ایک چھوٹی سی کوٹھری (کمرہ)۔ اس میں چند مقامی رفقاء، مرکز جماعت کے ایک ذمہ دار اور خود میں بھی موجود۔
یہ سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں موجود ہے ایک ایسا غیر مسلم شخص جس نے اسلام کا وسیع مطالعہ کیا ہے، اور وہ بارہا اسلام کے برحق ہونے کی بات کرتا رہا ہے۔ اس شخص کے کئی اقدامات ایسے ہیں جو اس کی بات کی تصدیق بھی کرتے رہے ہیں۔ اور شاید وہی اس بات کا محرک بنے ہیں کہ یہ چند نفوس آج یہاں جمع ہیں۔ یہ غیرمسلم شخص سرکاری آفیسر ہے اور ’بابوجی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حاضرین کو نہیں معلوم کہ وہ یہاں کیوں بلائے گئے ہیں، بس جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ یہ ایک خیر سگالی ملاقات ہے، جو اکثرکسی مرکزی ذمہ دار کے آنے پر ہوجایا کرتی ہے۔
سب لوگ خاموش بیٹھے ہیں۔ خاموشی کو توڑتے ہوئے مرکزی ذمہ دار مولانا سید حامد علی مرحوم ’بابوجی‘ سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان سے کچھ دریافت فرماتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوتی ہے، وہ کچھ یوں ہے:
مولانا: بابوجی! کیا آپ کو اسلام کے برحق ہونے میں کوئی شبہہ ہے؟
بابوجی: نہیں بالکل نہیں۔ میں نے قرآن مجید کے ترجمے کا کئی بار مطالعہ کیا ہے۔ سیرت رسولؐ اور دیگر موضوعات پر متعدد کتابیں پڑھی ہیں۔ خطبات اور دینیات بھی پڑھی ہیں۔ میں اپنے گہرے مطالعے اور تبادلہ خیالات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلام دین حق ہے، جو اللہ رب العالمین کی طرف سے سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
مولانا: جب یہ بات ہے تو پھر آپ اس دین کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ اس سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی آپ کو اس پر اطمینان نہیں ہے۔
بابوجی: نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اپنے چھوٹے بھائی کو اسلام کی طرف بڑھنے سے روکتا اور اس کی مزاحمت کرتا۔ اس کے برعکس میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر میں نے اپنے کئی بچوں کو علم دین حاصل کرنے کے لیے ایک دینی مدرسہ میں داخل کرایا۔ مجھے اسلام کے برحق ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ہے۔
مولانا: سوال یہی ہے کہ جب آپ کو اس دین کے بارے میں کوئی شبہہ نہیں، اور آپ نے اپنے بعض افراد خانہ کے قبول حق میں پورا تعاون بھی کیا ہے، تو پھر اب خود اس نعمت سے محروم کیوں ہیں؟
بابوجی: بات دراصل یہ ہے کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ اور جیسا کہ آپ واقف ہیں میرے اوپر پورے خاندان کی ذمے داری ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ معاش میرے پاس ہے نہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے یہ اقدام کیا تو میری ملازمت ختم ہوسکتی ہے اورمیرا خاندان معاشی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ میں نے متبادل ذریعۂ معاش تلاش کرنے کے لیے ساتھیوں کے تعاون سے کوشش بھی کی۔ میں دوتین شہروں میں گیا مگر کوئی اطمینان بخش صورت سامنے نہیں آسکی۔
مولانا: آپ کا اندیشہ بجا ہے۔ لیکن قبول حق کو ملتوی کرنے سے ایک اور اندیشہ ہے۔ اور وہ اندیشہ آپ کے بیان کئے ہوئے اندیشے سے کہیں بڑھ کر ہے۔
بابوجی: وہ کیا؟
مولانا: وہ اندیشہ یہ ہے کہ موت ہمیں کسی بھی وقت آسکتی ہے۔موت کا علم ہم میں سے کسی کو نہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو موت کب آئے گی؟
بابوجی: نہیں، بالکل نہیں! موت بتا کر نہیں آتی۔ وہ تو کسی کو بھی کسی وقت آسکتی ہے۔ میرے والد محترم 52؍ہی سال کے تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ہم اس عمر میں ان کی موت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔میرے کئی بچے بھی پیدائش کے بعد ہی انتقال کرگئے۔
مولانا: بس یہی بات ہے، جس کی وجہ سے ہم آپ سے اصرار کررہے ہیں کہ قبول حق میں تاخیر مناسب نہیں۔ اگر آپ کو اسلام کے سلسلہ میں کسی طرح کا کوئی شبہہ ہے اور آپ کو شرح صدر نہیں ہے تو ہم آپ سے خود یہی کہیں گے کہ پہلے آپ اطمینان حاصل کریں اور قبول اسلام میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ لیکن اگر آپ کو اطمینان قلب حاصل ہوچکا ہے تو پھر قبول حق میں تاخیر ہرگز ٹھیک نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں موجود ہم رفقاء کے سامنے کلمہ شہادت ادا کرلیں اور اپنے ایمان کو مخفی رکھیں، عام لوگوں کے سامنے اس کا اعلان نہ کریں،تاکہ ہم قیامت کے دن خدائے علیم وخبیر کے سامنے گواہی دے سکیں کہ آپ نے ہمارے سامنے کلمہ شہادت ادا کیا ہے اور ہم خدائے غفورورحیم سے آپ کی نجات اور مغفرت کی دعا کرسکیں۔
مولانا کی اس ایمان افروز اور نہایت سنجیدہ گفتگو کے بعد مجلس میں خاموشی چھاگئی۔ بابوجی بھی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ سب کی توجہ بابوجی کے ردعمل کی طرف تھی کہ مولانا کی اس حقیقت پسندانہ بات کا وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ سبھی رفقاء کو یہ احساس تھا کہ یہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ بہرحال کوئی بھی فیصلہ نہایت سنجیدگی اور سوچ سمجھ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ابھی مجلس پر خاموشی طاری تھی کہ بابوجی نے بآواز بلند أشہدأن لاالہ الا اللہ وأشہد أن محمدا رسول اللہ پڑھ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
بابوجی کے کلمہ شہادت ادا کرتے ہی خود بخود سبھی رفقاء کے ہاتھ رب کریم کے سامنے دعا کے لیے اٹھ گئے اور سبھی لوگ نم آنکھوں سے رب کریم سے قبولیت اور استقامت کے لیے دعا کرنے لگے۔ دعا کے بعد سبھی رفقاء پر جوش انداز میں بابوجی سے گلے ملے۔ رفقاء اس مبارک خوشی پر پھولے نہیں سما رہے تھے کہ رب رحیم نے انہیں اس نورانی مجلس میں شرکت کی سعادت نصیب فرمائی۔ ہمیں یقین تھا کہ اللہ کے فرشتے بھی اس مجلس میں موجود ہیں اور وہ بھی اس موقع پر مبارک باد دے رہے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد مٹھائی بھی آگئی اور سبھی لوگوں نے خوشی کے اس موقع پر اپنا منہ میٹھا کیا، اس امید اور دعا کے ساتھ کہ رب کریم ہم سب کو جنت میں حقیقی خوشی عنایت فرمائے گا۔بابوجی کا اسلامی نام بھی تجویز کیا گیا۔ یہ مرحلہ مولانا مرحوم کی دعوتی تڑپ، ان کی دوراندیشی اور حکمت کی وجہ سے بحسن وخوبی مکمل ہوا۔آئندہ دنوں میں اس کے فوائد اور حکمتیں بھی سامنے آتی گئیں۔
کچھ دیر کے بعد مجلس برخاست ہوگئی اور بابوجی بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن جو بابوجی مجلس میں شرکت کے لیے آئے تھے اس سے واپس جاتے وقت اب وہ نہیں تھے۔اب وہ صاحب ایمان ہوچکے تھے۔
ایمان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔جب وہ دل میں جاں گزیں ہوجاتا ہے تو پھر اس کا نشہ کوئی ترشی نہیں اتار سکتی۔ کسی فرعون کی سولی پر چڑھا دینے اور ہاتھ پیروں کو مخالف سمتوں سے کاٹ دینے کی دھمکی اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہی کرتی ہے۔ تپتی ہوئی ریت پر لٹاکر سینے پر پتھر رکھ دینے کے بعد بھی اس کی زبان سے ’احد‘ ’احد‘ ہی نکلتا ہے۔ دل میں ایمان کی خوشبو رچ بس جانے کے بعد پھر وہ چھپی نہیں رہ پاتی چاہے اسے چھپانے کی کتنی ہی کوشش کی جائے ۔ وہ تو ماحول کو معطر کرکے رہتی ہے۔ یہی معاملہ بابوجی کے ساتھ پیش آیا۔ ایمان لانے اور کلمہ شہادت ادا کرنے سے قبل وہ طرح طرح کے اندیشوں اور خوف کا شکار تھے، لیکن ایمان کی دولت سے سرفراز ہونے کے بعد ان کی حالت اور ان کا حو صلہ دیکھنے کے لائق تھا۔ اب سارے اندیشے اس طرح کافور ہوگئے جس طرح چراغ جلتے ہی تاریکیاں اپنا راستہ لے لیتی ہیں۔ قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آئی اور مؤذن نے اہل ایمان کو نماز کے لیے پکارا تو بابوجی کے ایمان نے ان کو ابھارا کہ تم ابھی کلمہ شہادت ادا کرکے آئے ہو۔ تم نے ایک خدائے واحد کی بندگی اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کی گواہی دی ہے اور عہد کیا ہے۔ تم اس قادر مطلق خدا پر ایمان لاتے ہو جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہلتا۔ پوری دنیا مل کر تمہیں نقصان پہچانا چاہے تو خدا کی مرضی کے بغیر تمہیں ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر اس کی اطاعت وفرماں برداری کی پاداش میں تمہیں کوئی دنیاوی گزند پہنچے تو کیا تم اپنے رب کے راستے پر چلنے سے رک جاؤگے۔۔ کیا دنیاوی امور میں انسانوں کو تکلیفوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟ اب تو تمہیں آخرت کے نفع کو سامنے رکھنا ہے، دنیا کے نہیں۔ تمہیں اپنا اوڑھنا بچھونا اپنے پروردگار خدا کی مرضی کو بنانا ہے۔ اب تمہیں قرآن کی اس ہدایت پر عمل کرنا ہے کہ ’’میری نماز وقربانی، میری زندگی اور موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
بابوجی مسجد جاکر نماز ادا کرنے کے لئے بے قرار ہوگئے، اوراللھم لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے مسجد کی طرف لپکے، اور وہاں پہنچ کر با جماعت نماز ادا کی۔ نماز کے بعد انہوں نے عزم کیا کہ اب وہ خدا اور اس کے رسولؐ کی ہدایت کے مطابق ہی زندگی بسر کریں گے۔ انہوں نے اللہ سے خوب گڑگڑا گڑگڑاکر استقامت ، توفیق اور اس کی رحمت ومغفرت کے لیے دعا کی۔ آج وہ ایسا محسوس کررہے تھے کہ گویا آج ہی ان کا جنم ہوا ہے۔ (بقیہ آئندہ شمارے میں)
نسیم احمد غازی فلاحی،سکریٹری اسلامک ساہتیہ ٹرسٹ۔ نئی دہلی
“میں بھی حاضر تھا وہاں”
ایک چھوٹی سی کوٹھری (کمرہ)۔ اس میں چند مقامی رفقاء، مرکز جماعت کے ایک ذمہ دار اور خود میں بھی موجود۔ یہ سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں موجود ہے ایک ایسا غیر مسلم شخص جس…