عمیر انس
محترم پروفیسرصاحبان، دیگر ساتھی اساتذہ، عزیز طلباء اور دوستو! یہ میرے لیے عزت افزائی کی بات ہے کہ مجھے ہمدرد یونیورسٹی اور بالخصوص یہاں کے شعبہ مطالعات اسلامیات (اسلامک اسٹڈیز)میں بحیثیت مقرر مد عو کیا گیا ہے۔یہاں کامحکمہ اسلامک اسٹڈیز،اسلامیات کے حلقوں میں ایک لمبے عر صے سے بہت مشہور رہا ہے۔میں آپ تمام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہاں مجھے بلایا اور اس پروگرام میں شامل ہیں۔
میں نہ مطالعات اسلامیات پڑھاتا ہوں اور نہ اس میں اختصاص ہی کیا ہے لیکن میں ایک عرصے سے مطالعات اسلامیات کے چند مسائل پر لکھتا اور مباحثے کرتا آرہا ہوں۔میں نے مشرق وسطی کے متعددممالک کا سفر کیا ہے،جس کے دوران کئی اسلامی اسکالرز سے ملاقات اور استفادہ کا مو قع ملا۔ جب میں ’سیاسی اسلام‘ کو پڑھ رہا تھا تب میں نے ’سیاسی اسلام‘پر کام کرنے والے اسلامی اسکالرز اور خاص طور پر بہار عرب(Arab Spring) کی لہر کے بعد مصر،ترکی اور تیونس وغیرہ (جہاں کامیں نے سفر کیا ہے)سے تعلق رکھنے والے کئی اسلامی سیاسی قائدین سے ملاقات کی تھی۔خاص طور پر 2014ء میں میری ملاقات تیونس کے راشد غنوشی سے ہوئی تھی۔ اِس دوران مجھے محسوس ہوا کہ اسلامی ا سکالرز اسلام کو سمجھنے کو لے کر بحران کا شکار ہیں مسئلہ دراصل ہمارے اسلام کو سمجھنے کے طریقہ کار سے متعلق ہے،لیکن کوئی واضح طور پرنہیں جانتا کہ مسئلہ کیا ہے۔
مثال کے طور پر 2008ء میں اکبر۔ایس۔احمد۔نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان گلوبلائیزیشن اور اسلامی دنیا میں بحران سے متعلق تھا۔ چوں کہ یہ کتاب ’گیارہ ستمبر‘کے پس منظر میں لکھی گئی تھی،اُس کا لب لباب یہ تھا کہ مسلمان مغرب کی جانب سے اُنہیں چار خانوں میں بانٹنے کی کوشش کے رد عمل کے طور پر پالیسی سازی کررہے ہیں!
میرا اپناطالب علمی تجربہ مجھے اسلام کو سمجھنے کا مخصوص مطمحِ نظرعطا کرتا ہے۔میں جا معۃ الفلاح،اعظم گڑھ میں پڑھا کرتا تھا، بعد ازاں میں نے ندوتہ العلماء میں 2 /سال پڑھائی کی جہاں مجھے خوش قسمتی سے سید ابولحسن علی میاں ندوی ؒ کو دیکھنے اور ان سے خو شہ چینی کا موقع ملا۔پچھلے2/ سالوں سے مَیں اپنے محاضرات اسلامی کو لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔فی الحال جس عنوان پر کام کررہا ہوں وہ ”مشکلا ت التجدید“ ہے۔ اسلامی اسکالرز کا یہ ماننا رہا ہے کہ ایک عظیم مصلح آنے والا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے تمام مسائل کا تدارک کرے گا۔ مثال کے طور پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کو ایک عظیم اسلامی مصلح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اس تقریر میں تجدید کے مسائل اور اُس کی پیچیدگیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جب میں اس عنوان کے تحت کچھ سوالات کے جوابات ڈھونڈ رہا تھا تب میں نے موجودہ اور دور حاضر کے شعبہ علوم ِاسلامی میں طریقہ کار کو لے کرغلطیاں اور مسائل دیکھا۔ بعد میں یہ بھی محسوس ہواکہ ان اشکالات کو آپ جیسے پروفیشنل حضرات کے سامنے رکھ دوں جو اسلامی اسکالرز بننے والے ہیں۔
ہندوستان کے پس منظر میں اگر طلاق ثلاثہ کامسئلہ لیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہاں کی مسلم کمیونٹی خاص طور پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس مسئلہ کاصحیح احاطہ کیا ہے؟ بحیثیت مسلمان مجھے لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ مثال کے طور پر بورڈ کی جانب سے سپریم کورٹ کو ایک ایفی ڈیوِٹ (Affidavit)پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ”فوری طلاق ثلاثہ“کو کا لعدم کردیا جائے تو مسلم مرد،خواتین کو قتل کرنے لگیں گے۔یہ انتہائی بدقسمتی والی بات ہے کہ اِس قسم کے اہانت آمیز جملے اسلام کے نام پر کہے جاتے ہیں۔
اگر حضرت محمد ﷺکی تعلیم میں ہمیں یہ بات نہیں ملتی تو آپ کون ہوتے ہیں کہ ایسی باتیں کہیں۔اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسی کوئی بات سپریم کورٹ میں پیش کی جائے یہ دراصل اُن حضرات کی عقل عامہ پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے جنہوں نے اُسے پیش کرنے کی سعی نا مبارک کی تھی۔اسی طرح ایک اور مسئلہ ہے جس پر میں سو چتا ہوں کہ ایک مناسب اسلامی نقطہ نظر کیا ہو سکتا تھا، کیا کسی اور نہج پر جواب دیا جاسکتا تھا؟
برطانوی سامراج نے اس ملک کو کالونی بنایا، پھر ہندواور مسلم کی تفریق پیدا کی اور بالآخر قومیت اور قومی ریاست کے تصورات در آئے۔ گویا ایک نئے ہندوستان کی تعبیر کی جارہی تھی جس میں ملک کی تقسیم کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔پہلے ہند وپاک اور بعد میں بنگلہ دیش کی شکل میں ملک کی تقسیم ہوئی۔بحیثیت ایک مسلم اسکالر اگر آپ اس زمانے کے مسلم اسکالرز کی تحریروں کا مطالعہ کریں گے کہ وہ قومیت اور قومی ریاست کے مسائل پر کیا لکھ رہے ہیں تو آپ کو یہ احساس ہوگا کہ مسلم اسکالرز جس حاشیہ خیال میں وہ باتیں لکھ رہے ہیں وہ دراصل اس دور کے حالات سے بالکل میل نہیں کھا تی ہیں۔ ان سے کچھ بنیادی سوالات کیے جا سکتے تھے۔ وہ یہ لکھ رہے ہیں کہ ”آزادی کے بعد ہم غیر مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔“ یعنی اس زمانے میں بھی بہت سارے افراد کا انداز فکر یہ ہے کہ ایک ایسی اسلامی ریاست وجود پذیر ہوگی جہاں غیر مسلم ”ذمیوں“ کی طرح رہیں گے۔ ”غیر مسلم بھی اپنے مندر بنا سکتے ہیں“، ”وہ بھی اپنے اسکول کھول سکتے ہیں“،۔ گویا غیر مسلم اس بات کا استحقاق نہیں رکھتے لیکن ہم اجازت دے دیتے ہیں۔
طالبان نے جب بامیان،افغانستان میں بدّھا کے مجسموں کو مسمار کیا تھاتب ہمارے ملک میں کئی لوگوں نے اسلامی جریدوں میں طالبان کے اُس عمل کی حمایت کی تھی کہ یہ تو ابراہیمی سنّت پر عمل آوری ہے۔اتفاق سے میں نے اسی دور میں ایک مضمون لکھا تھا کہ یہ عمل غیر اسلامی ہے۔گویا ہم اب بھی اس قسم کے تصورات خام میں جی رہے ہیں۔قومی ریاست کے حوالے سے بھی ہم مختلف فیہ تصورات و خیالات کے حامل رہے ہیں۔ معاشی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئیں، سود اور بینکنگ جیسے تصورات وجود میں آئے۔ہمیں یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا اسلامی اسکالرز دور حاضر کے مسائل کو کما حقہ مخاطب کر پا ئے؟
’الہدایہ‘ اورعربی دوم و سوم کی دیگر کتا بوں میں مختلف ابواب باندھے جاتے ہیں جیسے ’کتاب النکاح‘،’کتاب الطلاق‘، کتاب فلاں وغیرہ۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب اگر آج لکھی جائے تو اُس میں دور حاضر کے بہت سارے مسائل کا بھی احاطہ ہوگا۔اُس میں ’کتاب ِمعاشیات‘، ’کتاب البینک‘، درامدات و برآمدات وغیرہ کی بھی بحث آئے گی۔اُسی طرح پیداوار اور مارکیٹ کا سیر حاصل احاطہ بھی ہوگا۔ہماری پرانی کتابوں میں مارکیٹ کا ذکر نہیں ملتا کیوں کہ اُس زمانے میں مارکیٹ، آج کی طرح منظم نہیں تھی۔آج مارکیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو نہ صرف ہماری روز مرہ زندگی کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ ہماری ثقافتی صنعت تک کواپنے دام الفت میں کیے ہوئے ہے۔ ہمیں اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہماری پسند اور ناپسند،فیشن کا معیار، کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کے معیارات پر مارکٹ کتنا اثر انداز ہوتی ہے۔اگر کسی تہذیب میں مارکیٹ اس حد تک اثر پذیر ہونے لگے تو ہمیں مارکٹ کے رول اور اس کی قوت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
اور اسلام اس قسم کے اداروں کے سلسلے میں کیامطمح نظر رکھتا ہے،یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمارے اسکالرز کی جانب سے دیا جاناچاہیے تھالیکن وائے ناکامی کہ اس سوال کا جواب جید ومشہور اسکالرز کی جانب سے بھی نہ دیا جا سکا۔ایسی کئی مثالیں ہیں جن کی بنیاد پر ہم اس مسئلہ پر گفتگو کرسکتے ہیں۔جب میں نے اسلام کو ان مثالوں اور مسائل کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی تو میرے ذہن میں کچھ اور بنیادی سوالات ابھر کرآئے کہ کیا مطالعات اسلامیات ایک مضمون (Subject)ہے یا ایک ڈسپلن (شعبہ) ہے؟
المیہ یہ ہے کہ اکثر اس کو ایک مضمون کی طرح پڑھا جاتا ہے حالانکہ ’اسلامک سائنس‘،’اسلامک آرٹ‘،’اسلامک تفریح‘،’اسلامک معاشیات‘،’اسلامک بینکنگ‘،’اسلامک لٹریچر‘ وغیرہ اصطلاحات زبان حال سے بتاتی ہیں کہ یہ ایک ’ڈسپلن‘ہے۔خاندانی نظام کا اسلامی تصوروغیرہ جیسے عنوانات میں آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام ریفرنس پوائنٹ ہے جو زندگی کے مختلف امور کو سمجھنے اور ان میں کام کرنے کی مشعل راہ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ الغرض یہ ثابت ہوتا ہے کہ مطالعات اسلامیات کو محض ایک مضمون یا مضمون کے تصور تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس بحث کو تعلیمی حلقوں میں عملی طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
میں کالج میں ’غیرمغربی سیاسی تصورات‘پر محاضرات دیتاہوں جس میں ’اسلام کا سیاسی تصور‘بھی پڑھاتا ہوں۔اسلام پر گفتگو کے دوران میں نے عرض کیا تھا کہ اسلام جب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ مکہ مکرمہ میں جلوہ نما ہواتھا تب اس وقت بہت سارے مذاہب موجود تھے اوردہریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔لیکن ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام اس زمانے کے مروجہ مذاہب کے خلاف ایک مذہب تھا۔گویا اسلام کی ابتداء ہی ’مذہب مخالف تصور‘سے شروع ہوئی ہے۔یعنی ایسا مذہب جو اُس زمانے کے مروجہ سماجی اور سیاسی استحصال پر مبنی مذہبی تصورات کے خلاف انقلاب کا حدی خواں اور بغاوت کے محرکات رکھتا تھا۔
آ پ اس زمانے کے سماجی نظام کو ہی دیکھ لیجیے۔شادی بیاہ،لڑکیوں کی وراثت،عورتوں کے حقوق وغیرہ کے سلسلے میں اسلام ساتویں صدی میں وہ باتیں کہہ رہا تھا جو آج بہت سے ترقی پسند اور سوشلسٹ حضرات کہتے ہیں۔ اُس دور میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھاکہ مرد اور عورت برابر ہیں کیوں کہ ساری مذہبی کتابیں یہی کہتی تھیں کہ عورت سب کچھ ہوسکتی ہے لیکن مرد کے برابر نہیں ہو سکتی۔جب کہ قرآن ہر جگہ مومن مرد وں اور مومن عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کررہا ہے۔آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد اسلام کی جو تشریحات ہو رہی ہیں وہ پھر اسی مذہبی نقطہ نظر پر آکر ٹکی ہیں اور آج اسلام میں وہی چیزیں ودیعت کر آئی ہیں جو اس زمانے میں دیگر مذاہب میں ہوا کرتی تھں۔ آج ہم عورتوں کے بارے میں وہی سوالات کرنے لگے ہیں جو اس دور میں کیے جاتے تھے کہ ”کیا عورت سچ مچ میں مرد کے برابر ہوسکتی ہے؟ابھی چند دنوں قبل کا ذکر ہے کہ ایک پروگرام میں ایک صاحب بند کمرے میں بیٹھ کر خطاب کر رہے تھے اور خواتین پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں۔مجھے لگا کہ رسول اللہ ﷺکے دور میں شاید ایسا ہوا کرتا تھا۔میں نے ان سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺکہ دور میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ رسول اکرم ﷺنے عورتوں کو خطاب کیا ہو اور بیچ میں پردہ لگا ہوا ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھالیکن ہم اتنے زیاد ہ اسلامی بن چکے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ تقویٰ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک تو دروازہ بند کردیا جاتا ہے اور دوسری طرف عورتیں نقاب میں بھی ہوتی ہیں تاکہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھ چھوڑا جائے! ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کی اسی مذہب مخالف تعلیم کی جانب ہمیں رخ کرنے کی ضرورت ہے جس کی طرف میں نے کچھ دیر پہلے اشارہ کیاہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اسلام ’مخصوص اعمال‘کا نام ہے یا اسلام اپنے آپ میں ایک ’سائنس‘ہے۔اگر اعمال ہے تو وہ کچھ حدود اور مخصوص سیاق و سباق میں ہی اثر پذیر ہوگا۔بر خلاف اس کے اگر اسلام سائنس ہے تو اُس کو سمجھنے اورسمجھانے کا ایک ’طریقہ‘ہوگا۔
سیدسلیمان ندوی ؒ کی مشہور سیرت نگاری جو’خطبات مدراس‘کے نام سے مشہور ہے اس میں انہوں نے ایک باب یہ باندھا کہ رسول اللہ ﷺکی سیرت، کاملیت کی خصوصیت اپنے اندر رکھتی ہے۔اسی طرز پر خود اسلام کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ ’فیوچرازم‘(مستقبل بینی)کی بات کرتا ہے۔مستقبل کے مختلف سماجی سیاق و سباق میں اپنے آپ کو سمجھانے کی قابلیت اسلام میں ہے اور یہ ازحد ضروری ہے کہ یہ وصف اسلام میں موجود ہو کیوں کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے اوررہتی دنیا تک کے تمام زمانوں کے لیے آیا ہے۔گویا اس میں ایسے طریقہ کار پر مبنی فریم ورک ہوگا جو اس بات کو ممکن بنائے کہ اسلام ہر دور میں انسانوں کے مسائل کا حل بن سکے۔ یہ وہ وصف ہے جس پر اکثر اسلامی محققین و علماء نے کم ہی نگاہ ڈالی ہے۔اگر اسلام چھٹی، ساتویں، گیارہویں، چودھویں، پندرہویں صدیوں میں قابل عمل اور افہام و تفہیم کے قابل ہو اور انیسویں و اکیسویں صدیوں میں نہیں ہو تو وہ آخری دین کبھی نہیں ہو سکتا۔ بالفرض محال ایسا ہے تو اسلام کو اس دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے کہ وہ مکمل دین ہے۔ لیکن قرآن خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ”اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّہِ الِاسلَام“ (سورہ آل عمران، آیت 19،ترجمہ: اللہ کا اصل دین اسلام ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں وہ عناصرپا ئے جاتے ہیں جو اُس کو ہمیشگی اور دوام عطا کرتے ہیں۔اس کو سبھی زمانوں کے مختلف فیہ سیاسی،سماجی،معاشیاتی و ثقافتی ضروریات میں مشعل رہ بننا چاہیے۔ کیا ہم اسلامیات کی تعلیم و تحقیق میں اسلام کے اس مستقبل بینی عنصر کو شامل کرتے ہیں؟
اب آئیے ہمارے عنوان کی طرف۔ما بعد اسلامی، سیاسی و سماجی سیاق و سباق میں مطالعات اسلامیات۔ اسلامی سیاسی و سماجی سیاق وہ ہوتا ہے جس میں مسائل کا حل خلیفہ یاقاضی وغیرہم کرتے ہیں، سب کچھ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہوتا ہے جیسے کہ ایک اسلامی ریاست ہوتی ہے۔جس میں اسلام حکومتی و دستوری قوت کا متحمل ہوتا ہے۔ما بعد اسلامی سیاق میں اسلام، بحیثیت دستوری قوت نہیں رہ پاتا۔آج دنیا میں کئی ایسے مسلمان موجود ہیں جو اسلام کو دستوری حیثیت دینے کے خلاف ہیں۔شریعت کو دستور کی بنیاد بنانے سے بہت سارے مسلمان انکار کرتے ہیں۔آپ دیکھتے ہیں کہ مصر،تیونس اور ترکی میں لوگوں نے اسلام کو یہ حیثیت دینے سے انکار کردیا تھا۔ ایک اور اہم بات یہ بھی کہ ہماری’قومی حکومتیں‘بہت طاقت ور ہوگئی ہیں، سعودی عرب اور ترکی کی مثالیں ہی لے لیں۔ سعودی عرب کی حکومت یہ طے کرتی ہے کہ اسلام کیا ہے۔مثال کے طور پر آج سے پانچ سال پہلے عورتوں کا گاڑی چلانا حرام تھا لیکن جب حکومت نے طے کیا کہ عورتیں گاڑی چلا سکتی ہیں تو فوری مفتی صاحب نے فتویٰ صادر کیاکہ عورتیں بھی گاڑی چلا سکتی ہیں اور ان کے لیے یہ عمل حلال ہے۔گو یا حلال اور حرام کیا ہے یہ اسلامک اسٹڈیز کی اسکالر شپ نے طے نہیں کیا بلکہ حکومت وقت نے طے کیا۔دیگر الفاظ میں مطالعات اسلامیات کا رخ کیا ہو، اس میں ریاست مداخلت کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست یا حکومت کو حق حاصل ہے کہ اسلام کوبیان کرے یا وضاحت کر ے؟ راشد الغنوشی صاحب کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسلام کی تشریح کرے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ چند اسلامی اسکالرز کو جمع کرے جو اسلام کے تئیں مختلف النو ع تشریحات و رایوں کی حد بندی کریں، جن کوبالآخر حکومت،عوام کے سامنے پیش کرے، یہ فیصلہ عوام کرے گی کہ کس تشریح اور کس رائے پر عمل آوری ہوگی۔جس پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ لیکن سعودی عرب میں اس کے بر خلاف عمل ہوا ہے۔اسی طرح ترکی میں بھی یہی ہوا۔جب کمال اتا ترک نے ملک کی باگ ڈورسنبھالی تو انہوں نے حکم دیاکہ کوئی عورت حجاب نہیں پہنے گی،کوئی مرد ٹوپی نہیں پہنے گا، کوئی عربی زبان استعمال نہیں کرے گا۔ یہ سب اسلام کے نام پر ہی ہوا۔ان کے یہاں ’دیانت‘ نام کی وزرات ہوا کرتی تھی جو اس کام پر مقرر کی گئی تھی۔الغرض کیا ریاست کے پاس ایسی قوت ہونی چاہیے کہ نہیں،یہ ایک موضوع ِبحث ہے۔لیکن زیادہ تر اسلامی ا سکالرز کہتے ہیں کہ ریاست کو یہ قوت حاصل نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بحیثیت مذہب اور بحیثیت فکری و عقلی روایت،طاقت کے حلقہ اثرسے آزادرہے گا۔ اسلام کی تشریح ریاست یا کوئی اور محدود سطح پر نہیں ہونی چاہیے۔
ایک اور چیز ما بعد اسلامی تناظر کو سمجھنے کے لیے میں سوچتا ہوں۔وہ مابعد صنعتی انقلاب کے سماج کی مثال ہے۔جس میں گزرے زمانے کی طرح بارٹر سسٹم نہیں ہوتا بلکہ انڈسٹری اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کام کر رہی ہے۔یہاں صرف آج کا پیسہ کام نہیں کر رہا ہے بلکہ مستقبل کا بھی پیسہ ہے۔خرید و فروخت صرف آج کی نہیں بلکہ آنے والے کل کی بھی ہو تی ہے۔اس کو ’مستقبل کا بازار‘کہتے ہیں اور رِسک (جوکھم) بھی اسی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔
مثال کے طور پرہمارے ملک کو آج اگر 50 /بیرل تیل کی ضرورت ہے، تو ہم محض 50/ بیرل کی خریداری نہیں کرتے بلکہ 2025ء کی ضروریات کی مناسبت سے کرتے ہیں اور پیسوں کی ادائیگی بھی 2025 کے مطابق آج ہی کردی جاتی ہے۔اس قسم کی معیشت اور طریقہ کار سے کچھ سماجی تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔اگر 2025ء کے کیے پٹرول آج ہی خریدا جاتا ہے اور پیسہ بھی دے دیا جاتا ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین میں 2025 ء تک دوستی برقرار رہے گی تا کہ سپلائی بھی 2025ء تک ہوتی رہے۔گویا موجودہ معاشی نظام نے ملکوں کے ما بین سماجی تعلقات کو بھی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور اسلام کو اس بدلے ہوئے معاشی،سماجی اور سیاسی منظر نامے پر گفتگو کرنی ہے۔
بہت سے افراد اکثر آئیڈیل اسلامک اسٹیٹ (مثالی اسلامی ریاست)کا حوالہ دیتے ہیں۔پاکستان کے عمران خان مدینہ والی اسلامی ریاست کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ ’قومی ریاستوں‘ (Nation States)کا تصور جو 1648ء میں یورپ سے ابھرا اور اور آج تک ساری دنیا میں اپنا وجود منوارہا ہے،آج بھی سب سے زیادو قابل عمل،پائیدار اور جواب د ہی کے قابل سیاسی ادارہ ہے اور ایک طویل عرصے تک اس کا وجود برقرار رہے گا۔
قومی ریاستوں کی عمارت ابھی چند سالوں میں لڑکھڑا نے والی عمارت نہیں ہے۔ اسلام قومی ریاست کو اس طرح نہیں مانتا جس طرح ’قومیت پسند نظریہ‘قومی ریاست کی شناخت کرتا ہے۔اسلام کا مطمح نظر کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ اگر افریقہ کے کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو ہندوستان کے مسلمان کو یہاں گھر بیٹھے اس درد کو محسوس کرنا چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی داد رسی کے لیے یہاں سے رقم اکٹھاکریں گے اور بھیجیں گے۔لیکن آپ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ’حوالہ‘ہے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔ یعنی قومی ریاست آپ کے لیے اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا آپ فلسطین کی حمایت کریں گے یا نہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرئیل ایک قابض قوت ہے،ہم فلسطین کی حمایت اور اسرئیل کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھا سکتے کیوں کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ اسرئیل کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی حمایت بھی کرتا ہے۔سرحد کہ اس پار سیلاب میں کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،کئی افراد مدد کے قابل ہوتے ہیں اور آپ ان کی مدد کے لیے نہیں جاسکتے کیوں کہ آپ اور ان کے درمیان موجود سرحد اس بات کی اجازت نہیں دیتی،گر چہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اُن کی مدد کے لیے دوڑو۔ اس مقام پر ہم یہ سوال کریں گے کہ کیا اسلام کو قومی ریاست کے حدود میں بیان کرنے کی ضرورت آگئی ہے یا ابھی بھی ہم اسلام کو عالمی حدود میں ہی بیان کرتے رہیں گے۔
ہمارے مطالعہ اسلامیات کے ادارے چاہے وہ مدارس ہو ں یا مدارس ک علاوہ دیگر ادارے،ان سوالات پر توجہ دینے کے لیے راضی نظر نہیں آتے کہ سیاسی،معاشی اورثقافتی تناظرات بھی کسی فلسفہ و نظریہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اگر ہم سیاق و سباق کی ان گتھیوں کو صحیح سے حل کردیتے توعین ممکن تھا کہ ان سوالات کا حل مل جاتا۔لیکن مطالعات اسلامیات کی موجودہ روایات میں ہم نے ان امورپرکما حقہ کام نہیں کیا۔
مثال کے طور پر رسول اکرم ﷺفرماتے ہیں کہ ”دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ ”ایک وقت آئے گا کہ زکوٰۃ کے مستحقین ڈھونڈے جائیں گے اور کوئی ملے گا نہیں۔“ ان احادیث کو اداروں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی پالیسیاں بھی ان ارشادات کی روشنی میں وضع کی جاسکتی ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی دنیا ایک ایسا سماج پروان چڑھائے گی جو ہر ایک شخص کے لیے محفوظ ہو گا، جیسے کہ حضرت محمد ﷺنے خواہش کی تھی یا پیشن گوئی کی تھی۔ ایسا سماج جس میں ایک عورت کو کسی قسم کا خوف و خطرہ لا حق نہ ہوگاسوائے اس کے پیدا کرنے والے کے خوف کے۔رسول اکرم ﷺدراصل ہم سے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ ایسے سماج کی داغ بیل ڈالی جائے،اس کی تعمیر کا نقشہ تیار کیا جائے۔اِسی طرح حضور اکرمﷺ ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سارے مسلمان زیادہ سے زیادہ تجارت کریں،پیسہ کما ئیں،امیر بنیں اور سماج میں خوشحالی اتنی عام ہو کہ لوگ زکوٰۃ دینے کی کوشش کریں تو کوئی ملے نہیں۔ اس کے بالمقابل مثال ہے کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کسی نے دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرلی وہ ان ہی میں سے ہے۔اس کا یہ غلط مفہوم نکال لیا گیا کہ جس کسی نے عیسائیوں کی طرح کوٹ پینٹ پہن لیا وہ عیسائی ہوگیا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اللہ کے رسول ﷺبھی مکّہ میں ہر حال میں ابوجہل و ابولب کے کپڑوں سے الگ کپڑے پہنے تھے۔ سیرت کی کسی بھی کتاب میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا، بلکہ یہ باتیں لکھی ملتی ہیں کہ آپ ﷺکے کپڑے پاک و صاف تھے۔رسول اللہ ﷺنہ صرف ان لوگوں کی طرح کپڑے پہنتے بلکہ آپ کا گھر بھی ان ہی لوگوں کی طرح تھا،اس زمانے میں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں تھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس حدیث میں بذات خودکچھ غلطی ہے یا ہم اس کی تشریح میں چوک کر رہے ہیں۔
قران حکیم کے سیاق وسباق کے مطالعہ میں بھی ہم نے غلطیاں کی ہیں۔قرآن میں سائنس و ٹکنالوجی پر بہت سی باتیں مل جاتی ہیں اور ہم مسلمان خود، جب کبھی سائنس و ٹکنالوجی کی بات ہوتی ہے تو یہ حوالہ دینے میں پیچھے نہیں ہٹتے حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ قدیم مسلم سائنسدان جیسے فارا بی و جابر ابن حیان وغیرہ پر کفر کا فتویٰ بھی داغا گیا تھا۔ ہم نے کسی کو معاف نہیں کیا ہے۔شبلیؒ و اقبالؒ کو،مودودیؒ کو بھی معاف نہیں کیا، قدیم علماء کو معاف نہیں کیا،سب کو کافر کہا جاچکا ہے۔لیکن اب چوں کہ ماضی پر فخر واستغناء کرنے کا معمول ہے تو ہم ان کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ قران مجید جب کائنات کو مسخرکرنے کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کائنات کے مشاہدے کو تعلیم کا حصہ بناتے۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں ایک اور باب ’کتاب المطالعہ للکائنات‘ہونا چاہیے تھا۔ ’کتاب العلم‘ کا وہ باب بھی باندھا جانا چاہیے تھاجس میں ہم کائنات و انسانوں کا مطالعہ کرسکتے۔ لیکن فقہ کی کتابوں میں ایسا کوئی باب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتاحالاں کہ قرآن ان چیزوں پربہت زور دیتا ہے۔ الغرض،مطالعات اسلامیات کے شعبہ نے اسلامی نصوص کے سیاق و سباق پر مبنی تشریح کو تسلیم نہیں کیا اور یہ مسئلہ اب بھی باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی چیز کے اسلامی وغیر اسلامی ہونے کا تعین کرنے میں بدلتے سیاق و سباق کو مد نظر نہیں رکھا جاتااور اس وجہ سے ہم اسلامی نصوص و روایات کا وہی مطلب نکالنا چاہتے ہیں جو مواد کے محدود پس منظر میں پایا جاتا ہے۔اسلام کا ہمیشہ ہمیش کے لیے ہونے کادعویٰ اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسلام میں کم از کم تھیوری کی سطح پر ’فیو چرازم‘اور ارتقا ء پسندی پائی جاتی ہوجس میں انٹرنیٹ و انفارمیشن سوسائٹی وغیرہ کے بارے میں بھی اسلام بحث کرے گا۔
ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ آیا اسلام ایک ٹھہرا ہوا جامد مذہب ہے یا حرکیاتی اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ مناسب تشریحات وتفہیمات کرنے والا مذہب ہے؟آج ہم اسلام پر جو گفتگو کر رہے ہیں وہ بسا اوقات جامد نقطہ نظر ہی ہورہی ہے۔
آخری اشکال یہ ہے کہ مطالعات اسلامیات یا اسلامی نقطہ نظر کی بنیاد میں طریقہ کار اہم ہے یا فقہ۔مثال کے طور پر کسی دور میں ایک مسجد میں کسی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ”کیا میں حنفی ہوں؟“ میں نے استفسار کیا کہ میرا حنفی ہونا یا کچھ اورہونا کیوں اہم ہے؟بالآخر میں نے کہا کہ آپ مجھے چند پیسے دے دیں پھر میں آپ کو وہی جواب دوں گا جو آپ چاہتے ہیں اس کیے کہ میرے نزدیک یہ بالکل غیر ضروری سوال ہے۔یہی سوال سنی وشیعہ سے شروع ہو کر مکاتب فکر کی ایک لمبی فہرست پر ختم ہو تا ہے۔جس میں اپنے آپ کوصحیح ثابت کرتے کرتے ایک عمر گزر جاتی ہے۔ ہر وہ بات جو اسلامی زاویہ نظر رکھتی ہواس کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر اِس سے پہلے ہم نے حضور اکرم ﷺکاارشاد مبارک بتایا تھاکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے تو اس کا مقصد کچھ یوں ہوگا کہ سماج کو خوش حال بنانا اسلام کا ایک مقصد ہے۔ اسی طرح اسلام کی اقتصادی پالیسی اسی تصور و مقصد کے گردگھومے گی اور پھر اس میدان میں ہماری بحث کچھ اس طرح ہوگی کہ کیسے زیادہ سے زیادہ لوگ معاشی طور پر خوش حال بن سکتے ہیں۔مزید آگے بڑھ کر امام ابو حنیفہ ؒ وشافعی ؒوغیرہ کی کتابوں اور ارشادات کو کچھ اس طرح لیا جائے گا کہ ان کی روشنی میں سماج میں خوش حالی کیسے لائی جا سکتی ہے۔ طریقہ کار پر گفتگو اور بحث ہونی چاہیے نہ کہ مسلکی مو شگا فیوں پر۔
اس وقت مطالعہ اسلامیا ت میں ان باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔اگر یہ چیزیں شامل کرلی جائیں تو بعید نہیں کہ مطالعہ اسلامیات کاشعبہ دور حاضر کے قوانین پر بھی اثر انداز بھی ہوگا اور اس دور کے مخصوص مسائل خاص طور ہمارے ملک ہندوستان کے مسائل کا حل اور ان کا تدارک بھی پیش کر سکے گا۔