مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹیں:  حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے تناظر میں

طلحہ منان
مارچ 2025

معاملہ تعلیم کا ہو تو گزشتہ دس سالوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے اس شعبہ میں کیے گئے اقدامات بہت اطمینان بخش نظر نہیں آتے۔

 ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کا گہوارہ ہے، جہاں مذہبی اقلیتیں اس سماج کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان اقلیتوں میں مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور دیگر مذہبی اقلیتیں شامل ہیں، جو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ یہ اقلیتیں، دوسرے طبقات کی طرح، ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں، لیکن مختلف میدانوں میں ان کی پسماندگی ملک کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مختلف رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ اقلیتیں تعلیمی،‌ معاشی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان میں مسلمان سر فہرست ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے آج سے تقریباً پندرہ برس پہلے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں اور دیگر پچھڑے قبائلی طبقات سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں یہ حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہی ہوئے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں حکومت کی غیر سنجیدگی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس مضمون میں ہم موجودہ مرکزی حکومت کی جانب سے وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں مستقل کٹوتی، مختلف اقلیتی اسکالرشپس کو بند کرنےاور ان اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

معاملہ تعلیم کا ہو تو گزشتہ دس سالوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے اس شعبہ میں کیے گئے اقدامات بہت اطمینان بخش نظر نہیں آتے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے 2014ء کے منشور میں کہا تھا کہ ”تعلیم میں کیا جانے والا خرچ بہترین منافع دیتا ہے“اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) کے 6 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ اپنے وعدے کے باوجود، 2014ء سے 2024ء کے درمیان، مرکز کی

ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کا گہوارہ ہے، جہاں مذہبی اقلیتیں اس سماج کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان اقلیتوں میں مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور دیگر مذہبی اقلیتیں شامل ہیں، جو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ یہ اقلیتیں، دوسرے طبقات کی طرح، ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں، لیکن مختلف میدانوں میں ان کی پسماندگی ملک کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مختلف رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ اقلیتیں تعلیمی،‌ معاشی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان میں مسلمان سر فہرست ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے آج سے تقریباً پندرہ برس پہلے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں اور دیگر پچھڑے قبائلی طبقات سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں یہ حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہی ہوئے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں حکومت کی غیر سنجیدگی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس مضمون میں ہم موجودہ مرکزی حکومت کی جانب سے وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں مستقل کٹوتی، مختلف اقلیتی اسکالرشپس کو بند کرنےاور ان اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

معاملہ تعلیم کا ہو تو گزشتہ دس سالوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے اس شعبہ میں کیے گئے اقدامات بہت اطمینان بخش نظر نہیں آتے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے 2014ء کے منشور میں کہا تھا کہ “تعلیم میں کیا جانے والا خرچ بہترین منافع دیتا ہے”اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) کے 6 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ اپنے وعدے کے باوجود، 2014ء سے 2024ء کے درمیان، مرکز کی بی جے پی حکومت نے ہر سال تعلیم کے لیے سالانہ GDP کا اوسطاً صرف 0.44 فیصد مختص کیا، جبکہ 2004ء سے 2014ء کے درمیان کانگریس حکومت نے تعلیم پر GDP کا اوسطاً 0.61 فیصد مختص کیا تھا ۔ گزشتہ چند سالوں سے وزارت تعلیم کے بجٹ کی تقسیم تقریباً یکساں رہی ہے اور اس میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ لہٰذا، معیاری تعلیم کی آسانی سے دستیابی کو فروغ دینے کے بجائے حکومت کی روش اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مرکزی حکومت آہستہ آہستہ اس شعبہ سے اپنی ذمہ داریوں کو نجی شعبے پر منتقل کرنے پر زور دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے 2024-25 کے تعلیمی بجٹ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 7 فیصد سے زیادہ کی کٹوتی کی ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں 16 فیصد سے زیادہ کی کمی کی گئی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کے لیے فنڈنگ کو پچھلے سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے 6,409 کروڑ روپے سے کم کرکے 2,500 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، جو کہ 60.99 فیصد کی کمی ہے۔

جس ملک میں 10 سے 19 سال کی عمر کے 25 کروڑ نوجوان رہتے ہوں، وہاں تعلیم کے بجٹ میں ایک روپے کی بھی کمی تشویشناک ہے۔ دراصل حکومت نے تعلیم کا بجٹ کم نہیں کیا ہے، بلکہ حقیقت میں اُس نے “ہندوستان کے مستقبل”کا بجٹ کم کر دیا ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں کٹوتی

یہ معاملہ محض عام بجٹ تک محدود نہیں ہے۔ خصوصاً اگر اقلیتی طبقات کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے مختص بجٹ کی بات کریں تو وہاں حالات اور زیادہ پریشان کن ہیں۔ مرکزی حکومت نے یکم فروری 2023ء کو سال 2023-24 کا بجٹ پیش کیا تھا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے اس بجٹ میں وزارت اقلیتی امور کے لیے 3,097.60 کروڑ روپے مختص کیے تھے، جو کہ سال 2022-23 کے بجٹ کے مقابلے میں 38.3 فیصد کم تھے۔ سال 2022-23 میں وزارت اقلیتی امور کا بجٹ 5,020.50 کروڑ روپے تھا۔ تاہم، حکومت گزشتہ سال بھی بجٹ میں مختص کردہ رقم کو خرچ نہیں کر پائی تھی۔ وزارت نے کل بجٹ کا صرف 47.9 فیصد ہی استعمال کیا تھا۔ نظرِ ثانی شدہ بجٹ میں بتایا گیا تھا کہ کل 5,020.50 کروڑ میں سے وزارت نے صرف 2,612.66 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

بجٹ میں کمی کرنے سے پہلے مرکزی حکومت نے تین بڑی اقلیتی اسکالرشپ اسکیموں – مولانا آزاد فیلوشپ (MANF)، آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ، اور پڑھو پردیش اسکیم- کو بند کر دیا تھا۔فروغ تعلیم کے بجٹ کے تحت مجموعی طور پر سات اسکیمیں شامل ہیں، جن میں سے تین اسکالرشپ بند کر دی گئی ہیں۔ ان ساتوں اسکیموں کا سال 2022-23 میں کل بجٹ 2,515 کروڑ روپے تھا، جبکہ سال 2023-24 میں یہ بجٹ گھٹ کر 1,689 کروڑ روپے رہ گیا۔ یعنی اس رقم میں 826 کروڑ روپے کی کمی کی گئی، جو کل بجٹ کا تقریباً 32.8 فیصد ہے۔یہی نہیں، گزشتہ سال مختص کیے گئے بجٹ میں سے حکومت تقریباً 931 کروڑ روپے خرچ نہیں کر پائی۔

مزید برآں،یو پی ایس سی، ایس ایس سی اور ریاستی PSC کے ذریعے منعقدہ ابتدائی امتحانات کو پاس کرنے والے وہ طلبہ جو اقلیتی طبقات سے تعلق رکھتےہیں،‌ ان کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ’نئی اُڑان اسکالرشپ‘ کے لیے بھی کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا، جبکہ پچھلے سال اس اسکالرشپ کے لیے 8 کروڑ روپے کا بجٹ دیا گیا تھا۔ اسی طرح ذہین طلبہ کو پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز میں آگے پڑھنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والی ’میرٹ کم مینز‘ اسکالرشپ اسکیم کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 321 کروڑ روپے کم دیے گئے، جو اس کے بجٹ میں تقریباً 88 فیصد کی کمی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2014ء سے 2022ء کے درمیان ہر سال اوسطاً 1.5 لاکھ سے زائد نئے درخواست دہندگان اس اسکیم سے مستفید ہوئے ہیں۔ ’نیا سویرا‘ اسکیم کے بجٹ میں بھی اس سال 62 فیصد کی کٹوتی کی گئی۔ حکومت نے سال 2022-23 میں 79 کروڑ روپے مختص کیے تھے، جسے اس سال کم کرکے 30 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ اس اسکیم کے تحت اقلیتی طبقات کے غریب طلبہ کو مسابقتی امتحانات کی تیاری کے لیے مفت کوچنگ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والی میرٹ یافتہ طالبات کو اعلیٰ ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیگم حضرت محل اسکالرشپ‌ دی جاتی تھی‌جسے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن (MAEF) کی جانب سے فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن گزشتہ سال اس اسکالرشپ کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا گیا۔

اسکل ڈیولپمنٹ اسکیم کا بجٹ سال 2022-23 میں 235.41 کروڑ روپے تھا، جو سال 2023-24 میں گھٹ کر صرف 0.10 کروڑ روپے رہ گیا ہے۔ یعنی اس اسکیم کے بجٹ میں تقریباً 99.9 فیصد کی کمی کر دی گئی۔ اس اسکیم کو ’سیکھو اور کماؤ‘ اسکیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں (14-45 سال کے درمیان) کے ہنر کو ان کی قابلیت، موجودہ اقتصادی رجحانات اور مارکیٹ کی ضرورت کی بنیاد پر جدید اسکلز میں بہتر بنانا ہے۔ اس اسکیم کے تحت 2021ء تک تقریباً چار لاکھ افراد مستفید ہو چکے ہیں۔

2015ء میں شروع کی گئی ’نئی منزل‘ اسکیم کا مقصد اقلیتی طبقات کے غریب نوجوانوں کی مدد کرنا اور انہیں پائیدار اور فائدہ مند روزگار کے مواقع حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس اسکیم کے لیے سال 2022-23 میں 46 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جو 2023-24 کے بجٹ میں کم ہو کر صرف 10 لاکھ روپے رہ گئے ہیں۔

اسی طرح ’روایتی فنون/دست کاری میں مہارت اور تربیت کو ترقی کے لیے اپ گریڈ کرنا‘ (USTTAD) اسکیم کے بجٹ میں بھی 99 فیصد کی کمی کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے لیے صرف 10 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ گزشتہ سال اس کے لیے 47 کروڑ روپے دیے گئے تھے۔ اس اسکیم کا مقصد اقلیتی طبقات کے افراد میں روایتی فنون اور کمیونٹی سے وابستہ دستکاری کو فروغ دینا ہے۔ کوشل وکاس اور روزگار کے کل بجٹ میں بھی نمایاں کمی کی گئی ہے۔ سال 2022-23 میں اس کا بجٹ 491.91 کروڑ روپے تھا، جو اس سال کم ہو کر 64.40 کروڑ روپے رہ گیا ہے۔ یعنی اس اسکیم کی رقم میں 427.51 کروڑ روپے یا 86.9 فیصد کی کمی کی گئی ہے۔ اس زمرے کے تحت مجموعی طور پر تین اسکیموں کے لیے سال 2022-23 میں 53 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جبکہ سال 2023-24 کے بجٹ میں یہ رقم گھٹ کر 26 کروڑ روپے رہ گئی، یعنی تقریباً 51 فیصد کی کمی کی گئی۔ پچھلے سال اقلیتوں کے لیے ترقیاتی اسکیموں پر تحقیق/مطالعہ، تشہیر، نگرانی، اور جائزہ لینے کے لیے 41 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جسے اس سال کم کر کے 20 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔‌ اس کے علاوہ اقلیتوں کے ورثے اور ثقافت کے تحفظ کے لیے ’ہماری دھروہر‘ کے بجٹ میں بھی 95 فیصد کی نمایاں کٹوتی کی گئی ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر اثرات

نیشنل اسکالرشپ پورٹل کے مطابق، سال 2021-22 کے دوران دی جانے والی مختلف اسکالرشپس میں مسلمانوں کا حصہ سب سے زیادہ 71 فیصد رہا، جس کے بعد عیسائیوں کا 9.8 فیصد اور ہندوؤں کا 9.2 فیصد حصہ رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس سے مستفید ہونے والوں کی فہرست میں لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیا، جو اقلیتوں اور پسماندہ طبقات میں تعلیم کے حوالے سے ایک پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔اسی طرح 2014-15 سے 2021-22 کے دوران مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (MANF) سے 6700 سے زائد امیدواروں کو فائدہ پہنچا، اور اس دوران 738.85 کروڑ روپے اس اسکیم پر خرچ کیے گئے، لیکن 2022 میں اسے ختم کر دیا گیا۔ اس اقدام کے خلاف ملک بھر میں طلبہ کے مظاہرے ہوئے اور اپوزیشن نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنی ’اقلیت مخالف پالیسی‘ کو فخر کے ساتھ ظاہر کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا۔ دوسری طرف، حکومت نے دلیل دی کہ یہ اسکیم دیگر پروگراموں کے ساتھ اوورلیپ کرنے کی وجہ سے ختم کی گئی، لیکن یہ دعویٰ اب بھی متنازعہ ہے۔

اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو دی جانے والی اسکالرشپس کی تعداد 2006 سے 2013 کے درمیان تقریباً 75,000 سے بڑھ کر 70 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ 2019 میں، مرکزی حکومت نے ہر سال ایک کروڑ اقلیتی طلبہ کو اسکالرشپس فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا، کیونکہ حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں بہت سی اسکیموں کو ختم یا معطل کر دیا اور دیگر پروگراموں کے فنڈز میں نمایاں کمی کی۔

ان اقدامات نے واضح طور پر مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت کے ہی ادارے نیتی آیوگ نے اپنی اسٹریٹیجی ڈاکیومنٹ 2018ء میں نشاندہی کی تھی کہ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے سماجی و معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اقدامات وقت کی ضرورت ہیں، کیونکہ وہ کئی شعبوں میں باقی طبقات سے پیچھے ہیں۔ مسلمانوں اور عام آبادی کے درمیان تعلیمی رسائی میں نمایاں فرق ہے، اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پہنچنے تک مسلمانوں کی کل داخلے میں نمائندگی کم ہو جاتی ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ ان اسکالرشپس کو ختم کرنا اور دیگر اسکیموں، جیسے پری میٹرک اسکالرشپ اور بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ، کے دائرے کو محدود کرنا مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر منفی اثر ڈالے گا اور ان کے داخلے کی شرح، جو پہلے ہی تشویشناک ہے، کو مزید متاثر کرے گا۔

سروا شکشا ابھیان کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں سب سے زیادہ اسکول سے باہر بچوں کا تناسب مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے (4.43 فیصد)، اس کے بعد ہندوؤں (2.73 فیصد)، عیسائیوں (1.52 فیصد)، اور دیگر طبقات (1.26 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے ایک حالیہ سروے میں مسلم طلبہ کے اسکول چھوڑنے کے تناسب کا جائزہ لیا گیا، جس کے مطابق مسلم طلبہ کا ڈراپ آؤٹ ریٹ 23.1 فیصد ہے، جو کہ قومی اوسط 18.96‌ فیصد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح وزارت تعلیم کی جانب سے کیے گئے آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن (AISHE) 2020-2021 کے مطابق، اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ دیگر طبقات کے بالمقابل نمایاں طور پر پیچھے ہیں۔ جہاں مجموعی داخلے میں 7.5 فیصد اضافہ ہوا، وہیں مسلم طلبہ کے داخلے 2019-20 میں 5.5 فیصد (21 لاکھ) سے کم ہو کر 2020-21 کے تعلیمی سال میں 4.6 فیصد (19.21 لاکھ) رہ گئے۔ دیگر اقلیتوں کے طلبہ کے داخلے میں بھی کمی دیکھی گئی، جو پچھلے سال کے 2.3 فیصد کے مقابلے میں 2 فیصد پر آ گئے۔ رپورٹ کے مطابق، کل 4.13 کروڑ کالج طلبہ میں سے 20 لاکھ سے کم مسلمان طلبہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل ہیں۔

تقریباً پندرہ برس پہلے سچر کمیٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے ایک چوتھائی مسلمان بچے یا تو اسکول ہی نہیں جاتے یا درمیان میں ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔ میٹرک سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی کارکردگی 26 فیصد کے قومی اوسط کے مقابلے میں صرف 17 فیصد ہے، اور صرف 50 فیصد مسلمان بچے ہی مڈل اسکول مکمل کر پاتے ہیں، جبکہ مڈل اسکول کا قومی اوسط 62 فیصد ہے۔مسلمانوں کی ترقی کے حوالے سے رپورٹ میں کئی سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ جس برس سچر کمیٹی کی سفارشات آئیں، اسی برس وزارت سماجی انصاف سے الگ کر کے ایک نئی وزارت اقلیتی امور کا قیام عمل میں آیا۔

لیکن جہاں ایک طرف مرکزی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان کا مجموعی بجٹ عموماً بڑھا ہے، وہیں دوسری طرف وزارت اقلیتی امور کا بجٹ‌ مسلسل کم ہوا ہے۔ سال 2014-15 میں اس وزارت کا بجٹ 3734 کروڑ روپے تھا، جو سال 2023-24 میں گھٹ کر 3097 کروڑ روپے رہ گیا، یعنی اس میں تقریباً 17 فیصد کی کمی کی گئی ہے۔

دراصل حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی بنیاد ہی ایسے اصولوں پر قائم ہے جو ’ہندوتوا‘ کے نظریے پر مبنی ہیں، جس کا حتمی مقصد ایک ہندو ریاست کی تشکیل ہے۔ جو بھی فرد ان کے ہندو دھارے کے تصور میں فٹ نہیں ہوتا، اسے ’دوسرا‘ یعنی ’Other‘ سمجھا جاتا ہے، جسے یا تو تبدیل کیا جانا چاہیے یا ختم، تاکہ ان کے حتمی مقصد میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ اگر اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، تو مسلمانوں کے خلاف نفرت، بدنامی، تشدد، ان کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے راستے بند کرنا وغیرہ ایک منظم کوشش معلوم ہوگی۔ ملک کے دو بڑے اقلیتی اداروں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنانا بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ گزشتہ سالوں میں ان دونوں یونیورسٹیوں کا بجٹ نہایت کم کیا گیا ہے، جبکہ دیگر یونیورسٹیوں جیسے بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ کافی زیادہ بڑھایا گیا ہے۔ مختلف اقلیتی ادارے جیسے اردو اکیڈمیز اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان وغیرہ بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔

نیتی آیوگ نے اپنے 2018 کے پالیسی دستاویز میں، پری میٹرک، پوسٹ میٹرک، اور میرٹ کم مینز اسکالرشپس کے ساتھ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپس اور نیشنل اوورسیز اسکالرشپس کو بڑھانے کی تجویز دی تھی، اور اس میں 2019-20 سے 15 فیصد سالانہ اضافے کی سفارش کی تھی۔ ساتھ ہی اس میں اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والی طالبات کے لیے اسکالرشپس کی تعداد میں ہر سال 10 فیصد اضافے کی بھی تجویز دی گئی تھی۔

سینٹر فار بجٹ اینڈ گورننس اکاؤنٹبیلیٹی (CBGA) کی رپورٹ کے مطابق، اقلیتوں کی ترقی کے لیے 15 نکاتی پروگرام کا استعمال کرتے ہوئے، اقلیتی علاقوں میں ترقیاتی خلا کی نشاندہی کر کے مخصوص پروگراموں کو تیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے، “یہ پروگرام اقلیتی آبادی کا جامع احاطہ کر سکتے ہیں اور ان کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں، بشرط یہ کہ حکومت اقلیتوں کے لیے کچھ ہدف شدہ اسکیمیں/پروگرام شروع کرے یا ڈیزائن کرے۔” اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ “تعلیمی میدان میں اقلیتوں کی محرومی کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارت اقلیتی امور کے لیے مجموعی بجٹ کو نمایاں طور پر بڑھانا چاہیے۔”

بجٹ 2025ء میں اقلیتوں کو کیا ملا؟

مرکزی حکومت کے بجٹ 2025-26 کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کے بجٹ اور رواں سال کے بجٹ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ خاص طور پر اقلیتوں کے لیے مختص کی گئی رقم مایوس کن ہے۔ وزارتِ اقلیتی بہبود کے تحت جاری اسکیموں میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے، خاص طور پر تعلیمی اسکیموں کے بجٹ میں کٹوتی کا سلسلہ برقرار ہے، حالانکہ بجٹ میں کمی کے بجائے اضافہ کیا جانا چاہیے تھا۔

جس انداز میں ہر سال محکمہ اقلیتی بہبود کے بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود اس محکمہ کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ سال 2025-26 کے بجٹ میں پری میٹرک اسکالرشپ کے لیے مختص رقم مزید کم کر کے 195.70 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔ یہی صورتحال پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی ہے، جس کا بجٹ 2025-26 میں گھٹا کر 413.99 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے تقریباً 65 فیصد کم ہے۔

پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز (انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ) کے لیے میرٹ کم مینس اسکالرشپ کی مد میں پچھلے سال 33.80 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، مگر اس سال صرف 7.34 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح، بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے تعلیمی قرضوں پر سبسڈی کا بجٹ کم کر کے 8.16 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ سال یہ رقم 15.30 کروڑ روپے تھی۔

مدارس کے حوالے سے بھی حکومت کی متعصبانہ پالیسی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ سال 2023-24 میں مدارس اور اقلیتوں کے لیے تعلیمی اسکیموں کے فنڈ میں 93 فیصد کمی کی گئی، جس کے بعد یہ بجٹ گھٹ کر صرف 10 کروڑ روپے رہ گیا۔ 2024-25 میں اسے مزید کم کر کے محض 2 کروڑ روپے کر دیا گیا، جبکہ رواں سال اس اسکیم کے لیے صرف 0.01 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں، مرکزی حکومت نے سینٹرل سیکٹر کی اسکیموں اور پروجیکٹس کے فنڈ میں بھی کٹوتی کی ہے، جن میں تعلیمی ترقی، ہنر مندی کی ترقی، ذریعہ معاش، اقلیتوں کے لیے خصوصی پروگرام، اور PM-VIKAS اسکیم شامل ہیں۔ 2024-25 میں ان کے لیے بجٹ 2,120.72 کروڑ روپے تھا، جسے 2025-26 میں کم کر کے 1,237.32 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ مالی سال 2024-25 میں ان اسکیموں کا نظرثانی شدہ بجٹ 770 کروڑ روپے تھا۔

ضرورت ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرے۔ ساتھ ہی سنگھ اور بی جے پی مخالف پارٹیوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اس واضح اور منصوبہ بند Otherization کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور مسلمانوں کو تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حکومت کے اس رویے کے باوجود ملی اداروں اور تنظیموں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس نظام کو مزید مضبوط اور بہتر بنایا جائے تاکہ ملت کے نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔

 

(مضمون نگار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں ریسرچ اسکالر ہیں)

[email protected]

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں