میوچول فنڈز میں سرمایہ کاری :قسمیں ،طریقے اور حلال میوچول فنڈ (دوسری قسط)

شہباز عالم ندوی
مارچ 2025

ہندوستانی مسلمانوں میں بچت کا رجحان عمومی طور پر کم ہی دیکھنے ملتا ہے، کیوں کہ بچت ،سرمایہ کاری اور پھر اس سرمایہ کاری کے ذریعے پیسے کمانے کی جانب  ہمارا ذہن کم ہی متوجہ ہوتا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں میں بچت کا رجحان عمومی طور پر کم ہی دیکھنے ملتا ہے، کیوں کہ بچت ،سرمایہ کاری اور پھر اس سرمایہ کاری کے ذریعے پیسے کمانے کی جانب  ہمارا ذہن کم ہی متوجہ ہوتا ہے۔ اگرکوئی بچت کرتا بھی ہے تووہ بینک ڈپازٹ یاایف ڈی سے آگے نہیں بڑھ پاتا یا زیادہ سے زیادہ ہماری سوچ کی رسائی ماہانہ کمیٹی تک ہی‌ہوپاتی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ایجوکیشن سسٹم میں ثانوی سے لے کر اعلیٰ ثانوی کلاسز تک ’پرسنل فائنانس‘ بچت، سرمایہ کاری، انویسٹمنٹ، مالیاتی مسائل، معاشیات، اسلامی بینکنگ وغیرہ کی بنیادی تعلیم نہیں دی جاتی۔ جبکہ آج کے دور میں پیسے انویسٹ کرنا، مارکیٹ میں اپنا پیسہ لگانا ، مستقبل کے لئے فائنانشیل بیک اپ تیار کرنا بہت ضروری ہوگیاہے۔ خاص طور پر ہم مسلمانوں کے لئے جن کے درمیان بچت کی شرح (سیونگ ریشیو) بہت ہی کم ، بلکہ نہ کے برابر ہے ۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم مستقبل کی کسی ضرورت، حادثات، تعلیم، کاروبار یا اور بھی دیگر حاجتوں کے لئے شروع سے ہی پیسے بچت کرنے کی عادت ڈالیں، پیسے کو مارکیٹ میں لگائیں یا کاروبار کریں۔ عام طور پر لوگ مستقبل میں بچوں کی اعلیٰ تعلیم، شادیوں اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے کےلیے بچت کے ذریعے طویل المیعاد بنیادوں پر سرمایہ کاری کرناچاہتے ہیں۔ لہذا جس شخص کے پاس سرمایہ ہو،وہ اس دولت کو کاروبار میں لگائے اور اس میں اضافے کے لیے محنت کرے۔ دولت کو ایسے ہی نہ رکھے کہ اسےاخراجات ختم کر دیں۔ ویسے بھی رکھی ہوئی دولت ضائع یا چوری ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ لہذا پیسوں کی بچت، اس میں اضافےاور اسے مناسب طور پر خرچ کرنے کے حوالے سے ابتداء ہی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔

 پیسے بچانے اور محفوظ کرنے کی سب سے اچھی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ پیسے کو بینک یا کہیں اور جمع کرتے ہوئے احتکار یا ادخار کرکے رکھنے کے بجائے اسےمارکیٹ میں لگائیں، کاروبار کریں یا سرمایہ کاری کریں۔ یعنی مارکیٹ میں پیسے کو کسی نہ کسی صورت میں سرکیولیٹ کریں۔ روایتی ( کنوینشنل) بینک میں ایف ڈی(FD) کی صورت میں جمع کیا ہوا پیسہ زیادہ نہیں بڑھے گا، اگر بڑھے گا بھی تو ہمارے لیے اس کا فائدہ(سود)استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس اکاؤنٹ سےہم صرف اپنی اصل رقم ہی وصول کرسکتے ہیں۔ پیسہ یوں ہی جمع کرکے رکھنے کی صورت میں اس کا کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا بلکہ احتکار اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہم گناہ گار ہوں گے۔

فی الوقت پیسے میں گراوٹ(افراط زر) کی شرح ( یعنی انفلیشن ریٹ ) چھ فیصد  یا اس سے زائد ہے ۔ مارکیٹ میں پیسہ لگانے کی صورت میں پیسہ بڑھے گا بھی، انفلیشن سے بھی بچ جائیں گے اور پیسہ مارکیٹ میں گردش میں ہونے کی صورت میں دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے ۔نیز یہ کہ مارکیٹ یا حلال کاروبار میں سرمایہ کاری سے جو نفع ملے گا وہ جائز اور حلال بھی ہوگا۔لہذا مال کو جمع کرکے رکھنااوراسے کاروبار میں نہ لگانا گرچہ دولت کے ضیاع میں شامل نہیں کیا جاتا البتہ یہ دولت کو ناکارہ بنانے میں ضرور شامل ہو گا۔ اس لئے کہ دولت کو کاروبار میں لگانے سے جو فوائد صاحبِ دولت کو اور دوسروں کو حاصل ہوسکتے تھے وہ حاصل نہ ہو سکیں گے۔ پس سرمایہ کاری سے عمومی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور پیسے کو روک کر رکھنے سے معاشرہ ان فوائد سے محروم ہو جاتا

ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ فرضِ زکاۃ کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کی بنا پر کم ہوتا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہوسکتا کہ سرمایہ کاری کہاں کریں؟

سرمایہ کاری سے مراد یہ ہے کہ ہمارا سرمایہ ہمارے لئے ذریعہ آمدنی بن جائے اور مستقبل میں سرمایے کی افزائش (بڑھوتری ) ہو۔ اس سے ہمیں دو فائدےحاصل ہوں گے :ایک دولت میں اضافہ ہوگا اور دوسرا دولت محفوظ بھی رہے گی۔

اس لئے اگر کسی کاروبار کے بارے میں معلومات اورتجربہ ہو تو چاہیے کہ پیسوں سے کوئی تجارت یا کاروبار کرلیا جائے۔ سرمائے سے پیسے کمانے اور پیسے بچانے کی دوسری صورت یہ ہے کہ پیسے کو مارکیٹ میں سرکولیٹ کردیاجائے،یعنی پیسے کو مارکٹ میں لگادیں ۔ اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کریں ،حلال شیئرز خرید کر اسٹاک مارکیٹ میں پیسے لگادیں،حلال میوچل فنڈز میں انویسٹ کردیں(جو ہمارے لئے ایک محفوظ شکل ہے) یا پھراسلامی بانڈز کی خریدوفروخت کی صورت میں سرمایہ کاری کریں۔

 سرمایہ کاری کا مقصد انویسٹ کیے ہوئے پیسوں پر منافع کمانا ہوتا ہے۔ لہذان تمام صورتوں میں اگر وقت، صلاحیت اور مہارت موجود ہے تو یا خود سے انویسٹمنٹ کریں یعنی خود سے شیئرز اور اسلامی بانڈز خریدیں اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کریں ۔اگر ہم خود سے مارکٹ میں پیسے انویسٹ نہیں کرسکتے یا وہ استعداد نہیں رکھتے کہ کسی کمپنی کے شیئرزخرید سکیں اور اس سے پیسے کما سکیں تو الحمد للہ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسے حلال متبادل موجود ہے جہاں ہم اپنے پیسے لگا سکتے ہیں اور حلال کمپنیوں میں انویسٹ کرکے جائز طریقے سے منافع کما سکتے ہیں۔اس کے علاوہ پیسے انویسٹ کرکے حلال ذرائع سے پیسہ کمانے کا  زیادہ اچھا اور محفوظ طریقہ حلال میوچل فنڈز ہے۔

میوچول فنڈکسے کہتے ہیں؟

میوچول فنڈ سرمایہ کاری کا ایک اہم ذریعہ ہے جس میں لاکھوں لوگ ایک مشترکہ فنڈ میں سرمایہ لگاتے ہیں اور ہر سرمایہ کار کو اس کے اپنے سرمائے پر اس کے سرمائے کی شرح سے نفع ملتا ہے۔ میوچول فنڈ خود کوئی پیداواری کام انجام نہیں دیتا بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے سرمایہ کاروں کے سرمایے کو جمع کر کے ان کی رقم سے مختلف کمپنیوں کے شیئرز خریدتا ہے یا یوں کہیے کہ میوچول فنڈز عموماً بچت کرنے والے افراد یا اداروں اور کمپنیوں کے درمیان ایک واسطہ کے طور پر کام کرتا ہے۔

میوچول فنڈ کی سرمایہ کاری کا عمل منی منیجرز یا فنڈ منیجر ز کے زیرِ انتظام انجام پاتا ہے۔میوچول فنڈز کو ایسیٹ مینجمنٹ کمپنیز کے ذریعے چلایا جاتا ہے اسی طرح فنڈ بطور ٹرسٹ قائم کیا جاتا ہے جس کا ایک خود مختار ٹرسٹی ہوتا ہے جسے ٹرسٹ کے اثاثوں کی نگہبانی کرنی ہوتی ہے۔

 مثال کے طور پر مختلف قسم کی ایسیٹ منیجمنٹ کمپنیاں ہیں جو اسکیمیں جاری کرتی ہیں ، پھر اس اسکیم کے تحت مختلف قسم کے حصص فروخت کیے جاتے ہیں اور وہ بہت سارے سرمایہ کاروں سے پیسے جمع کرکے سرمایہ کاری کے مختلف آلات، تمسکات ، شیئرز اورپورٹ فولیو میں لگاتے ہیں۔ سرمایہ کار اس میں اپنی سرمایہ کاری کی رقم کے مطابق میوچول فنڈز کے یونٹس حاصل کرتے ہیں ، جہاں ہر یونٹ فنڈ کی قدر کا ایک حصہ ہوتا ہے اور سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا منافع ان کے یونٹس کی قیمت میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ اس کی حیثیت اور کیفیت بالکل شیئر سرٹیفیکیٹ کی طرح ہوتی ہے جہاں ہر یونٹ فنڈ کی قدر کا ایک حصہ ہوتا ہے، جو بھی یہ یونٹس خریدے گا اس رقم کے بقدر اس کا حصہ دار ہو جائے گا۔ جس سے ان کے حصہ داروں کو متعدد ایسے منافع حاصل ہوتے ہیں جو انہیں انفرادی طور پر تنہا سرمایہ کاری کرنے میں حاصل نہیں ہو سکتے۔

میوچول فنڈز میں سرمایہ کاری کرنے کے فوائد

میوچول فنڈز میں انویسٹ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اوسط درجے کا عام آدمی جس کی کمائی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ مختلف قسم کے شیئرز کو اپنی معمولی کمائی سے خرید سکے، اگر وہ میوچول فنڈز میں سرمایہ کاری کرنے سے دلچسپی رکھتا ہے، تو بآسانی اسٹاک مارکیٹ میں داخل ہوسکتا ہے کیونکہ میوچول فنڈز میں شامل ہونے سے وہ فنڈز کے مجموعی پورٹ فولیوز میں شامل ہو کر فنڈ کےاس پورے اثاثے میں حصہ دار بن جاتا ہے۔

اسی طرح یہ سہولت بھی اس فنڈ میں موجود ہے کہ آپ جب اورجس وقت چاہیں اپنے پیسے اس فنڈ سے نکال (withdraw)سکتے ہیں۔ سرمایہ دار کے پاس لاگ اِن آئی ڈی اور پاس ورڈ ہوتا ہے ،جس کے ذریعہ ای میلز، نوٹیفیکیشن اور میسیجزو دیگر اس تک پہنچتے ہیں، جس سے وہ ان کی نگرانی اور مناسب اقدامات کرسکتا ہے۔میوچول فنڈ میں سرمایہ کار کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنے پیسے نکال لے۔ پورے سرمائے کو نکالنے کے علاوہ یہ سہولت بھی میسر ہے کہ سرمایہ کار پارشل اماؤنٹ (تھوڑے پیسے) نکالنا چاہتا ہو تو بھی نکال سکتا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ ہر سرمایہ کار اور بچت کار کو تجزیاتی بصیرت حاصل ہو اور اسٹاک مارکیٹ کے سلسلے میں جان کاری یاتکنیکی معلومات رکھتاہو۔ عام انسان کو اس حوالے سے کئی باتوں کا علم نہیں ہوتا جیسے وہ کن کمپنیوں/انڈسٹری یا سیکٹر میں رقم لگائے ،کس میں نا لگائے ، کمپنیوں کی حالت کتنی کمزور یا مضبوط ہے، ان کی گروتھ ریٹ گر رہی یا بڑھ رہی ہے، سالانہ رپورٹ کے مطابق کون سی کمپنی کامیاب اور کون سی ڈاؤن یا ناکام ہے، شیئرز کی کیفیت اور کمیت کیا ہے، کسی کمپنی کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور آئندہ کیا ہوگی وغیرہ ۔ سب سے زیادہ ضروری یہ کہ ایک عام آدمی جو حلال طریقے سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے حلال کمائی چاہتا ہے اسے نہیں معلوم کہ کون سا اسٹاک یا کمپنی حلال ہے یا کون سی کمپنی شریعہ کمپلائنس ہے اور کون سی کمپنی حلال اور شریعہ کمپلائنس نہیں ہے۔ کیونکہ  جب ہم کسی کمپنی میں انویسٹ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کمپنی کے بارے میں یہ معلومات فراہم نہیں کی جاتی کہ یہ کمپنی حلال ہے یا حرام ہے ۔ حلال اور حرام کمپنیوں کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں دوسرے ویب سائٹس اور اسکینرزکا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ سب چیزیں تکنیکی نوعیت کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تنہا سرمایہ کاری کرنے میں ایک عام آدمی کو کئی ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ میوچول فنڈز نے سرمایہ کار کو ان تمام پریشانیوں سے نجات دے دی ہے، اسی لئے عام لوگوں کے لیے میوچول فنڈ ایک اطمینان بخش اور قابل اعتماد راستہ سمجھا جاتا ہے۔

حلال میوچول فنڈ

اس وقت انڈیا میں دو ہزار سے زیادہ میوچل فنڈز مارکٹ میں موجود ہیں ، ان میں سے میری معلومات کی حد تک صرف چار ایسے میوچل فنڈز ہیں جو حلال ہیں اور سرٹیفائیڈ/ شریعہ کمپلائنس ہے۔

جب تک کوئی فنڈ شرعی طور پر سرٹیفائیڈ نہ ہو تب تک وہ شریعہ کمپلائنس نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ کمپنیوں کے شیئرز ہوں یا میوچل فنڈز یا کوئی اور طریقے ان تمام میں سرمایہ کاری اسی شرط پر جائز ہوگی جب وہ شریعت کے طے کردہ اصول و ضوابط اور شرائط پر پوری طرح اترتے ہوں ۔ جو کمپنیاں بھی ان شرائط پر پورا اتریں گی، ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری جائز ہوگی اور جو کمپنیاں بھی ان شرائط کا اتباع نہیں کریں گی، ظاہر ہے ان کمپنیوں میں انویسٹمنٹ جائز نہیں ہوگا۔

انڈیا میں بھی کچھ ایسیٹ مینجمنٹ کمپنیاں ایسی ہیں جنہوں نے شرعیہ کمپلائنس فنڈز متعارف کروایا ہے، جن میں ٹاٹا ایتھیکل فنڈ، تورس ایتھیکل فنڈ، کوانٹم ایتھیکل فنڈ شامل ہیں ۔ یہ تمام ایتھیکل فنڈس ایک حلال متبادل کےطور پر ہمارے پاس موجود ہیں ، جو شریعہ کمپلائنس ہونے کے ساتھ صرف حلال کمپنیوں ہی میں ہمارے پیسے کو لگاتی اور وہیں سے منافع جنریٹ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پرٹاٹا ایسٹ مینجمنٹ کے ذریعے قائم کردہ ٹاٹا میچول فنڈ کمپنی نے “ٹاٹا ایتھیکل فنڈ”کے نام سے ایک شریعہ کمپلائنس میوچول فنڈ 28سال پہلے لانچ کیا تھا۔اسی طرح تورس ایتھیکل فنڈ ہے جس کا ریگولر پلان 2009ء  میں لانچ ہوا تھا ۔یہ تمام فنڈز بطور خاص طور مسلمانوں کو پیش نظر رکھ کر ہی لانچ کیے گئے ہیں، لیکن اکثر لوگوں کو اس فنڈ کے بارے میں معلومات بھی نہیں ہے۔  

اب سوال یہ پیدا  ہوتا ہے کہ ہم کیسے سمجھیں کہ کوئی فنڈ حلال ہے اور شریعہ کمپلائنس ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چاروں ایتھیکل فنڈزکسی نہ کسی شریعہ ایڈوائزری بورڈ سے سرٹیفائیڈ ہے اور وہی بورڈ نے انہیں  شریعہ کمپلائنس میوچل فنڈ کے طور پر متعارف کرایا ہے ۔

تاسیس شریعہ ایڈوائزری بورڈ اور شریعہ کیپ ادارہ کیا ہے؟

تاسیس شریعہ ایڈوائزری ایک ایڈوائزری ادارہ ہے جس کے پاس اسلامی مالیات اور معاملات میں مہارت رکھنے والے افراد بھی ہیں اور ٹیکنیکل ٹیم بھی موجود ہے جو شرعی اصولوں کے مطابق مالیاتی حل تلاش کرنے والے گاہکوں اور کلائنٹس کو مالی اور معاملاتی رہنمائی نیزمشاورتی خدمات (کنسلٹنسی)فراہم کرتی ہے۔ اس کا بنیادی مشن اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کلائنٹس یعنی لوگوں کےکے مالیاتی فیصلے اور لین دین اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں اور کسی بھی ممنوعہ عناصر (حرام) ، جیسے سود (ربا) اور ناجائز استحصال وغیرہ سے پاک ہوں۔تاسیس شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے ایڈوائزری کاونسل میں مولانا خالد سیف اللہ صاحب ، مفتی برکت اللہ صاحب قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔

شریعہ کیپ ادارہ ایک شریعہ ایڈوائزری کمپنی ہے جس میں اسلامی معاشیات اور مالیات کے شریعہ اسکالرز اور ٹیکنیکل ٹیم موجود ہے۔ ان میں ماہر معاشیات ڈاکٹر شارق صاحب اور مفتی یحیی صاحب وغیرہ موجود ہیں ۔یہ ٹیم کسی بھی فنڈ کی ایک ایک سرگرمی کو دیکھتی اور پرکھتی ہے نیز اس کے کمپلائنسی(Compliancy) کو ذمہ دار ی کے ساتھ چیک اور آڈٹ کرتی ہے۔

 

(مضمون نگار اسلامک فائنانس کے شریعہ اسکالر ہیں)

[email protected]

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں