از: عرشیہ آفاقی
2017عالم اسلام کیلئے بڑا دردناک رہا، ترکی میں بغاوت، یمن اور عراق، مصر کے حالات، برما کے مسلمانوں کی مظلومیت کی داستانیں، شام میں موت کا ننگا ناچ، انسانیت روتی رہی تڑپتی رہی۔
شام میں کھنڈر میں تبدیل ہوتے خوبصورت شہر، اس افراتفری میں بھی اللہ کی عبادت کرتے لوگ، دھول میں اٹے ہوئے ملبے میں دبے دھسے پھول جیسے چہرے بم کے دھماکوں میں تلاوت کرتے قرآن کو تھامے ہوئے نوجوان یہ سب دیکھ کر دل روتا رہا، دماغ جھنجھناتا رہا۔
حق و باطل کی جنگ ازل سے ہے ابد تک رہے گی ان سارے حالات میں جو پہلو تشویشناک رہا وہ عالم اسلام کی بے حسی ہے۔ وحدت اسلامی کا جو تصور قرآن ہمیں دیتا ہے امت مسلمہ اس کی نفی کرتی نظر آئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم ایک جسم واحد کی طرح ہو، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جسم کا ایک حصہ کٹا پھٹا ہو، لہولہان ہو جسم کے دوسرے حصے اس تکلیف کو محسوس نہ کر پائیں ۔ ضرور میرا جسم بیمار ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے قوم کی بیٹیاں اپنی عصمتوں کو بچاتی ہوئی قوم کو للکارتی رہی مدد کیلئے بلاتی رہیں اور قوم کی کان پر جوں تک نہیں رینگی۔معصوم بچے بلکتے ہوئے ملبے سے اپنی ماوں کو تلاش کرتے رہے بقول شاعر ہم سے کوئی پوچھے کہ مفہوم قیامت کیا ہے؟زخمی لوگ سوال کرتے رہے کہ امت مسلمہ کہاں ہیں؟ امت مسلمہ کے سب افراد دنیا کی اونچی عمارتوں کے ذریعہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، مسجدوں کی تزئین میں مشغول ہیں ظاہر ہے اللہ کو حساب دینا ہے کہ مال کہاں کھپایا؟
دل تو اس بات پر کٹتا ہے کہ کئی مسلمان اس بات سے بالکل انجان ہے کہ برما کے مسلمانوں کے کیا مسائل ہیں، شام میں مرنے اور مارنے والا ایک ہی ہے روہنگیا مسلمانوں کی بقا کو کس قسم کا خطرہ لاحق ہے، فلسطینی مجاہدین کیسی خوشی میں آگے بڑھ بڑھ کر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ افسوس صد افسوس دنیا کی مصروفیات خواہشات کے ہجوم میں نا تاریخ یاد رہی نہ مستقبل کے خطروں کا احساس رہا۔جہاں تک مسلمانانِ ہندکی بات ہے جو مسلمان حکمران ہیں اُنھیں حکومتوںکے چھن جانے کے ڈر نے خوشامدکرنے پرمجبورکر رکھاہے۔ کب بہادری کی جگہ بزدلی نے لے لی پتہ ہی نہیں چلا۔ خواہشات کے ہجوم میں نا تاریخ یاد رہی نا مستقبل کے خطروں کا احساس رہا۔ خود ہندوستانی مسلمان بھی خطرات کی زد میں ہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے تشخص پر سوال کھڑا کرنا، مذہبی معاملات میں حکومت کا عمل دخل غرض کہ مسلمانوں کو گھیرنے کی پوری تیاری نظر آتی ہے۔ ان حالات میں بھی ناعاقبت اندیش مسلمانوں کی سار ی توجہ خود کے اپنے معاشی مسائل کی طرف ہے جس میں وہ ہزار ہاتھ پیر مارنے کے باوجود کوئی صحیح حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے وہیں کے وہیں نظر آتا ہے۔
ہماری معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اس وقت کی اشد ضرورت قوم کو خود مکتفی بنانا ہے اور یہ علم و ہنر کے بغیر ممکن نہیں ہے تعلین کے ذریعہ ہی ترقی کے زینے چڑھا جاسکتا ہے۔ تعلیم کی کمی یا پھر محنت سے جی چرانا سمجھ لیجئے، ہمارے نوجوانوں نے چھوٹے کاموں کو اپنی پہنچ سمجھ لیا ہے بے شک پیشہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا لیکن کچھ پیشے کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں قدم قدم پر پُر شکوہ تاریخی عمارتیں جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں ہمارے زوال کی داستانیں سناتے ہیں، ان کھنڈرات کی دیکھ بھال میں تک ہندو مسلم فرقہ پرستی کا زہر گُھل چکا ہے یہ صرف حکومت کی آمدنی کا ذریعہ اور ہم مسلمانوں کے لئے سامانِ عبرت ہیں۔ ہندوستانی مسلم حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے میدان میں بہت کام کیا ہے لیکن ان حکمرانوں نے دوراندیشی سے کا م نہیں لیا قوم کو علم و ہنر سے آراستہ کرکے ان کے قدموں کو جمانے میں مدد کے بجائے نشانیوں کو چھوڑنے میں دلچسپی بتائی اور جو تھوڑا ہمارے لئے چھوڑا افسوس کہ ہم سے سنبھالا نہ گیا۔ ان حالات میں بھی اپنے آپ کو مظلوم سمجھ کر سیاحت کے شوقین ایک مسخرے کو ہی اللہ کا عذاب سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں مولانامودودی رحمتہ اللہ علیہ کاجملہ یادآتاہےکہ ہندوستانی مسلمانوں کاسب سے بڑا مسئلہ اُن کااحساسِ مظلومیت ہے۔جس میں وہ نقصان اُٹھاتے ہیں۔
اُس مردِمجاہدصلاح الدین ایوبی رحمتہ للہ علیہ کاجملہ یادآتاہےکہ مجھے یہودیوں سے ڈرنہیں لگتا،مجھے ڈرحرم کے پاسبانوں سے ہے جوشراب کے مٹکوں میں ڈوب چکے ہیں اورعورتیں اُن کے پاءوں کی زنجیریں بن چکی ہیں۔تاریخ کے جھروکے میں نظر ڈالیں تو ظالم ڈاکو ہلاکو خاں کا وہ طنزیہ جملہ یاد آتا ہے ہے جب خلیفہ معتصم باللہ گرفتار کرکے ہلاکو خان کے سامنے لائے جاتے ہیں، ہلاکو خاں طشتری میں ہیرے جواہرات رکھ کر خلیفہ کو کھانے کیلئے پیش کرتا ہے خلیفہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے کھا سکتے ہیں تب وہ بدنام زمانہ ڈاکو ہلاکو خاں خلیفہ سے سوال کرتا ہے کہ جب کھا نہیں سکتے تو جمع کر کے کیوں رکھا تم نے اور محلوں کی جالیوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ کاش تم نے اس لوہے کو محل کی جالیوں کے بجائے تلواروں میں ڈھالا ہوتا اور اسے اپنے سپاہیوں کو سونپا ہوتا تو آج تمہارے سپاہی ہمیں ناکوں چنے چبوادیتے یہ وہ عبرت ناک واقعہ ہے جس سے امت مسلمہ کے افراد کو سبق لینا چاہیے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ تاریخ میں زندہ قومیں اپنی غیرت کی بناءپر تاریخ میں جگہ بناتی رہیں اور دنیا کو اپنی عزت کرنے پر مجبور کرواتی رہی ہیں۔ جس قوم کو اللہ نے گھوڑے بندھے رکھنے کا حکم دیا ہے وہ قوم خود اب غفلت میں مدہوش پڑی ہوئی ہے۔
بحیثیت مسلمان کیا ہمیں قرآن کے واقعات پر غور نہیں کرنا چاہیے موسی علیہ السلام کو صندوق میں رکھ کر پانی میں بہانا، دشمن کے گود بھیج کر موسی علیہ السلام کی تربیت، طوفان سے پہلے نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دینا اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایک مسلمان کو تقدیر پر یقین کے ساتھ ساتھ حسن تدبیر جیسے ہتھیار سے بھی لیس ہونا ہوگا۔خطرے کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے خطرہ ٹل نہیں جائے گا،ان خطرات کا سدباب ضروری ہے کیا کوئی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ نہیں ہوگا؟ دشمن مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرتے جارہا ہے اور امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ۔کوئی مجھے بتائے کہ کیا میرا خون ِمسلم اتنا ارزاں ہے کہ گلیوں میں وہ پانی کی طرح بہے اور کوئی قاتل کا گریبان پکڑنے والا تک نہ ہو!!۔میرے پیچھے میرا کوئی وارث محاسبہ کیلئے کھڑا تک نہ ہو۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلعم نے فرمایا کہ لوگ جب ظالم کا ہاتھ نہ پکڑیں، خاموش رہیں یا اس سے تعاون کریں تو اللہ تعالیٰ بہت جلد اپنا ہمہ گیر عذاب ان پر مسلط کردیتا ہے۔
کیا امت مسلمہ ایک چھوٹی سی چڑیا سے بھی گئی گزری ہے جو اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو اپنے گھونسلے کی طرف بڑھتا دیکھ کر دشمن پر بڑھتی جھپٹتی ہے اور اپنوں کو بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے اور دشمن کو یہ پیغام دیتی ہے کہ میں یہ لقمئہ ترنہیں ہوں جسے تم آسانی سے نگل جائے۔ میرے خیال میں وہ وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ ہوش کے ناخن لے ہم نے فرض منصبی سے غفلت برتی اور اللہ نے ہمارے وجود کو بے وزن کردیا وقت کا تقاضا ہے کہ جو صاحب حیثیت مسلمان ہیں وہ آگے آئیں اور قوم کے نونہالوں کی تعلیم کی ذمہ داری اُٹھائیں ، قوم کے نوجوانوں میں اعتماد کو بحال کریں ، بجائے مایوسی کے ان حالات کے رُخ کو موڑکر زندگی جینے کی ترغیب دی جائے۔ تمام مسلمان اپنے مصروفیات میں سے اپنے پریشان بھائیوں کیلئے وقت نکالے ان کو انصاف دلانے کے لئے احتجاج کریںاور یہ ہر سطح پر ہو،ملکی سطح پر، ریاستی سطح پر ہو کہ مقامی سطح پر ہو تہجد میں دعاءوں کے ذریعے انکی مدد کی جائے۔قنوت نازلہ کو ہتھیار بنائیں اور بنیان مرصوص بنتے ہوئے اپنے سب سے بڑے مقابل کی معیشت پر وار کریں ،دشمن کی مصنوعات کا ہمیں بائیکاٹ کرنا ہے اور گھر گھر یہ پیغام عام پہنچے کہ جو ان مصنوعات کو خرید لے گا وہ اپنے بھائی کی موت کا سامان کرے گا۔حضور اکرم صلعم فرماتے ہیں کہ جو اپنے بھائی کی آبرو کی حفاظت کیلئے اسکی طرف سے مدافعت کرتا ہے تو اللہ پر لازمی طور پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ وہ قیامت کے روز جہنم کی آگ کو اس سے ہٹا کر اسکی حفاظت فرمائے گا۔