پروفیسر احمد سجاد
ہر ملک و قوم اپنی نئی نسل کی کردار سازی کے لیے دو بنیادی امور کو مقدم رکھتی ہے۔ اولاً اس کے معتقدات کو استحکام نصیب ہو،ثانیاً اس کا نظام تعلیم اس کے حال و مستقبل کو معزز و منور کرنے والا ہو۔مگر ہر نسل کو اپنے عہد کے مختلف چیلنجوں کا ہمیشہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے بغیر کردار سازی کے کیسے ہی سنہرے اصول وضع کیے جائیں ان کی حیثیت شیخ چلی کے خواب جیسی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کی نسل کے سامنے وہ کون سے ایسے چیلنج ہیں جنہیں کردار سازی کے مراحل میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔عہد حاضر میں وہ چیلنج ذیل کی شکل میں ابھرے ہوئے ہیں:
تین سو سالہ مغرب کے الحادی نظام علم و حکمت کا غلبہ
برصغیر کا کافرانہ و مشرکانہ ماحول و معاشرہ اور
اُمتِ مسلمہ کی فکری برتری مگر عملی کوتاہی۔
ان تینوں کی ماہیت پر تھوڑا سا غور کرلیں۔مغرب نے بحیثیت مجموعی عیسائی مذہب قبول کرنے کے باوجود پچھلے تین سو برسوں میں مسیحی پوپ اور پادریوں کی مذہبی تنگ نظری و تعصب، قول و فعل کے تضاد اور عیاشی و دنیا داری کے ردعمل میں دینی اقدار حیات سے متنفر ہوکر بتدریج مادہ پرستی اور الحاد کی طرف مائل ہوکر نفس علم و تعلیم کو دین و دنیا کے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اب مادیت ہی نہیں صارفیت کا غلبہ ہے۔روحانی و اخلاقی قدروں کا تیزی سے زوال ہورہا ہے اور آدمی ایک مشین بنتا جارہا ہے۔ مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناجائز وسائل اور جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے حلال و حرام کا فرق و امتیاز ختم ہوتا جارہا ہے۔نتیجتاً مادی ترقی و معاشی خوشحالی کے باوجود ہر جگہ فحش و بے حیائی، قتل و غار تگری اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ خدا، کائنات اور انسان کے درمیان رشتوں کا بحران پیدا ہوچکا ہے اور انسان دوبارہ غار اور جنگلوں کی وحشت و درندگی سے بھی پرے جاچکا ہے۔ درندگی کا یہ حال ہے کہ بچیوں کو شکم مادر ہی میں قتل کیا جارہا ہے۔ تلک، جہیز اور معمولی اختلاف پر دلہنوں کو زندہ جلایا جارہا ہے۔بے اولادی کا غم غلط کرنے کے لیے پرایا پیشہ ور عورتوں کی کوکھ کو کرایہ پر لیا جارہا ہے۔اور حد تو یہ ہوگئی کہ مرد، مرد سے اور عورت، عورت سے شادی کررہی ہے، ملکی قوانین اس کے حق میں منظور کیے جارہے ہیں۔اس صورتحال نے تعلیم کا الحادی کرن (Secularization of Education)کردیا ہے۔
چنانچہ مغربی تہذیب نے ہماری تہذیبی پہچان اور انسانی قدروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کمپیوٹر، ٹیلی ویژن، انٹرنٹ، فیس بک، ٹیوٹر، موبائیل اور ویڈیو کلچر سے ”سادگی اور اعلیٰ خیالی“(Plain Living and High Thinking) عنقا ہوتی جارہی ہے۔ انتشار و خلفشار اور مستقبل سے مایوسی نے نئی نسل کے ایک طبقہ کو خود کشی پر آمادہ کردیا ہے۔ حالانکہ عصر حاضر میں بھی مولانا آزادؒ اور مہاتما گاندھی جیسی شخصیات نے اپنی سادگی، خلوص و ایمانداری اور صداقت و عدم تشدد سے نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ انسانیت کے سامنے اخلاقی قدروں کی بالادستی قائم کرکے دکھا دی۔
اس مغرب زدہ نئی نسل کے استدلالی(Logical) فکر اور توہم پرستی سے بیزاری کے علاوہ اس کا جوش و خروش اور تلاش حق کی جستجو کی بعض خال خال صفات ایسی ہیں جن کی صحیح تعلیم و تربیت سے ایک نئے خوشگوار انقلاب کی شروعات کے امکانات موجود ہیں۔
اس عمومی عالمی صورتحال پر مستزاد اپنے مادر وطن کی تازہ سیاسی و سماجی صورت حال کچھ کم تشویشناک نہیں۔ویدک دَور کو واپس لانے، ورن آشرم کو دوبارہ لاگو کرنے،تاریخ کو ہندو دیومالائی اور اساطیری روایات کا پابند بنانے کی کوششیں تیز تر ہوچکی ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم کہہ رہا ہے کہ گنیش جی پلاسٹک سرجری کا ایک عمدہ نمونہ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ نہرو اور گاندھی کے نظریے کے برخلاف ویرساورکر اور ہیڈگوار کے نظریے پر ملک کو لے جانے کی کوشش تیز ہوچکی ہے۔ دستوری ونظریاتی اداروں اور کلیدی عہدوں پر آر، ایس، ایس کے حامیوں کو بٹھایا جاچکا ہے۔ موہن بھاگوت نے گذشتہ 12/ اکتوبر کو راجدھانی دہلی کے پی، ایچ، ڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بہت سی اہم شخصیتوں سے ملا قات کی جن میں ایک بھی قابل ذکر مسلمان یا عیسائی نہیں تھا۔ نعرہ کی حد تک”سب کا ساتھ سب کا وکاس“تو ضرور کہا جاتا ہے مگر بعض ذمہ دار وزرا، ایم، پی اور سیاسی شخصیات نے اعلانیہ باہمی نفرت، فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینا شروع کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے چھ ماہ میں چھ سو فرقہ وارانہ فسادات (بشمول مظفر نگر فسادات) رونما ہوچکے ہیں۔ کیرالہ آر، ایس، ایس کے ملیالم ترجمان ”کیسری“ نے لکھا ہے کہ ”نہرو سے اچھا گوڈسے تھا۔ اسے گاندھی کو نہیں نہرو کو مارنا چاہیئے تھا“۔
غرض ملک ایک نظریاتی دوراہے پر کھڑا ہے۔ اب اسکیم یہ ہے کہ تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر سنگھ کے پسندیدہ افراد بنائے جائیں، تعلیم و تاریخ کے تمام اعلیٰ عہدوں پر سنگھ کے نظریات کو آگے بڑھانے والے آگے آئیں، ہریانہ اور مہاراشٹر کے وزرائے اعلیٰ کی کرسی پر ایسے لوگوں کو لانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ دستور کی دفعہ 370 ہی نہیں ایک نئے دستور کی بلو پرنٹ بھی تیار ہو چکی ہے۔تاکہ تعلیم کا ”زعفرانی کرن“ (Safronization of Education)کا عمل تیزی کے ساتھ شروع کیا جاسکے۔
سارے جہان کی طرح ہندوستان میں بھی امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص نوازہ ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے میں یہ امت کچھ کمزور ضرور ہے مگر دینی و فکری اعتبار سے یہ نظریاتی سوپر پاور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِنَّ الدِّینَ عِندَالَّلہِ الِاسلَام اور دین متین کے قرآن و سنت کی مستحکم تعلیمات سے آج بھی دشمنان اسلام بدحواس ہیں۔ طرح طرح کے پروپیگنڈے اور شعائر اسلام کے خلاف قانونی و سماجی مورچہ بندی کے باوجود اس دین کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ پوری دنیا میں یہ خیر اُمت دوسری سب سے بڑی آبادی مانی جاتی ہے۔ تقریباً ایک ارب /60کروڑ کی آبادی جس میں مسلم نوجوانوں کا طبقہ /60فیصد یا تقریباً/70کروڑ کی تعداد میں ہے۔ اس کے علاوہ کرہ ارضی کا سب سے مردم خیز اور معدنیات سے مالا مال علاقہ اسی قوم مسلم کے تصرف میں ہے۔ یوں عددی، مادی، جغرافیائی اور روحانی ہر اعتبار سے اس امت کا پلڑا بھاری ہے، مگر اس وقت پوری امت کے برسراقتدار طبقہ کی اکثریت اسرائیلی و امریکی عیاری کا شکار ہے۔ بالخصوص سعودی عرب، عرب امارات، مصر اور لیبیا وغیرہ۔ ع ؎ ”حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے“۔ ان حکومتوں نے جگہ جگہ زرخرید مولویوں کے ذریعہ اسلامی لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اقبالؒ نے سچ کہا تھا کہ یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر ؓو دلق اویسؓ و چادر زہراؓ
پچھلی ایک صدی میں عالم اسلام بڑے بڑے انقلابات سے گذرتا رہا۔ برطانیہ جس کی مملکت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور سارے سمندروں پر اس کی حکمرانی تھی۔ مثل مشہور تھا کہ Britannia rules the wave مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے کالونیل بازو سمٹتے چلے گئے اور مسلم ممالک آزاد ہوگئے پھر یہ محاورہ زبان زد ہو ا Britannia had to waive the rule۔ یوں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کی غلامی سے مسلم دنیا کو نجات ملی۔57 آزاد مسلم مملکتوں کا ظہور ہوا۔ محل وقوع کے اعتبار سے کل زمینی رقبہ کا/ 23 فیصد مسلم دنیا کے پاس ہے جو معاشی وسائل سے مالامال ہے اور جس کے پاس پوری دنیا کی توانائی کا 80 فیصد ذخیرہ پایا جاتا ہے، جو علاقہ تمام زمینی، سمندری،ہوائی رابطوں کا مرکز اعصاب مانا جاتا ہے۔ کئی ملکوں میں ”بہار عرب“ کا وقتی طور پر رخ تو ضرور موڑا جاچکا ہے مگر مسلم عوام اور قائد و حکمراں طبقہ کے درمیان کشمکش اور دوری بڑھتی جارہی ہے۔امریکہ اور مغربی استعمار کے خلاف نفرت میں ہر روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں مزاحمت، جدوجہد اور جہاد جوش و خروش سے جاری ہے۔جسے دشمن کی سازشی طاقتیں طرح طر ح کی گمرہی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہی ہیں۔ جہاں ایمان عمل کی پہلی بنیاد ہے، جس کی اخلاقی قوت ایمان و عبادت اور معروف و منکر کے نفاذ سے جلا پاتی ہے اور دعوت و قربانی سے نمود و ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔یہی اسلام کی وہ ایمانی قوت ہے جو کبھی زہر سے بھی تریاق پیدا کرلیتی ہے۔ جس کی دو روشن مثالیں سامنے کی ہیں۔ اولاً، ملائشیا کی آزادی کے ساتھ ہی برطانیہ، آسٹریلیا اور امریکہ نے وہاں کی نئی نسل کی تعلیم تقریباً اپنے ذمہ لے لیا۔ مگر بالآخر انہیں مغربی تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اسلامی تنظیم ”ABIM“ قائم کرکے مغرب کے چہرے پر خاک مل دی۔ ثانیاً، الجزائر کی نئی مسلم نسل کو فرانسسیوں کی اخلاق باختگی نے بالآخر ”اسلامی فرنٹ“ کے ذریعہ 1992میں 90فیصد ووٹ کا حقدار بنادیا۔اسی طرح فلسطین اور لبنان میں حماس نے بدر و حنین کی تاریخ زندہ کردی۔ غرض ع ”مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے“ اقبالؒ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہورہی ہے:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا،جتنا کہ دبا دیں گے
اور
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لہذا نئی نسل کی اگر ہمیں واقعتا کردار سازی کرنی ہے تو اس دین متین کے قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں اپنے نصاب اور طریقہئ تعلیم کی تعمیر نو کرنی ہوگی، جس کے تین فکری پہلو بڑے اہم ہیں:
حقیقت الحقائق یا حقیقت اصلیہ(Ultimate Reality) اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
حتمی اور برتر ذریعہئ علم وحیئ الٰہی ہے اور اس کی صورت قرآن حکیم اور سنت نبویؐ ہے۔
قدر اعلیٰ (Root Value) رضائے الٰہی کا حصول ہے۔
ان اصولوں کی وجہ سے اسوہئ نبیؐ کے منہج تعلیم میں نہ ثنویت تھی، نہ طبقاتی کشمکش اور نہ تضادات۔ حضورﷺکا تعلیمی نظام کلی طور پر پیغام عمل تھا۔جہاں ایمان کے بل بوتے پر انسانی سیرت و کردار کی تشکیل ہوتی تھی۔ چنانچہ کردار سازی کے نقطہئ نظر سے تمام نصابی سرگرمیاں بالعموم درج ذیل اہم مقاصد کے گرد مرتب ہوتی تھیں:
(الف) ایمان، علم دین اور عمل صالح کی تربیت
(ب) دنیا بھر کی قیادت اور اس کے لیے امت واحدہ کی تشکیل اور
(ج) عسکری اور مادی قوت کا حصول
لہذٰا محض نصابی پیوند کاری یا دینیات اور اسلامیات کے محض چند اسباق پر مشتمل کتابوں کی تعلیم کردار سازی کے نقطہئ نظر سے کافی نہیں۔ ہمیں علم کو حقیقت میں خدا کا عطیہ سمجھتے ہوئے یہ ماننا ہوگا کہ علم کے سارے خزانے اس کے پاس ہیں۔ اس تناظر میں کردار ساز اسلامی علوم وہ ہوسکتے ہیں جو حس و تجربہ، مشاہدہ اور قیاس و استدلال کے علاوہ وحی کی برتر روشنی مان کر ترتیب دیے گئے ہوں۔ اس نوع کا آفاقی نصاب تعلیم حیات و کائنات کو مکمل ہم آہنگی بخشتا ہے جو ہر دور میں معیار اعلیٰ کا کام دیتا ہے۔ اس نظام تعلیم کی عمارت کی تعمیر کا زیادہ تر انحصار معلم کی مربیانہ اور داعیانہ شخصیت پر ہے جو کردار سازی اور نتیجہ خیزی کے حوالے سے اصل جوہر ہے۔ استاذ معمار قلب و نظر ہے، جس کا ذاتی تشخص ایمان کی پختگی، صالح عمل، اپنے مضمون پر علمی عبور، موثر حکمت تدریس اور اسلامی مقاصد تعلیم سے گہری وابستگی یہ سب ایسی صفات ہیں جو تدریس اور کردار سازی کے عمل کو موثر اور روحانی تحرک کا باعث بناتی ہیں۔
اس تناظر میں مسلم ملکوں میں اسلامی ریاست اور اقلیتی ملکوں میں مسلم تعلیمی اداروں، رضاکار تنظیموں (NGOs)مسلم یونیورسٹیوں، بڑے مدارس اسلامیہ اور دارالعلوموں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اساتذہ کی نظریاتی، علمی اور پیشہ ورانہ تربیت کا پورا نصاب بتدریج ابتدا سے انتہا تک، اسلامی اساسیات کی روشنی میں مرتب کریں، بالخصوص تعلیم و تعلم کی تمام سرگرمیوں کو اس محوری نکتہ کے گرد تشکیل دیں کہ دائمی اور برتر نوعیت کا ذریعہ علم وحیئ الٰہی ہے اور باقی تمام حسی، تجربی اور قیاسی علوم اس بالاتر چشمہئ علم کے تابع ہیں۔غرض تعلیم کی ہر سطح اور ہر مضمون میں مقاصد تعلیم کے تعین، نصابات کی تشکیل، اساتذہ کے لیکچرز اور ان کے افکار و اعمال، غرض پورے تعلیمی اور تربیتی پروگرام میں اسلامی اقدار کے فروغ کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے ورنہ نظام تعلیم اسلامی تشخص اور نئی نسل کی کردار سازی سے یقینا محروم رہ جائے گا۔موجودہ اسلامی نصاب میں کردار سازی کے نقطہئ نظر سے ممکنہ تبدیلیوں کے لیے مندرجہ ذیل نکات قابل لحاظ ہیں:۔
٭ مدارس اسلامیہ میں مروجہ قدیم منطق و فلسفہ کی جگہ فلسفہئ جدید، نفسیات اور معاشیات کو لانا چاہئے۔
٭ مناظرہ کی جگہ تقابلی مذاہب کا نظم ہو کیونکہ آج تہذیبی مذاکرات، مفاہمت، بین المذاہب مجالس اور عالمی اخلاقیات کا دور دورہ ہے۔
٭ قدیم علم کلام کی کتابوں کی جگہ جدید علم کلام مرتب ہو تاکہ مغربی ذہن کے شکوک و شبہات و اعتراضات و سوالات کے جواب دیے جا سکیں۔
٭ چاروں فقہ بے شک حق پر ہیں مگر ان میں تقابلی فقہ بھی پڑھائی جائے تاکہ مسلکی جدال پر قابو پایا جاسکے۔
٭ تدریس کے ساتھ تحقیق و تنقید کا شعور بیدار کیا جائے۔ ٭ ہزاروں مدارس اسلامیہ میں لاکھوں اساتذہ کارکرد ہیں مگر ان کی تدریسی تربیت کا کوئی خاص نظم نہیں۔بی ایڈ کے کورس کو اردو کا جامہ پہنا کر اسلامی علوم کی رعایت سے تدوین شدہ نصابیات کی تعلیم کا نظم قائم کیا جائے۔ تدریب المعلمین کا موجودہ کورس کافی نہیں۔
٭ بطور تخصص انگریزی، ہندی اور کمپیوٹر انٹرنٹ میں مہارت پر توجہ آج کی اہم ضرورت ہے۔ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسلام دین اور دنیا کا جامع ہے۔ بقول اقبالؒ:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
کل تک انہیں مدارس کے فارغین کی کتابیں صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔ یورپ کے پہلے دو مڈیکل کالج سالیرنو اور ماؤنٹ پیلیر میں قائم ہوئے۔ان کے نصاب میں بالخصوص ذکریا الرازی کی الحاوی، ابن سینا کی القانون اور ابوالقاسم الزہراوی کی التصریف کے لاطینی ترجمے صدیوں تک پڑھائے جاتے رہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ”بعد کو ریاضی، طب، ہیئت اور جغرافیہ کا دائرہ سکڑ گیا تو علما کی امامت کا دائرہ آفاق سے گھٹ کے مسجد تک محدود ہوگیا“۔
یہ صحیح ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں جو بھی تبدیلی ہو باہر سے تھوپی ہوئی نہ ہو بلکہ ان کی اپنی مرضی سے سوچی سمجھی ہو۔
اگر ایسا نصاب اور ایسے معلمین تیار کیے جاسکے توپھر ان کے ہاتھوں طلبا کی جو کردار سازی ہوگی ان میں درج ذیل اوصاف یقینا پیدا ہوسکیں گے:۔
اسلام اور اس کی تہذیب پر فخر اور اسے دنیا میں غالب کرنے کا عزم
اسلامی اخلاق سے انصاف اور اسلامی احکام کی پابندی
دین میں تفقہ اور مجتہدانہ بصیرت
تنگ نظر فرقہ بندی سے پاک
تحریر و تقریر اور بحث کی عمدہ صلاحیتیں اور تبلیغ دین کے لیے مناسب قابلیتیں
جفا کشی، محنت،چستی اور اپنے ہاتھ سے ہر طرح کے کام کرلینے کی صلاحیت
تنظیم و انتظام اور قیادت کی صلاحیتیں
ایسے ہی باکردار طلبا عقابی روح کے حامل ہوں گے۔
Prof AHEMD SAJJAD
MA (Double) D. Litt.
Former Dean Deptt of Humanities
Ranchi University, Ranchi Contact No. 9431359971