ڈاکٹر سید عبد الباری شبنم سبحانی کسی ایک ادارہ کے محدود دائرہ میں سفر کرنے کے قائل نہیں تھے، ان کے مزاج میں تحریکیت تھی جو انہیں کناروں کا پابند ہونے سے باز رکھتی تھی، ان کا خاص تعلق تو ادارہ ادب اسلامی سے تھا، لیکن گہرا تعلق ادب اسلامی کے ہر ادارے اور فکر اسلامی کی ہر تحریک سے تھا۔ اس پہلو سے وہ مرحومین میں حضرت ماہر القادری اور موجودہ شخصیات میں پروفیسر احمد سجاد کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
شبنم سبحانی نہ بہت مشہور شاعر تھے اور نہ بہت ممتاز ادیب تھے، وہ تو قلم کے مایہ ناز مجاہد اور امین تھے، انہوں نے عمر کے ابتدائی حصہ میں ہی اپنی خودی میں ڈوب کر اپنی اصل طاقت کو دریافت کرلیا، وہ حرف کی طاقت تھی ، اور پھر زندگی بھر پوری طاقت سے جہاد حرف کرتے رہے، شروع میں شاعری کو اختیار کیا، مگرجب خودشناسی نے خبردار کیا کہ تمہارا اصل میدان تو نثر نگاری ہے، تو زیادہ توجہ ادھر کی طرف کردی۔
شبنم سبحانی کو قلم سے سچی محبت تھی، انہوں نے کم سنی میں قلم سے عہد وفا باندھا، اور زندگی بھر اس سے محبت کا حق ادا کرتے رہے، وہ صرف لکھتے نہیں تھے، بلکہ خوب پڑھ کر اور غور وفکر کرکے لکھتے تھے، یہ بات قابل ذکر اس لئے ہے کہ بیشتر زیادہ لکھنے والے غوروفکر کی زحمت اور مطالعہ کا تکلف برطرف کرکے لکھتے ہیں۔ایسے لکھنے اور بولنے والوں سے وہ نالاں رہتے تھے۔
شبنم سبحانی تکلفات سے بہت دور ایک مخلص اور فرض شناس قلم کار تھے، ان کے پیش نظر نہ تو اوراق سیاہ کو بیچ کر نفع کمانا تھا، اور نہ الفاظ کے حسن انتخاب کی داد وصول کرنا، وہ تو اعلی انسانی اقدار کے امین ومحافظ، صنم خانہ جدیدیت کے بت شکن اور طلسم کدہ مابعد جدیدیت کے حریف تھے۔
ظلم واستبداد ہو یا عریانیت اور بے حیائی ہو، ڈاکٹر صاحب ہر برائی کے خلاف برسر پیکار رہے، بدی کے خلاف قلم اٹھانے اور زبان کھولنے میں کسی مصلحت کو آڑے آنے نہیں دیتے تھے۔
شبنم سبحانی قلم کی طاقت سے آگاہ تھے، اسی لئے وہ اپنے عہد کے قلم کار کے اندر خوابیدہ جذبہ تکبیر کو بیدار کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے،ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کے انتظار میں وہ بہت بے قرار رہا کرتے تھے،ان کی ہر گفتگو اور تحریر اس کی غمازی کرتی تھی، اس سلسلے میں قلم کاروں کوخاص طور سے ان کا فرض منصبی یاد دلایا کرتے تھے، ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
“تاریخ کے اس نازک موڑ پر قلم کار کی ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے، کہ ان کی نوک قلم میں کیا اب بھی وہ چنگاریاں موجود ہیں جو استبداد اور دہشت کے الاؤ کو خاکستر بنادیں، یہ الاؤ ہمالیہ کی چوٹی سے بھی بلند ہوتا جارہا ہے، اور انسانی بستیوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے، کہ اب گلشن کائنات میں کوئی کلی مسکرا نہ سکے گی اور خاروخس کے سوا کہیں شادابی کا گذر نہ ہوسکے گا، قلم کار میں یقیناًوہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ عوام کے حوصلے اس قدر بلند کردے کہ وہ آگے بڑھ کر استعمار کا سر کچل دیں، قلم کار نے ہر عہد کے جباروں اور سفاکوں سے مورچہ لیا ہے، آج بھی انہیں اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہے، آج بھی عوام کو ان کے سہارے کی ضرورت ہے، جو نئے استعمار سے ٹکرانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، آج نسل، رنگ، قوم اوروطن کے حدود سے آگے بڑھ کر دنیا کے عوام قدم سے قدم ملا کر چلنے کو تیا رہیں تاکہ کمزور انسانوں اور ملکوں پر یلغار کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کی مکروہ کوششوں کو چیلنج کیا جاسکے، مجھے یقین ہے کہ قلم کار عوام کے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کریں گے، جو اعلی اقدار اور انسانی مجدو شرف کی حفاظت کے لئے بے چین ہیں”
شبنم سبحانی تو چلے گئے پر اپنے پیچھے ایک مہیب سناٹا چھوڑ گئے، دور تک نظر دوڑائیں تو اکا دکا کوئی قلم کار نظر آتا ہے، یہ صورتحال قطعااطمینان بخش نہیں ہے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی،
متحدہ عرب امارات
مرحوم ڈاکٹر سید عبدالباری ایک جرأت مند قلم کار
ڈاکٹر سید عبد الباری شبنم سبحانی کسی ایک ادارہ کے محدود دائرہ میں سفر کرنے کے قائل نہیں تھے، ان کے مزاج میں تحریکیت تھی جو انہیں کناروں کا پابند ہونے سے باز رکھتی تھی، ان کا خاص تعلق تو…