معروف تحریکی رہنما جناب مجتبیٰ فاروق صاحب سے ایک انٹرویو
جناب مجتبی فاروق صاحب (اورنگ آباد مہاراشٹر) تحریک اسلامی ہند کے نمایاں قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ امیر جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کے علاوہ جماعت کے مرکزی سکریٹری رہے، ویلفئر پارٹی آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس کے بانی صدر ہوئے۔ حالیہ دنوں جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے رکن اور مسلم مجلس مشاورت کے کارگزار صدر ہیں۔اس کے علاوہ موصوف ملک بھر میں مختلف تعلیمی ورفاہی اداروں میں ایکٹیو رول ادا کررہے ھیں۔ حال ہی میں مدیر رفیق منزل ابوالاعلی سید سبحانی نے موصوف سے چند اہم موضوعات کے تحت انٹرویو لیا، افادہ عام کے لیے اسے شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
کے طلبہ سے حوصلے ہی کی نہیں بلکہ فراست کی بھی امیدیں ہیں: مجتبیٰ فاروق SIO
n آپ کی تحریک اسلامی سے وابستگی کب اور کیسے ہوئی؟
2 میں جب مڈل اسکول میں تھا۔ محترم اشفاق احمد صاحب (موجودہ سکریٹری تعلیم جماعت اسلامی ہند)اسکولی طلبہ کے لئے ایک ہفتہ وار اجتماع اور لائبریری کا اہتمام کرتے تھے۔اس کا نام نوری محفل تھا۔ میں اس نظم کا سکریٹری ہوا کرتا تھا۔اس میں کافی عرصے تک رہا، لیکن بعد میں ربط نہ رہ سکا۔ آخر ایک صاحب نے کچھ کتابیں مطالعہ کے لئے دیں۔ پہلی کتاب عبدالوہاب نجدی کی ’’کتاب التوحید‘‘ ،دوسری ’’تجدید و احیائے دین‘‘ اور تیسری ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ تھی۔اور اس طرح مطالعہ کا سلسلہ چلا اور میں تحریکی حلقہ سے متعارف ہوا۔SIOکی آل انڈیا کانفرنس بنگلور میں شرکت ہوئی۔جماعت کے حلقہ میں متحرک ہونے کا موقع ملااور ۱۹۹۰ ء میں رکنیت کی منظوری ملی۔ اس وقت میں اورنگ آباد کا ناظم ضلع تھا ۔جلد ہی ناظم اضلاع اور ناظم علاقہ ہوا۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد BANکا شکار ہوئے اور پھر دوسری ہی میقات میں معاون امیر حلقہ کی ذمہ داری میں ایک سال گزراکہ امیر حلقہ مرحوم حبیب الرحمٰن صاحب کو کینسر ہوگیا۔چنانچہ قائم مقام امیر حلقہ ایک سال اور پھر امیر حلقہ کی ذمہ داری آگئی،اور تیسری میقات میں امیر حلقہ دوبارہ بنایاگیا۔پھر چوتھی اور پانچویں میقات میں مرکزی سکریٹری کی ذمہ داری آئی۔چھٹی میقات جو کہ اب ختم ہو رہی ہے ویلفیئر پارٹی کی صدارت تقریباً ۳؍ سال رہی۔فی الحال جماعت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔اورنگ آباد کا مقامی رکن اور اس کے علاوہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن ہوں۔
n آپ کی نظر میں ملت اسلامیہ ہند بالخصوص تحریک اسلامی ہند کو اس وقت کیا بڑے چیلنجز درپیش ہیں؟
2 ملت اسلامیہ ہند یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے اور تینوں کے اپنے تقاضے ہیں۔ہند کے حوالے سے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ہندوستان کہاں کھڑا ہے۔مختصراً یہ کہ کارپوریٹ ورلڈ میں اس کی اہمیت ہے اور دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ملت جدید تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر لگتی ہے۔اس لئے اس کی توقع کرنا کہ وہ ان تقاضوں سے ابھر سکے گی بہت مشکل ہے۔اس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی، اور وہ چکا رہی ہے۔رہا اسلام توبوجوہ وہ نرغہ میں ہے کیو نکہ اہل اسلام کے پاس وژن، باہمی تعاون اور حکمت عملی کا فقدان ہے ۔ ملک کے بدلتے سیاسی منظر نامے نے مسائل کو اور بھی گہرا کردیا ہے۔سنگھ پریوار اپنی بھر پور تیاریوں کے ساتھ اقتدار میں ہے اور مقابل قوتیں مضمحل ہیں ، مسلمانوں کی اپنی کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے اس لئے مقابلہ سے بھی باہر ہیں۔
n ان چیلنجز کے سلسلے میں ہماری کیا ترجیحات ہونی چاہئیے؟
2 چیلنجز سے ابھرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ملت کے تھنک ٹینک کو وسعت قلبی کے ساتھ Identifyکریں اور ایسی حکمت عملی بنائیں کہ ملت میں شعور بیدار ہو اور وہ اپنے وسائل کو مجتمع کرے اوراپنے اندر استحکام لائے۔درپیش خطرات کو سمجھ کر ان کا تعمیری سوچ اور تحمل کے ساتھ مقابلہ کریں۔پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔غلط فہمیوں کا نہ صرف ازالہ ہوبلکہ ملک میں اپنی افادیت منوائیں۔
n آپ تحریک اسلامی ہند کی صوبائی اور مرکزی قیادت کا تجربہ رکھتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ تحریک اسلامی ہند کی قیادت نہ تو عوام کے دلوں کی آواز بن پارہی ہے اور نہ ہی تحریک اسلامی کے نوجوانوں کے دلوں کی آواز؟ آپ کے خیال سے تحریک اسلامی میں موثر اور ڈائنمک قیادت کے فروغ اور ارتقاء کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
2 بد نصیبی یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہمارا تحریکی مزاج کمزور سے کمزورتر ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ایک جماعت اور تنظیم بن کر رہ گئے ہیں ۔سماج میں ہمارا رسوخ نہیں اس لئے کہ ہم سماج میں عملاً نہیں ہیں۔اپنے ہی رفقاء میں مگن ایک الگ دنیا بن گئی ہے۔جس تحریک کا سماج سے زندہ رابطہ نہ ہو وہ تحریک نہیں ہوسکتی۔دہائیاں گزار کر بھی ہماری قوت نہیں بڑھ سکی ہے۔ہم مسائل سے ابھرنے کے لئے ان سے جوجھنے سے گریز کے عادی ہوئے ہیں ۔ اس لئے مسائل کا تجربہ درکنارانھیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں ۔ جماعت سے باہر کی دنیا سے گریز نے ہم کو محدود کردیا ہے۔اور ہم ہی میں سے ایسے لوگ جو اسی میں پروان چڑھے ہیں، اور بیرون سے ربط و تعلق کم ہی رہا ہے، ان ہی میں سے ہمارے ذمہ دار بھی بنائے جاتے ہیں۔نظم کے نام پر ارتکاز اقتدار مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ اجتماعی لیڈرشپ (مشاورت) رسمی ہونے لگی ہے۔ ہم ایک Maintainance Organizationہونے لگے ہیں۔دعوت ،تربیت ، خدمت وغیرہ سبھی ایک روایتی انداز اختیار کر گئے ہیں۔ جو رفقاء حالات اور ان کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں وہ الجھنا نہیں چاہتے۔ اپنے ذاتی مشاغل میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ البتہ ایسا بھی نہیں کہ اندھیرا ہے۔ کچھ مقامات پر افراد ہیں جو بہت کچھ کر رہے ہیں اور کر سکتے ہیں ۔خصوصاً حلقہ کیرلا بہت غنیمت ہے۔ رفقائے جماعت میں ہی باہمی تعلق کمزور پڑجائے تواس کو ملت کا کیا درد ہو سکتا ہے۔رہے ملک اور اہل ملک تو کچھ علامتی اور رسمی معمولات ہیں جو کچھ وضاحت کا سامان کر دیتے ہیں۔ایسے میں dynamism کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔ اس لئے نو جوانوں کو مطمئن کرنے کا سوال بھی نہیں آتا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ جماعت تحریک بنے ،نوجوان قوت میسر آئے ،ملت کا اعتبار حاصل ہو تو ہمیں سوچ بدلنی ہوگی۔بدلتے زمانے کو سمجھنے اور ان سے ابھر نے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔
n تحریک اسلامی ہند میں آپ کی شخصیت اس طور پر نمایاں ہے کہ آپ نے تحریک اسلامی کی مختلف سطحوں پر قیادت کے علاوہ ذاتی طور پر بھی اسکولس کے قیام ، اخبار کے اجراء اور مختلف پہلووں سے بڑے پیمانے پررفاہی خدمات انجام دی ہیں، آپ کو اس کی ترغیب کیسے ہوئی، آیا یہ خالص تجارتی نقطہ نظر سے ہے یا اس کے سلسلے میں آپ کا کوئی خاص وژن ہے؟ اس تعلق سے تحریکی نوجوانوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
2 میری حیثیت جماعت اسلامی ہند میں ایک عام کارکن کی رہی ہے۔جس کو آپ ایک سادہ سا فیلڈ ورکر کہہ سکتے ہیں۔میرا ماننا ہے کہ جماعت میں نظم مقصد پر غالب آگیا ہے۔جماعت کے تنظیمی فیصلوں سے ہٹ کر کی جانے والی نیکی اب نیکی نہیں بغاوت لگتی ہے۔میں سمجھتا ہوں رُکن جماعت کو تربیت کے ساتھ اس کا عادی بننا چاہیے کہ وہ جماعت کے تقاضوں کو مقدم رکھے اور اس کے بعد جو کام بھی نیکی کا وہ کر سکتا ہے کرے۔کل روز محشر جوابدہی فرد کو کرنی ہے نہ کہ امیر یا قیم کو۔ اطاعت و تابعداری کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے نہیں ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر رفیق جماعت کو اپنی صلاحیت اور ذوق کے مطابق خیر کے کاموں کو انجام دینا چاہئے۔ہم ملت ہی میں نہیں بلکہ ملک میں بھی اپنی خدمات، بے لوثی، اور صلاحیتوں کی بنیاد پرجانے جائیں۔خصوصاً ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ وہ موجودہ سیاسی و سماجی نظام میں رسوخ حاصل کریں، چاہے وہ عدلیہ ہو ،مقننہ ہو، صحافت ہو یا علم و تحقیق کے ادارے وغیرہ۔ ہمیں اپنے تربیت یافتہ افراد کو رغبت دلانی چاہئے ،سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں،کوششیں کرنی چاہئیں کہ وہ وہاں نہ صرف مقام حاصل کریں بلکہ امتیازی ارتقاء کی منزلیں طے کریں ۔
n جماعت اسلامی ہند نے ویلفیئر پارٹی کے قیام میں غیرمعمولی کردار ادا کیا، لیکن کہا جارہا ہے کہ ابھی تک اس کا نظریہ اور طریقہ کار تک واضح نہیں ہے؟ آپ اس کے فاونڈر صدر رہے، اور گزشتہ دنوں اس کی صدارت سے آپ کے استعفٰی کی ایک وجہ اس قسم کا ابہام بھی بتایا جارہا ہے، کیا آپ اس سلسلے میں کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟
2 ویلفیئر پارٹی کا قیام بلا شبہہ جماعت کی تحریک،کاوش اور تائید سے عمل میں آیا اور یہ ایک بہت اہم فیصلہ ہے ۔جس تناظر میں جن تفصیلات کے ساتھ یہ طے ہوا وہ بھی غنیمت ہے ۔جیسا کہ تقاضا تھا، اور توقع بھی کہ پارٹی اپنے طور پرپروان چڑھتی ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معمول کسی کام کو اپنے طور پر کرنے کا نہیں ہے۔اگر ہم پورے اخلاص کے ساتھ اس کو ہر سطح پر چلانا چاہیں گے تو وہ اس کے مزاج اور تقاضوں کے مطابق نہیں ہے ۔میں نے سمجھا کہ اس ماحول میں اس کی پیش رفت تو دور بقا بھی محال ہے ۔اس لئے ہم اس میں اپنا وقت ،توانائی ،اور صلاحیت لگاکر بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔چنانچہ استعفیٰ دینا میں نے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھی ۔ہو سکتا ہے کہ میری سمجھ غلط ہو بلکہ اللہ سے دعا ہے کہ موجودہ طریق کار جس کے سلسلے میں ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ صحیح ہے، وہی صحیح ہو اور پارٹی برگ و بار لائے۔
n آپ کے خیال میں ملک کے موجودہ حالات میں ملت کی سیاسی پالیسی کیا ہونی چاہئے؟
2 ملت کی سیاسی پالیسی کیا ہو بحیثیت رکن جماعت وہی کہا جا سکتا ہے جو جماعت کی پالیسی ہے ۔رہی بات انفرادی سمجھ کی تو میں سمجھتا ہوں ویلفیئر پارٹی کی ضرورت ملک کو ہے بشرطیکہ وہ اس کے تقاضوں کے ساتھ ہو۔ میری رائے یہ بھی ہے کہ پارٹی کو کلیتاً آزاد کر دینا چاہئے۔وہ اپنے طور پر کام کرے۔سیاسی تقاضے دیگر ہیں اور جماعت کی اخلاقی تعلیم کا معیار کچھ اور۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیاست بے مہار اور غیر اخلاقی ہوگی ۔نہیں وہ اخلاقی ہوگی، لیکن عملی تقاضوں کے اختیارات کے ساتھ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ہم جماعتی خول کے باہر بھی ملت کے مؤثر افراد کو recognize کریں، ان کی تربیت کی امکا نی کوشش کریں ۔بھارت کئی ملکوں کے برابر ایک ملک ہے ۔ہم ایک ہی پالیسی کے تحت اس کو ڈیل نہیں کر سکیں گے۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ریاستوں کے تناظر میں حکمتِ عملی بنائیں، اپنے متأثرین کو مختلف پارٹیوں میںfloatکریں، وہ وہاں دین و ملت کے لئے راہیں ہموار کریں ۔ بدلتے حالات میں امکانات کا جائزہ لے کر تحریک اسلامی اپنی سیاسی شناخت کی تیاری کا جائزہ لیتی رہے اور حکمت عملی کے مطابق آگے بڑھتی رہے۔
n ادھر آپ پر مسلم مجلس مشاورت کی ذمہ داری بھی آگئی ہے، ملت کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں مسلم مجلس مشاورت کیا رول ادا کررہی ہے، یا اسے کیا رول ادا کرنا چاہئے؟
2 مشاورت کے صدرمحترم نے مجھے نائب صدر و کار گزار صدر نامزد کیا ہے ۔لیکن میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ جماعت سے میرے بارے میں اجازت لے لیں ۔جماعت نے ابھی اس ضمن میں clearance نہیں دیا ہے ۔رہی بات مشاورت میں امکانات اور اس کے کردار کی تو آج کے دور میں اس کی افادیت و ضرورت بڑھ گئی ہے۔خصو صاً فسطائی اقتدار میں کسی ایک جماعت کی جانب سے بلیّ کے گلے میں گھنٹی باندھنا مناسب نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسے شدید حالات میں دین و ملت کے مشترک مسائل کے لئے مشاورت ہی سے توقع کی جاسکتی ہے۔بشرطیکہ ہم اس کے مطابق مشاورت کو طاقت دیں ۔میں ذاتی طور پر اس کو بہت ضروری سمجھتا ہوں ۔
n رفیق منزل کے توسط سے آپ ملت کے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
2 رفیق منزل کے ذریعے میری نوجوانوں سے درخواست ہوگی کہ وہ حوصلے اور وژن کے ساتھ آگے آئیں۔ وہ جدید تعلیم سے آراستہ ہیں اس کو اور فروغ دیں ۔مختلف میدانوں میں تحقیقی صلاحیت اور مہارت حاصل کریں ۔عالمی صورت حال دگر گوں ہے۔الجزائر ،تیونس ،مصر ،ترکی،ایران وغیرہ نے مغرب کو نہ صرف چونکایا ہے بلکہ مشتعل کر دیا ہے۔اور ورلڈ آرڈر ہر صورت اسلام کے غلبہ کو روکنے میں پوری صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ میدان میں ہے۔کارپوریٹ ورلڈ کا مقابلہ جدید دنیا کو ارتقائی رُخ دئیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ہمیں اسلام کو بدنام کرنے والی مذموم کوششوں کا مقابلہ اپنی فکری و فنی صلاحیتوں سے کرنا ہوگا۔اگر ہم نے تحمل کے ساتھ تعمیری اور اقدامی حکمت عملی اختیا ر نہ کی تو نوجوان متأ ثر ہوں گے اور غلط فہمیوں کا شکار ہوں گے۔ہمیں اہل ملک کو بہت واضح اور صاف انداز میں بتانا ہوگا کہ غلط فہمی کہاں ہے ۔سازشیں کیا ہیں ۔ملک کی موجودہ پالیسیوں میں بھلا کیا ہے اور برا کیا ۔برائی کا ازالہ کیسے ہو۔ ہمیں اسلام کی معنویت پر اہل ملک کو قائل کرنا ہوگا،اور یہ کام حوصلہ چاہتا ہے ،اور SIO کے طلبہ سے حوصلے ہی کی نہیں بلکہ فراست کی بھی امیدیں ہیں ۔