نجیب کہاں ہے ؟ اس سوال کا جواب نجیب کی ماں گزشتہ ایک سال سے تلاش کررہی ہے، سال گزر گیا لیکن ان کے سوال کا نہ تو جواب ملا اور نہ ہی ان کے حالات میں کوئی تبدیلی آئی۔یک سال کا عرصہ گزرچکا ، نہ ہی دائود ابراہیم کا پتہ لگانے والے خفیہ ادارے کامیاب رہے اور نہ ہی ـ’’ ہنی پریت‘‘ کے پاس پولیس سے قبل پہنچ کر انٹرویو لینے والے میڈیا چینلز کچھ کام آئے۔نجیب احمد کا کیس سب سے پہلے دہلی پولیس کے پاس تھا اور دہلی پولیس نے تحقیقات کے نام پر یونیورسٹی میں تلاش کرنے اور ملزمین سے پوچھ تاچھ کے بجائے درگاہوں اور مساجد میں نجیب کو تلاش کیا۔ تقریباً 7 ماہ بعد بھی کوئی اطلاع نہ ملنے اور دہلی پولیس کی ناقص کارکردگی پر سوال اُٹھاتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملہ کی تحقیقات کی ذمہ داری سی بی آئی کے حوالہ کردی۔
گزشتہ ایک سال میں پولیس ، کرائم برانچ ، خفیہ ایجنسی اور ہندوستان کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی سی بی آئی بھی نجیب کی تلاش میں پوری طرح ’’ناکارہ‘‘ ثابت ہوئی۔ رپورٹس کے مطابق پولیس کی لاپرواہی کا عالم یہ ہے کہ نام نہاد حملہ آوروں کے ساتھ اس نے حراستی پوچھ تاچھ بھی نہیں کیا ہے ، دوسری لاپرواہی یہ ہے کہ نجیب کیس کی جانچ کر رہی سی بی آئی تازہ ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے پرانے ایف آئی آر کو ہی پھر سے درج کیا ہے اس کے علاوہ سی بی آئی بھی عدالت سے تحقیقات کے لئے مزید وقت کی مانگ کر رہی ہے۔
نجیب کو غائب ہوئے پورا ایک سال ہو چکا ہے۔ اس ایک سال کے دوران نجیب کی ماں نے کئی مظاہرے کیے، پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور میڈیا کو کئی انٹرویو بھی دیئے۔ بی بی سی کے ایک انٹرویو میں فاطمہ نفیس کاکہنا تھا کہ سی بی آئی نے پچھلے چھ ماہ کے دوران جو کیا وہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کی ذمہ داری سی بی آئی کو عدالت نے دی ہے اور انہیں عدالت کو جواب دینا پڑے گا۔ ’’مجھے امید ہے کہ اس مظاہرے کا اثر ہوگا اور اگلی سماعت میں سی بی آئی عدالت کے سامنے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرے گی۔نجیب کے بغیر ایک سال کیسے گذرا؟ اس بارے میں ان کی ماں کہتی ہیں’’ میرے پاس یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال کے دوران میں نے ایک ایک لمحہ درد محسوس کیا ہے‘‘۔تمام مشکلات کے بعد بھی فاطمہ نفیس نے اپنے بیٹے کے ملنے کی امید نہیں چھوڑی۔ ان کا کہنا تھا ’’میں ایک امید کے ساتھ جی رہی ہوں اور یہ امید ہی میرا حوصلہ بڑھاتی ہے، میں اس پل کا انتظار کر ہی ہوں جب ہزاروں لوگوں کی امیدوں کا اثر ہوگا اور میرا بیٹا نجیب واپس لوٹے گا۔‘‘بی بی سی کو دئے گئے اس انٹرویو کے الفاظ اس ماں کے درد کو بیاں کرتے ہیں، ایک ماں اپنے گمشدہ بیٹے کے لیے کیا کیا کر سکتی ہے فاطمہ اس کی ایک مثال ہیں۔انٹرویو میں وہ مزید کہتی ہیں ’میں نے زندگی کے وہ رنگ دیکھ لیے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ سال بہت تکلیف دہ رہا ہے جو خون کے رشتے تھے اب وہ دور ہوگئے اور جن سے انسانیت کا رشتہ تھا وہ قریب آگئے ہیں۔ اب میرے رشتے انہیں میں سے ہیں جو ایک سال سے میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ اس بات کی علامت ہیں کہ ابھی انسانیت زندہ ہے۔آخر میں وہ کہتی ہے کہ ’’میرا نجیب جہاں ہے اللہ کی پناہ میں ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ وہ جب گھر سے نِکلا تھا میں نے اسے اللہ کی حفاظت میں دیا تھا اب وہ جہاں بھی ہوگا محفوظ ہوگا۔‘‘لیکن ان کی آنکھوں کی چمک اچانک آنسوؤں میں تبدیل ہوگئی۔ ہمت کی مورت یہ ماں ٹوٹتی نظر آنے لگی اور لڑکھڑاتی آواز میں کہنے لگی میں بہت تھک گئی ہوں، بہت زیادہ تھک گئی ہوں اب مجھ سے چلا نہیں جاتا، بہت مجبور ہوں۔ میں ہوں تو اتنے لوگ یہاں ہیں اگر میں نہیں آؤنگی تو میرے بیٹے کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔