مسئلہ فلسطین اور مسلم دنیا کا موجودہ بحران

ایڈمن

ارض فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطین کے مجاہدین آزادی کی جانب سے اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس جارحیت کا مقابلہ، بالکل عام سی بات ہوگئی ہے۔ ادھر تقریباََ ہرسال اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں غزہ پٹی کے…

ارض فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطین کے مجاہدین آزادی کی جانب سے اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس جارحیت کا مقابلہ، بالکل عام سی بات ہوگئی ہے۔ ادھر تقریباََ ہرسال اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں غزہ پٹی کے علاقے کو نشانہ ستم بنایا جاتا ہے، اورپھر خطرناک حد تک جارحانہ کارروائیوں کے بعد کسی نہ کسی جانب سے پیش قدمی کراکے دونوں کے درمیان جنگ بندی کرادی جاتی ہے۔گزشتہ ماہ بھی اسرائیل کی جانب سے بہت ہی منظم اور منصوبہ بند جارحانہ کارروائیاں کی گئیں، اور اس مرتبہ پھر گزشتہ کی طرح اپنے مقاصد میں ناکامی کے نتیجے میں مصر اور بعض مغربی ممالک کو سامنے لاکر جنگ بندی کی بات شروع کرادی گئی۔ جنگ بندی کی یہ بات اس دفعہ مصر کی وساطت سے تادمِ تحریر کچھ کچھ توقف کے ساتھ قاہرہ میں جاری ہے۔
اس تحریر میں اس جنگ کے پس منظر، اسرائیلی عزائم، حماس اور دیگر مجاہدین آزادی کے رول اور پھر عالم اسلام اور عالم مغرب کے افسوسناک رویے پر گفتگو کرتے ہوئے ارض فلسطین کے مستقبل پر گفتگو کی جائے گی۔
مسلم دنیا کا بحران
۲۰۱۰ ؁ء کے اواخر میں عرب دنیا میں عوام کے اوپر مسلط نظام ہائے حکومت کے خلاف تبدیلی اور انقلاب کی ایک زبردست لہر چلی، جس کے نتیجے میں تیونس، لیبیا، مصر اور شام میں انسانی اور جمہوری اقدار کے حصول کے لیے آزادی کی زبردست عوامی تحریکیں اٹھیں۔ یہ تحریکیں عرب نظام ہائے حکومت کی غلامی کے خلاف تھی۔ عرب ممالک کے عوام چاہتے تھے کہ اب آزادی اور خود مختاری کے ساتھ وہ اپنے ملک کی تعمیر میں شریک ہوں اور اپنے ملک کا مستقبل وہ خود طے کریں۔ یقیناًیہ امریکہ واسرائیل اور دیگر مغربی طاقتوں کے لیے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں تھا، جنہوں نے ایک عرصے سے ان ملکوں کو اپنی غلامی میں لے رکھا تھا۔
تیونس ومصر میں یہ انقلاب بہت حد تک کامیاب رہا، اس پہلو سے کہ جب وہاں صاف وشفاف جمہوری انتخابات ہوئے تو عوام نے اپنی پوری قیادت نئے طور سے منتخب کی، اور ایک بالکل نئی اور صالح قیادت کا انتخاب عمل میں آیا۔ لیبیا میں یہ انقلاب وہاں کی ظالم حکومت کے خاتمے میں توکامیاب رہا، لیکن اس حکومت کے خاتمے کے لیے انقلابیوں کو مغرب کی مدد لینی پڑی، چنانچہ انقلاب کے بعد جو قیادت سامنے آئی، اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوسکی، بڑی حد تک وہ گزشتہ نظام ہی کے باقی ماندہ افراد پر مبنی تھی۔ ہوا یہ کہ وقتی طور پر تو اس قیادت نے عوامی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اپنی حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی، لیکن ملک کا نظم وانصرام اُس حکومت کے کنٹرول سے باہر رہا، اور بہت ہی کم وقت میں مغربی اور اسلام دشمن ایجنسیز نے اپنی پرانی پالیسی کے مطابق وہاں کی سوسائٹی میں انتشار برپا کرنے اور وہاں موجود مختلف قبائل کو باہم برسرپیکار کرنے میں کامیاب حاصل کرلی۔ چنانچہ لیبیا کی موجودہ صورتحال آج دنیا کے سامنے ہے۔
شام (سیریا) کا محاذ بہت ہی خطرناک ثابت ہوا، شام میں اس انقلاب پر باندھ لگانے میں روسی و امریکی، اور سعودی وایرانی تمام ہی لابیاں ایک ہوگئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شام کا معرکہ پوری عرب دنیا کے لیے ایک خطرناک موڑ ثابت ہوا۔ شام میں ایک طرف بشارالاسد کا نظام حکومت تھا، جس کے ساتھ کھل کر روس، ایران اور حزب اللہ میدان میں تھے، جبکہ اپوزیشن کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی مدد حاصل تھی۔بعد میں رپورٹ آئی کہ سعودی عرب نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ بشار حکومت کو بھی کافی مدد دی، صرف اور صرف اس مقصد سے کہ عرب بہار یہیں دم توڑ دے، اور اس کو آگے بڑھنے کا موقع نہ مل سکے۔ شام کے محاذ پر ایران اور حزب اللہ کے کھل کر میدان میں آنے، اور اپنی فوج کو وہاں داخل کرنے کے نتیجے میں عرب دنیا میں کافی خلفشار پیدا ہوا۔ اور بہت حد تک اس کے نتیجے میں سنی اور شیعہ دنیا آمنے سامنے آگئی، اور اس طرح مشرق وسطی میں رہی سہی مسلم جمعیت بالکل بکھر کر رہ گئی۔ شام کے اس بحران کا ایک خطرناک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ حماس کے شام، ایران اور حزب اللہ کے ساتھ جو کچھ بھی تعلقات تھے، وہ مسلم امت کے سلسلے میں اصولی اختلاف کے سبب ٹوٹ کر رہ گئے، اور حالات کے پیش نظر حماس کے عظیم رہنما خالد مشعل نے شام سے قطر کی جانب ہجرت کرلی۔
شام کے انقلاب کو ایک خطرناک دلدل میں پھنسانے کے بعد عرب دنیا کے ظالم حکمراں اور ان کے لیے آقاکا مقام رکھنے والی مغربی طاقتیں مصر اور ترکی کی جانب متوجہ ہوئیں۔ ترکی میں تو اردگان حکومت کی ہوشیاری کے سامنے انہیں کچھ بھی کامیابی نہ مل سکی، البتہ ایک بہت ہی منظم سازش کے نتیجے میں انہوں نے مصر میں فوج کو استعمال میں لاتے ہوئے وہاں کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مصر کے ساتھ جو کچھ ہوا، یہ عالم اسلام کی اسلام پسند عوام کے لیے ایک زبردست دھچکا تھا۔ مصر میں فوجی بغاوت کے بعد پورے عالم عرب نے حیرت انگیز کروٹ لی، اور عالم اسلام کے ایک آدھ ممالک کو چھوڑ کر اسلام پسندوں کے لیے ہر جگہ گھیرا تنگ سے تنگ تر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مصر میں ۳؍جولائی ۲۰۱۳ ؁ء کے فوجی انقلاب کے بعد عالم عرب کے حکمراں کھل کر سامنے آگئے، اس وقت انہوں نے اپنے کردار سے صاف اعلان کردیا کہ وہ ہمیشہ سے اسرائیل اور امریکہ ودیگر مغربی طاقتوں کے غلام رہے ہیں، اور وہی غلامی انہیں اُن کے اقتدار پر باقی رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس موقع پر بدترین کردار پیش کرتے ہوئے ہر طرح سے مصر کی باغی فوج کا ساتھ دیا، جبکہ سعودی عرب نے اس سے چار قدم آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف وہاں کی باغی فوج کا ساتھ دیا بلکہ اخوان کو دہشت گرد تک قرار دے دیا، اور اپنے ملک میں موجود بڑی تعداد میں اخوان کے حامیوں اور اسلام پسندوں کو گرفتار کرلیا، اسلامی اداروں کو دی جانے والی ہر طرح کی امداد بند کردی، اور اسلام کے احیاء کے لیے ہونے والی ہر کوشش کو اپنے نظام حکومت کے خلاف باور کیا۔ خود مصر کے باغی فوجی حکمراں نے صدر مرسی کا تختہ پلٹنے کے بعد سب سے پہلا کام جو کیا، وہ یہ کہ پڑوس میں موجود مظلوم اور ستم رسیدہ اسلام پسند عوام کی آبادی ’غزہ‘ پر گھیرابندی سخت سے سخت تر کردی، اور اس علاقے کے مظلومین کے لیے کھانے پینے کی اشیاء پہنچانے کے لیے تعمیرکردہ سرنگوں کو ایک ایک کرکے تباہ کردیا۔
عراق ۲۰۰۳ ؁ء سے خطرناک بحران کا شکار تھا، گزشتہ دنوں یہاں ایک اور خطرناک کھیل کھیلا گیا، جبکہ یہاں ’داعش‘ کے نام سے ایک انتہاپسند جہادی گروپ کو اچانک سامنے لایا گیا، اور میڈیا کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ عراق اور ساتھ ہی ساتھ مشرق وسطی کے عوام کو اس کے ذریعے خطرناک قسم کے الجھاؤ کا شکار بنادیا گیا۔ ایک طرف خلافت اسلامیہ کے نام سے عام مسلم جذبات کا استحصال کیا گیا، اور ان کے درمیان بے جا جذباتیت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، دوسری جانب شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دے کر مسلم دنیا کی عوام کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان موجود خلیج کو مزید گہرا کرنے کی سازش رچی گئی، اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کے ذریعہ مسلم دنیا کی اسلام پسند عوام کے جذبات کو اخوان اور اس کی جدوجہد سے توڑ کر داعش جیسی انتہا پسند اور اسلام کو بدنام کرنے والی کوششوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ عراق میں داعش وہی گروپ ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے شام میں موجود ہے، اور اس گروپ نے (جس کے بارے میں میڈیا کا پروپگنڈہ ہے کہ وہ شیعوں کے ساتھ بدترین جارحیت کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے)شام میں موجود سب سے مضبوط اپوزیشن اور اسلام پسند مزاحمتی گروپ اخوان المسلمون اور بشار الاسد کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے دیگر مزاحمتی گروپس کے بے دریغ قتل وخون میں بنیادی رول ادا کیا تھا، اور معروف اسلامی مفکر علی قرہ داغی کے مطابق وہ یہی کام عراق میں بھی کررہا ہے۔
یہ ایک سرسری جائزہ تھا، مسلم دنیا کی بحرانی صورتحال کا۔ جبکہ صورتحال کسی درجہ بھیانک رخ اختیار کرگئی ہے۔ خلیج کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے گھیرا کس قدر تنگ ہوتا جارہا ہے، اور اسلام دشمن عناصر کو اپنے عزائم روبہ کار لانے میں کس قدر سہولت حاصل ہوتی جارہی ہے، یہ ایک دردناک حقیقت ہے۔ اس پورے منظرنامے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اسرائیل کے فلسطین پر حملے کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل کااقدام اس مرتبہ کس قدر گھناؤنے اور سوچے سمجھے منصوبوں پر مبنی تھا۔اسرائیل کی یہ غلط فہمی تھی کہ وہ مسلم دنیا، بالخصوص عرب کے حکمرانوں کو ساتھ لے کر، اورعرب ومسلم دنیا کے عوام کو مختلف قسم کے مسائل میں الجھا کر اپنے عزائم میں کامیاب ہوجائے گا۔
اسرائیل کی منصوبہ بند جارحیت اور عالمی رویہ
آزاد فلسطین بنیادی طور سے دو حصوں میں منقسم ہے، ایک علاقہ مغربی ہے جہاں محمود عباس کی حکومت ہے، جبکہ دوسرا علاقہ ’غزہ پٹی‘ کا ہے۔ مغربی علاقے میں فی الواقع اسرائیل نواز حکومت برسراقتدار ہے، جہاں آزادئ فلسطین کا نعرہ کافی کمزور پڑگیا ہے، یا کمزور کردیا گیا ہے (حالانکہ یہ علاقہ بھی مستقل اسرائیلی جارحیت کا شکار رہا ہے)۔ اس کے برعکس غزہ پٹی کا علاقہ ہے، جہاں حماس کی حکومت ہے، اور اس علاقے میں باوجود ہر طرح کی بے سروسامانی کے عوام کے اندر آزادی اور حق وانصاف کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں موجود اسلام پسند گروپس بالخصوص حماس سیاسی وعسکری ہر پہلو سے کافی مضبوطی اختیار کرگئی ہے۔ حماس نہ صرف فلسطین کو آزاد کرانا چاہتی ہے، بلکہ وہ اپنے ملک کے مخصوص حالات میں مسلح جدوجہد پر بھی یقین رکھتی ہے۔ چنانچہ حماس کا وجود اسرائیل کے لیے ایک زبردست خطرہ تصور کیا جاتاہے۔
مسلم دنیا، بالخصوص مشرق وسطی، اور اس میں بھی خاص طور سے مصر کو ادھر کچھ عرصے سے جس بحرانی دور کا شکار بنایا گیا ہے، وہ درحقیقت اسرائیل کے حق میں غزہ پٹی میں موجود آزادی پسند عوام اورآزادی پسند تحریک کے خاتمے کا ابتدائی منصوبہ ہے۔ اسرائیل کا حالیہ اقدام اس لحاظ سے اپنے اندر کئی ایک اشارے رکھتا ہے۔
مسلم دنیا کے اس سخت بحرانی دور میں اسرائیل نے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے شہریوں کے قتل کا جھوٹا الزام لگاکر غزہ پر سخت حملے شروع کردئیے، حالانکہ حماس کی جانب سے اس واقعے سے صاف اعلان برأت کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام کے جواب میں فلسطین کے مجاہدین نے بھی جوابی کارروائیاں شروع کردیں۔
اسرائیل کی جانب سے سخت قسم کی جارحانہ کارروائیاں کی گئیں، مستقل بمباری کی گئی، خطرناک قسم کی گیسوں کا استعمال کیا گیا، اور تمام ہی عالمی قوانین جنگ کو نظراندازکرتے ہوئے عوام الناس کو بری طرح جارحیت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے مقابلے میں حماس کی جانب سے پہلے سے اعلان کرتے ہوئے، تاکہ عوام ہوشیار ہوجائیں، دیسی راکٹ اور میزائیل چھوڑے گئے، اور عوام کے بجائے فوج یا حکومت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
اسرائیلی کی فوج نے اس معرکے میں انتہا درجے کا دہشت گردانہ رویہ اختیار کیا، ہسپتالوں، مساجد، اسکولس، اور عوامی مقامات پر اس نے بے پناہ بمباری کی، عید کے روز تو اس نے اپنی جارحیت کی انتہا کردی۔ اس کے مقابلے میں حما س کے مجاہدین نے عوام کے ساتھ کچھ بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی، انہوں نے عوام کو مکمل طور سے محفوظ مقامات پر پناہ لینے اور بچنے کا موقع دیا۔
تعجب ہوتا ہے کہ امریکی صدر اوبامہ کو دونوں کے درمیان یہ فرق سمجھ میں نہیں آیا، اور اس نے بار بار یہ بیان جاری کیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر نہ صرف عرب اور مسلم دنیا کے حکمراں کھل کر سامنے آگئے ہیں، بلکہ مغربی دنیا کے وہ حکمراں جو منافقانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے، اور بظاہر انسان دوست اور امن وانصاف کے علمبردار ہونے کا دعوی کرتے تھے، وہ تمام کے تمام ننگے ہوکر سامنے آگئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ تک کا رول اس وقت بالکل واضح ہوکر سامنے آگیا۔
اسرائیل کی اس جارحیت پر جس انداز سے عرب حکومتوں کا ردعمل سامنے آیا، وہ بھی حالات کو سمجھنے کے لیے بہت حد تک کافی ہے:
مثال کے طور پر الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے تعاون کے لیے اپنی انٹلی جنس کو ڈاکٹروں کی شکل میں غزہ بھیجا، جہاں اتفاق سے ان کی شناخت کرلی گئی۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ وہاں اُن کو بھیجا گیا تھا تاکہ وہ اسرائیل کو حماس کے حساس مقامات سے آگاہ کرسکیں۔ متحدہ عرب امارات نے الجزیرۃ کے مطابق اسرائیل سے یہ معاہدہ بھی کیا تھا کہ اگر وہ حماس کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس پوری جنگ کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے اوپر ہوگی۔
سعودی عرب نے اہل غزہ کی ’’مدد‘‘ کے لیے اسرائیل کی ایک این جی او کوکروڑوں ڈالر کی امداد کی، (جبکہ میڈیا میں دکھایا گیا کہ یہ مدد اہل فلسطین کو بھیجی گئی ہے)اور سعودی حکومت کی جانب سے بار بار مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کسی طرح حماس کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لئے جائیں۔
مصر نے نہ صرف ’غزہ‘ کی سخت ناکہ بندی کی، اور اہل غزہ کے لیے جانے والی تمام امداد روک دیں، بلکہ اسرائیل کے حق میں جنگ بندی کے لیے تمام کوششیں کرڈالیں، اور جنگ بندی کے لیے ایسی شرائط رکھیں جن کی رو سے حماس کے لیے اور پھر غزہ کے لیے اپنے وجود کی حفاظت مشکل ہوجائے۔
اسرائیل کی بدترین شکست
یہ حقیقت ہے کہ اس معرکہ میں اہل فلسطین کابڑا جانی ومالی نقصان ہوا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگی اعتبار سے فلسطین کا بہت ہی معمولی نقصان ہوا ہے، شہید ہونے والوں میں اکثر عورتیں، بچے اور بوڑھے شہری ہیں، جبکہ مجاہدین کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ حالانکہ اسرائیل نے اس معرکہ میں زبردست جانی ومالی نقصان کا سامنا کیا، اسرائیل کے مرنے والے بیشتر یا قریب قریب تمام ہی فوج کے افراد ہیں۔ اب تک کے معرکوں میں اسرائیل کا اِس دفعہ سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی تجزیہ نگار اس معرکہ میں اسرائیل کی شکست تسلیم رہے ہیں، اور نیتنیاہو حکومت سے مستقل استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اسرائیل نے اس جنگ سے متعلق اپنے جن عزائم کا اعلان کیا تھا، اس میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ
(۱) وہ حماس کو نیست ونابود کردے گا۔
(۲) حماس کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لے گا۔
(۳) سرنگوں کے جال کو تباہ وبرباد کردے گا۔
(۴) اور جنوبی علاقے کے اسرائیلی باشندوں کو سکون اورراحت کی زندگی فراہم کرائے گا۔
یہ بنیادی عزائم اس جنگ کی ابتدا سے ظاہر کئے جارہے تھے۔ جنگ پر ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی، اسرائیل اپنے ان عزائم میں صد فیصد ناکام نظر آرہا ہے۔ حماس آج بھی اپنا ایک مضبوط بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط وجود رکھتی ہے، اور آج پہلی بار اس نے اسرائیل کو بار بار جھکنے پر مجبور کیا ہے، وہ نہ صرف اسرائیل کو زمینی جنگ تک کھینچ کر لے آئے، بلکہ پورے عالم کے سامنے ان کو ذلت کے ساتھ زمینی جنگ سے واپسی پر بھی مجبور کردیا۔ آج حماس کے نمائندے جنگ بندی کے لیے ہونے والی گفتگو میں باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فریق کی حیثیت سے شرکت کررہے ہیں، اور وقتی جنگ بندی کے لیے بھی اپنے شرائط سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
رہی بات ہتھیار کی، تو اب تک کی گفتگو میں اسرائیل کو یہ موقع مل ہی نہیں سکا کہ وہ ہتھیارچھیننے کی بات رکھ سکے، حماس نے مصر کی جنگ بندی کی شرائط کو، جس کی رو سے حماس سے ہتھیار چھیننے مطلوب تھے، رد کرتے ہوئے اپنے شرائط کو نہ صرف مضبوطی کے ساتھ پیش کیا ہے، بلکہ اس میں کسی بھی صورت نرمی برتنے کو تیار نہیں۔
سرنگوں کے جال کی صورت حال یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کو پاگل بناکر کر رکھ دیا ہے، اور اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں کہاں سے سرنگ کھلتی ہے اور کب اور کیسے حملہ ہوجاتا ہے۔ آج حماس کا سارا جنگی ذخیرہ اور جنگی سسٹم انہیں سرنگوں کے اندر ہے، جن کو تباہ کرنے میں اسرائیل بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے، اور پاگل پن میں عام آبادی کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنارہا ہے۔
اسی طرح اس کے عزائم میں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ وہ جنوبی علاقے کے اپنے عوام کو راحت اور سکون کی زندگی فراہم کرنا چاہتا ہے، جبکہ اس جنگ کے بعد صورتحال یہ ہے کہ حماس جنوبی علاقے کی نہ جانے کتنی غیرقانونی آبادیوں کو اپنے بے تحاشہ راکٹوں کے ذریعے خالی کرانے میں کامیاب ہوچکی ہے، اور ابھی بھی خالی کرانے کا یہ سلسلہ جاری ہے، حالانکہ اس کے سلسلے میں گزشتہ بیس سال سے محض مذاکرات کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔
ایک اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق : ’’آپ جنگ میں فتح وشکست کا کوئی بھی معیار مقرر کریں اور پھر اس معیار پر اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی گئی حالیہ جنگ کو پرکھیں۔ آپ ہر طرح سے یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم نے شکست کھائی ہے۔ ہم جنگ بندی کرتے ہیں، جبکہ اس کے خاتمے کا اعلان حماس کی طرف سے راکٹ باری کے ذریعے ہوتا ہے۔ جنگ بندی ہمیشہ کمزور کرتا ہے اور اس کا خاتمہ طاقتور اور فاتح کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ غزہ کے لوگ اتنی شدید بمباری کے باوجود نہ اپنا علاقہ چھوڑ رہے ہیں، اور نہ حماس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں، سب لوگ وہیں ہیں، اور حماس کے ساتھ ہیں۔ عارضی جنگ بندی کے مختصر دورانئے میں غزہ کے عوام نے حماس کے ساتھ یکجہتی کے لیے ریلی نکالی، جبکہ اسرائیل میں صورتحال یہ ہے کہ عسقلان، بئرالسبع، اور اسدود جیسے غزہ کے قریب واقع شہر یہودیوں سے خالی ہوچکے ہیں، اور یہ لوگ تل ابیب آکر حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ یا تو انہیں تحفظ فراہم کرے یا پھر وہ اسرائیل چھوڑ کر اپنے پرانے ملکوں کو واپس لوٹ جائیں گے جہاں سے وہ اسرائیل آئے تھے۔ میں خدا کی قسم دے کر نیتن یاہو سے کہتا ہوں کہ ایسا کبھی مت کہنا کہ ہم فتحیاب ہوئے۔ یہ شکست ہے، واضح شکست، اور اسرائیل کو اس کا خمیازہ بہت طویل عرصے تک بھگتنا ہوگا۔۔۔۔۔‘‘
اسرائیل کو اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ اگر یہ معرکہ زیادہ دنوں تک جاری رہا، تو اس سے بھی زیادہ تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میدان جنگ کی کراری شکست کو سیاسی میدان میں مصری مفاہمت کا سہارا لے کر فتح میں تبدیل کردینا چاہتا ہے۔
حماس کا صبروثبات اور اس کے اثرات
اس معرکہ میں حماس نے جس صبر اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ یقیناًخدائے ذوالجلال کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ سخت ترین حالات، اور روزے کی حالت میں، ایک طرف اسرائیل کی جانب سے سخت اور جارحانہ حملے، دوسری جانب عرب حکومتوں کی جانب سے ان کے خلاف خطرناک سازشیں، ایسے سخت حالات میں انہوں نے کسی بھی طرح جھکنے اور کمزوری دکھانے کے بجائے اپنے مجاہدین کے ساتھ مل کر ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کو تیز سے تیزتر کردیا۔
حماس کے مجاہدین کے سلسلے میں ایک منظم سازش کے طور پر یہ غلط فہمی عام کی گئی کہ وہ اقتدار کی خاطر یا اپنی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں معصوم عوام کا خون کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا الزام لگانے والوں کو نہ تو آزادی کا مفہوم معلوم ہے اور نہ ہی انہیں کبھی اس کی لذت ملی ہے۔خالد مشعل نے ایسے افراد کا بہت ہی شاندار جواب دیا ہے، انہوں الجزیرۃ پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ڈھونڈنے پر بھی کوئی قوم ایسی نہیں ملے گی، جس نے فلسطین کی سرزمین سے کم قربانیوں پر آزادی حاصل کی ہو، الجزائر نے تو پندرہ لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی حاصل کی تھی، جبکہ ویتنام کی عوام نے آزادی کے لیے ۳۵؍لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔‘‘ فلسطینی عوام کا جذبہ آزادی ہی ہے، جس نے انہیں اپنی جانوں کی بازی لگانے کے لیے تیار کررکھا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اگر جان گئی تو شہید کہلائیں گے اور اگر زندہ رہے تو مجاہد کی زندگی گزاریں گے۔ ایسے وقت میں جبکہ پوری مسلم دنیا غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال چکی ہے، غزہ کی عوام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مردان حُر کون ہوتے ہیں، اور ایک آزاد مسلم کے شب وروز کیسے گزرتے ہیں۔
حماس کا یہی عزم وحوصلہ اور صبروثبات ہے جس نے دنیا کی ایک بڑی طاقت کو اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اس معرکہ کا اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں حما س نے واضح کامیابی حاصل کی ہے:
نفسیاتی طور سے حماس نے اس معرکہ کو بہت پہلے ہی فتح کرلیاتھا، چنانچہ اس معرکے سے ان کے مجاہدین کا اخلاقی وزن بڑھا ہے، اور انہیں اس سے زبردست حوصلہ ملا ہے۔ انہوں نے دشمن کے نہ صرف ایک سو سے زائد فوجیوں کو ہلاک کیا ہے، بلکہ بہتوں کو زخمی بھی کیا ہے۔ حتی کی دشمن کے ایک قیدی کو گرفتار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اسی طرح انہوں نے دشمن کے ٹینک اور اسلحے بھی تباہ کئے۔ اس کے سیکورٹی سسٹم کو چیلنج کرتے ہوئے اپنا ڈرون ان کے علاقے میں بھیجا اور اسے صحیح سلامت واپس لے آئے۔ گزشتہ جنگوں کے مقابلے میں اس مرتبہ ۱۶۰؍کلومیٹر دوری تک انہوں نے اپنے راکیٹ مارنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس مرتبہ حماس نے اپنے تیار کردہ میزائیل بھی استعمال کئے۔ ان تمام چیزوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادھر چند برسوں میں حماس نے اپنی ٹکنالوجی کو کافی ترقی دی ہے۔
حماس کی یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے دشمن کو نفسیاتی طور سے سخت تناؤ اور دباؤ کا شکار بناکر رکھا۔ دشمن نے فلسطینی عوام کا خون تو بہت بے دردی کے ساتھ بہایا، لیکن وہ اپنے فوجی ساتھیوں کا خون دیکھ کر ہمت ہار بیٹھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب ایک سازش کے تحت مصر کی جانب سے مفاہمت کی بات لائی گئی تو اس نے بڑھ چڑھ کر اسے قبول کرلیا، جبکہ حما س نے اسے یکسر مسترد کردیا۔اسی طرح اس نے پہلے تو بڑھ کر زمینی کارروائی کی، لیکن جب اندازہ ہوا کہ مجاہدین نے اس کو زمینی کارروائی پر مجبور کرکے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اور اس طرح سے وہ اس کے فوجیوں کو بآسانی نشانہ بنا لے رہے ہیں، تو فوری وہاں سے بھاگ نکلا۔
حما س کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ آج اسرائیل کی عوام بڑی تعداد میں ملک چھوڑرہی ہے، یا تو وہ پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور ہے، یا ملک چھوڑ کر فرار ہورہی ہے۔ حماس کے راکٹوں کے نتیجے میں اسرائیل کو اپنا سب سے بڑا ہوائی اڈہ کئی دن کے لیے بند کرنا پڑا، اوررپورٹ کے مطابق خلیجی جنگ کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جبکہ اس خطے میں کوئی ایسا ایئرپورٹ اس طرح بند ہوا ہو۔
حما س کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ وہ پورے فلسطین کو اپنے سے قریب کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ محمود عباس نے ابتدا میں تو اسرائیل کے حق میں بیانات دیئے، لیکن جلد ہی حالات کا اندازہ لگالیا، اور خاموش رہنے یا حماس کی آواز سے آواز ملانے پر مجبور ہوگیا۔
حالیہ معرکہ: چند اہم اسباق
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اس پورے معرکے اور اس کے منظر وپس منظر کا جائزہ لیا جائے تو ذیل کے حقائق سامنے آتے ہیں:
فلسطین کے مجاہدین نے اپنے صبروثبات کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ محض جنگی سازوسامان ہی کسی محاذ کو سر کرلینے کے لیے کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے صبروثبات اور عزم وحوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی کے فقدان کا نتیجہ تھا کہ اہل فلسطین اپنے معمولی ہتھیاروں کے باوجود میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، جبکہ اسرائیلی فوج میدان چھوڑ کر بھاگتی نظر آرہی تھی۔ اور عوام میں بھی فلسطین کی عوام نے مجاہدین کوپورا پورا سپورٹ دیا، جبکہ اسرائیلی عوام یا تو پناہ گاہوں میں چھپ گئی، یا اپنی ہی حکومت اور فوج کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرنے لگی۔
فلسطین کے مجاہدین نے یہ بھی ثابت کردیا کہ آزادی فلسطین کی آگ ابھی بجھی نہیں ہے، اور محمود عباس کی رائے کے برخلاف یہ آگ دوبارہ کبھی بھی بھڑک سکتی ہے۔ اس سے حماس کا یہ موقف اور مضبوط ہوکر سامنے آگیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا، یہ محض ایک فریب ہے۔
اس مرتبہ مجاہدین نے اسرائیل کو زبردست جھٹکے دیئے ہیں، تیزمار راکٹ، میزائیل، ڈرون، اور خطرناک سرنگیں ، جن کا اسرائیل تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ایسے حالات میں جبکہ اہل غزہ پر عرصۂ حیات اس قدر تنگ کردیا گیاہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات تک کی تکمیل کے لیے دوسروں کے محتاج ہیں۔
اسرائیل کو اس جنگ میں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ زمینی جنگ اس کے بس کا روگ نہیں ہے، اور اللہ رب العزت کا یہ فرمان ایک بار پھر اس قوم کے لیے صادق آیا کہ ’’(یہ سب جمع ہوکر بھی تم سے آمنے سامنے کی جنگ) نہیں لڑسکیں گے، مگر مضبوط قلعوں میں پناہ لے کر یا دیواروں کی اوٹ میں چھپ کر‘‘ لَا یُقَاتِلُونَکُمْ جَمِیْعاً إِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ أَوْ مِن وَرَاء جُدُر۔ (الحشر:۱۴)
فلسطینی مزاحمت نے اس بار یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ اور ان کی جدوجہد صرف اسرائیل کے لیے مسئلہ نہیں ہے، بلکہ عرب ممالک کی حکومتیں بھی اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ وہ کسی بھی طرح اسلام پسند یا آزادی پسند عوام کو اپنے خطے میں سراٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتیں۔ خطے میں ہرآزادی پسند فرد اور تحریک انہیں اپنی شہنشاہیت کے لیے خطرہ محسوس ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب حکومتوں نے اس مرتبہ اسرائیل کا کھل کر سپورٹ کیا ہے، اور اسرائیل کو اپنے ساتھ رکھا ہے، جبکہ فلسطین اور اہل غزہ کو برطرف کررکھا ہے، یا اس کے خلاف خطرناک سازشوں کا جال بنا ہے۔
ارض فلسطین کا مستقبل
حالیہ معرکے کے بعد ارض فلسطین کا مستقبل چند سوالات کے گھیرے میں آگیا ہے۔
کیا عرب حکومتیں حماس کے ہاتھوں سے ہتھیار چھیننے میں کامیاب ہوجائیں گی؟ کیا مصر کی جانب سے غزہ پٹی کے لیے آئندہ کبھی کسی خیر کی امید کی جاسکتی ہے؟ کیا ایران اور حزب اللہ اب دوبارہ حماس اور اہل غزہ کے حق میں آواز اٹھاسکتے ہیں؟ کیااسرائیل اس جنگ میں حماس کی فتح کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے شرائط پر جنگ بندی کے لیے تیار ہوجائے گا؟ یا پھر حماس کے خلاف پوری مسلم ومغربی دنیا ایکا کرتے ہوئے اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آخری زور لگادے گی؟ کیا فلسطین کو اپنی روٹی، پانی اور بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں پر منحصر ہونا چاہئے، یا اسے بھی عام انسانی دنیا کی طرح ان حقوق کے حصول کے لیے آزادی ملنی چاہئے ؟
یہ چند اہم سوالات ہیں، جو غزہ اور اہل فلسطین کے مستقبل کے تعلق سے سامنے آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت حماس اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، انہوں نے خالد مشعل کے الفاظ میں تاریخ کی سب سے بڑی جیل میں بہت دن گزار لیے، اب وہ آزادی چاہتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں اہل فلسطین کا زیادہ جانی نقصان اس ناکہ بندی سے ہورہا ہے، جو اسرائیل، اور مصر نے مل کر رکھی ہے۔اب مزید اس ناکہ بندی میں رہنا شائد فلسطینی عوام برداشت نہ کرسکے۔ چنانچہ اس دفعہ حماس نے آخری معرکہ سر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اور جنگ بندی کے لیے وہ شرائط رکھی ہیں، جو ان کے وجود کے لیے بالکل ہی ناگزیر ہیں، مثال کے طور پر یہ جنگ بندی دس سال کے لیے ہوگی۔ اسرائیلی افواج غزہ پٹی سے مکمل انخلاء کرلیں گی۔ فلسطین کے ان تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جو اس موقع سے گرفتار کئے گئے۔ ناکہ بندی ختم کی جائے گی، اور زمینی راستے کھول دیئے جائیں گے۔ فلسطینی کسانوں کو آزادی کے ساتھ کھیتی کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ غزہ کی بندرگاہ اور رفاہ بارڈر کو عالمی سطح کی نگرانی کے ساتھ کھول دیا جائے گا۔ اسرائیل کے ذریعے فلسطینی فضائیے کے استعمال پر روک لگائی جائے گی۔ مسجداقصی کی زیارت کی اجازتِ عام دی جائے گی۔ غزہ پٹی کے کاروباری علاقے کو کھول دیا جائے گا۔ اسرائیل فلسطین کے داخلی معاملات، اور مغربی کنارے اور غزہ پٹی کی متحدہ حکومت کے سلسلے میں کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
یہ وہ مطالبات ہیں جو آئندہ دنوں ارض فلسطین کا مستقبل طے کریں گے، جبکہ ان کے سلسلے میں اسرائیل اور امریکہ سے زیادہ مصر اور عرب ممالک کو تشویش ہے، حماس نے ان مطالبات میں کسی بھی طرح کی نرمی دکھانے سے صاف انکار کیا ہے، نہیں معلوم کہ آگے اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک کس نتیجے تک پہنچتے ہیں
ابوالاعلی سید سبحانی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں