عبد الباری مسعود
”تعلیم ایسی ہو کہ جو ذہن کو توہم پرستی،منافرت اور تشدد سے پاک کرے، وہ قومی یکجہتی، سماجی ہم آہنگی، نیز مذہبی رواداری کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہو۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ افراد اور معاشرے میں اخلاقی، تہذیبی اورانسانی اقدار کو پروان چڑھایا جائے“۔
یہ الفاظ بی جے پی کے انتخابی منشور کے ہیں۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ حکمراں جماعت بی جے پی کی لغت میں کچھ اورہی مفہوم رکھتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصہ میں سب کچھ اس کے برعکس ہوتا آیا اور ہورہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت نے 2014کے عام انتخابات میں اقتدار میں آنے کی غرض سے لمبے چوڑے اور بڑے بڑ ے دلفریب وعدے کئے تھے۔’اچھے دنوں‘ کا خواب دکھایا تھا۔ ’اچھے‘ دن تو کیا آتے، جو دن تھے وہ بھی ’برے‘ ہوگئے۔
اس حوالہ سے سب سے پہلے ہم شعبہ تعلیم کا جائزہ لیں گے۔بی جے پی نے انتخابی منشور میں تعلیم کے متعلق جووعدہ کیا تھا وہ بھی دیگر دعودں کی طرح محض ’جملہ‘ ثابت ہوا ہے بلکہ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے زیادہ نشانہ جامعات، اور اعلی تعلیمی اداروں کو ہی بنایا۔موجودہ حکومت نے نہ صرف تعلیم کا بجٹ مسلسل کم کیا بلکہ اعلی اور پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کی خود مختاری پر بھی حملہ کیا اور اسے اپنے فرقہ پرستانہ نظریہ پر استوار کرنے اور’اپنے‘ آدمیوں کے ذریعہ انہیں کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی۔سابقہ یو پی اے حکومت کے آخری سال یعنی2013-14میں تعلیم کے لیے سالانہ بجٹ میں 4.77فیصد رقم مختص تھی۔ مودی حکومت کے پہلے سال کے بجٹ یعنی 2014-15 میں یہ4.61فیصدکردیا گیا۔اس کے بعد2015-16میں 3.89فیصداور 2016-17میں 3.66فیصد، اور سال 2017-18میں تعلیمی بجٹ3.71فیصد اور رواں مالی سال 2018-19میں یہ 3.48فیصد ہے۔ مستقل مطالبات کے باوجود تعلیم کا بجٹ قومی مجموعی پیداوار(جی ڈی پی) کا 3تا4 فیصد کبھی نہیں کیا گیا۔ وہ ہمیشہ ایک فی صد سے کم رہا۔ رواں سال کا تعلیمی بجٹ توجی ڈی پی کا محض 0.45فی صد ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ حکومت ’منوسمرتی‘ کی تعلیمات کے تحت تعلیم کو عام آدمی کی دسترس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔وہ تعلیمی میدان کو نجی ہاتھوں (Private Sector)میں دینے کے لیے ہرممکن قدم اٹھا رہی ہے۔اعلی تعلیم اور تعلیمی ادارے بھی زعفران کاری سے محفوظ نہیں ہیں۔انڈیاکی تاریخ کو براہمنی اساطیری کہانیوں (Upper Cast Mythology)میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مودی حکومت وعدوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے جن میں ہر سال دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ تھا مگراب تک حکومت صرف ایک لاکھ 50ہزار روزگار فراہم کرسکی ہے۔ ستم ظریفیچ یہ ہے کہ وزیراعظم تعلیم یافتہ نوجوانوں کوپکوڑابیچنے اور چھوٹاموٹاکام کرنے کامشورہ دیتے ہیں۔سَو(100) اسمارٹ سٹی بنانے کا اعلان چلاّ چلاّکرکیا گیا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی تاحال کاغذ ہی کی زینت بنا ہواہے۔ یہ وعدہ تھا کہ سال 2022 تک 2کروڑ مکانات تعمیر کئے جائیں گے مگر اب تک فقط 855 مکانات تعمیر ہوئے۔ اگر اسی رفتار سے مکانات کی تعمیر ہوتی رہی تو مذکورہ ہدف پورا کرنے میں 700 برس لگ جائیں گے۔ ستمبر میں حکمراں جماعت کی مجلس عاملہ نے ایک قرارداد پاس کرکے اس وعدہ کااعادہ کیا کہ سال2022 تک سب کو مکان فراہم کیے جائیں گے۔
اسٹار ٹ اپ انڈیا) (Start Up India کے تحت نوجوانوں کو کاروبار شروع کرنے کی غرض سے10 ہزارکروڑ روپئے مالیت کے قرض دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگر یہ بیل بھی ٹھیک سے مونڈھے نہیں چڑھی ہے۔کہا گیا تھا کہ ڈیجیٹل انڈیاپروگرام کے تحت دو لاکھ دیہاتوں میں یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔ لیکن اب تک صرف 16,000 دیہاتوں کو کنیکٹ کیا جاسکا ہے۔ حکومت نے ہر گاؤں تک بجلی پہنچانے،بیت الخلا ء بنانے،غریبوں کی مدد کرنے،مختلف طرح کی اسکیموں کے ذریعہ قرض دینے کااعلان کررکھاہے لیکن یہ سب کاغذ پر ہیں۔ چالیس فیصد لوگوں کے پاس رہنے کیلئے مکان نہیں ہے،کسانوں اور مختلف طرح کے تاجروں کو کسی طرح کا قرض نہیں مل سکاہے،ہر گھنٹے میں ایک کسان خود کشی کرتاہے۔کسی کے اکاؤنٹ میں دوروپئے توکسی کے اکاؤنٹ میں سترروپے جمع ہوئے ہیں۔تحفظ خواتین کے تحت’بیٹی پڑھاؤ،بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ حکومت نے لگایاتھا لیکن رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہندوستان میں ہر تین منٹ پر ایک خاتون کی عصمت دری ہوتی ہے یا نابالغ بچیاں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔
غرض یہ کہ حکومت کی چار سالہ کارکردگی کو اگر ایک جملہ میں بیان کیا جائے تو اسے ’برے دن‘ یا ’برے خواب‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اہل ملک نے شاید ہی آزادی کے بعد ’ایسے برے دن‘کبھی دیکھے ہوں گے۔ اس کے باوجود 26 مئی کو اپنے اقتدار کے چار سال مکمل ہونے پر حکومت نے بڑے پیمانے پرجشن منایا اور اپنے ’کارناموں‘ اور ’کامیابیوں‘ سے اہل ملک کو روشناس کرایا۔اس کے لئے عوام کے گاڑھے پسینہ کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ آرٹی آئی سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق وزیر اعظم اور ان کی حکومت اس تشہیری مہم پر اب تک چارہزار تین سوتینتالیس کروڑچھبیس لاکھ (4,343.26) روپئے خرچ کر چکی ہے۔اس کے برخلاف گزشتہ چار سالوں میں بیواؤں اور بے کسوں کی پینشن یا ماہانہ وظیفہ میں ایک دھیلا کا بھی اضافہ نہیں کیاگیا۔
رضاکار تنظیم ’وعدہ نہ توڑو ابھیان‘ نے100 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی ہے جس میں حکومت کی ہر محاذ پر کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ”وزیراعظم کا ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ ایک کھوکھلا نعرہ ثابت ہوا۔’یہ چار سال لوگوں کا روزگارچھیننے، ان کی غذا اور لباس پر حملوں، فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے، اقتصادی اصلاحات کے عمل کو سست کرنے، آئینی اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے نیز خارجہ پالیسی کو امریکہ اور اسرائیل کا تابعدار بنانے وغیرہ سے عبارت ہیں“۔ رپورٹ میں کشمیر کے حالات کے لئے حکومت کی ’کوتاہ اندیش‘ پالیسیوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ کشمیر کے معاملہ میں اپنی پالیسیوں کے لئے انٹلی جنس کے سبکدوش افسروں اور آر ایس ایس کارکنوں پر انحصار کرتی ہے۔
عام لوگوں کے روزگار پر پہلے پانچ سو اور ہزار روپئے کے نوٹ منسوخ کرکے حملہ کیا گیا بعدازاں رہی سہی کسر جی ایس ٹی نے پوری کردی۔ اسی طرح ہرشعبہ میں بیرونی سرمایہ کاروں کو راست سرمایہ لگانے (Foreign Direct Investment)کی اجازت دی گئی۔ چھوٹے موٹے کاروبارمیں چارکروڑ سے زائد لوگوں کو روزگارملا ہوا ہے وہ اب جاتا رہے گا۔ کیونکہ کثیر قومی کمپنیوں جیسے والمارٹ (Walmart)کے لیے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔
اس حکومت میں امیر، امیر ترین ہوتے گئے۔ آکسفام کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں ملک کے اضافی وسائل اور آمدنی کا 73 فیصد حصہ فقط ایک فیصد امیروں کے قبضہ میں چلا گیا۔ ملک کی دولت ووسائل کی ایسی لوٹ کھسوٹ کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کالادھن واپس لانے کا نعرہ لگاکرسب کے کھاتوں میں فی کس 15لاکھ روپئے جمع کرنے کا جھانسہ دے کر اس حکومت نے سب سے زیادہ کالے دھن کو ملک سے باہر بھیجنے کاکام کیا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا سرکاری بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا خسارے کا شکارہے۔ چہیتے کارپوریٹ گھرانوں کا سکہ چل رہا ہے۔ کارپوریٹ مالکان نے 11 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے قرضے(بیشتر سرکاری ملکیت کے بینکوں سے) لے رکھے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک بشمول نیرو مودی، للت مودی اور وجئے مالیہ وغیرہ ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ ملک میں معاشی عدم تفاوت کے سائے گھنے ہوتے اور پھیلتے جارہے ہیں۔ اس معاملہ میں ہندوستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔
گائے، لَو جہاد اور اسی طرح کے بے اصل عنوانات کے تحت فرقہ وارانہ ماحول خراب کیا جارہا ہے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔حالانکہ یہ محض اصل مسائل کی طرف سے عوام کے توجہ کو ہٹانے کی ایک موثر حکمت عملی اور آزمودہ حربہ ہے۔گاؤ رکشک نام پر نجی دہشت گردانہ فوجیں تشکیل دی گئی ہیں، آتشیں اسلحہ کی کھلے عام نمائش کی جاتی ہے لیکن پولیس یا سلامتی ایجنسیوں کی کیا مجال ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالے۔ وہ الٹے انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی اور فسادات کے واقعات میں سنگین الزامات کے تحت سنگھ پریوار سے مبینہ تعلق رکھنے والے تمام ملزمین ایک بعد ایک جیلوں سے باہر آ گئے ہیں۔اوپر سے یہ سینہ زوری کہ کانگریس سے ’ہندتو دہشت گردی‘کا نام لینے کے لیے معافی کامطالبہ کیا جارہاہے۔
سرکاری رپورٹوں میں سوَچھ بھارت مہم کا بڑا شور ہے۔ مگر پورے ملک میں صاف پینے کا پانی اور صفائی کی صورت حال کچھ اور ہی تصویر پیش کرتی ہے۔ دیہی علاقوں کے لئے
(National Rural Drinking Water)قومی دیہی پینے کا پانی کے بجٹ میں زبردست کٹوتی کی گئی۔ سال 2014-15میں یہ بجٹ10,892کروڑ تھا جو2018-19 مالی سال میں 36 فیصد کم کرکے7,000 کروڑ کردیا گیا۔ عالمی آبی اشاریہ)ورلڈ واٹر انڈیکس (کے مطابق صاف پینے کے پانی کے معاملے میں انڈیا کا مقام 122واں ہے۔ پانی ہی سے سب سے زیادہ بیماریاں پھیلتی ہیں۔این ایس ایس او (National Sample Survey Organisation) کے سال 2015-16 میں کئے گئے ایک سروے کے بموجب سوچھ بھارت ابھیان کے تحت تعمیر کئے گئے ہر دس بیت الخلاؤں میں سے چھ میں پانی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
دلت اور قبائل (شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب) کے بجٹوں میں تخفیف کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ جو حکومت کی باز پرس کا اور اسے راہ راست پر قائم رکھنے کا موثر اور اولین ادارہ ہے، کو بڑی حد تک غیر موثر کردیا گیا ہے۔دسمبر2013 میں لوک پال او ر لوک آیُکت ایکٹ پاس کیا گیا۔ اور جنوری 2014 میں اسے نوٹیفائد بھی کردیا گیا لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔
اہل سیاست سے قطع نظر ایک عام آدمی کا بھی یہ احساس ہے کہ موجودہ حکومت نے انہیں سوائے دھوکہ اور فریب دینے کے کچھ نہیں دیا۔ملک کی بیشتر آبادی بالخصوص مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقات کی جان و مال اس حکومت میں محفوظ نہیں ہیں۔کیوں کہ یہ حکومت اپنے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔
ایک معمولی مویشی (گائے) کے نام پر پرتشدد اورمنصبوبہ بند جان لیوا حملے (ماب لنچنگ) ایک معمول بن گئے ہیں جن میں اب تک75 سے زائد معصوموں کی جانیں جاچکی ہیں۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ الٹے مظلوموں کو ’مجرم‘ بھی بنایا جاتا۔ ملک میں اب کہیں سفرکرتے ہوئے ڈر اور خو ف محسوس ہوتاہے۔ یہ دہشت پھیلانے والے کوئی اور نہیں بلکہ حکمراں گروہ سے وابستہ افراد ہیں جنہیں،ایسا معلوم ہوتا کہ قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری بھی خطرے میں ہے۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ایک ایسا منظر دیکھنے میں آیاکہ سپریم کورٹ کے چار سینئر جج صا حبان کو ایک پریس کانفرنس منعقد کرنی پڑی تاکہ کہ’اہل ملک کو آگاہ کیا جاسکے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے‘۔ علاوہ ازیں ججوں کی تقرری میں حکومت نے علانیہ ضابطہ کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس جوزف،جنہوں نے اتراکھنڈ میں صدرراج نفاذ کے فیصلہ کو الٹ دیا تھا انہیں اس جرات کی یہ سزا دی گئی کہ حکومت نے ان کا نام سپریم کورٹ کے جج کے لئے پہلے ہی نامنظور کردیا۔
اس حکومت پر راشٹر پتی بھون اور گورنر ہاؤس کا اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا بھی الزام ہے۔ اس کی درجنوں مثالیں ہیں۔ حکومت نے افسران کی بحالی کے لیے درجہ کے پیمانہ کو ختم کرکے علیحدہ سے ایک کوچنگ کا منصوبہ بنایا ہے۔ جس کے بعد کوچنگ میں حاصل شدہ نمبرات کی بنیاد پر آئی اے ایس اور دیگر زمروں کے افسران کی بحالی ہوگی۔اس مجوزہ قدم کا مقصد اس کے سوا اورکیا ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ میں آر ایس ایس نواز افسروں کی بھرتی کی جاسکے۔
ملک کے دوسرے بڑے مذہبی گروہ مسلمانوں کو ہر سطح پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ مسلم پرسنل لا کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے یو نیفارم سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا گیا۔ متنازع طلاق بل کسی قابل ذکر مسلم تنظیم سے رائے لئے بغیر لوک سبھا میں پاس کردیا گیا۔ چند خواتین کو برقع پہنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کہ ملک کی تمام مسلم خواتین مودی حکومت کے طلاق بل کی ہامی ہیں۔ تاہم مسلم خواتین نے ملک گیر سطح پرخاموش احتجای جلوس منعقد کرکے مودی حکومت کے اس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔ آرچ بشپ نے بھی تمام گرجا گھروں کو خط کر لکھ یہ واضح کردیاہے کہ واقعی ملک میں جمہوریت خطرے میں ہے، ملک کی سیکولر شناخت محفوظ نہیں ہے،ملک پر ایک خاص نظریے کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ملک کے اقلیتی طبقات بالخصوص مسلم طبقے کی فلاح بہبود کے نام پر اس حکومت نے کوئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دیا۔حالانکہ بی جے پی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی ترقی پر زور دے گی اب تک بجٹ میں اقلیتوں کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے اس کا فیصد محض0.21 ہے یعنی اقلیت کے فی فرد کے حصہ میں فقط 187 روپئے آتے ہیں۔ قومی اقلیتی کمیشن کا چیئر مین ایک ایسے شخص کو مقرر کیا گیا ہے جو محض آئی ٹی آئی پاس ہے۔ اس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک آئینی ادارہ کا سربراہ ہے۔وہ اپنے عہدہ کا چارج لینے کے بعد ہی حکمران جماعت کی زبان بولنے لگا ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے برخلاف حج کرایہ میں دی جانے والی رعایت اچانک ختم کردی گئی اور اس کا کوئی بدل بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں سے لے کر سول سوسائٹی کی تنظیموں تک سب ہی نے اس حکومت کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کے’کامیابی‘کے دعووں کی قلعی پوری طرح سے کھول دی ہے۔
حقائق تلخ ہیں۔ گذشتہ چار سالوں میں ہر محاذ پر ملک کو زوال کا سامنا کرناپڑاہے۔ کانگریس کے بقول اس حکومت نے عوام کے ساتھ ’دغابازی‘اور ’دروغ گوئی‘ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سی پی ایم یا مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتارام یچوری کی واضح رائے ہے کہ مودی حکومت کی چار سالہ کارکردگی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملک اور اس کے عوام کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ یہ دونوں اسی صورت میں محفوظ اور بہتر کیے جاسکتے ہیں جب اس حکومت کو چلتا کردیا جائے۔ خود بی جے پی کے قدآور رلیڈران جیسے یشونت سنہا اور ارون شوری، مودی اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ اب عام انتخابات میں محض چندماہ رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کی جماعت اب عوام کو دوبارہ بیوقوف بنانے کی جرات نہیں کرسکتی۔ اس لیے اندیشے یہ ہیں کہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی سازشیں کی جاسکتی ہیں۔ اس سلسلہ میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ تمام سیکولر جماعتوں کو اپنے جماعتی مفادات اور انا سے اوپر اٹھ کرایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں اس حکومت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔بصور ت دیگر وہ 2014 کے انتخابات کی طرح منتشر اپوزیشن کا پھر سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ وہ ملک کی اس وقت واحد جماعت ہے جس کے مادی، مالی اور انسانی وسائل کا کوئی دوسری جماعت سامنا نہیں کرسکتی۔ہندوستان جییے ملک میں جہاں ایک بڑی آبادی میں سیاسی شعور کا فقدان پایا جاتا ہے، الیکشن میں کامیابی میں مالی وسائل بڑے اہم رول ادا کرتے ہیں۔