سعود فیروز
ہمارا ملک ہندوستان اپنی تاریخ کے سنگین ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس ملک کے تکثیری سماج نے اپنی تاریخ میں کئی مدوجزر دیکھے ہیں اور ہرقسم کے محن و شدائد کا سامنا کیا ہے ، تاہم آج اسے جو خطرات لاحق ہوگئے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔اس ملک کی اپنی بنیادی شناخت پر خطرات کے بادل منڈلا نے لگے ہیں۔بے بصیرت اندازوں، بے ہنگم اٹکلوں،احمقانہ خوش فہمیوں اور بے بنیاد دعوؤں کو درکنار کردیں تو کوئی شخص یا جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ہندوستان کی’ کثرت میں وحدت ‘(Unity in Diversity) کی تاریخی شناخت مستقبل میں بھی برقرار رہے گی۔
مرکزی سطح پر’گجرات ماڈل‘ کا خواب 2019میں بالآخر شرمندہ تعبیر ہوگیا جب نریندر مودی نے دوبارہ وزیر اعظم اور امیت شاہ نے پہلی مرتبہ وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالا۔
اس خطرناک جوڑی کے مرکز میں آ نے کے بعد پارلیمنٹ کے پہلے ہی سیشن میں پارلیمانی اقدار کی بخیہ ادھیڑتے ہوئے،جس طرح ایک کے بعد ایک خطرناک بِل ایوان زیریں اور ایوان بالا میںپاس ہوتے گئے ہیں، اس نے موجودہ حکومت کے مہلک عزائم کو واضح کردیا ہے۔ ایک نشست میں تین طلاق کے بل کا پاس ہوجانا اس سوچ کا عملی اظہار ہے کہ یہ حکومت اپنے فسطائی پروجیکٹس کوروبہ عمل لانے کے لیے آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو بھی خاطر میں نہیں لائے گی۔آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس(NRC)کا تجربہ کرنے کے بعد اسے قومی سطح پر لاگو کرنے کی تیاریاں اب آخری مرحلے میں ہیں۔اگرایساہوتاہے توملک کے کروڑوںشہریوںکی شہریت یک لخت مشکوک ہوجائے گی۔اَن لاء فُل ایکٹیوٹیز پریوینشن ایکٹ(UAPA)ترمیمی بل پر عزت مآب صدر جمہوریہ کااسٹیمپ لگنے کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا خطرناک ترین بل اب باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔ اس قانون کی رو سے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA)کو یہ ’آزادی‘ حاصل ہوگی کہ وہ حکومت کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والے کسی بھی شہری یا تنظیم کو ’دہشت گرد‘ قرار دے۔ کسی شخص یا تنظیم پر ’دہشت گردی‘ کے الزام کو شواہد کی بنیاد پر ثابت کرنا اب تفتیشی ایجنسیوں کا ’درد سر‘ نہیں ہوگا، بلکہ یہ ذمہ داری خود ملزم پر ہوگی کہ وہ ثابت کرے کہ وہ ’دہشت گرد‘ نہیں ہے۔
حق معلومات قانون (RTI)میں ترمیم کرکے شہریوں سے ان کا یہ حق تقریباًچھین لیا گیا ہے کہ وہ برسراقتدار حکومت کا احتساب کریں۔اب حکومت اور بیوروکریسی کے پاس یہ’ موقع‘ ہوگا کہ وہ گجرات فسادات کی طرز پر مجرمانہ سرگرمیوں کی قیادت کر سکے۔وادی کشمیر میں امرناتھ یاتراکو اچانک ملتوی کرکے، سینئر لیڈران کو نظربند کرکے، سیاحوں کو کشمیر سے خارج کرکے،غیر کشمیری طلبہ کو کشمیر سے واپس بلا کر ،بڑ ی تعداد میں آرمی جوان بھیج کر،اطلاعات کے ذرائع معطل کرکے، ریاست کشمیر کے خصوصی درجہ سے متعلق آئین ہندکی دفعات 370اور 35Aکو جس آمرانہ رنگ و آہنگ میں ختم کردیا گیا ہے، اُس سے کشمیر کے سلسلے میںموجودہ حکومت کے خطرناک عزائم بھی سامنے آگئے ہیں۔آئندہ یہ حکومت پاکستان کی مبینہ ’شرارتوں‘ پر اسے سبق سکھانے کابہانہ بناکر کشمیر میں ایک ممکنہ نسل کشی(Genocide)کی راہ ہموارکرسکتی ہے۔
کشمیر میں قتل و غارت گری کے ذریعے حالات کو خراب رکھناموجودہ حکومت اس لیے بھی ضروری سمجھتی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ میں جاری امن مذاکرات اگر کامیاب ہوگئے اور طالبان کو حکومت سونپ کرافغانستان سے امریکی فوج کاانخلاء ہوگیا تو طالبان کی حکومت میں افغانستان میں ہندوستان کی کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری (Investment) خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس ممکنہ خسران سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان کو بھی مسئلہ کشمیر میں الجھا کر رکھا جائے۔یہ ہیں وہ احوال اور کوائف جو آئندہ چند مہینوں میںہندوستان کے سماجی تانے بانے و سیاسی منظرنامے کو بری طرح متاثر کر نے والے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آئندہ یہ حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں۔حالات کا یہ بیان مایوسی کا غمازہے اورنہ ناامیدی ہے۔ خوف کی نفسیات ہے اور نہ لوگوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔ یہ دراصل ایک حقیقت ہے جسے اہل علم اور دانشور طبقے کو قبول کرنا ہوگا، ریت میں منہ چھپا کراورحقیقت سے نظریں چرا کرہم ایک بہتر مستقبل کی جانب کوچ نہیں کرسکتے۔
اس وقت سَنگھ پریوار جس پوزیشن میں ہے وہ پوزیشن اسے اچانک نہیں حاصل ہوگئی ہے۔ سَنگھ کے مشن کو سامنے رکھتے ہوئے جو اقدامات موجودہ حکومت کررہی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ لوگ اس سے بے خبر تھے یا سَنگھ نے اپنے عزائم چھپا رکھے تھے اور اقتدار حاصل ہوجانے کے بعد اچانک اس نے اپنے چہرے سے شرافت کی نقاب اتار لی۔ موجودہ مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے پس پردہ سَنگھ کی ایک طویل اور ہمہ جہت جدو جہد ہے۔سَنگھ کے نظریہ سازوں نے روز اول ہی سے اپنے نظریات اور عزائم کو صاف صاف لفظوں میں بیان کردیا تھا۔ سَنگھ اپنے قیام کے ابتدائی برسوں سے ہی مختلف حکومتی اور غیر حکومتی اداروں مثلاً تعلیمی ادارے، نوکر شاہی، فوج ،ذرائع ابلاغ اور عدلیہ وغیرہ میں نفوذ کے لیے کوشاں رہا ہے۔ہر محاذ کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے سَنگھ نے جامع منصوبہ بندی کی ہے، اپنے وابستگان میں عہد بستگی (Commitment)پیدا کیا ہے ،پھر اپنے منصوبوں کو حالات کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیشہ ورانہ اور تکنیکی مہارت کے ساتھ روبہ عمل لانے میں کامیاب رہا ہے۔سَنگھ کے مخالفین اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ سَنگھ کا نظریہ چوں کہ نفرت پر مبنی ایک نظریہ ہے اور اس کی کوئی معقولیت بھی نہیں ہے اس لیے اس نظریہ کو ہندوستان میں عوامی مقبولیت حاصل ہوجائے ، یہ ممکن نہیں ہے۔
یہ صحیح ہے کہ سیاسی سطح پر تاریخی کامیابیاں درج کرنے کے باوجود سَنگھ علمی و نظریاتی سطح پر کسی قابل ذکر تعداد کو آج بھی متاثر نہیں کرسکا ہے۔ تاہم اس پہلو کو اپنی کمزوری مان کر گوشہ عزلت میں پناہ لینے کی بجائے سَنگھ نے اسٹریٹیجک ذکاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’قومی سلامتی‘(National Security) کا منجن بیچنا شروع کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کی ’خامیوں ‘اور ’کوتاہیوں‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سَنگھ اپنے آپ کو ہندوستان کی قومی سلامتی کا ’اِنِّی حفیظ ٌامینٌ‘ ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ قوم پرستی چوں کہ دور جدیدیت کے ان خداؤں میںسے ایک ہے جس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو بڑے سے بڑا ملحد بھی گناہ نہیں سمجھتا، جس کے لیے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرنے سے جاہل سے جاہل شخص بھی دریغ نہیں کرتا، لہذا ہندوستان جیسے ملک میں قومی سلامتی اور قوم پرستی کا کاروبار خوب چمکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کی اکثریت نظریاتی طور پر بھلے ہندوتواکے ساتھ نہ ہو، لیکن قومی سلامتی ،ایک ایسا فریب جسے ملک کا سب سے سنگین مسئلہ باور کرانے میں سَنگھ کامیاب رہا ہے،کے مسئلہ پر وہ سَنگھ کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی ہے۔ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سَنگھ کو اس سے زیادہ کسی تعاون کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ملک کے دانشور طبقے نے سادہ لوحی کا ثبوت دیتے ہوئے سَنگھ پریوار کی طاقت کو ہمیشہ under-estimateکیا ہے۔جس کا خمیازہ اب ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
خود ملک کی تحریک اسلامی بھی جس سے یہ توقع کی جا سکتی تھی،ہندوستانی عوام کو سَنگھ کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ تحریک اسلامی اس پوزیشن میں بھی نہیں رہی کہ تعلیم یافتہ نوجوانان ملت کی ایک معتد بہ تعداد کو مختلف محاذ پر سَنگھ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرسکے۔جس وقت ملک آزاد ہوا اور تقسیم وطن عمل میں آئی ٹھیک اسی وقت سَنگھ اپنے نظریات کی تبلیغ کی مہم پرزور طریقے سے شروع کرچکا تھا۔ اس کے نظریات میں ایسے مہلک جراثیم موجود تھے جو آئندہ ملک کے سماجی تانے بانے کو زیر و زبرکرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ ایسی صورت حال کا تقاضہ یہ تھاکہ تحریک اسلامی ایک قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے تمام پسماندہ طبقات ،جن کی مجموعی آبادی کا تناسب تقریباًاسی فیصد ہے،کوساتھ لے کر تعمیر وطن کا اک ایسا نظریہ پیش کرتی جس کے ذریعے ایک طرف وہ خود ملک کی مین اسٹریم عوامی تحریک بن جاتی اور دوسری طرف ہندو انتہا پسندتنظیمیں خود بہ خود isolateہوکر رہ جاتیں۔
جب ملک کی زمام کارکانگریس کے ہاتھوں میں تھی اور یہ بالکل واضح تھا کہ خود کانگریس بھی سَنگھ کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے،وقت کی بڑی ضرورت تھی کہ تحریک اسلامی ایک بڑا سیاسی متبادل کھڑا کرنے میں کلیدی کردار اداکرتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو ملک اور ملک کے جمہوری اداروں کو زہر آلود ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہندوستانی سیکولرازم کے حوالے سے تحریک اسلامی صحیح موقف اختیار نہیں کرسکی بلکہ اس نے ایک ایسا موقف اختیار کیا جس میں ہندوستانی نظام کو ’طاغوت‘ سے تعبیر کیا گیا تھا، اور اس نظام سے کسی بھی صورت میں وابستگی کو از روئے شریعت ،حرام قرار دیا گیا تھا۔ اس موقف کا انجام یہ ہوا کہ ٹھیک اسی وقت جب کہ سیاست ، انتظامیہ اور دیگر اہم حکومتی شعبہ جات میں سَنگھ کا نظریہ اپنانے والے افراد منصوبہ بند طریقے سے اپنے قدم جمارہے تھے،ان شعبوں میں مسلمانوں کی رہی سہی نمائندگی بھی کم اور بے وزن ہوتی چلی گئی۔آزادی اور تقسیم کے وقت جس قسم کے حالات تھے، ان حالات میں ایک علاحدگی پسندانہ موقف ملت کواجتماعی خود کشی پر آمادہ کرنے سے کم نہ تھا۔
بہرحال یہ باتیں اب ماضی اور تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ماضی میں جو ہوا سو ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں جن حالات سے ملک کی عوام اور بطور خاص مسلمان دوچار ہو گئے ہیں ،ان سے نکلنے کی سبیل کیا ہو۔تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ ماضی کی لغزشوں کی صحیح تشخیص اور ایمان دارانہ اعتراف کے بغیر مستقبل کے لیے کامیاب حکمت عملی اختیار نہیں کی جاسکتی۔
ملک کے مختلف مذہبی گروہوں ،خاص طور پر ہندو اور مسلم سماج کے مابین پیدا شدہ خلاء (Communication Gap)کو ختم کرنا ،اس وقت سب سے اہم کام ہے۔یہ خلاء اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب کہ زبانیں اور آبادیاں مشترک ہوں۔اہل سیاست اور میڈیا ،نفرت کی تخم ریزی کرنے میں وہیں کامیاب ہوئے ہیں جہاں ہندو اور مسلمانوں کی زبانیں اور آبادیاں الگ اور منقسم رہی ہیں۔ملک کی جن ریاستوں میں برادران وطن اور مسلمانوں کی زبانیں اور آبادیاں جس قدر مشترک ہیں،اسی قدر فرقہ وارانہ منافرت وہاں کم ہے۔یہ سوال ضرور اہم ہے کہ کیا ہندو اور مسلمان کی زبانیں اور آبادیاں کبھی مشترک بھی ہوسکتی ہیں؟لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر زبان یا کم از کم آبادیوں کا مشترک ہونا نا ممکن ہوجائے تو پھر فرقہ پرستی کا خاتمہ بھی ناممکن ہی ہوگا۔
دوسرا اہم کام مسلمانوں میں علاحدگی پسندانہ رویوں کو ختم کرنا اور ان کے اندر ہندوستانی قوم ہونے کا احساس پیدا کرنا ہے۔قوم اور ملت دو مختلف شناختیں ہیں۔ان دونوں شناختوں کا اجتماع ممکن بلکہ ہندوستانی تناظر میں، ضروری ہے۔ملتیں مشترک ایمان و عقیدے سے وجود میں آتی ہیں جب کہ قومیں مشترک جغرافیہ اور ثقافت کی بناء پر۔ہندوستانی مسلمان اپنے ایمان و عقیدے کے لحاظ سے عالمی ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں۔یہ ان کی ایک شناخت ہے۔اس شناخت کا احساس مسلمانوں میں پایا بھی جاتا ہے۔تاہم مسلمانوں کی ایک دوسری شناخت بھی ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوستانی قوم بھی ہیں۔اس شناخت کا احساس مسلمانوں میں مفقود ہے ۔بلکہ بعض مرتبہ ’شرعی ‘بنیادوں پر اس کی نفی بھی کردی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمانان ہند اپنے اندر ہندوستانی قوم ہونے کا احساس پیدا نہیں کریں گے، جب تک وہ تمام انبیائے اسلام کی طرح ہندوستان کے ہندواور دیگر برادران وطن کو ’یا قومی‘( اے میری قوم کے لوگو!) کہہ کر پکارنے کی پوزیشن میں نہیں آئیں گے،اور جب تک خود یہاں کے برادران وطن بھی مسلمانوں کو ’اپنی قوم کے افراد‘ محسوس نہیں کریں گے،ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت کا شعلہ سرد نہیں ہوسکے گا۔
کرنے کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ برادران وطن میں سے وہ افراد جو فی الواقع سیکولر ،جمہوریت پسند اور منصف مزاج ہیں انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ جنتر منتر پر دھرنوں اور احتجاج وغیرہ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی کمیونٹی کے افراد کی ’ذہن کی صفائی‘کی مہم شروع کریں۔اس کے لیے منصوبے بنائیں۔سَنگھ اگرشر اور نفرت کی بنیادوں پر ذہنوں کو متاثر کرسکتا ہے تو ہم خیر اور محبت کے نغموں سے کیوں لوگوں کے دل فتح نہیں کرسکتے!
ایسے اور بھی کام ہیں جنہیں انجام دینا وقت کا تقاضہ ہے،لیکن یہاں ہم نے صرف تین کاموں کے تذکرے پر اکتفا کیاہے۔اول، مسلمانوں کے ایک پہلو کی اصلاح یعنی ان کے اندر ہندوستانی قوم ہونے کا شعور بیدار کرنا۔دوم ،برادران وطن کی ایک پہلو سے اصلاح یعنی ان کے ذہنوں میں injectکی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا۔سوم، ہندو مسلم دونوں طبقات کو ایک دوسرے سے قریب،باہم مربوط و منحصر کرنے کی کوشش کرنا،چاہے وہ مشترک زبان و آبادی کے ذریعے سے ہو یا کسی اور ذریعے سے۔یہ وہ تین کام ہیں کہ اگر انہیں انجام دینے میں ہم کامیاب ہوتے ہیں تو اس کے دور رس اثرات و نتائج ظاہر ہوں گے۔ہمیں اپنی توجہ مسائل کے اصلی ،اصولی اور کلی حل پرمرکوز کرنی ہوگی۔جزوی،ضمنی اور وقتی حل میں توانائیاں اور وسائل صرف کرنے کا اب وقت نہیں رہا۔