اعداد و شمار کی بروقت عدم دستیابی کی وجہ سے اس پر مبنی فیصلہ سازی، پالیسی کی سطح پر مداخلت اور مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کی ترقی کے حوالے سے سماجی اقدامات پر شدید اثر پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی و تعلیمی صورت حال اور ترقی میں شمولیت سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار 2018-2017 کے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے 75ویں دور کے ڈاٹا میں ہی دستیاب ہیں۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (UDISE) کے ذریعہ جمع کردہ اسکولوں، ان میں اندراج و اسکول چھوڑنے اور تعلیم جاری رکھنے کی شرح، ترقی وغیرہ سے متعلق جامع اعداو شمار اور اس کے نتیجے میں وزارت تعلیم کی طرف سے شائع کی جانے والی سالانہ فلیش رپورٹ UDISE+ کی اشاعت کے ذریعہ تمام سماجی طبقات کی تعلیمی صورت حال کے متعلق اعداد و شمار فراہم کرائے جاسکتے تھے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم UDISE+ کے اعدا و شمار کی بنیاد پر مفروضات کے تحت تخمینہ لگا کر کچھ کام کر سکتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے اسکولی تعلیم میں داخلہ لینے اور چھوڑنے کی شرح سے متعلق واضح اعداد و شمار موجود ہیں۔
قانون حقِ تعلیم (RTE) تمام بچوں کے لیے ابتدائی سطح (پہلی کلاس سے آٹھویں کلاس) تک تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں کے اندراج میں کافی اضافہ ہوا ہے، جس سے معاشرے کے محروم اور پسماندہ طبقات سمیت تمام سماجی گروہوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہی ہیں۔
فی الحال دستیاب UDISE+ فلیش رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکولوں میں ابتدائی سطح پر مسلمانوں کا کل اندراج میں تناسب2015ء میں 13.77 فیصد سے بڑھ کر 2022ء میں 15.20 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم میں مسلمانوں کا تناسب ملک کی آبادی میں ان کے حصہ داری کے بہت قریب ہے۔ یہ دعویٰ مختلف ریاستوں اور اضلاع کے اندر موجود مسائل کو جھٹلانے یا نظرانداز کرنے کے لیے نہیں ہے، لیکن اوسطاً مجموعی تصویر امید افزا ہے۔
تاہم، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ابتدائی تعلیم کی سطح پر مسلمانوں کے اندراج میں ہونے والے اضافے میں کسی حد تک بے قاعدگی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر 2016ء میں ابتدائی سطح پر مسلمانوں کے اندراج میں 0.26 فیصد کی کمی واقع ہوئی لیکن 2017ء میں یہ صورت حال تیزی سے بحال ہوگئی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابتدائی سطح پر مسلمانوں کے اندراج میں 2018ء اور 2019ء میں بالترتیب 2.19 اور 2.40 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
مجموعی طور پر، ابتدائی سطح میں مسلم طلبہ کا اندراج 2015ء میں 27.22 ملین سے بڑھ کر 2022ء میں 28.67 ملین ہوگیا، جو 2015-2022 کے عرصے کے دوران 0.65 فیصد کی مجموعی سالانہ شرحِ ترقی یا کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ (CAGR)کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ شرح قابل ستائش ہے کیونکہ اسی مدت کے دوران، ابتدائی سطح کے اندراج میں قومی سطح پر 0.58 فیصد کا منفی سالانہ شرحِ ترقی یا نگیٹو کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ ریکارڈ کیا گیا۔
مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو قومی سطح پر ابتدائی اندراج میں ترقی کی منفی شرح 6 تا 13 سال کی عمر کے بچوںکی آبادی میں کمی کو ظاہر کرتی ہے، جو کہ ابتدائی سطح پر اندراج کے لیے متعلقہ عمر کا گروپ ہے۔
چونکہ مختلف سماجی گروہوں کے لیے عمر کی متعلقہ آبادی کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، اس لیے ہم صرف یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ابتدائی سطح پر مسلمان طلبہ کے اندراج میں اضافہ بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ 6 تا 13 سال کی عمر کے گروپ کے بچے، جو پہلے کچھ وجوہ کے باعث اسکول چھوڑ گئے تھے، وہ دوبارہ اسکول آ رہے ہیں۔
2017-18 کے NSSO کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کی ابتدائی سطح پر مجموعی اندراج کے تناسب (Gross Enrolment Ratio – GER) کے قومی اوسط 98.7 کے مقابلے مسلمانوں کا تناسب 96.2 تھا۔ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطحوں پر مسلمان طلبہ کے اندراج کا تناسب 61 تھا، جبکہ قومی اوسط 77.8 تھا۔
فی الحال دستیاب UDISE+ کے اعداد و شمار سے مسلمانوں کے مجموعی اندراج کے تناسب (GER)کی جانکاری حاصل نہیں ہورہی ہے۔ لہٰذا، ہم موجودہ تناسب اور اسکول سے باہر مسلم بچوں کی تعداد اور تناسب معلوم کرنے سے قاصر ہیں۔ بہر حال، کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
قانون حقِ تعلیم یا آر ٹی ای ایکٹ میں نو ڈیٹینشن پالیسی (این ڈی پی) کے تحت تمام طلبہ کو آٹھویں جماعت تک اگلی اعلیٰ کلاس میں ترقی دینالازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسکولوں اور اندراج میں اوسط ترقی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے، ابتدائی سطح میں داخلہ لینے والے ہر آٹھ میں سے ایک طالب علم کو ہر سال نویں جماعت میں داخل کیا جانا چاہیے۔
یہ تعداد 2022ء میں مسلمانوں کے لیے 3.58 ملین سے کچھ زیادہ ہے۔ اصولی طور پر، نویں جماعت میں داخل ہونے والے تمام طلبہ کو اپنے نصاب کو مکمل کرکے دسویں جماعت میں ترقی ملنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نویں اور گیارہویں جماعت میں داخلہ لینے والے مسلم بچوں کی تعداد اس سے دو گنی یعنی تقریباً 7.16 ملین ہونی چاہیے۔
یہ تعداد اور ثانوی سطح کی تعلیم میں مسلم بچوں کے حقیقی اندراج کے درمیان فرق ان کے ترک تعلیم یا ڈراپ آؤٹ سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ UDISE+ کے مطابق، ثانوی سطح پر مسلم طلبہ کا اندراج 4.85 ملین ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ 2.31 ملین مسلمان بچے دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ہر تین میں سے ایک مسلمان بچہ اسی مرحلے میں تعلیم چھوڑ دیتا ہے۔ طلبہ کی ترقی ہونے، اسی کلاس میں دوبارہ پڑھنے، ترکِ تعلیم، منتقلی اور جماعت یا اسکول میں برقرار رکھنے کی شرحوں کے اعداد و شمار کے بغیر اس سے بہتر اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
نتیجتاً، 2022ء میں ثانوی سطح پر مسلمانوں کا اندراج کل اندراج کا صرف 12.6 فیصد ہے، جو آبادی میں ان کے حصہ داری سے نمایاں طور پر کم ہے۔ تاہم، ان کا حصہ 2015ء میں 10.02 فیصد سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اگر ہر بچے نے دسویں جماعت مکمل کرکے گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا ہوتا اور اس کے بعد وہ بارہویں جماعت کی پڑھائی بھی مکمل کرتے تو 2022ء میں سینئر سیکنڈری سطح پر مسلمانوں کا اندراج 4.85 ملین ہوتا۔ اس کے مقابلے میں، اس سطح پر ان کا اندراج 3.09 ملین بتایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 1.72 ملین سے زیادہ مسلم بچے، یا 36.29 فیصد، اسی سطح پر یا اس سے قبل تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
نتیجتاً، 2022 تک، سینئر سیکنڈری سطح پر کل اندراج میں مسلمانوں کا حصہ مزید کم ہو کر 10.7 فیصد رہ گیا ہے۔ واحد اطمینان کی بات یہ ہے کہ 2015ء سے حالات میں بہتری آئی ہے، جب مسلمانوں کا حصہ صرف 8.34 فیصد ہوا کرتا تھا۔ یہ اندازے ایک خام طریقہ کار پر مبنی ہیں لیکن عام طور پر زمینی صورت حال کے قریب ہیں۔
جب ہم حکومتوں سے بہتر حالات اور صلاحیت پیدا کرنے اور مراعات دینے کی توقع اور مطالبہ کر سکتے ہیں، تو مسلمانوں کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مہم چلانی چاہیے کہ آٹھویں اور دسویں جماعت میں کامیاب ہونے والے طلبہ اعلیٰ درجات میں داخلہ لیں اور اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ ترسیل و ابلاغ، حوصلہ افزائی، ترغیب وتحریک، سہولیات کی فراہمی اور مالی مشکلات کو کم کرنا وغیرہ ایسے اہم چیلنجز ہیں جنھیں قوم کو اپنی تعلیمی پسماندگی کو کم کرنے کے لیے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مینجمنٹ کے پروفیسر، پلاننگ کمیشن میں سابق مشیرِ تعلیم اور راجستھان یونیورسٹی اور ہماچل پردیش سنٹرل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں۔)