محمد اقبال ملا صاحب تحریک اسلامی کے حلقوں میں داعیٔ اسلام کی حیثیت سے معروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’حق کی تلاش‘‘ اقبال ملا صاحب کا تعارف ایک ایسے داعی کی حیثیت سے کراتی ہے جو کہ اپنے مخاطب کے افکاروخیالات سے پوری طرح واقف ہے۔ مخاطب کی نفسیات کا بھی بھرپور ادراک رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دعوت دین کا فریضہ اس بات کا متقاضی ہے کہ داعی اپنے مخاطبین کے عقائد سے واقف ہو، تاکہ وہ ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرے اور دین حق کی شہادت پورے اعتماد کے ساتھ دے۔ اقبال صاحب کی یہ کتاب ہمیں مخاطبین کے عقائد وایمانیات سے واقف کراتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم وطن بھائیوں کے مذہبی لٹریچر میں توحید، آخرت اور رسالت کا کیا تصور موجود ہے۔
اس کتاب کے تیرہ ابواب ہیں۔ جن میں’’شرک سب سے بڑا گناہ‘‘، ’’قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے‘‘، ’’اوتار واد یا رسالت‘‘، ’’نراشنس اور کلکی اوتار‘‘، ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سیرت‘‘، ’’آواگمن یا اسلام کا تصور آخرت‘‘، وغیرہ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
دین اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ مصنف نے ’’ایک خدا کو ماننا ناگزیر ہے‘‘ کے تحت خد اکے وجود کے عقلی دلائل پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگوں کی طرف سے اللہ کا انکار کرنے کے سلسلے میں ایک دلیل دی جاتی ہے کہ وہ ہمیں نظر نہیں آتا، لیکن یہ دلیل بہت کمزور ہے۔ کیونکہ اللہ کو ماننے کے لیے اس کو دیکھنا شرط نہیں ہے۔ ہم کتنی ہی ایسی چیزوں کو مانتے ہیں، جنہیں کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھتے، مثلا فضا (Space) کے وجو دکو اہل سائنس تسلیم کرتے ہیں لیکن مجرد فضا ہمیں نظر نہیں آتی۔ یہی معاملہ روح اور قوت کشش وغیرہ کا ہے۔‘‘(صفحہ:۱۵؍)
رسالت پر گفتگو کرتے ہوئے ’’اوتار واد یا رسالت‘‘ کے باب میں مصنف نے مختلف ہندومذہبی اسکالرس کے اوتار واد کے تعلق سے مباحث نقل کیے ہیں۔ اور اس احساس کا اظہار بجا طور پر کیا ہے کہ ’’مسلمانوں نے بھارت میں اپنی آمد کے بعد طویل دوراقتدار میں وطنی بھائیوں کے مذہب کے بارے میں تحقیق کی کماحقہ کوشش نہیں کی۔ سنسکرت زبان سیکھ کر مذہبی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا جاتا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئیوں پر تحقیق کی جاتی تو برادران وطن کی بڑی تعداد ان حقائق سے واقف ہوکر دین حق سے قریب ہوجاتی‘‘۔ (صفحہ: ۴۴؍)
اسلام کے تصور آخرت پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے نہایت پتے کی بات یہ سمجھائی ہے کہ آواگمن کے نظریے کی کوئی واقعی بنیاد ہندومذہب کے صحیفوں میں نہیں ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں’’غرض یہ کہ آواگمن کا یہ عقیدہ عقل ودلیل کی کسی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا، یہ غیرفطری ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندودھرم میں باہر سے لاکر شامل کیا گیا ہے۔ وید اس کے تذکرے سے خالی ہیں اور مشہور ہندو مذہبی رہنما اسے تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ (صفحہ: ۶۴؍)
کتاب کی زبان بہت سلیس اور آسان ہے، اور بہت سے مفید حوالوں سے مزین ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں محض نقلی دلائل پر اکتفاء نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید، رسالت اور آخرت کے عقلی دلائل بھی جابجا فراہم کیے گئے ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے وید، پران اور گیتا کی تعلیمات کا خلاصہ آجاتا ہے۔ جوکہ ہند کے پس منظر میں داعی کے لیے بہت اہم ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جین، بودھ، عیسائی مذاہب کے ماننے والے بھی پائے جاتے ہیں، گرچہ سواد اعظم ہندومذہب کا پیروکار ہے۔ لیکن اس کتاب میں ان مذاہب کا ذکر اور ان کی تعلیمات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ہندومذہب پر اکتفاء کیا گیا ہے، جس سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ اتنی اہم اور مفید کتاب اپنے دامن میں پروف ریڈنگ کی فاش غلطیاں سمیٹے ہوئے ہے، جیسے کہ صفحہ ۱۳؍پر ایک جملہ کچھ اس طرح ہے’’اللہ کی بخشش اور عنایات سمجھے‘‘، جبکہ صحیح جملہ ’’اللہ کی بخشش اور عنایت سمجھے‘‘۔ نسان کی موت کا مطلب پھل پھول، پودے یا کیڑا مکوڑا‘‘ یہاں کیڑا مکوڑا کی جگہ کیڑے مکوڑے زیادہ مناسب ہے۔ مزید افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض مقامات پر آیات قرآنی تو نقل کردی گئی ہیں لیکن ان کا ترجمہ نامکمل ہے۔ جنت اور جہنم کے تذکرے میں ایسی غلطیاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ صفحہ ۶۹؍پر سورہ محمد آیت ۱۵؍کا ترجمہ نامکمل ہے، اسی طرح صفحہ ۷۱؍پر سورہ حج کی ایک آیت کا ترجمہ نامکمل ہے۔ اس طرح کی غلطیاں کتاب کی افادیت کو متأثر کرتی ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں انہیں دور کردیا جائے گا۔
بہت ہی جاذب نظر ٹائٹل کے ساتھ معقول قیمت پر یہ کتاب مرکزی مکتبہ سے حاصل کی جاسکتی ہے، امید ہے کہ اس کے علاقائی زبانوں میں تراجم بھی جلد ہی منظرعام پر آجائیں گے تاکہ یہ کتاب ہر خاص وعام کے لیے مفید ثابت ہوسکے۔
از: محمد معاذ