(۲۱؍ستمبر ۲۰۱۴ ء)میں انٹرنیشنل سٹی کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ کربیٹھا ہوا ہوں، شدید گرمی کا موسم ہے، رطوبت تکلیف دہ حد تک بڑھی ہوئی ہے، مسجد کی چھت ٹین کی ہے جس پر پنکھے لگے ہوئے ہیں، دیواریں ندارد ہیں، دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے محنت پیشہ لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں،یہ عارضی مسجد ہے، اور پچھلے دس برس سے عارضی ہے، کسی دن اس کی بھی باری آئے گی اور اس مقام پر ایک عالیشان ایر کنڈیشنڈ مسجد تیار ہوجائے گی، دھول سے اَٹی ہوئی دریوں کی جگہ شاندار قالین،اور گرم ہوا پھینکتے ہوئے پنکھوں کی جگہ چھت میں جگمگاتے ہوئے قمقمے لگ جائیں گے۔
میرے ذہن کے سامنے بار بار ایک منظر آرہاہے جو تھوڑی دیر قبل ایک واقعہ کی صورت میں پیش آیا، میں فورڈ ایکسپلورر ڈرائیو کرتے ہوئے انٹرنیشنل سٹی میں داخل ہوا، ٹریفک زیادہ تھی ، اس لئے گاڑیوں کی رفتار سست تھی اور گاڑی والوں کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ تھی، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے والی بھاری بھرکم جیپ کے آگے ایک سائیکل سوار آگیا، وہ سڑک کراس کررہا تھا، جیپ کا ڈرائیور موبائیل پرکسی سے بات کرنے میں مصروف تھا اس لئے اس نے دھیان نہیں دیا کہ سامنے زیبرا کراسنگ ہے، سائیکل جیپ کے کونے سے ٹکرائی، اور الٹ گئی، جتنی دیر میں وہ سنبھلتا، سائیکل جیپ کے پچھلے پہئے کی زد میں آگئی اور سائیکل سوار نے اپنا پیر کھینچ لیا، سائیکل اپنی ہیئت کھوچکی تھی، اس پر دوتھیلوں میں کھانے کے ٹفن تھے، جو سڑک پر بکھر گئے تھے، میرا اندازہ تھا کہ جیپ والا رُکے گا لیکن وہ رُکا نہیں، سائیکل سوار بے بسی کی تصویر بنا بیچ سڑک پر پاؤں پکڑے بیٹھا تھا، اس کی جان بچ گئی تھی مگر پیر میں چوٹ تو ضرور آئی ہوگی۔
میں سڑک پر بیچ کے ٹریک پر تھا اور حادثہ میرا سامنے پیش آیا تھا، میں نے اپنی گاڑی روک دی ، پیچھے گاڑیوں کی لائن لگ گئی، باقی دونوں ٹریکوں پر گاڑیا ں حسب معمول چلتی رہیں، گاڑی میں بیٹھے لوگ سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ہی جھانک کر دیکھ لیتے، شیشہ اتارنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ اندر کا درجہ بُرودَت متأثر ہوجائے گا ، فٹ پاتھ پر چلنے والے دوچار لوگ البتہ دوڑ پڑے، انہوں نے برتن جمع کئے ، سائیکل کے ڈھانچے کو ایک طرف کیا، اور سائیکل سوار کو سہارا دے کر اٹھانے لگے۔میں کچھ لمحے رکا، پھر میں نے بھی ٹریک بدلا اور جائے وقوعہ سے آگے نکل گیا۔
یہ حادثہ ایک گھنٹہ قبل پیش آیا ،اوراب وہ منظر بار بار میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے، میرا ضمیر مجھے کچوکے لگا رہا ہے، حادثہ تمہارے سامنے پیش آیا، پھر تم نے اپنا فرض کیوں نہیں ادا کیا، تم فوراََ گاڑی کا نمبر نوٹ کرکے پولیس کو فون کرسکتے تھے، اس غریب کی سائیکل کا معاوضہ تو اسے مل جاتا، تم اس گاڑی والے کو روک سکتے تھے، تم کو چاہئے تھا اتر کر اس غریب کو سہارا دیتے، دیکھتے اسے چوٹ تو نہیں لگی ہے۔اس کا بکھرا ہوا سامان سمیٹنے میں اوروں کی مدد کرتے، لیکن اس کے لئے تم کو ایرکنڈیشنڈ گاڑی سے اترنا پڑتا، گرمی اور رطوبت کو سہنا پڑتا، گھر پہونچنے میں کچھ تاخیر کو گوارا کرنا پڑتا۔
مجھے محسوس ہوا کہ زندگی کی آسائشوں نے میرے دل سے قوت احساس کو سلب کرنا شروع کردیا ہے، ایرکنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا نے من کی دنیا کو بھی منجمد کردیا ہے۔ میں تو ایسا نہیں تھا، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر دوڑ پڑنا میرا شیوہ تھا، اب یہ بدلاؤ کیسے آیا،میرے خانہ دل سے انسانوں کا غم کب خاموشی سے رخصت ہوگیا۔مجھے یاد آیا کہ فیروز آباد کے اسٹیشن پر ایک مسافر کی جیب سے چور بٹوہ اڑا کر بھاگا، وہ غریب بے بسی سے چور چور چلانے لگا، میں نے چور کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا، اس غریب کی پکار پر میں تنہا ہی دوڑ پڑا اور پلیٹ فارم سے کافی دور اس کو جا پکڑا ، اور جب بٹوہ اس سے لے کر اس غریب کو دیا تو اس کی جان میں جان آگئی، مجھے یاد آیا کہ اس وقت میں ایرکنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں نہیں بلکہ چالُو ڈبے میں سفر کررہا تھا۔گرمی شدید تھی، ٹرین میں بھیڑ بہت تھی، اس وقت ہراسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ڈبے میں بیٹھی عورتوں اور بوڑھوں کی خالی بوتلیں لے کر ان میں پانی بھر لانے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ایر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں سفر کرنے والے یہ لطف کیا جانیں ، وہ تو انسانوں سے بہت فاصلے پر ہوتے ہیں۔
آج مجھے من کی دنیا خالی خالی سی لگ رہی ہے، یہ احساس مجھے گھر پہونچ کر نہیں ہوا تھا، مگر اب اور اس مسجد میں ہورہا ہے جہاں پنکھے کی ہوا پسینہ خشک کرنے میں ناکام ہے، کیونکہ یہ نان ایرکنڈیشنڈ مسجد عام انسانوں کی جگہ ہے، یہاں نماز پڑھنے والوں کے پاس سے عود وعنبر کی مہک نہیں بلکہ پسینے کے بھبھکے اٹھتے ہیں، کسی گردن پر غرور کی اکڑ نظر نہیں آتی، ہر بندہ عاجزی کی تصویر ہوتا ہے۔
گلف میں رہتے ہوئے لگتا ہے کہ زندگی کے ہر خطے کو ایرکنڈیشن کی ہواؤں نے یخ بستہ کررکھا ہے، گھر ہو یا آفس کہیں گرمی کا ذرا سا احساس نہیں ہوتا، گاڑی بھی ایر کنڈیشنڈ ہے اور شاپنگ مال بھی۔ باہر کے درجہ حرارت کا اندازہ صرف حرارت نما اسکرینوں سے ہوتا ہے۔آج جبکہ میں اس مسجد میں بیٹھا ہوں اور گرمی سے میرے تن کا رواں رواں پریشان ہے، مجھ پر یہ انکشاف ہورہا ہے کہ ایرکنڈیشن سے نکلنے والی ٹھنڈی ہواانسان کے تن کو ٹھنڈک ضرور دیتی ہے، لیکن من کی دنیا میں پہونچ کر وہ باد سموم بن جاتی ہے، اور سب کچھ خاکستر کردیتی ہے، پھر وہاں احساس کا کوئی پودا مشکل سے ہی اُگ پاتا ہے۔
مجھے یہ احساس زیاں اس مسجد میں ہورہا ہے جہاں پنکھے گھوم گھوم کر گرمی پھیلا رہے ہیں، جس دن یہ مسجد ایر کنڈیشنڈ ہوجائے گی، کچھ کھوجانے کا یہ احساس کہاں جاکر حاصل ہوسکے گا۔
ایرکنڈیشن کی ایجاد اور اس کے پھیلاؤ نے انسانی اخلاقیات پر کیسے اثرات مرتب کئے ہیں ان پر گفتگو کے لئے تو کافی غوروفکر اور انسانی زندگی کا گہرا مطالعہ درکار ہے، میں تو احساس کے محض ایک تجربہ سے گذرا ہوں، اور اس سے میں صرف اس نتیجہ پر پہونچ سکا ہوں کہ انسان کو اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک نان ایرکنڈیشنڈ ایریا رکھنا چاہئے جہاں اس کے ضمیر کو زندگی کی کچھ سانسیں لینے کا موقعہ مل سکے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی