مسلم نوجوانوں کی اصلاح اور ذہن سازی

ایڈمن

زمانہ جتنا آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی اہمیت، رول اور حیثیت بھی بڑھتی جائے گی۔ہر زندہ قوم،تحریک اور نظریہ نوجوانوں پر خصوصی تو جہ دیتا ہے کیونکہ یہ سب کو بخوبی معلوم ہے کہ اقوام وملل کو چلانے، تحریکوں…

زمانہ جتنا آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی اہمیت، رول اور حیثیت بھی بڑھتی جائے گی۔ہر زندہ قوم،تحریک اور نظریہ نوجوانوں پر خصوصی تو جہ دیتا ہے کیونکہ یہ سب کو بخوبی معلوم ہے کہ اقوام وملل کو چلانے، تحریکوں کو متحرک رکھنے اور نظریات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہمیشہ نو جوانوں نے نمایاں رول ادا کیاہے۔
نوجوان بلند عزائم کے مالک ہو تے ہیں، جہد مسلسل اور جفا کشی ان کا امتیاز ہو تا ہے ،بے پناہ صلاحیتیں ان میں پنہاں ہو تی ہیں، بلند پرواز ان کا ہدف ہو تا ہے ، چیلنجز کا مقابلہ کر نا ان کا مشغلہ ہو تا ہے، شاہینی صفات سے وہ متصف ہو تے ہیں، ایک بڑے ہدف کو حاصل کر نے کے لیے وہ بآسانی ساحل پہ کشتیاں جلانے کو تیار ہوجاتے ہیں،وہ ہوا ؤں کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔’باطل دوئی پسندہے اور حق لا شر یک‘ جیسا عظیم اعلان کر نے سے بھی وہ نہیں کتراتے۔ میدان کا رزار میں شکست کو فتح سے تبدیل کر نے کی قوت ان کے اندر موجود ہو تی ہیں ۔یہی نوجوان ہیں جو باطل پر ستوں کے خیموں کو ہلا سکتے ہیں۔ یہ نو جوان ہی ہیں جو ہر قوم و ملت اور تحریک کے لئے امید کی واحد کر ن ہو تے ہیں۔اسی کر ن کے سہارے اقوام و ملل اور تحر یکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کے مختلف منازل طے کر تی ہیں۔
یہ طبقہ اسی وقت قوم وملت کے لئے کار گر ثابت ہوسکتا ہے جب اس پر خصوصی تو جہ مر کوز کی جائے ۔ یہ طبقہ اسی وقت ملت کے لئے سا یہ دار اور ثمر آور درخت بن سکتا ہے جب ملت کا ہر طبقہ ان کی تعلیم و تر بیت اور اصلاح کے لیے اپنی صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کرلے۔ نو جو ا نوں کی اسلا می خطوط پر رہنمائی کر نا نہ صرف دور حا ضر کا بلکہ ہر دورمیں تجدیدی نوعیت کا کا م ہو تا ہے، بقو لِ مو لا نا علی میاں ندویؒ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نو جوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور اس کے حقائق پر وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نو جوان بری طرح گرفتارہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پو ری مطمئن کر دیا جا ئے۔ (بحوالہ نیا طو فان اور اس کا مقابلہ) اس اہم اور بنیا دی کا م سے تغافل بر تنا ایک سنگین جرم ہے۔ جس کا خمیازہ یقیناًبھگتنا پڑے گا۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زند گی سے نا آشنا ئی ،تزکیہ وتر بیت کی کمزوری، ان کے اندرفکری، تعمیر ی اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔اس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
۱)اسلام کی بنیا دی تعلیمات سے لاعلمی۔
۲)گھر میں اسلامی ماحول اور اسلامی شعور کا نہ ہونا۔
۳)اسلامی اخلاقیات اور شرم و حیا سے عاری ہونا۔
۴)بے روز گاری کی وجہ سے مختلف الجھنوں کا شکار ہو نا ۔
۵) مغربی تہذیب اورجنسی انارکی کے اثرات کی وجہ سے لذت پر ستی اور جنسی خواہشات کی لت لگنا۔
۶) حیا سو ز سیریلز ،فلمیں ،اور ویب سائٹس کی وجہ سے بے شما ر اخلاقی برائیوں کا عام ہو نا۔
۷)کاسمیٹک اور کار پوریٹ کلچر کے پھیلاؤ کی وجہ سے نو جو ا نوں کے درمیان ذہنی تناؤ اور ان کا مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہونا ۔
۸) نفسِ امارہ، ضمیر فروشی،اور مادہ پر ستی جیسی روحانی بیماریوں کا عام ہو نا ۔
۹) نو جو ا نوں کا والدین کی شفقت، محبت اور رہنمائی سے محروم ہو نا ۔
اس وقت مسلم سماج میں تین طرح کے طبقات موجود ہیں:
2ایک طبقہ وہ ہے جو مغربی فکر وتہذیب اور جدیدیت ومابعد جد یدیت سے مرعوب ہو کر آنکھیں بند کر کے اس کی تقلید محض کر رہا ہے۔
2دوسرا طبقہ وہ ہے جو مغربی فکر و تہذیب اور اس کے جملہ علوم کو اپنے دین و ایمان کے لئے خطرے کی علامت سمجھتا ہے، وہ اس سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے،اور زند گی گزارنے کے لئے ماضی سے چمٹ کر رہنا ہی کامیابی کا واحد ذریعہ باور کر تا ہے۔
2تیسرا طبقہ ایک متوازن طبقہ ہے ،جو مذکورہ دونو ں طبقوں سے مختلف رجحان رکھتاہے، یہ طبقہ ہر اچھا ئی اور خیر کی تلاش میں ہے، جو اس کو کہیں بھی ملے فوراً اس کو حاصل کر لیتا ہے۔
علم و آگہی کی تین راہیں:
نو جو انوں کی تعلیم و تر بیت اور اصلاح اس طرح کر نا کہ وہ اس متوازن طبقہ میں شامل ہو کر ایک ایسی زند گی گزار ے جو دین فطرت کو مطلوب ہے۔اس کے لئے علم ،تربیت اور سماج کا فہم وشعور ہونا از حد ضروری ہے۔وہ تین راہیں اس طرح سے ہیں:
(۱)علم :
علم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جن کے حصول کے لئے تگ ودو کر نا ہر مسلم نوجوان پر فرض ہے۔ علم ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت ایک انسان اپنے خالق کوپہچان سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ اپنی ذات اور خودی کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر رب کے رنگ میں (صبغۃ اللہ ) رنگ سکتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر ایک انسان صالح اور پرامن معاشرہ کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر سکتا ہے۔ انسان اپنے خالق کی قربت ومعیت اسی علم کی بنیاد پر حاصل کر سکتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی علم کے ذریعے سے طلبہ اور نو جوانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اس وقت طلبہ اور نوجوان جوعلم حاصل کر رہے ہیں وہ سیکولرزم اورمادیت کے زہر یلے اثرات سے مزین ہے۔ رائج نظام تعلیم میں ایمانی ،اخلاقی اور روحانی اقدار کا وجود ہی نہیں۔یہ نظامِ تعلیم مادیت (Metrialism)،عقلیت Rationalism))، لذت فروشی ((Hedonism،اور استعماریت (Imperialism) جیسے فاسد اصولوں پر مبنی ہے۔ اس میں کو ئی بھی روحانی عنصر موجو د نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں امر یکہ، روس ،یورپ اور چین جیسے تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک میں یعنی دنیا کی ۳۰؍ فیصد آبادی میں اسی (۸۰)فیصد جرائم ہو تے ہیں، اس کے برعکس ۷۰؍ فیصد غیر تعلیم یا فتہ اور ترقی یافتہ ممالک میں جرائم کا گراف بہت کم ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ علم کو اپنا صحیح مقام دیا جائے اور اس کو وحی الہی کے اس ابتدائی پیغام کی طرف لوٹا دیا جائے: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ ترجمہ: ’’پڑھو اے نبی ؐ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ۔پڑھو تمہا را رب کر یم ہے۔ جس نے قلم سے علم سکھا یا۔‘‘
یہ تو صرف ابتدائی پیغام ہے، قرآن مجید میں اس جیسی رہنمائی جگہ جگہ ملتی ہے، اور تقریباََ ۷۵۰؍ سے زائد آیتیں علم کے موضوع پر ہیں، لہٰذا قرآن کے نظریہ علم کو غور سے پڑھا اور سمجھا جائے اور پھر اپنے لئے راہیں متعین کی جائیں؛ علم کا رشتہ جب خالق کائنات کے ساتھ استوارہو جائے،تو ہم ایک صحتمند اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں کا میاب ہو سکیں گے ۔
(۲)تر بیت :
علم کے بعد دوسری چیز تر بیت ہے جس کے ذریعے سے طلبہ اور نوجوانوں کو اسلام کے متعین کردہ حدود کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید نے تر بیت کے لئے ایک بہت ہی خوبصورت اور بلیغ لفظ استعمال کیا ہے، جس میں جامعیت کے ساتھ ساتھ گہرائی بھی ہے، تزکیہ کے معنی نفس کو جملہ برائیوں ،گندگیوں اور شرک جیسے کبائر گناہوں سے پاک کر نا اور پھر اس کو اچھائیوں اور خوبیوں سے خوب خوب تر قی دینا اور پروان چڑھا نا ہے۔ تزکیہ نفس ہی اخلاقی، روحانی اور مادی ترقی کا ضامن ہے۔ تزکیہ فر د کی اصلاح و تعمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ اقدار پر مبنی معاشرے کا قیام بھی اس کا مطلوب ہے۔ تزکیہ نفس ہی کو حقیقی کامیابی قرار دیا گیاہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی‘‘ ( سورۃ الاعلیٰ)، دوسری جگہ یہ بھی آیا ہے کہ جس نے اس کو بُرائی کی طر ف مائل کیا وہ نا کام ہوا ۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’یقیناًفلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘(سورۃ الشمس)، لہٰذا ضروری ہے کہ نو جوانوں کے فکر و عمل کو صحیح رُخ دیا جائے۔انہیں اسلام کے دئیے ہو ئے نظام تزکیہ کے مطابق ڈھالا جائے، ان کے سوچنے سمجھنے اور فہم و شعور حاصل کر نے کا زاویہ متعین کیا جائے ۔
(۲)سماجی فہم و شعور:
سماج کیا ہے ؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ اس کے محاسن کیا ہیں ؟ اس کے فاسد عناصر کیا ہیں ؟ ان سبھی پہلوؤں کا صحیح اور گہرا شعور اور فہم ہو نا چاہیے۔سماج گھر کی طرح ہو تا ہے فر ق صرف یہ ہے کہ گھر ایک چھوٹی سی اکائی ہوتی ہے جبکہ سماج ایک بڑی اکائی کا نام ہے۔ اس بڑی اکائی کو صالح بنیادوں پر تشکیل دینا ہر نوجوان کی اولین ذمہ داری ہے،بشر طیکہ اس کو اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہو ۔اسلام ذمہ داری، ملنساری ،اتحاد و اتفاق ،جذبہ مسابقت الی الخیر اور عدل و انصاف کی تلقین کر تا ہے۔یہ صالح معاشرے کے بنیادی اوصاف ہیں، ان ہی کے ذریعہ ایک پرامن معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔اسلام دوسروں کے حقوق ادا کر نے کے علاوہ خیر خواہی کی بھی تلقین کر تا ہے۔ اسلام دوسروں سے منہ پھیر کر زند گی گزارنے سے منع کر تا ہے اور سماج سے الگ تھلگ رہنے یا کٹ کر رہنے سے بھی باز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے حضرت لقمانؑ کاقول نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کر تے ہو ئے فر مایا: وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ ( لقمان) ’’اور تم لو گوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر و‘‘ ۔صعر اصل میں ایک بیماری کا نام ہے جوعرب میں اونٹوں کی گردنوں میں پائی جاتی تھی۔یہ بیماری جب اونٹ کو لگ جاتی ہے، تو وہ اپنی گردن دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔
لائحہ عمل:
نوجوانوں کی تعلیم و تر بیت اور ان کی اصلاح وذہن سازی کے ضمن میں تین اداروں کا اہم اور نمایاں رول ہے :
( ۱)والدین ،گھر اور دیگر سرپرستوں کا رول۔
(۲)اسکولس، کا لجز اور دینی اداروں کا رول۔
(۳)مسلم دانشوروں ،قائدین ،تنظیموں اور تحریکوں کا رول۔
(۱)والدین، گھر اور دیگر سرپرستوں کا رول:
نو جوانوں کی تعلیم و تر بیت میں والدین اور گھر کا سب سے اہم اور کلیدی رول ہو تا ہے ۔والدین اور گھر ہر بچے کا اولین مدرسہ یا تر بیت گاہ ہوتے ہیں جہاں سے بچے نہ صرف ابتدائی اور بنیادی باتیں سیکھتے ہیں بلکہ عادات و اطوار اور رویہ بھی گھر ہی سے سیکھتے ہیں۔ والدین جتنا اسلامی علوم و تر بیت سے آگاہ ہوں گے اتنا ہی وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تر بیت پر توجہ دیں گے، جو والدین خود دین رحمت پرقائم و دائم ہوں وہ اپنے بچوں کو اسلامی خطوط پر بہترین تر بیت کر سکتے ہیں اور جو والدین اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تر بیت سے محروم رکھتے ہیں وہ ایک عظیم جرم کا ارتکا ب کر تے ہیں،جو بچہ اپنے ماں باپ کی تعلیم و تر بیت سے محروم رہے وہی حقیقی معنوں میں یتیم کہلاتا ہے۔بقول ایک عربی شاعر:
لیس الیتیم من انتھی أبواہ
من ھم الحیاۃ وخلفاہ ذلیلا
ان الیتیم ھو الذی تلقی لہ
أما تخلت أو أبا مشغولا
ترجمہ: ’’یتیم وہ نہیں ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اس کو تنہا اور بے سہارا چھوڑ گئے ہوں، یتیم تو وہ ہے جس کی ماں نے اس سے بے اعتنائی برتی ہویا باپ مصروف رہا ہو۔‘‘
لہٰذا والدین اور گھر کے دیگرافراد پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تر بیت ،رہنمائی اور اصلاح سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ رہیں۔
(۲)اسکولس، کا لجز اور دینی اداروں کا رول :
عصرحاضر میں تعلیمی ادارے تر بیت گاہ کے بجایے ذبیحہ خانے کی شکل اختیار کرچکے ہیں، بقول اکبر الہ آبادی ؂
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
نونہالوں اور نوجوانوں کو اگر مہذب طریقے سے قتل کر نا ہو تو ان تعلیمی اداروں سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی ۔ان اداروں میں طلبہ کو علم کے نام پر معلومات اورجانکاری تو فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن ان کو اصل حقیقت سے ناواقف ہی رکھا جاتا ہے ۔ان تعلیمی اداروں میں ایک نو جوان اور طالب علم ان بنیادی سوالات کا جواب دینے اور حاصل کرنے سے پو ری طر ح سے قاصر ہے کہ میں کون ہو ں ؟ میرا خالق و مالک کون ہے؟ میر ی تخلیق کا مقصد کیاہے ؟ مجھے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا میں کیوں بھیجا گیاہے؟ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کہاں جانا ہے ؟
وہ تعلیم جو یہ تعلیمی ادارے فراہم کر رہے ہیں، وہ اگر خالق ومالک سے دوری پیدا کریں تو اس کا کیا فائدہ ؟اقبال کی زبان میں ؂
اللہ سے کر ے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ
لہٰذا مسلم تعلیمی اداروں میں نصاب اس طرح تشکیل دینا ہو گا کہ وہ طلبہ کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تربیت کر نے کے ساتھ ساتھ تعمیر ی اور بامقصد ہو۔
(۳) مسلم دانشوروں ، قائدین، تنظیموں اور تحر یکوں کا رول :
نو جو انوں کی تعلیم و تر بیت اور ان کی ذہن سازی مسلم دانشوروں، تنظیموں اور تحریکوں کی ایک اہم ذمہ داری ہے ۔تصورِ خلافت اسلام کا اہم اور بنیادی تصور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے اب جو کو ئی کفر کر تا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے‘‘۔ اس طر ح قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے کہ فر شتوں سے کہا گیا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنا نے والا ہوں‘‘۔ خالق کائنات نے انسان کو ایسے ہی نہیں چھوڑدیا بلکہ اس کے لئے زمین و آسمان کو مسخر کیا،چنانچہ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے: ’’جس نے سورج اور چاندتمہا رے لئے مسخر کیے کہ لگا تارچلے جارہے ہیں۔ اور رات اوردن کو تمہارے لئے مسخر کیا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو اس لئے تخلیق کیا کہ یہ تمہارے لئے ہر اعتبار سے فائدہ مند ہیں۔غرض کہ یہ حقیقی اور بنیادی تصور نو جوانوں کے ذہنوں میں نقش کیاجائے تاکہ وہ اس دنیا میں نیابت یا خلافت کا فر یضہ انجام دے کردونوں جہانوں میں سر خ روئی اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں، نوجوانوں کی صحیح تربیت، اصلاح اور ان کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی ضمانت ہے۔مجموعی طور پر ان تینوں اداروں پر جو ذمہ دار یاں عائد ہو تی ہیں وہ یہ ہیں کہ :
(۱)نو جو انوں کے ذہنوں میں تصور خلافت، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت جیسے بنیادی اور اہم تصورات کا صحیح شعور بیدار کر یں۔
(۲)نو جوا نوں کو اخلاقی ورحانی ،سماجی اورفکری طور سے تیار کر نے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں دنیا کی قیادت کر سکیں ۔
(۳) نوجوانوں میں ایسی اسلامی بصیرت اور وژن پیدا کر نے کی ضرورت ہے کہ وہ نہ صرف ملت اسلامیہ کی بلکہ پوری دنیا کی رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہو سکیں ۔
(۴)انہیں اسلامی علوم بالخصوص قرآنی تعلیمات سے روشناس کرانا تاکہ وہ ہر میدان میں دنیا کو ایسے متبادل فراہم کر سکیں جو الہٰی ہدایات اور اقدارپر مبنی ہوں۔
(۵) نو جو انوں کو تعلیم کے زیور سے اس طرح آراستہ کر نا کہ وہ علم کی تقسیم کے قائل نہ رہیں، انہیں تعلیم ایک اکائی کی حیثیت سے دی جائے، علم کی دینی ودنیوی خانوں میں تقسیم کسی بھی طور سے درست نہیں ہے۔
(۶) ان میں ایسی دعوتی اسپرٹ پیدا کر ناکہ وہ ہر جگہ داعی کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر سکیں۔

مجتبیٰ فاروق، اسکالر ادارہ تحقیق وتصنیف،علی گڑھ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں