ہندوستانی تاریخ، ہندوستانی آزادی ، ہندوستانی سیاست اور ہندوستانی سماج پر بات ہو اور ’فساد‘ کی بات نہ ہو، تو بات ادھوری رہ جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ نہرو جی نے ’unity in diversity‘ کی یا اقبال نے ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘ کی بات کی ہے، تاہم یہ باتیں تو کتابوں کی ہیں، اور جب کتاب پڑھنے کا دل کہے تو آپ اسے پڑھ لیا کریں، البتہ فسادات کی آگ بھڑکانے میں محبت کے نغموں کا بھلا کیا کام! محبت کی زبان تو انسانوں کے لیے ہے، اور آگ لگانے کے لیے محبت کی نہیں نفرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
آزادی کے بعد سے اب تک ملک کے سماجی اور سیاسی منظرنامہ میں کافی تبدیلی آئی ہے، لیکن ’فسادات کی روایت‘ اتنی اٹل ہے کہ بڑی بڑی تبدیلیوں سے بھی اس کے مزاج میں کوئی بدلاؤ نہیں آسکا، اور بدلاؤ آئے بھی کیسے؟ نفرت کی درسگاہوں سے تیار ہونے والے ’شیشو‘ محبت کی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں، لیکن اس میں غلطی ان ’شیشوؤں‘ کی نہیں ہے بلکہ ان کے اساتذہ کی ہوتی ہے، جو ان معصوم بچوں کے ذہن ودماغ میں زہر گھولنے کا کام انجام دیتے ہیں۔
بھارت میں ہزاروں کی تعداد میں پائے جانے والے ایسے اسکول لاکھوں بچوں کومذہبی تعلیم کے نام پر فرقہ واریت کا درس دیتے ہیں، اور یہ درس لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بودیتے ہیں، اور یہی بیج جب پودے کی شکل اختیار کرتے ہیں تو ملک میں بہت سارے ’وکاس پُرُش‘ جنم لیتے ہیں۔
دیش کے ایسے اساتذہ کو اپنے مذہب کے مذہب کی پیروی ضرور کرنی چاہئے جو تعلیم کے مذہب کی پیروی میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ کم سے کم ٹیچرس ڈے کے موقع پر ہی سہی دیش کے معزز اساتذہ کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ایک بہتر سماج کے لیے وہ کیسا ذہن تیار کرنا چاہتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب کوئی شخص فرقہ واریت کا حامل ہوتا ہے تو اپنے آس پاس کے سماج پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، اور جب کوئی استاذ فرقہ واریت کا حامل ہوتا ہے تو فرقہ پرست نسل تیار ہوتی ہے، اور یہی نسل جب سماج میں آتی ہے تو فرقہ پرست سماج بنتا ہے، اور جب یہی نسل سیاست میں قدم رکھتی ہے تو سیاست فرقہ پرستی کا شکار ہوجاتی ہے، اور جب یہی نسل مذہب کی مبلغ بنتی ہے تو مذہب فرقہ پرستی کا شکار ہوجاتا ہے، اور جب یہی نسل انتخابات میں جیت کر سرکار بناتی ہے تو ایک ’سیکولراسٹیٹ‘ میں ’فرقہ پرست سرکار‘ بنتی ہے۔ ۔۔ آگے آپ جانتے ہی ہوں گے، اب میں بابری مسجد یا رام مندر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا۔ اگر ان سبھی باتوں کو ایک جملے میں کہیں تو ’فرقہ وارانہ تعلیم فرقہ پرست نسل کو جنم دیتی ہے اور فرقہ پرست نسل فرقہ پرست سماج کی تشکیل کرتی ہے‘، اور یہ چیز کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے بہت ہی نقصاندہ ہے، جب کسی ملک میں فرقہ واریت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو ملک ترقی کے راستے پر نہیں بلکہ تباہی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔
فرقہ واریت کی سیاست کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ملک میں ہندو اور مسلمانوں کی لاشوں پر گندی سیاست کا ’دھندا‘ بند کریں۔ ملک میں بہت سارے دھندوں کے مواقع ہیں اور ان میں کسی کی جان لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔
ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقے سے میری گزارش ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے وہ اپنی سوچ اور سمجھ کا استعمال کریں۔
صحافیوں سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ فسادات کے بعد لاشوں اور جلتے گھروں پر ڈاکیومنٹری فلم بناکر اور ناول لکھ کر جو خوب کمائی کرتے ہیں اور فسادات کے دھندے اور مارکیٹنگ میں جانے انجانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں، وہ ایسے کام سے باز آجائیں اور اپنے قلم کا استعمال فسادات سے پہلے کریں تاکہ پرامن ماحول بنارہے۔
طلبہ اور نوجوانوں سے میں یہ کہوں گا کہ وہ ایسے نیتاؤں کی بات پر یقین کرنا بند کریں، جو اپنی زبان اور اپنے کردار سے کسی کا دل تو نہیں جیت پاتے، لیکن اپنی گندی سیاست، دولت اور قوت سے چناؤ ضرور جیت جاتے ہیں، اور ایسے ہی لوگ چناؤ کی جب قیادت کریں گے تو سماج میں فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا؟!
اپنے نوجوان دوستوں سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ ایسے وقت میں جب ملک میں فسادات کی آگ بھڑک رہی ہو، وہ اپنے اوپر قابو رکھیں اور اس کی روک تھام میں اپنی توانائی کا استعمال کریں۔ یہ جاننے کے بجائے کہ کتنے کس قوم کے لوگ مرے ، اس بات کی کوشش کریں کہ کسی بھی قوم کا کوئی فرد نہ مرسکے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو بے روزگاری میں بھی ہمارے ذریعہ ایسا کام ہوسکتا ہے جو ملک کے اتحاد کو مضبوطی فراہم کرے گا۔
فیس بک پر کمنٹ کرلینے اور نیتاؤں نیز سرکار کو کوس لینے سے ہی ہمارا فرض پورا نہیں ہوتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ہمیں فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، تاکہ ’’چناؤ کا موسم‘‘ ، ’’فسادات کا موسم‘‘ نہ بن جائے۔ ہمیں ہر ایسے فرقہ پرست چہرے کو بے نقاب کرنا ہوگا، جو مذہب، سیاست، سماجواد، نیز قومیت کے چہرے میں چھپے ہوئے ہیں اور ملک کے اتحاد اور سالمیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اور آخر میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی نیتاؤں کی شان میں بھی کچھ کہتا چلوں، ورنہ وہ خفا ہوجائیں گے کہ فسادات کا ذکر چھڑا اوران کا ذکر نہیں آیا۔
ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے وژن کے لیے جدوجہد کررہی ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’’وژن ۲۰۱۴‘‘ ہی ان کا وژن ہے، کہ اگلے لوک سبھا چناؤ میں کون کتنی سیٹیں حاصل کرسکے گا اور گھوٹالوں میں کس کی کتنی ساجھے داری ہوگی۔ البتہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا وژن یہ نہیں ہوتا کہ وہ غریبی، فاقہ کشی، اور فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے کچھ تدابیر اختیار کریں، اور شائد اسی لیے فسادات پر لگام لگانے میں یہ سبھی پارٹیاں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہ پارٹیاں دنیا بھر کی باتیں تو کرتی ہیں، لیکن وہ ’انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل‘ کی بات نہیں کرتیں کہ ان کا ووٹ بینک متأثر نہ ہوجائے اور فسادات سے ہونے والا فائدہ نقصان میں نہ تبدیل ہوجائے۔
خیر اب زیادہ کیا لکھوں، لکھنے اور بولنے سے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک پڑھنے اور سننے والوں پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے، ہر فساد کے بعد ایسے مضامین آتے رہیں گے اور پڑھنے والے یوں ہی پڑھتے رہیں گے۔۔۔
مسیح الزماں انصاری، نئی دہلی