ وارانہ قومیت کے تصور کو ہم نے بکھرتے ہوئے دیکھا۔ جب لسانی بنیاد پر بنگلہ دیش کا جنم ہوا۔ اس لحاظ سے ہندوستانی قومی نظام نے قومیت کے جدید تصور کو آگے بڑھایا، ملک میں تنوع کو قبول کیا اور ریاست کے سیکولر ہونے کے تصور کو مضبوط کیا۔

آخر میں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ قومیت کا تصور مسلسل پروان چڑھنے کی چیز ہے۔ قوم کا تصور بذات خود انسانی تہذیب کے ارتقائی سفر کی پیداوار ہے۔ یہ تصور آگے بھی مسلسل ترقی پذیر رہے گا۔ آج جب عالمی جماعتوں کو ہم قوموں کے ملاپ کے روپ میں دیکھتے ہیں تو دوسری طرف ایک ایسی جماعت بھی وجود میں آ چکی ہے جو حقیقت میں ایک ساتھ کئی قوموں کی شہریت کے لیے کوشاں ہے۔ سرمایا، ٹیکنالوجی، افرادی قوت، انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے طرح کی باہمی مشارکت آج کی دنیا کی سچائی ہے۔ قومی شعور کی جب بات ہوتی ہے تو قومی سرحدوں کے اندر مختلف اختلافات کی بنیاد پر اس کی شناخت کرنی ہوتی ہے۔ قومیت کے مسئلہ پر اتحاد کی بات آج کی قومی زندگی کی سچائی نہیں ہے۔

NAMITANSHU SINGH

Independent Scholar

Siwan, Bihar

Email:[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں