ذوالقرنین حیدر سبحانی
ٹونی بلئیر نے دہشت گردی اور مغرب کی ذمہ داری پر دوبارہ بحث و مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے مغربی حکومتوں کے سامنے مذہبی انتہا پسندی کو موجودہ وقت میں دنیاکی بدامنی اور فسادات کے بنیادی سبب کے طور پر پیش کیا ہے۔ شام سے لے کر نائیجیریا اور فلپائن کے تشدد ، خانہ جنگی اور خونریزی کے حوالے سے ٹونی بلئیر نے آگاہ کیا کہ ان تمام تشدد اور دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے مذہبی انتہا پسندی سے متأثر افراد ہیں ۔ یہ دراصل مذہب اور عقیدے کے ہاتھوں بگڑی ہوئی ذہنیت ہے، اور اس صدی کی جنگ سیاسی انتہا پسندی کے بجائے مذہبی انتہا پسندی سے لڑنی ہے جو بالآ خر سیاسی انتہا پسندی کا بھی ذریعہ بنتی ہے ۔ اس نے مزید کہا کہ اس وقت تمام مغربی حکومتوں کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ متحدہ طور پرگہری منصوبہ بندی کے ساتھ اس مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جدو جہد کریں تا کہ اکیسویں صدی کی دنیا کو امن و سلامتی سے بہرہ ور کرایا جاسکے ۔ (دی گارجین)
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اور دہشت گردی کے مقابلے کے دعوے سے لڑی جانے والی جنگوں میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ٹونی بلیئر کا یہ بیان موجودہ سنگین عالمی صورتحال اور مغربی دنیا کے اس کے تئیں رویے کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے ۔ یہ ایک تبصرے یا تأثر سے کہیں زیادہ ایک پر اسرار نظریہ اور مستقبل کا خاکہ ہے ۔ بیان سے واضح ہے کہ مغربی دنیا کے نزدیک موجودہ صدی کا سب سے بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ عالمی سطح پر امن انسانی کو در پیش سب سے خطرناک چیلنج اس انتہا پسندی کے نتیجے میں پیدا ہو نے والے افکار ونظریات ہیں۔ مشرق وسطی میں عوام اور حاکموں کے تصادم کے نتیجے میں جنگ و خونریزی کی نہ رکنے والی لہر ہو، یا گاہے بہ گاہے مختلف ممالک میں پیش آنے والے انسانیت کش جرائم اور واقعات کا سلسلہ ہو، سب کی جڑ میں اصل اور بنیادی عنصر یہی مذہبی انتہا پسندی ہے، اور عالمی امن و سلامتی کی بحالی کے لئے اس کا علاج اور مکمل خاتمہ وقت کا اولین تقاضا ہے ۔
ان تمام مفروضات کو مان لینے کے باوجود ابھی تک یہ نہیں طے پا سکا کہ انتہا پسندی کیا ہے ؟ نہ اس کی تعریف واضح اور دو ٹوک انداز میں کی جاسکی، نہ اس کے حدود متعین کئے جاسکے ، نہ اس کی ممکنہ شکل و صورت کو عوام کے سامنے پیش کیا جاسکا ۔ یو این کی جنرل اسمبلی ہو یا مختلف دوسرے عالمی ادارے، ماہرین سیاسیات ہوں، یا سماجی علوم میں گہری دسترس اور سند رکھنے والے مفکرین ودانشوران سب اس نازک معاملے میں مہر بہ لب یا بے یقینی کا شکار ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سلسلے میں خامہ فرسائی کی کوشش کی تو سو سے زائد تعریفوں سے کاغذ سیاہ کرڈالے اور مزید کی گنجائش کا اعتراف بھی کیا، حالانکہ بعض تجزیہ نگاروں نے ان سب کو غیر مستند اور تشنہ قرار دیا۔ اس لفظ کے مفہوم کی ادائیگی کے لئے دہشت گردی ، ریڈیکلزم اور شدت پسندی جیسے الفاظ کا بھی استعمال کثرت سے ہوتا ہے ۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ کسی کا واضح مفہوم اور اطمینان بخش تشریح منظر عام پر نہیں آسکی ۔ مختلف حالات میں مختلف حادثات و واقعات کو اس کے تحت رکھ دیا جاتا ہے اور اس عمل میں نہ کسی کو سوال کرنے کا حق ہوتا ہے اور نہ کوئی جواب دینے کی زحمت گوارا کرتا ہے ۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ایک عمل کسی کے حق میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی دلیل بنتا ہے، اور وہی عمل دوسرے کے لئے آزادی اور حقوق انسانی کی پاسبانی کے خوشنما القاب کا ذریعہ بنتا ہے۔
زمانے کی ستم ظریفی کہیں یا مسلمانوں کی بد قسمتی کہ ہندوستانی میڈیا نے بالعموم اور عالمی میڈیا نے بالخصوص انتہا پسندی کو اسلام اور مسلمانوں سے یوں جوڑ دیا ہے کہ انتہا پسندی بولتے ہی از خود ذہن میں اسلامی انتہا پسندی کا پیش ساختہ تصور ابھر آتا ہے ۔ اور اسلام کے مرکز ہو نے کی حیثیت سے مدارس کو انتہا پسندی کو فروغ دینے اور اس ذہنیت کے افراد تیار کرنے کے کارخانہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔یہ زمانے کی ایک بڑی نا انصافی بھی ہے اور میڈیا کے غیر منصفانہ رویے پر ایک سوال بھی ۔
عالمی تناظر میں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو صاف واضح ہو گا کہ اسلام دشمنی اور اسلام مخالفت پر مبنی ایک جنگ ہے جو بعنوان دہشت گردی اور انتہا پسندی بیسویں صدی سے باقاعدہ سرگرم عمل ہے۔ مذہبی تصادم اور تہذیبی کشمکش کی قدیم تاریخ ہے جو نئے پیرائے اور نئے اسلوب میں منظر عام پر آئی ہے، اور اس کا مقصد اسلام کو ختم کرنا اور اس کے وجود کو نیست و نابود کردینا ہے۔ جس کو غذا پہنچانے کا کام ان مفکروں اور مصنفوں نے بھی کیا ہے جنہوں نے اسلام اور مغرب کے تہذیبی تصادم کے حوالے سے ایک دوسرے کو بر سرپیکار ہونے اور اپنی بالادستی اور بقا کے لئے دوسرے کے وجود کو ختم کردینے کی غیر انسانی تجویز پیش کی ہے۔ یا جن نام نہاد دانشوروں نے اس تہذیبی جنگ میں قتل و خون کو ایک فطری عمل قرار دیتے ہوئے اس کے جواز کا سرٹیفکیٹ فراہم کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بڑا مایوس کن اور تکلیف دہ رہا۔ اس نے بڑے غیر ذمہ دارانہ رویے اور اخلاقیات سے بے اعتنائی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ چنانچہ میڈیا جسے سماج کی آواز اور جمہوریت کا پانچواں ستون قرار دیا گیا تھا اپنا وقار اور اعتبار بالکل کھوتا جارہا ہے۔ عوام کا اعتماد اس پر سے بالکل ختم ہو رہا ہے۔ وہ سماج کی آواز ہونے کے بجائے چند دولت مندوں اور طاقتوروں کا یرغمال بن کر رہ گیا ہے۔ وہ اپنے منصبی فریضے کے شعور سے بے پروا ایک مخصوص طبقے کے مفادات اور مصالح کا محافظ اور نگہبان بن گیا ہے۔ اس کی تازہ مثال مشرقی وسطی کی موجودہ صورتحال ہے ، جہاں آزادی، حقوق اور جمہوریت کی لڑائی لڑنے والے عوام اور ناجائز طور پر عوام کی ملکیت اور ملک کی سلطنت پر قابض ظالم حکمرانوں کے بیچ پیدا ہوئے تصادم اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے قتل و خونریزی اور مسلسل خانہ جنگی میں میڈیا کا عوام کو انتہا پسند ٹھہراتے ہوئے جابر و غاصب حکمرانوں کی پشت پناہی کرنا میڈیا کی غیر انسانی اور غیر اخلاقی جرائم کی تازہ ترین مثال ہے ۔ ساتھ ہی حقوق انسانی کے نام پر بڑی بڑی تنظیمیں قائم کرنے اور شور مچانے والوں اور جمہوریت کا دم بھرنے والوں کی سچائی اور حقیقت پر سوالیہ نشان بھی ہے ۔
ہندوستان کے پس منظر میں اگر مدارس اور انتہا پسندی کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے ۔ملک میں موجود اور ترقی پذیر متعصب اور فرقہ پرست طاقتیں جو فرقہ واریت کی آگ بھڑ کا کر اپنے سیاسی اور غیر سیاسی دوسرے مفادات حاصل کرتی ہیں ،اور اپنی تشدد پسند اور اسلام مخالف ذہنیت کی بدولت ہمہ وقت اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں ۔وہ ہر ممکن موقعے کو اسلام مخالف سمت میں استعمال کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں اور اسی پر ان کے سیاسی مصالح کی بنیاد بھی ہوتی ہے ۔ سوئے اتفاق سے اس وقت ملک کے اثر و رسوخ والے اداروں میں ان کی روز افزوں ترقی اور اضافہ ہو رہا ہے ۔ان کو مسلمانوں کے خلاف زبردست تعصب اور عداوت کا سبق سکھایا جاتا ہے ۔ میڈیا کی بے احتیاطی اور احساس ذمہ داری کے فقدان سے ان کو بڑی مدد ملتی ہے ۔ سیاسی اور انتظامی اداروں میں ان کی یک طرفہ موجودگی ان کی سازشوں کے لئے راستے ہموار کرتی ہے، چنانچہ انتہا پسندی کے عنوان کو انہوں نے بھی ایک کارگر اسلحہ دیکھتے ہوئے اس کو اپنانے اور استعمال کرنے میں دلچسپی دکھائی ۔ دوسری طرف مسلمانوں،مدارس اور ملک کی غیر مسلم عوام کے درمیان بڑھتی دوری اور مزید گہری ہوتی خلیج ہے جو مدارس کے نصاب کے ساتھ مسلمانوں کی اپنے فرائض منصبی سے بیگانگی کا شاخسانہ ہے ۔ ساتھ ہی ملک کے با اثر اداروں اور با رسوخ عہدوں سے مسلمانوں کی دور ہوتی صورتحال ہے۔ جس نے ایک طرف غلط فہمیوں کے اضافے میں مدد کی ہے تو دوسری طرف فرقہ پرست اور دوسری مسلم مخالف طاقتوں کے لئے میدان کار خالی چھوڑ دیا ہے۔
مگر ماضی قریب کا غیر جانبدار انہ جائزہ لیا جائے تو کچھ حقائق بڑے خوش آئند اور امید افزا ہیں ۔ عالمی منظرنامہ ہو یا ملکی صورتحال ہر طرف تبدیلی کی ایک خوشگوار کرن نظر آرہی ہے ۔ انصاف پسند اور حق بجانب طبقہ انسانیت اور انصاف کی بحالی کے لئے میدان میں آرہا ہے۔ مشہور عالمی تجزیہ کار رابرٹ اے پیپ کا یہ بیان کہ خود کش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے مابین قائم کیا جانے والا فرضی تعلق گمراہ کن ہے ۔ اسی طرح ایک مشہور مفکر و دانشور کا یہ بیان کہ اگر انتہا پسندی کی کسی ایک تعریف اور تشریح پر مغربی دینا متفق ہو جائے تو مصر کے آزاد اور زندہ دل نو جوانوں اور فلسطین کے مظلوم و بے سہارا بچوں سے پہلے جارج واشنگٹن اور نیلسن منڈیلا انتہا پسند اور دہشت گرد کہلائیں گے خوش کن اور مبنی بر حقیقت ہے۔
ملک کی موجودہ روز افزوں بدلتی ہوئی داخلی حالت بھی بڑی حوصلہ بخش اور خوش آئند ہے ۔ کرکرے کے واقعے کے بعد سے میڈیا کے اپنے بنائے ہوئے تصور کے خلاف یہ عام کرنا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور لگا تار کئی ہندو فرقہ پرست اور تعصب پسند لوگوں کا گرفتار ہونا، اور ملک کے افسروں کا انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑے جانے پر ناگواری کا اظہار کرنا خوش کن تبدیلیاں ہیں ۔ایسے میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں بیداری کا مظاہرہ کریں، اور خود بڑھ کر تبدیلیوں کو ہاتھ دیں اور اس کا حصہ بنیں ۔
اس سلسلے میں ایک نا قابل انکار اور توجہ طلب حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بھی ان مغربی اور اسلام دشمن سازشوں کے نتیجے میں ایک طبقہ ایسا ضرور پایا جاتا ہے جو اسلام کی تشدد اور جارحیت پر مبنی تشریح پیش کرتا ہے۔ وہ اسلام کی نہایت غیر حقیقی اور غیر عملی تصویر پیش کرتا ہے اور نظریاتی سطح پر شدت پسندی اور انتہا پسندی کا حامل ہوتا ہے ۔ وہ اسلام کی بہت سی اصطلاحات اور تصورات کی من مانی اور غیر اسلامی تشریحات پیش کرتا ہے۔ وہ ایک غیر فطری شکل میں اسلام کو پھیلانے یا نافذ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے ۔ ایسے لوگ عملیت پسندی کے فقدان کا شکار نظر آتے ہیں ۔ وہ حقیقت کی دنیا سے دور کہیں خیالات اور خوش گمانیوں کی دنیا میں رہتے ہوئے اپنی پالیسیاں اور طریقہ کار طے کرتے ہیں ۔
وہ دین رحمت اور فطرت کو ایک وحشی دین کے لباس میں پیش کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیونس میں راشد الغنوشی کی اسلام پسند حکومت کی راہ میں طرح طرح سے روڑے اٹکانے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ حقیقت بھی واضح رہنا چاہئے کہ اس طبقہ کی تعداد مختصر اور دائرہ کار محدود ہے، اور حق بجانب اور حقیقت پسند مسلم دنیا کے نزدیک یہ طبقہ مذموم ہے۔ یہ طبقہ اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شبہات کے پنپنے کا موقع دیتا ہے اور مسلمانوں اور مدارس کے لئے بھی ایک جھوٹے الزام کاسبب بنتا ہے ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک عام مسلمان بھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ اسلامی علوم سے سرشار اور اس کی اعلی اخلاقی تعلیمات سے بہرہ مند طلبہ و فارغین مدارس ۔ اسلام تو سراپا امن و سلامتی کا داعی اور محبت و اخوت کا علمبردار ہے ۔ جس کا وجود ہی بھائی چارگی اور ہمہ گیر انسانی فلاح و بہبود سے عبارت ہے ۔ اسلام تو انسانوں کی فطرت کی آواز اور ان کی کامیابی و کامرانی کا واحد راستہ ہے ۔