مفلس کون؟؟؟

ایڈمن

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہؐ! ہمارے یہاں تو مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ…

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہؐ! ہمارے یہاں تو مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ روپیہ ہونہ پیسہ، نہ سازوسامان۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز، روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گامگر اس حالت میں کہ کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ، کسی کامال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا،اور کسی کو مارا ہوگا۔ پھروہ بیٹھے گا اور اس کی کچھ نیکیاں اس کے مظالم کے قصاص کے طور پرایک مظلوم لے لے گااور کچھ دوسرا مظلوم لے لے گا۔ پھر اگر اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کا قصاص ادا کرنے سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو پھر اس کے مظلوموں کی خطائیں لے لی جائیں گی اور اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور پھر وہ سر کے بل گھسیٹتے ہوئے دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (ترمذی)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ کی جانب سے مفلس کے معنی بہترین انداز میں سمجھائے گئے ہیں،رسول خداؐ کی تربیت کا یہ انداز تھا کہ آپؐ صحابہؓ سے سوال کر تے اور ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے، آپ کا انداز چونکادینے والا ہوتا تھا۔ اس حدیث میں بھی اسی طرح سوال کیا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے بالکل سیدھے سادے انداز میں جواب دیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ مال ہو اور نہ ساز و سامان۔
صحابہ کرامؓ بھی انسان ہی تھے اور ایک عام انسانی ذہن یہی سوچتاہے کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس پیسہ ودولت نہ ہو، گھربار نہ ہو، جس کے پاس پہننے کے لئے بہترین کپڑے اورکھانے کے لئے مناسب غذا میسر نہ ہو، لیکن رسول اللہ ؐ کے فرمان کے مطابق مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن ، حشر کے میدان میں اس حالت میں حاضر ہو گاکہ اس نے اپنی نمازیں صحیح اور ٹھیک وقت پر ادا کی ہوں گی۔ روزے اور زکوۃ کے صحیح طریقے پر عامل رہا ہوگا۔ اس نے اپنی زندگی میں اقیمواالصلوۃ وآتواالزکوۃ کے حکم کی پابندی کی ہوگی۔اس کے باوجود وہ اللہ کی بارگاہ میں مفلس بن کر کھڑا ہوگا، کیونکہ اس نے اپنی زبان کا غلط استعمال کیا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال لوٹ کر کھایا ہوگا، کسی کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہوگااور جو انسان نماز، روزے، اور زکوۃ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سارے مظالم لے کر خدا کی عدالت میں حاضر ہواہوگا، اللہ تعالی اس کے بدلے میں مظلوم کو اس کی ساری نیکیاں دے دے گا، یہاں تک کہ جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو باقی مظلوموں کے گناہ بھی ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے، اور پھر وہ سر کے بل دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
پہلی بات جو مفلسی کے متعلق اللہ کے رسولؐ نے فرمائی وہ یہ کہ کسی کو گالی دی یا کسی پر تہمت لگائی، ان دو باتوں کا تعلق زبان سے ہے، اور پھر اللہ کے رسولؐ کی معروف حدیث بھی ہے کہ ’’تم مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دوں گا‘‘۔( بخاری)
ایک مرتبہ رسول اللہؐ سے دو عورتوں کے متعلق پوچھاگیا کہ ایک عورت کثرت سے نماز پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے، اور فرائض کا اہتمام کرتی ہے، لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو دکھ دیتی ہے۔ اور پھر ساتھ ہی دوسری عورت کے بارے میں پوچھا گیاجو کم نمازیں پڑھتی ہے ، کم روزے رکھتی ہے، کم صدقہ وخیرات کرتی ہے، لیکن اپنی زبان سے اپنے ہمسایوں کو دکھ نہیں دیتی۔اللہ کے رسولؐ نے جواب دیا کہ پہلی عورت جہنم میں جائے گی اور دوسری جنت میں ۔( بہیقی)
دراصل زبان ہی جسم کا وہ عضوہے جس پر ایک انسانی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، یہ اگربہتراور صحیح ہو تو انسان اپنی ساری غربت اور افلاس کے باوجود امیر ہی امیر ہوگا۔
تہمت کے متعلق یہ بات قرآن میں واضح طور پر بیان کردی گئی کہ کسی قسم کی بھی تہمت لگائی جائے تو اس کے لیے گواہ لائے جائیں۔ کسی کے متعلق کوئی غلط بات بغیر جانچ پڑتال کے کہنے سے اسلام نے منع کیاہے، اور اگر کوئی غلط بات یا عیب انسان کے اندر موجود ہو تو اس کی پردہ پوشی کا حکم دیاگیا ہے،اور بہترین طریقے سے اصلاح کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ’’میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کے بارے میں بری بات نہ کہے، اور نہ مجھ تک پہنچائے اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں تم سے اس حال میں ملوں کہ میرا سینہ تمہارے لیے صاف ہو۔ (بخاری)
کسی کا مال کھانے سے متعلق بھی حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جس نے ایک بالشت بھر زمین کسی کی غصب کرلی ہو، اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ جنہیں وہ اٹھائے اٹھائے پھرے گا۔
جس نے کسی مسلمان کا حق مارا اللہ نے اس پر آگ واجب کردی اور جنت حرام کردی، ایک آدمی نے پوچھا اگر چہ کوئی معمولی ہی چیز ہو؟ آپ ؐ نے فرمایا: ہاں، اگر چہ پیلو کی ایک لکڑی ہی ہو۔ (مسلم)
خون بہانے کے متعلق بھی سورہ نساء میں کہا گیا کہ جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا،اور جس نے کسی کو بے جا قتل کیا اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کیا۔ یہ بہترین تعلیمات عطا کرکے اللہ تعالی نے ظلم وجور کے سارے راستے مسدود کر دئیے، اور انسانوں کے لئے حدود کا تعین فرمادیا،تاکہ وہ ان حدودکے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی بھلے طریقے سے گزارے، اور ایسے بھلے طریقے سے زندگی گزارنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی، ’’اور جو اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کی حفاطت کرتے ہیں ایسے مومنوں کو بشارت دو‘‘۔( سورہ التوبہ )
اس طرح اللہ تعالی نے ہر چھوٹے بڑے شعبہ ہائے زندگی کے متعلق احکام نازل فرماکر انسانوں کی ہدایت کا سامان کردیا کہ خواہ انسان فرائض کا کتنا اہتمام کرلے لیکن بندوں کے حقوق میں کوتاہی کرے، ان کی حق تلفی کرے تو اللہ تعالی اس کی ساری نیکیاں جس کی حق تلفی کی گئی ہے اس کے حصے میں ڈال دے گا،اور زیادہ حق تلفی ہوئی ہو تو مظلوم کے گناہ بھی ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے اورآگ اس کا ٹھکانہ ہوگی، جبکہ قرآن نے اصل کامیابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آ تش جہنم سے بچالیاجائے۔
اگر کوئی انسان کامیابی وکامرانی چاہتا ہو، جو ابدی ہو، ہمیشگی کی کامیابی ہو تو وہ بندوں سے بہتر سلوک کرے کیونکہ اللہ تعالی حقوق اللہ کے متعلق جو چاہے گاوہ فیصلہ فرمائے گا لیکن حقوق العباد کے متعلق بندہ جب تک نہ معاف کرے بخشش نہ ہوگی۔
حضورؐ کا ارشاد ہے کہ اعمال کے دفتر تین قسم کے ہیں، ایک دفتر وہ ہے جسے اللہ تعالی معاف نہیں کرتا،اس میں وہ اعمال ہیں جن میں اللہ کے ساتھ شرک کیا گیاہے۔اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ بیشک اللہ اس کی مغفرت نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیاجائے۔ دوسرا دفتر وہ ہے جسے اللہ تعالی چھوڑے گا نہیں ۔ اس میں لوگوں کے آپس کے مظالم درج ہوں گے جن کا حساب کتاب ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ مظلوموں کو ظالموں سے بدلہ دلادے۔ تیسرا دفتر وہ ہے جس کی اللہ کوپرواہ نہیں۔اس میں وہ ظلم اور گناہ ہوں گے جو بندوں اور خدا کے درمیان ہوں گے اور یہ اللہ کی مرضی پر ہے، چاہے اس پر عذاب دے، چاہے تودرگزر کردے۔( بہیقی بحوالہ مشکوۃ)
اس طرح مفلس وہ نہیں ہے جس کے پاس دنیاکی نعمتیں،عیش وآرام، اور لوازمات زندگی میسر نہ ہوں،بلکہ مفلس تو حقیقت میں وہ ہے جو بندوں کے حقوق میں کوتاہی کرتاہو، ان پر ظلم کرتاہو، ان کوگالی دیتاہو،اور ان پربہتان لگاتاہو۔ اللہ تعالی ان ساری باتوں سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھے۔ سعی وکوشش یقیناًانسان کا کام ہے، جبکہ اس کو پورا کرنا خدا کا کام ہے۔ خدائے رحمن مسلمانوں کو پیکرعمل بنادے۔
شہمینہ سبحان، حیدرآباد

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں