ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، معروف اسلامی دانشور
ملت اسلامیہ کو آج کتنے مسائل درپیش ہیں، شائد کوئی بھی باشعور مسلم ان سے بے خبر نہیں ہوگا۔ آج دو، چار، چھ، آٹھ، دس مسائل نہیں، مسائل کا ایک انبار بلکہ مسائل کا ایک لشکر ہے، جو ہر طرف سے ملت پر حملہ آور ہے۔ آج ملت اسلامیہ سر سے پیر تک زخموں سے چور ہے۔ جسم ملت کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں سے لہو نہ رِس رہا ہو۔
یہ چیز ملت اسلامیہ ہند کے ساتھ خاص نہیں، دنیا کے جس کونے میں چلے جائیے، ملت اسلامیہ ستم رسیدہ اور پریشان حال ہی ملے گی۔ وہ ہر جگہ مسائل سے دوچار اور مسائل کے بوجھ تلے دبی اور سسکتی نظر آئے گی۔
سوال یہ ہے کہ ملت کی یہ حالت کیوں ہوگئی؟ وہ ملت جسے کبھی اس کے رب نے عزت واقبال مندی کے تخت وتاج عطا کئے تھے، اور قوموں کی امامت کے لیے اس کا انتخاب کیا تھا، وہ آج زبوں حالی کی اس انتہا کو کیوں پہنچ گئی؟
اس سوال کا جواب مختلف انداز سے دیا جاتا ہے، کوئی تو کہتا ہے کہ ملت کی یہ زبوں حالی تعلیمی میدان میں پسماندگی کا نتیجہ ہے۔ اس ملت کی ترقی کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھے۔ وہ اپنے نوجوانوں میں عصری تعلیم کے لیے ولولہ پیدا کرے، اور اس تعلیم کے لیے جو وسائل درکار ہیں، ان وسائل کی فراہمی کے لیے بھرپور جدوجہد کرے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ وسائل آئیں کہاں سے؟ حکومتیں چاہے اپنوں کی ہوں، یا غیروں کی، وہ ملت کے فرزندوں کو تعلیم سے بہت دور رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہتی ہیں کہ ملت کے اندر کوئی بیداری آئے۔ کیوں کہ ملت کی بیداری حکام کو کبھی راس نہیں آتی۔ ملت کا جو دولت مند طبقہ ہے اس سے بھی اس معاملہ میں کسی غیر معمولی تعاون کی امید نہیں کی جاسکتی۔ دولت مند طبقہ عموماََ علم سے بے بہرہ اور تعلیمی میدان سے دور ہوتا ہے۔ وہ بے چارہ کیا جانے کہ تعلیم کیا شئی ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ لہذا وہ کیوں کسی اسلامیہ کالج کے قیام، یا کسی اسلامی یونیورسٹی کی تاسیس کی ذمہ داری اپنے سر لے کر اپنے سکون کو بے کیف کرے!
ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی زبوں حالی نتیجہ ہے آپس کے افتراق وانتشار کا۔ اس زبوں حالی کا علاج یہ ہے کہ یہ ملت آپس کے اختلافات کو فراموش کرکے جسد واحد کی صورت اختیار کرلے۔ علماء آپس کے اختلافات کو بھول جائیں، ایک دوسرے کے لیے اپنے سینے کشادہ کرلیں۔
سیاسی لیڈر شخصی مصلحتوں سے بلند ہوکر، یا ذاتی رنجشوں کو فراموش کرکے مفاد عامہ کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوجائیں۔ اسی طرح ملت کے تمام گروہ یا تمام فرقے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونے کے بجائے ایک دوسرے کی خیرخواہی کا اصول اپنائیں۔
خواب تو یہ بہت ہی خوب ہے، مگر یہ خوبصورت خواب شرمندۂ تعبیر کیونکر ہوگا؟ وہ علماء جو خوف خدا سے عاری اور مال وزر کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں، جو فرزندان ملت کے اندر اختلافات کے بیج بوتے اور اس کے صلے میں ڈالرس کی گڈیوں اوروزارت یا صدارت کی کرسیوں سے سرفراز ہوتے ہیں، وہ بے چارے کیا جانیں کہ ملت کی زبوں حالی کیا بلا ہوتی ہے۔
وہ سیاسی لیڈر جو جھوٹ کے پل باندھ کر اور اپنے مخالفین کے خلاف جذبات کو بھڑکاکر قوم کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور پھر خوبصورت کاروں میں دوڑتے اور عالیشان بنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں، انہیں کیا پرواہ، اگر ملت زبوں حالی کا شکار ہوتی، اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رہتی ہے!
اور جب تک سیاسی رہنما اور گدی نشیں علماء آپس میں متحد نہیں ہوتے، ملک کے مختلف گروہوں اور فرقوں کے باہم متحد ہونے کا تصور ایک خوابِ پریشاں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
ایک تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آج ملت کا سب سے سنگین مسئلہ ایک زیرک، دوراندیش، اور بے لوث قیادت کا فقدان ہے۔ اِس قیادت کے نہ ہونے سے ملت زبردست زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس وقت ملت کی مثال اس یتیم کی سی ہے جو کسی سرپرست کی سرپرستی سے محروم ہو۔ اور ’’زندگی ایک عذاب ہے گویا‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قیادت آئے کہاں سے؟ قیادتیں کبھی آسمان سے نہیں ٹپکتی۔ اسی زمین پر پلتی بڑھتی اور اسی کی مٹی پانی سے نشوونما پاتی ہیں، اور وہ اپنے ماحول اور اپنی سوسائٹی کا عکس اور اس کی نمائندہ ہوتی ہیں۔ جس قسم کا ماحول ہوگا، اور جس سطح کی سوسائٹی ہوگی، اسی قسم اور اسی سطح کی قیادت وہاں پروان چڑھے گی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (کما تکونون یولی علیکم) جیسے تم ہوگے، ویسے ہی تمہارے امیر ہوں گے۔ ویسی ہی تمہاری قیادت ہوگی۔
قیادت ہمیشہ اپنی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوم کی سطح اور قیادت کی سطح میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
لہذا مسلم امت کے پاس اگر کوئی دوراندیش، بے لوث اور ہردلعزیز قیادت نہیں ہے، تو یہ اس کا اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ امت گراوٹ کی اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ وہ کسی جامع صفات اور ہردلعزیز قیادت کو جنم دینے سے عاجز ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قوموں کی قیادت کسی ایک فرد کا عمل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تربیت یافتہ اور بلند کردار افراد کی ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ فرض کرو، کوئی بہت ہی جینئس اور غیرمعمولی صلاحیتوں کا لیڈر موجود ہے، لیکن اسے کوئی ایسی ٹیم میسر نہیں ہے، جو اس کا دست وبازو بن سکے، تو وہ لیڈر اپنی تمام اعلی صفات اور غیرمعمولی صلاحیتوں کے باوجود قوم کی قیادت میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ حضرت موسیؑ کو دیکھو، ان کی اعلی قائدانہ صلاحیتوں سے کون انکار کرسکتا ہے، مگر وہ اپنی قوم بنی اسرائیل کے ہاتھوں بے بس ہوگئے، اور انہیں لے کر ارض مقدس میں داخل نہ ہوسکے، اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھی کہ انہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ٹیم میسر نہ آسکی۔ اگر انہیں صحابہ کرامؓ جیسی ٹیم میسر آگئی ہوتی تو وہ کبھی ناکامی کا سامنا نہ کرتے، وہ ارض مقدس میں دینِ اسلام کا پرچم لہرا کر دم لیتے۔
ایک چوتھا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آج ملت کا سب سے سنگین مسئلہ اس کا قحط الرجال ہے۔ آج ملت اسلامیہ بری طرح قحط الرجال کا شکار ہے۔ جس میدان اور جس فیلڈ میں دیکھو، باصلاحیت اور باکردار افراد نایاب ہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں مسجدیں ہیں، جو خدا ترس، ذی علم اور باکردار اماموں سے محروم ہیں،اور اپنی خاموش زبانوں سے اپنی کسمپرسی کی فریاد کررہی ہیں
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی!
آج سیکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں مدارس، معاہد، کالجز، اور یونیورسٹیاں ہیں، جو دردمند، فعال، اور معیاری اسٹاف سے خالی، اور باکردار اور باصلاحیت منتظمین سے محروم ہیں، اور ان کی اداس اور بے کیف فضاؤں میں اقبال کا یہ دردانگیز شعر گونج رہا ہے
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
بے شمار انجمنیں، تنظیمیں اور جماعتیں ہیں، جو دیانت دار، باصلاحیت، قابل اعتماد،اور بے لوث ذمہ داروں، سربراہوں اور کارکنوں سے محروم ہیں، اور وہ شاعرِ مشرق کے اس شعر کا مصداق ہیں
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی
اور مسلمانوں کی کتنی ہی سلطنتیں اور کتنی ہی ریاستیں ہیں، جو باکردار، باتدبیر، حوصلہ مند، اور خداترس وزراء وسلاطین سے محروم ہیں، اور وہ اپنی سیاسی ابتری ، معاشی ناہمواری اور اجتماعی زبوں حالی کی زبان سے فریاد کررہی ہیں
اذا کان الغراب رئیس قوم
فیھدیہم الی دارالبوار
(اگر کسی قوم کا سردار کوا ہوجائے، تو وہ انہیں ہلاکت کے خندق میں لے جائے گا۔)
اسی سے ملتی جلتی تصویر اقبال نے کھینچی ہے
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
آج عالم اسلام کے پاس دولت کی کمی نہیں، وسائل وذرائع کی کمی نہیں، اسلحے اور بارود کی کمی نہیں، پٹرول اور یورینیم کی کمی نہیں، کمی ہے تو بس راست باز، باعمل، اور قدآور شخصیتوں کی، مخلص، اولوالعزم، اور خوددار نوجوانوں کی، کمی نہیں بلکہ قحط ہے، روح کو لرزا دینے والا قحط!
مگر سوال یہ ہے کہ اس قحط کا سبب کیا ہے؟ اور اس کا علاج کیا ہے؟ یہ قحط دن بہ دن خوفناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے، مگر اس پر قابو پانے کی کوئی راہ نہیں نکل رہی ہے۔ ملت اسلامیہ آج حیرانی ودرماندگی کے دوراہے پر کھڑی ہے! اور پیچھے سے غالب کی درد بھری آواز کانوں میں گونج رہی ہے
درماندگی میں غالب کچھ بن پڑے تو جانوں
جب عقدہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا
ایک پانچواں نقطہ نظر یہ ہے کہ آج ملت کا سب سے سنگین مسئلہ وہ انتہاپسند غیرمسلم تنظیمیں ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں اندھی ہوچکی ہیں، اور رات دن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتی رہتی ہیں۔ وہ انتہاپسند تنظیمیں ہندوستان کی ہوں، یا امریکہ کی، یوروپ کی ہوں یا اسرائیل کی، وہ سب تنظیمیں اسلام کے لیے ایک زبردست خطرہ اور مسلمانوں کے لیے اس وقت کا سب سے سنگین مسئلہ ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو ان کے مقابلے کے لیے پوری تیاری کرنی چاہئے۔ اور جن ہتھیاروں سے وہ اسلام پر حملے کریں، انہیں ہتھیاروں سے مسلمان بھی ان پر حملے کریں، یا ان کے حملوں کا جواب دیں۔ گویا مسلمانوں کو اپنی تمام طاقتیں اور تمام توانائیاں دفاعی پوزیشن سنبھالنے اور دفاعی قوت کو مضبوط کرنے میں لگادینی چاہئیں۔
یہ ہے آج کا مسلم ذہن۔ آج کا مسلم ذہن ملی مسائل پر اسی انداز سے سوچتا ہے۔ یہ حالات کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اور یہ بالکل وہی انداز فکر ہے، جو دوسری اقوام کے یہاں پایا جاتا ہے۔ دوسری قومیں بھی جب اس طرح کے حالات سے دوچار ہوتی ہیں، جس طرح کے حالات سے اس وقت مسلم امت دوچار ہے، تو اس وقت اس کا اندازِ فکر بھی یہی ہوتا ہے۔ ان کی باتیں بھی اسی ڈھنگ کی ہوتی ہیں۔
تعلیمی پسماندگی، آپس کی نااتفاقی، لیڈرشپ کی نااہلی، دفاعی طاقت کی کمی، کام کرنے والے ہاتھوں یا سوچنے والے دماغوں کی کمیابی، یہ وہ باتیں ہیں جو ہرشکست خوردہ قوم یا ہر ہاری ہوئی پارٹی کے ایجنڈے میں شامل ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ہماری اور ہمارے انداز فکر کی خصوصیت کیا ہوئی؟
ایک چیز اور بھی قابل غور ہے، اوپر جن باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ کمزوری کے اسباب یا بیماری کی حالتیں ہیں، سوال یہ ہے کہ کمزوری کے یہ اسباب دور کیسے کیے جائیں؟یابیماری کی مختلف حالتوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟
مسلمان اگر تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں، تو ظاہر ہے انہیں اس پسماندگی کی حالت سے نکل کر تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا چاہئے۔ مگر اس حالت سے وہ نکلیں کیسے؟ملت کے نوجوان، جو مایوسی سے بالکل بجھ چکے ہیں، ان کے سینوں میں عزم وولولوں کی انگیٹھیاں کیسے دہکائی جائیں؟ راستے کی جو بے شمار رکاوٹیں ہیں، ان رکاوٹوں پر قابو کیسے پایا جائے؟
فرض کرو، معجزاتی طور پر ملت کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے اور تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کا ولولہ پیدا ہوجاتا ہے، حکومت وقت کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے لیے کچھ ہمدردی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں، اس طرح غیرمتوقع طور پر انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی تمام سہولتیں حاصل ہوجاتی ہیں، اور پھر ملت میں ایسے نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار ہوجاتی ہے، جو موجودہ سائنس اور جدید ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں، تو کیا خیال ہے؟کیا اس سے ملت کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ صد فیصد نہیں، کیا دو فیصد بھی اس کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ ملحدانہ ماحول میں، ملحد اور خدا بیزار استادوں اور پروفیسروں کی سرپرستی میں ملت کے جو ناپختہ نوجوان تربیت پائیں گے، وہ ملت کے مسائل حل نہیں کریں گے، بلکہ ملت کو نت نئے مسائل سے دوچار کریں گے۔
آج ملت جن بے شمار مسائل سے دوچار ہے، کیا ان میں سے سیکڑوں مسائل ان فرزندان ملت کے پیدا کردہ نہیں ہیں، جنہوں نے یہودی اور عیسائی ٹیچروں اور پروفیسروں کے زیرسایہ تعلیم حاصل کی ہے۔ اصل تعلیم کے ساتھ ساتھ ان سے الحاد اور بے دینی، بلکہ اسلام دشمنی کا بھی سبق لیا ہے۔ پھر وہ نوجوان ملت کے کام تو کیا آتے، وہ الٹے ملت اسلامیہ کے لیے دردسر بن گئے۔ وہ ملت کے لیے اپنے ان یہودی اور عیسائی استادوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے؟آج جو حکمراں اور جو جوسیاسی رہنما ملت اسلامیہ کے لیے عذابِ جان بنے ہوئے ہیں، خواہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے، یہ کہاں کے پڑھے ہوئے، اور کن گودوں کے پلے ہوئے ہیں؟
آہ! ان ملحدانہ اور خدا بیزار تعلیمی اداروں نے ہمارے کتنے ہونہار مسلم نوجوانوں کو ٹھکانے لگادیا، اور ملت اسلامیہ ان سے ہاتھ دھو بیٹھی، جبکہ وہ ان کی خداداد صلاحیتوں کی بے انتہا ضرورت مند تھی۔
اسی طرح ملت اگر زبردست انتشار کا شکار ہے، تو اس انتشار سے نکلنے کی کیا سبیل ہوگی؟
یہ تمنا تو بڑی مبارک تمنا ہے، کہ ساری ملت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوجائے، لیکن سوال یہ ہے کہ بہت سے وہ علماء اور وہ رہنما، اور بہت سے وہ لیڈر اور وہ نیتا جو اسی انتشار کے سہارے جی رہے ہیں، اور بہت شان کے ساتھ جی رہے ہیں، اور اگر ملت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوجائے، تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے، اور’’پھرتے ہیں میر خوارکوئی پوچھتا نہیں‘‘ کی دردناک تصویر بن جائیں گے۔اس طرح کے لوگوں کے لیے نعرہ اتحاد ملت میں کیا کشش ہے؟ وہ کیوں ملت کی بہبود کی خاطر اپنی بنی بنائی دنیا بگاڑنے لگے؟
اور جب یہ کھونٹے اپنی جگہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تو ملت کے یہ بے شمار خیمے ایک بڑے خیمے کی شکل میں کیونکر تبدیل ہوسکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے اتحاد ملت کے لیے کتنی کانفرنسیں ہوتی ہیں، کتنی تجویزیں پاس ہوتی ہیں، کتنی انجمنیں قائم ہوتی ہیں، لیکن سب بے سود ہوتی ہیں۔ ہر طلوع ہونے والی صبح ملت کو ایک نئے انتشار کا پیغام دیتی ہے۔ اور اتحاد ملت کی طرف بڑھنے والا ہر قدم ایک نئے افتراق کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
دردمندان ملت کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ ملت ایک بے لوث اور ہردلعزیز قیادت سے محروم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ صورت میں، جب کہ پوری ملت چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹی ہوئی ہے، اور کوئی ٹولی کسی ٹولی کو تسلیم کرنے یا اس سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہے، ایسی صورت میں کوئی ایسی قیادت ابھر بھی کیسے سکتی ہے، جو سب کے لیے قابل قبول ہو؟کسی اچھی دوراندیش اور ہردلعزیز قیادت کے لیے جہاں کچھ اعلی ذاتی اوصاف درکار ہوتے ہیں، وہیں لوگوں کا اعتماد اور ملت کی طرف سے اس کی مخلصانہ اطاعت اور پرزور حمایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ جب تک یہ ساری چیزیں یکجا نہ ہوں، کوئی اچھی مضبوط اور ہردلعزیز قیادت کیوں کر وجود میں آسکتی ہے؟
کہنے والوں کی یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ ملت قحط الرجال کی آزمائش سے دوچار ہے۔ مگر قحط الرجال آیا کہاں سے؟ قومیں قحط الرجال کا شکار اس وقت ہوتی ہیں، جب مردم سازی یا شخصیت سازی کا عمل رک جاتا ہے، جب درسگاہیں یا تعلیم گاہیں، جو حقیقت میں مردم گری کے کارخانے ہوتی ہیں، وہ مخلص کارکنوں اور ماہر اساتذہ سے محروم ہوجاتی ہیں، اور وہ اپاہج، بے ضمیر، بے حوصلہ، بے مقصد اور معذور انسانوں کی راج گدیاں اور پرورش گاہیں بن جاتی ہیں۔
آج عربی درسگاہوں، اور اسلامی یونیورسٹیوں، یا کالجوں کا حال عموماََ یہی ہے۔ طلبہ اپنی جوانی اور توانائی کے نہایت قیمتی سال یہاں گزار دیتے ہیں، اور جب تعلیمی کورس پورا کرکے یہاں سے رخصت ہوتے ہیں، تو بالکل کورے اور تہی دامن ہوتے ہیں، نہ ان کے پاس کوئی علمی اثاثہ ہوتا ہے، نہ عمل کا کوئی جذبہ۔ طلبہ کی محرومی کی یہ کیفیت کیوں ہوتی ہے؟ یہ کیفیت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ جو لوگ ان درسگاہوں میں تعلیم وتربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں، علمی واخلاقی لحاظ سے وہ خود شدید افلاس کا شکار ہوتے ہیں۔ بقول شاعر مشرق
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ!
آہ! جب افراد سازی کے کارخانوں کا یہ حال ہو، تو افراد کہاں سے آئیں؟ آج اگر ملت قحط الرجال کا شکار ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
کوئی قطعۂ زمین چاہے کتنا ہی زرخیز کیوں نہ ہو، اگر وہ کسی ایسے شخص کے ہاتھوں لگ جائے، جو اناڑی بھی ہو، کاہل بھی ہو، بے ذوق اور بے حوصلہ بھی ہو، تو وہ قطعہ زمین خوش ذائقہ پھلوں کا باغ ہوگا، یا خاردار جھاڑیوں کا جنگل؟
آج ہمارے علمی مراکز کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایسی صورت میں ملت کو باصلاحیت اور باکردار افراد ملیں تو کہاں سے ملیں!
ملت کے لیے یہ ایک کٹھن آزمائش ہے۔ ہمارے ان تعلیمی اداروں کی زبوں حالی دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے، صورتحال یہ ہے کہ
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
کہنے والوں کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ آج کی انتہا پسند غیرمسلم تنظیمیں اور یہودی ایجنسیاں اسلام کے لیے ایک زبردست چیلنج اور مسلمانانِ عالم کے لیے ایک عظیم خطرہ ہیں۔ لہذا ہمیں سب سے پہلے اس خطرے سے نمٹنا اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہئے، اور جن ہتھیاروں سے وہ ہم پر حملہ آور ہوں، ان ہی ہتھیاروں سے ان کا جواب دینا چاہئے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کی انتہاپسند تنظیمیں اور خطرناک ایجنسیاں کب نہیں رہی ہیں؟ تاریخ کا وہ کون سا دور گزرا ہے، جب شیطانی طاقتوں نے اسلام پر گھیرے ڈالنے اور اسلامی طاقتوں کو نیست ونابود کرنے کی ناپاک کوششیں نہ کی ہوں
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
یہ آج کا کوئی تازہ مسئلہ نہیں ہے۔ اہل حق سے اہل باطل کی کشمکش ازل سے چلی آرہی ہے، لہذا اس صورتحال سے ہراساں وپریشاں ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم ان خطرات کو ضرور اپنے سامنے رکھیں اور حکمت ودانائی اور ہوشیاری کے ساتھ ان کا مقابلہ بھی کریں۔ مگر ایسا نہ ہو کہ اپنی تمام صلاحیتیں اور ساری توانائیاں ان تنظیموں کے ساتھ کشمکش میں ہی صرف کردیں، اور ہمارا جو اصل کام ہے ، اس کام کو پس پشت ڈال دیں۔ ہمارا جو اصل منصب ہے، اس منصب سے غافل ہوجائیں۔ ہمارا اصل کام کیا ہے؟ اللہ کی کامل بندگی، اور اس کے بھیجے ہوئے دینِ اسلام کی سچی نمائندگی۔ اس دنیا میں ہمارا منصب کیا ہے؟ اس زمین پر ہم اللہ کے خلیفہ ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہمارا جینا اور ہمارا مرنا اللہ کے لیے ہو۔ ہماری تمام صلاحتیں اور ساری توانائیاں اللہ کے دین کے لیے وقف ہوں۔ ہماری تمام خواہشات اور تمام تمنائیں اس کی پسند کے تابع ہوں۔ اس زندگی میں ہماری سب سے بڑی تمنا یہ ہو کہ اقامت دین کی جدوجہد میں ہم کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ ہمارا ہر لمحہ اپنے رب کی اطاعت میں گزرے اور ہمارا ہر قدم اشاعت اسلام اور غلبۂ اسلام کی راہ میں اٹھے۔ ہمارے لب ہلیں تو اللہ کے ذکر کے لیے، ہماری زبانیں کھلیں تو اللہ کے کلام اور اس کے پیغام کے لیے
تو ہے جب پیام اس کا پھر پیام کیا تیرا
تو ہے جب صدا اس کی آپ بے صدا ہوجا
اس منصب کا سچا شعور، اور اس مقصد سے والہانہ لگاؤ، یہی ہماری عزت وسربلندی کا راز، اور یہی ہماری قوت کا سرچشمہ ہے۔ یہی ہمارے تمام مسائل کا حل اور یہی ہماری تمام پریشانیوں کا علاج ہے۔
آج ہمارا اصل مسئلہ ہماری تعلیمی پسماندگی نہیں ہے، بلکہ ہماری تعلیمی پسماندگی نتیجہ ہے اس بات کا کہ اس دنیا میں اپنی اصل حیثیت کو ہم نے فراموش کردیا۔ اپنی اصل حیثیت کو سمجھنے کا ہی نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ نے اپنے علمی معیار کو اتنا بلند کیا کہ دیکھتے دیکھتے وہ بزم علم کے صدر نشیں بن گئے۔ پھر انہوں نے گلی گلی علم کے چرچے کیے اور اپنی قلمرو کے ایک ایک گھر کو دانش کدے میں تبدیل کردیا۔
کوئی بھی مسلم فرد یا کوئی بھی مسلم قوم جسے اپنے منصب کا شعور ہو، اس کے یہاں تعلیمی پسماندگی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا، لیکن اگر اس منصب بلند کا شعور نہ ہوتو کوئی بھی نسخہ، اور کوئی بھی کوشش اسے پسماندگی کی حالت سے نہیں نکال سکتی، حتی کہ اگر وہ ڈاکٹر یا پروفیسر یا مولانا یا علامہ بھی ہوجائے، تو وہ جاہل ہی رہے گا، اور ایسے جاہلوں کی اس دور میں کمی نہیں ۔
کوئی بھی علم، چاہے وہ براہ راست اللہ کی کتاب یا اس کے دین کا علم ہو، یا دوسرے کائناتی اور تجرباتی علوم ہوں، جو اس دنیا کے خالق کے عجائب خلقت پر غورومشاہدہ سے حاصل کیے گئے ہوں، وہ سب اللہ سے قریب کرنے والے، اللہ کے آگے جھکانے والے، اور اللہ کی اطاعت کے لیے بے چین کردینے والے ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ دل ودماغ کی پاکی اور نظر کی بلندی کے ساتھ حاصل کیے گئے ہوں، یہی صحت مند اور نفع بخش علم کی پہچان ہے۔ اور اِسی علم کو حاصل کرکے کوئی قوم تعلیمی پسماندگی کی حالت سے نکل سکتی ہے۔ اگر دل ودماغ کی پاکی اور نظر کی بے لوثی نہ ہو، تو حصول علم کی ہر کوشش انسان کو علم سے دور اور جہل سے قریب کرتی ہے۔ یہی حقیقت ہے جو اس فرمان الہی میں بیان کی گئی ہے:
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء
اور جب مسلم قوم کو اپنے اس منصب کا شعور ہوجائے، تو پھر حصول علم کی جدوجہد سے اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ وسائل کی کمی یا نایابی اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ بہرصورت اپنی علمی پیاس بجھائے گی، اور علم کے سوتوں سے سیراب ہوکر دم لے گی۔ اس کی تازہ ترین مثال وہ مظلوم ومقہور فلسطینی قیدی ہیں، جنہوں نے مقبوضہ فلسطین کے صہیونی قیدخانوں کی ویران اور ہیبت ناک کال کوٹھریوں کو اپنی علمی وفکری ترقی کے لیے استعمال کرکے، ان کو نہ صرف مدارس اور یونیورسٹیوں کے کلاس روم میں بدل ڈالا، بلکہ ملک وبیرون ملک کی یونیورسٹیوں سے اعلی نمبرات کے ساتھ نمایاں علمی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ انہوں نے جیل کی بدبودار اور وحشت ناک کال کوٹھریوں میں رہتے ہوئے، اور اسرائیل کے خونخوار جلادوں کی خوفناک اذیتوں کو برداشت کرتے ہوئے بی اے، ایم اے ، اور پی ایچ ڈی کی اعلی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس تعلیمی جدوجہد کا مطالعہ وتجزیہ ایک فلسطینی اسکالر عبدالناصر فردانہ نے، جو خود اسرائیل کے قیدی رہ چکے ہیں اور اس وقت وہ فلسطینی قیدیوں کی وزارت محکمہ اعداد وشمار کے مدیر ہیں، انہوں نے پیش کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: سہ روزہ دعوت: ۲۵؍ نومبر ۲۰۰۷ ء)
یہ اسی شعورِمنصب کی دین ہے، جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے، یہ شعور اگر ہندوستان کی مسلم قوم میں بیدار ہوجائے، تو کیا اس ملت کے اندر کوئی ایک بھی جاہل نظر آسکتا ہے؟ اور کیا اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کی مجال ہوسکتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان افسوسناک حد تک تعلیمی پسماندگی کاشکار ہیں!
پھر اگر ملت کے اندر منصب کا یہ شعور بیدار ہوجائے، تو کیا اس کے یہاں قحط الرجال کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے؟ اس شعور کے اندر تو اتنی طاقت ہوتی ہے کہ کسی مردہ قوم کے اندر بھی یہ شعور بیدار ہوجائے تو اس کی رگوں میں زندگی کی بجلیاں دوڑنے لگتی ہیں، اس کی خزاں بہار میں اور شبِ تاریک روز روشن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ عرب قوم کو دیکھو، نزول قرآن سے پہلے اس کی کیا حالت تھی؟ علم وتمدن کی دنیا میں اس کا کیا مقام تھا؟ مگر قرآن نے آکر جب اسے اس کے منصب بلند کا شعور عطا کیا تو اس کے اندر سے صلاحیتوں کے سوتے پھوٹنے لگے۔فطانت وعبقریت کے ایک سے ایک نمونے سامنے آنے لگے۔ اور دیکھتے دیکھتے وہ قوم قیمتی اور مایہ ناز افراد سے مالامال ہوگئی۔ بلکہ یوں کہو کہ وہ پوری قوم ہی مٹی سے کندن بن گئی۔ اور پھر زمانے نے دیکھا کہ وہ قوم جو ہمیشہ حکومتوں اور حکمرانوں سے دور رہی،ا س کے ہاتھوں میں جب دنیا کی باگ ڈور آئی، تو اسے نظام چلانے والے ہاتھوں، اور پالیسی بنانے والے دماغوں کی کبھی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ اور اس زمین پر اس نے ایک ایسی سلطنت کی داغ بیل ڈالی، جو عدل وانصاف اور امن وامان کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ چشم فلک نے ایسی وسیع پرامن سلطنت نہ اس سے پہلے کبھی دیکھی، نہ اس کے بعد کبھی دیکھی۔
اسی طرح ملت کے اندر منصب کا یہ شعور بیدار ہوجائے تو پھر اس کے کسی فرد کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔ اس کا ہر فرد ایک انمول ہیرا بن جاتا ہے۔ اس شعور کی برکت سے اس پوری ملت کے اندر طبیعت کی بلندی، دل کی کشادگی، نفس کی بے لوثی، دلسوزی ودردمندی، ایثار اور محبت، بے نیازی اور قناعت، غرض وہ ساری خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں، جو اسے بنیان مرصوص بنادیتی ہیں۔ اس وقت اس کے اندر خود غرضی، نفس پروری، مادہ پرستی، خدا بیزاری، آخرت فراموشی کی بیماریاں نہیں ہوتیں، جو بدقسمتی سے آج ملت اسلامیہ کے اندر گھس آئی ہیں، اور لمحہ بہ لمحہ اس کے جسم کو کھوکھلا، اور اس کی جمعیت کو پارہ پارہ کر رہی ہیں۔
آج یہ امت اگر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتی ہے، تو بس اسی طور سے کہ اس کے اندر دوبارہ اپنے منصب بلند کا شعور پیدا ہوجائے، وہ اس شعور سے اس طرح سرشار ہوجائے، جس طرح مدینے کے اوس وخزرج سرشار ہوگئے تھے، اور پھر اسی کی برکت سے برسہابرس کی دشمنیوں اور خونریز جنگوں کے بعد باہم شیروشکر اور یک جان دو قالب ہوگئے تھے۔
یہی وہ نسخہ کیمیا ہے، جو پھٹے ہوئے دلوں کو جوڑ سکتا ہے، یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو بکھرے ہوئے موتیوں کو اکٹھا کرسکتا ہے، یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو لالچی طبیعتوں میں قناعت پیدا کرسکتا ہے، اور یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو بے ضمیر انسانوں کو ضمیر کی دولت سے مالامال کرسکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقواگویا اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ کر ہی یہ بکھری ہوئی ملت دوبارہ متحد ہوسکتی ہے، ورنہ اسے اختلاف وانتشار کی حالت سے نکالنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اور اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑنا، اور ہر حال میں پکڑے رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ کام بس وہی فرد یا وہی گروہ کرسکتا ہے، جسے اپنے منصب کا صحیح شعور ہو۔ اور اس شعور سے وہ پوری طرح سرشار ہو۔
پھر اس شعور کی بنیاد پر اگر ملت کی دوبارہ شیرازہ بندی ہوجاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی تمام ٹولیاں اپنے آپ کو تحویل کرکے ملت واحدہ کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، تو اس صورت میں پوری ملت ایک ہی قیادت کے زیرسایہ اکٹھا ہوجائے گی، اور یہ ساعت شیطان کے لیے بڑی ہی کٹھن ساعت ہوگی۔ کیونکہ شیطان کو کسی بات سے اتنا رنج نہیں ہوتا، جتنا رنج اس بات سے ہوتا ہے کہ امت مسلمہ محض اللہ کی خاطر اللہ کے نام پر باہم متحد ہوجائے۔
پھر اگر ملت اسلامیہ اپنے واقعی منصب اور اپنی اصل حیثیت کو پہچان لیتی ہے، اور اس منصب اور اس حیثیت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کمربستہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے رب کی کامل بندگی اور اپنے عظیم دینِ اسلام کی سچی نمائندگی کو اپنا نصب العین قرار دے لیتی ہے، تو پھر سارے عالم کی شیطانی طاقتیں مل کر بھی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتیں۔ آج جن اسلام دشمن طاقتوں اور جن انسانیت دشمن تنظیموں اور ایجنسیوں سے ملت اسلامیہ کو خطرہ درپیش ہے، اور جن سے دردمند مسلم پریشان ہے، ان کا اصل علاج یہی ہے۔
مختصر یہ کہ امت اسلامیہ آج جن گوناگوں مسائل اور جن پیچ درپیچ مشکلات کا شکار ہے، ان کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ وہ ذہنی اور عملی طور پر اپنی تعمیر نو کے لیے آمادہ ہوجائے۔ وہ اس دنیا میں اپنے اصل منصب اور اپنی اصل حیثیت کو پہچانے۔ اور اس منصب کے تقاضوں، اور اس حیثیت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا سنجیدہ فیصلہ کرے، اور اس کے لحاظ سے اپنے اندر بنیادی تبدیلیاں لائے۔ اللہ تعالی ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے، اور ہمیں صحیح انداز سے سوچنے، اور صحیح خطوط پر سنجیدہ جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل اور طلبہ عربیہ کا رول
ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، معروف اسلامی دانشور ملت اسلامیہ کو آج کتنے مسائل درپیش ہیں، شائد کوئی بھی باشعور مسلم ان سے بے خبر نہیں ہوگا۔ آج دو، چار، چھ، آٹھ، دس مسائل نہیں، مسائل کا ایک انبار…