امی مجھے ابو سے حیدرآباد جانے کی اجازت دلوادیں پلیز صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے میرے Entrance exam کو، جواب میں امی مجھے دو منٹ گھورتی رہیں پھر غصہ سے کہا تمہیں یہ اچانک جرنلزم کرنے کا بھوت کیوں سوار ہوگیا ہے، تمہیں آگے پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں کیا یہ کافی نہیں ؟یہیں کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لو اور اپنا پی جی مکمل کرلو۔ پر امّی میں ایک مہینہ سے تیاری کر رہی ہوں صرف امتحان تو لکھنے دیں، ایڈمیشن لینا ہے یا نہیں وہ بعد میں طئے کریں گے۔ دیکھو اَمرین تمہارے ابو تمہیںگھر سے اتنی دور کبھی نہیں بھیجیں گے ،نہ داخلہ امتحان دینے کے لئے اور نہ اس کے بعد دوسال تک تمہیں ہاسٹل میں رہنے کے لئے اجازت دیں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم یہ ضد چھوڑ دو ۔ امتحان سے قبل تقریباً ایک ہفتہ امرین کی اپنے گھر کے ہر بڑے کی منت سماجت کرتے گزر گئی کہ کوئی اسے ابو سے اجازت دلوادیں۔ امرین کے بہت اصرار پر آپی نے ابو سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ابو نے سختی سے منع کردیا اس طرح دیکھتے دیکھتے ایک ہفتہ گزرگیا اور امتحان کی تاریخ بھی گزرگئی۔تقریباً دو تین دن امرین غصہ ، ناراضگی اور رونے دھونے میں لگی رہی اور جب غصہ ختم ہوا تو اس اعلان کے ساتھ کہ اسے آگے پڑھنا ہی نہیں ہے۔۔۔!
یہ ایک امرین کی کہانی نہیں ہے ، مسلمان گھرانوں کی ایسی کئی لڑکیاں ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ پُر عزم رہتی ہیں اور اپنے تئیں ہر ممکن کوشش بھی کرتی ہیں کہ اپنے خوابوں کو پورا کرلیں لیکن کئی ایسے ذاتی ، سماجی و معاشرتی مسائل ہوتے ہیں کہ یا تووہ اپنے خوابو ں سے سمجھوتا کرلےتی ہیں یا ضد میں آکر مکمل طور پر پڑھائی سے ہی قطع تعلق کرلےتی ہیں۔
یہ نہایت خوش آئندبات ہے کہ ماضی کی بہ نسبت آج مسلمانوں میں اپنی لڑکیوں کو توتعلیم دلوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں وہ دلچسپی، وہ خوشی اور سرگرمی والدین یا لڑکیوں کے سرپرستوں کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملتی جو کہ لڑکوں کے معاملہ میں نظر آتی ہے۔
مسلمان لڑکیوں کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست والدین اور گھر والوں کا عدم تعاون ہے یا ایک طرح سے اپنے گھر والوں کی مخالفت کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ والدین اپنی بیٹیوں کے معاملہ میں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں اس لئے وہ والدین جو کچھ حد تک تعلیم کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں زیادہ سے زیادہ اپنی بیٹیوں کو گریجویشن تک تعلیم دلواکر ان کی شادی کی فکر کرنے لگتے ہیں اور کچھ والدین جو سرے سے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوتے یا یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم ان کی بے راہ روی کا سبب ہوگی ، ان کی اولین ترجیح اپنی بیٹیوں کے شادی کے فرض سے سبکدوش ہونے کی رہتی ہے۔
والدین کے عدم تعاون کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے ان کی نا واقفیت اور لاشعوری کی بنا پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کئی ایسے گھرانے جواپنے آپ کو کٹر مذہبی گراندتے ہیں یا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ اسلامی قوانین کی پابندی کرنے والے ہیں وہ لڑکیوں کے معاملہ میں سراسر جاہلیت کا ثبوت دیتے ہیں اور گھر کی حد تک اپنی بچیوں کا ناظرہ قرآن اور چند دینی امور کی تعلیم دے کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری مکمل کرلی ہے۔
عام طور پر یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ گھرانے جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں یا JOB کر رہی ہیں وہ یا تو اپنی گھریلو معاشی مجبوریوں کی بنا پر ہوتا ہے یا پھر رشتہ کے معاملہ میں دیر ہونے لگتی ہے تو اس وقت تک لڑکی کو اجازت دے دی جاتی ہے کہ وہ شادی کے معاملات طئے پانے تک اپنا شوق پورا کرلے۔
لڑکیوں کے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مانع ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جتنی بھی والدہ محترمائیں اپنے بیٹوں کے لئے لڑکی کی تلاش میں نکلتی ہیں تو خوبصورت، کم عمر او ر کم تعلیم یافتہ ان ماﺅں کی اولین ترجیح ہوتی ہے کیونکہ ان خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ کم عمر اور کم پڑھی لکھی لڑکیاں بہت جلد سسرال کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوجاتی ہیں لیکن اس پہلو پر وہ بالکل غور نہیں کرتی کہ کم پڑھی لکھی لڑکیاں ان کی آنے والی نسل کی صحیح تربیت نہیں کرسکتیں۔ اگر لڑکی کی عمر زیادہ ہے یا کوئی لڑکی پوسٹ گریجویٹ یاPhD مکمل کئے ہوئے ہو تو صرف اس بنا پر اس بات سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے کہ آنے والی لڑکی ملازمت کرکے سسرال کے معاشی مسائل کے حل کا مستقل ذریعہ بنے گی۔ کچھ لڑکیاں جو پڑھنے کی بہت زیادہ شوقین ہوتی ہیں شادی کے بعد بھی اپنے شوق کو دبا نہیں پاتیں اور اگر ساس سسر اور خاص کر شوہر اگر لڑکی کے اس شوق کی قدر کرنے والے ہوئے تو لڑکیوں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے لیکن تب بھی آس پڑوس میں رہنے والی خواتین اور دیگر رشہ داروں کے بہو کی تعلیم حاصل کرنے پر اعتراضات شروع ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ شوہر و ساس کو اس بات پر اکسانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بہو کی تعلیم بند کراکر اسے گھر بٹھائےں۔ ضروری نہیں کہ ہر لڑکی کے سسرال میں یہ صورتحال ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں 60% گھرانے ایسے ہیں جو اس بات کے حق میں نہیں ہوتے کہ ان کی بہو کالج یا یونیورسٹی جاکر تعلیم حاصل کرے۔
کئی دفعہ شادی سے قبل شوہر اور اس کے گھر والوں کی لڑکی کے سامنے ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ بہت ساری لڑکیاں سسرال میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنے سارے ارمان اور خواب مائیکے میں ہی چھوڑجاتی ہیں اور وہ لڑکیاں جو اپنی تعلیم کو لے کر بہت زیادہ سنجیدہ اور حساس ہوتی ہیں جنھیں شادی کی بنا پر اگر تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑے تو اس بات کا سب سے بڑا ذمہ دار وہ اپنے شوہر اور اہل سسرال کو سمجھتی ہیں۔
والدین اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے پراس لئے بھی آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ پھر ان کی تعلیمی قابلیت کے مطاطق رشتہ ملنے میں دشواری ہوتی ہے اور اگر کہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادی کم تعلیم یافتہ لڑکوں سے کردی جاتی ہے تو یہ بات آگے بہت سارے مسئلوں کا سبب بھی بنتی ہے، شوہر اور بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوپاتی ، شوہر ہر وقت ایک احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے یاپھر بیوی کی جانب سے شوہر کے کم پڑھا لکھا ہونے کا احساس دلانا یا اس بات کے طعنے دینا، یہ امور آخر کار ایک ناختم ہونے والی سنگین صورتحال اختیار کرلیتے ہیں۔
مسلمان گھرانوں میں موجود معاشی مسائل بھی ایک اہم وجہ ہے جس کی بنا پر والدین لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے پاتے، ان کا صرف یہ یقین ہوتا ہے کہ جتنی بھی جمع پونجی ہے اسے خرچ کرکے لڑکوں کو تعلیم دلادیں تو وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا ہونگے۔
دیہاتوں اور گاو¿ں میں رہنے والی طالبات اور والدین کے لئے یہ بھی مسئلہ ہوتا ہے کہ دیہاتی سطح پر اچھے اور میعاری اسکول اور کالجس موجود نہیں ہوتے اور والدین اپنی بیٹیوں کو ہاسٹل میں رکھ کر تعلیم دلانے کی ہمت نہیں کر پاتے اور ایک حد تک ان کا یہ خوف بجا بھی ہے کیونکہ اپنی بیٹیوں کو ہاسٹل بھیجنے سے پہلے ہندوستانی والدین کو عائشہ میراں کی یاد ضرور آتی ہے (ایک 19 سالہ، نمرہ کالج ، بی فارمیسی سال اول کی طالبہ جس کی نعش 27 دسمبر2007 کو برہنہ حالت میں اپنے ہاسٹل کے باتھ روم میں حاصل ہوئی) اور آج تک حکومت ہند اور قانون ہند اس کے ماں باپ کو انصاف نہیں دلاسکے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جو ماں باپ کو اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ہاسٹل بھیجنے سے روکتی ہیں۔
بعض دفعہ جب ماں باپ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے تیار ہوتے ہیں تو بھائیوں کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ ان کی بہنیںان سے زیادہ تعلیم حاصل کریں یا پھر گھر سے دور ہاسٹل میں رہیں ، بہنوں کا گھر سے باہر کالج اور یونیورسٹی جانے کے مقصد سے نکلنا بھی ان کی نظر میں انتہائی معیوب ترین بات ہوتی ہے۔
مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں اور پوری دنیا میں انڈونیشیاءکے بعد ہندوستان دوسرا ملک ہے جہاں مسلمانون کی اکثریت پائی جاتی ہے۔
2011ءکی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں میں ناخواندگی کا فیصد 42.7% ہے جو کہ پورے ملک کی ناخواندگی کی شرح سے بھی زیادہ ہے۔ ہندوستان کی 67 ملین مسلم خواتین میں خواندگی کا فیصد 41 سے بھی کم ہے اس سے زیادہ خطرناک اعداد و شمار مسلمان خواتین اور غیر مسلم خواتین کے درمیان خواندگی کا فرق ہے۔ گریجویٹس مسلم خواتین اور غیرمسلم گریجویٹس میں 63% کا فرق ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کی کثیر تعداد گریجویشن تک بھی تعلیم حاصل نہیں کرپاتی ہیں مزید افسوسناک بات یہ کہ یہ فرق دسویں تک تعلیم حاصل کرنے والی غیر مسلم اور مسلم خواتین میں 35% ہے یہ مسلمان خواتین کی ابتر ترین تعلیمی صورتحال ہے۔
مسلم لڑکیوں کی شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے چند عملی تجاویز:۔
۱) لڑکیوں کے والدین ، سرپرستوں اور خصوصاً مکمل مسلم معاشرہ میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر شعور بیداری مہم چلائی جائے۔
۲) لڑکیوں کی تعلیمی ترقی سے متعلق حکومت ہند اور ریاستی حکومت کے تحت چلائی جانے والی مختلف اسکیمیں وغیرہ سے لڑکیوں اور ان کے والدین کو واقف کرایا جائے تاکہ ان کے معاشی مسائل لڑکیوں کی تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
۳) لڑکیوں کے اندر اس بات کا حوصلہ اور عزم پیدا کرنا کہ اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر وہ اعلیٰ تعلیم کے حصو ل کو ناممکن یا شرمندگی کا باعث بالکل نہ سمجھیں جب بھی حالاتِ زندگی اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی نامکمل تعلیم کو مکمل کرسکیں تو انھیں ضرور اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہئے۔
۴) لڑکیوں کو چاہئے کہ اگر ریگولر طرز کی بنیاد پر اپنی تعلیم مکمل کرنا ممکن نہ ہو تو فاصلاتی طرزِ تعلیم کے ذریعہ ہی تعلیم مکمل کریں، اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنے آپ کو نئے ہُنر و فن سے آراستہ کریں۔ ضروری نہیں کہ گھر سے باہر جاکر روزگار تلاش کریں ، آج Small Scale Industry کے تحت چلنے والی تمام چھوٹی صنعتوں کا آغاز گھر سے ہی ہوتا ہے ،وہ لڑکیاں جو گھروں سے باہر یا شہر وغیرہ نہیں جاسکتیں وہ گھر بیٹھے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواسکتی ہیں۔
۵) امت مسلمہ کے قائدین ، علمائے دین اور دانشوروں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ لڑکیوں اور والدین کو درپیش عملی مسائل کا سد باب کریں ، ان کی کونسلنگ کریں ، اعلیٰ تعلیم کے لئے ان کی رہنمائی کریں ، معاشی وسائل کے لئے کوئی مخصوص فنڈس جمع کریں اور انہیں امت مسلمہ کی تعلیمی ترقی کے لئے صرف کریں ۔اس ضمن میں BETI Foundation کی کوشش لائق تحسین ہے۔
BETI Foundatio: Better Education Through Innovation کا قیام مارچ 2000 ءمیں عمل میں آیا اس عزم کے ساتھ کہ بچھڑے ہوئے محروم و پسماندہ طبقات کی لڑکیوں کی زندگیوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کیا جائے، ”بیٹی فاﺅنڈیشن“ کا آغاز ابتداءمیں AED – Acadmy for Educational Dvelopment واشنگٹن کے تحت تعلیمِ نسوان کے فروغ کے لئے 1999ءمیں Technology- WID-TECH(USA) Women in Development کے مالی تعاون سے عمل میں لایا گیا۔ اکتوبر 2001ءمیں USAID کے مالی عطیات فراہم کرنے کی مہم کے اختتام تک یہ فاﺅنڈیشن ایک عطیہ کردہ پروجکٹ سے Self reliant foundation میں تبدیل ہوگیا۔
اکابرین و قائدین امت مسلمہ کو ایسے اداروں کا قیام عمل میں لانا چاہئے اور عملی طور پر امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی ہوگی تو یقینا خواتین کے شرح خواندگی میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
تمام مسلم لڑکیو ں کو ان کے والدین اور سرپرستوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ تعلیم صرف روزگار فراہم نہیں کرتی بلکہ یہ آگاہی اور شعور عطا کرتی ہے، اپنی زندگی میں درپیش تمام مسائل کا صحیح حل تلاش کرنے کی ہمت ، صلاحیت اور سِمت عطا کرتی ہے۔ تعلیم انفرادیت اور اجتماعیت میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اس حیثیت سے یہ فرد اور معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے ، تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے معاشرہ تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتا ہے اور خصوصاً عورت کی تعلیم ایک نسل کے اعتقادات و تصورات ، روایات و اقدار، تہذیب و تمدن ، علوم و فنون ، خاندانی پیشہ ، رسم و رواج ، خواہشات و دلچسپیاں وغیرہ کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں ہم قرون اولیٰ کی خواتین پہ نگاہ ڈالیں تو حضرت عائشہؓ کی عظیم الشان مثال ہمارے سامنے آتی ہے انھوں نے اپنی آنے والی نسلوں پہ یہ احسا ن کیا کہ رسول ﷺ سے ہر مسئلہ باریک بینی کے ساتھ سیکھ کر ان کے رموز و نکات کو امت تک پہچایا۔ احادیث کا آپؓ سے زیادہ مروی ہونا ، ساتھ ہی ساتھ مختلف علوم میں (جو اُس وقت موجود تھے) آپ کا ماہر ہونا اس بات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ لڑکیاں علم کے میدان میں آگے جائیں تاکہ مسلم لڑکی اپنی جنس کو کمزوری بناکر اپنے آپ کو پیچھے نہ رکھیں ، اس امت کو اچھی ماﺅں کی ضرورت ہے جو محمد بن قاسم ، زینب الغزالی اورمولانا مودودیؒ جیسے مجدداور داعی پیدا کرسکیں ۔ حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہ سیرینؓ ، حضرت شفا بنت عبداللہؓ ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام سلمیٰؓ اور کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں جنھوں نے اس امت کو اپنی خدمات پیش کی ہیں ایسی خواتین کی طرح آج کی ان لڑکیوں کو بننا ہے تاکہ کل اسلام کا ایک بہتر مستقبل بن سکے جہاں کامیابیاں ہماری ضمانت ہوں۔
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
(علامہ اقبالؒ)
از: فرح اِرم