انسانی زندگی ‘فکر’ اور ‘عمل’ سے متحرک رہتی ہے۔ دونوں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ زندگی میں ان دونوں کی موجودگی ایک دوسرے کے وجود و بقا کی ضمانت ہے۔ فکر و عمل میں سےکسی ایک کی غیر موجودگی، دوسرے کے لیے سامانِ موت ہے۔ اگرچہ ان کی کیفیت، تشکیل اور تسلسل مختلف اسباب پر قائم ہے۔ فی الحال اس سِکّے کا دوسرا پہلو یعنی ’ عمل ‘ اور اس سے متعلق امور پیشِ نظر ہیں۔
انسان کا ہر عمل توجہ، موقع اور قابلیت کا تقاضہ کرتا ہے۔ غور کیجیے کہ کیا توجہ، موقع اور قابلیت جیسی ضروریاتِ عمل یوں ہی میسر آجاتی ہیں؟ ‘توجہ’، سنجیدگی کا تقاضہ کرتی ہے۔ سنجیدگی انسان میں فکر مندی سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘موقع’، وقت اور فرصت کا مطالبہ کرتا ہے۔ مصروفیات و مشغولیات سے قربانی پر مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ ‘قابلیت’، مشق و جتن سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح مشق و جتن کے لیے طبیعت کی آمادگی لازمی ہے۔ اب یہاں اِن ضروریاتِ عمل کے داخلی ربط پر نظر ڈالیے۔ خود فرد کی فکری اساس اس قدر مضبوط ہو یا اس میں اتنی ذہنی بیداری ہونی چاہیے کہ اسے کسی عمل کے لیے قربانی دینے کا خوگر بنادے اور اس کی اپنی طبعی کمزوریوں کو عبور کرنے کی قوت پیدا کردے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ماحول یا حالات سازگار نہ ہو تو فکر مندی اور قوتِ عمل کے باوجود آدمی موقع یا فرصت حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ذہنی وابستگی اور فرصت کے باوجود اگر فرد ناتواں یا نااہل ہو تو اس صورت میں بھی عملی پیچیدگیاں درپیش ہوں گی۔ایک معمولی سے عمل کے پیچھے اس طرح متعدد عوامل باہم مربوط اور بہ یک وقت کارفرما ہوتے ہیں۔ چنانچہ زندگی اور اس کے کام اتنے سہل نہیں کہ ان کو یوں ہی ہلکا پھلکا سمجھ لیا جائے۔ نہ محض میٹھے خوابوں اور شیریں خیالیوں پر زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
دنیا کاہر کام اعلیٰ درجے کی مشقت چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام ہی کچھ اس طرح بنایا ہے کہ کسی کو بیٹھے بٹھائے کوئی چیز مل نہیں جاتی۔ سوچنے سمجھنے کی قوت اور عمل کی استعداد اسی لیے ہے کہ انسان دوڑ دھوپ کرے، ایک دوسرے کے تعاون سے اپنی ذمہ داریوں اور ضرورتوں کو پوراکرسکے۔ اللہ تعالیٰ “احسن الخٰلقين” (بہترین بنانے والا) ہے اور اپنے بندوں کو بھی احسن عمل کا حکم دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے بندے ذاتی معاملات اور دنیاوی امور کو کس طرح احسن طریقے پر سرانجام دیتے ہیں۔
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَوٰةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا ۚ (الملک:2)
ترجمہ: جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں کون سب سے احسن عمل والا بنتا ہے
اس آیت میں عمل کے ساتھ ‘احسن ‘کی اضافت توجہ طلب چیز ہے۔ پہلی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کے اندر یہ تڑپ پیدا کی جارہی ہے کہ وہ اپنے جملہ اعمال میں احسان سے کم پر راضی نہ ہو۔ دوسرا نکتہ یہ نکلتا ہے کہ اعمال کے مراتب ہوتے ہیں۔ اور یقیناً احسن عمل، کیفیت و معیار اور حسنِ ادائیگی کے فرق پر مبنی ہے۔ خواہ وہ عمل کوئی بھی ہو، ہم اسلام کی دعوت کا کام کررہے ہوں، یا حصولِ تعلیم، نوکری یا روزگار میں وقت صرف کررہے ہوں، یا روز مرہ کے معاملات درپیش ہوں۔جب انسان ان کو احسن انداز میں مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی خاص نصرت فرما تا ہے،اسے اسباب فراہم کردیتا ہے۔ اپنے اعمال میں احسان کی کیفیت پیدا کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اس کے لیے سخت محنت اور مشقت درکار ہوتی ہے۔ صحابہ کرام احسان کے اعلیٰ درجوں پر فائز تھے۔ ہر ایک صحابی اور صحابیہ کی زندگی اس بات کی شاہد ہے۔ انہوں نے اللہ کے نزدیک اس مقام کی حصول یابی کے لیے جو کچھ کیا، ہم اس سے بخوبی واقف ہیں۔ نیز دنیا کے کامیاب لوگوں کی زندگیاں اٹھا کر دیکھ لیجیے، اُنہیں کامیابی لوہے کے چنے چبائے اور زمین پر ایڑیاں رگڑے بغیر حاصل نہیں ہوئی۔ خوب محنت و مشقت سے انسانی کوشش کو احسان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
نوجوانی گرم خون، خوب استعداد اور زندگی کے پُربہار موسم کا نام ہے۔اس بنا پر نوجوانوں کی زندگیاں گرماگرمی، مشکل انگیزی اور تازگی سے عبارت ہوئیں۔ انہی خوبیوں کی بدولت وہ اپنی زندگیوں کو رُخ دیتے ہیں۔ نوجوانوں کے عزم و عمل میں ان کی خوبیاں جھلکتی ہیں۔ اس لیے اگر کسی نوجوان کا خون سرد پڑجائے، اس کی فکر و عمل کا داعیہ کمزور یا ناکارہ ہوجائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی سامنے آئے گا کہ وہ اہلِ شباب کی خوبیوں کے بالمقابل اُلٹے رستے پر نکل پڑے گا۔ظاہر ہے ایسے میں اس نوجوان کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ اور اگر وہ ان کے سامنے ثابت قدم نہ رہ پایا تو بہ آسانی وہ ان مسائل کا شکار بھی بن جائے گا۔ بہرحال جو متعدد مسائل اس کو درپیش ہوں گے ان میں ایک اہم مسئلہ “سستی و کاہلی “ہے۔ محنت و جستجو سے بیزاری، تن آسانی، بےفکری جیسی بدمزاجی میں مبتلا ہونا۔ پھر مزاج کی یہ بےاعتدالی آگےچل کر انسان کے اخلاقی جوہر کو متاثر کرتی ہے۔ جس سے ممکن ہے کہ انسان کی اخلاقی مضبوطی کمزور پڑکر مختلف اخلاقی برائیوں کو جنم دینے کا باعث بنے۔ انسان اپنی زندگی کے دیگر ادوار میں اتنی چستی و توانائی نہیں رکھتا جتنی کہ وہ عہدِ جوانی میں پاتا ہے۔ اس لیے اگر طلبہ و نوجوان محنت شعاری اور رسمِ کوہ کنی سے پہلو تہی کرتے ہیں؛ کاہلی اورعیش و مستی میں آپے سے باہر نکل جانے کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں تو بیشتر اوقات بہت کم وقت میں نتائج سے ان کا سامنا ہوجاتا ہے۔ یا پھر مستقبل میں سخت آزمائشیں ان کو جھیلنی پڑتی ہیں۔ کسی نے زندگی کی اس حقیقت پر طنز کستے ہوئے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ”یہ لمبی عمر اور طویل زندگی اس لیے دی گئی ہے کہ انسان دنیا ہی میں ہفتۂ شباب کا انجام دیکھ سکے“۔ خصوصاً وہ طلبہ جو اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں، اگر وہ اس بدمزاجی میں مبتلا ہوجائیں، تو یہ بےاعتدالی فرد اور تحریک دونوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگی۔
محنت پسندی انسانی فطرت کا عین جز ہے
سب سے پہلے یہ حقیقت ہم پر واضح رہے کہ محنت و مشقت اور اس کی استطاعت، زندہ مخلوقات کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ اگر کچھ مستثنیات کو نظر انداز کردیا جائے تو اس کلیے سے کوئی باہر نہیں۔ اس وجہ سے محنتی طبیعت کوئی اکتسابی چیز (یعنی جسے حاصل کیا جائے)نہیں ہے بلکہ ہر کسی کو خدا کی دین ہے اور اس کا پاس و لحاظ اُس کے ذمہ ہے۔ کبھی کبھار الگ الگ وجوہات کے سبب انسان اپنی طبیعت کو محنت و جستجو کی جانب مائل نہ پاکر اس کو ایک خارجی چیز سمجھ لیتا ہے۔ کبھی خود ہی یہ طئے کرلیتا ہے کہ اس کا مزاج محنت کشی سے محروم واقع ہوا ہے۔ اس طرح سے فطرت کو سمجھنے پرکھنے کے آغاز ہی میں غوروفکرکے دھارے غلط رو میں بہہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اچھے نتائج ظاہر نہیں ہوتے۔ عقل، فکر، نفس، صحبت، ماحول اور اس جیسے عوامل کا انسانی فطرت اور اس کی سالمیت کو بنانے، برقرار رکھنے یا بگاڑنے میں اہم رول ہوتا ہے۔ اس فطری مظہر یعنی محنتی مزاج کی برقراری نیز اُفتادگی میں بھی مذکورہ بالا عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ایسے میں تین بنیادی باتوں کو کسی پل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے؛
اول، فطری خوبیاں احتیاط و نگہداشت کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ہر انسان میں یہ شعوری احساس ناگزیر ہے کہ کوئی معمولی سی غفلت بھی اس کی پاک فطرت کو ناپاک نہ کرسکے۔
دوم، ہر انسان اُن جراثیم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے جو فطرت میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے متعلق پابندی سے اپنا جائزہ و احتساب لیتے رہنے کا معمول بنانا چاہیے۔
سوم، انسانی شخصیت اور اس کی زندگی پر محنت و جستجو سے بےاعتنائی کا کیا اثر پڑتا ہے؟ ضروری ہے کہ ہر انسان اُس قابلِ افسوس انجام سے باخبر ہو۔ چل پھر کر ناکام لوگوں کی اُن بےبسیوں کو اپنے مشاہدے میں لائے، تاکہ اپنا نصیب خود لکھ سکے۔
درجِ ذیل نکات میں محنت شعاری سے بےرغبتی کے عمومی اسباب کیا ہوتے ہیں، محنتی طبیعت کس طرح برقرار رہتی ہے، سعی و عمل میں کونسے عوامل سدِ راہ بن جاتےہیں اور چند دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ذہنی آمادگی
ذہن کو کسی کام کے لیے تیار کرلینا گویا عمل کو اساس فراہم کرنا ہے۔ اکثر طلبہ محنت شعاری کی اہمیت خوب سمجھنے کے باوجود بھی اس کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ سوچ و فکر کی حدتک تو اس کی اہمیت ان پر واضح ہوجاتی ہے۔ لیکن محض سوچنے سمجھنے پر ہر چیز کا دارومدار نہیں ہے۔ اس کے لیے عملی اقدامات بھی درکار ہیں۔ ایسے اقدامات جو ذہن کو عمل پر آمادہ کریں۔ نیز جن سے اعمال کی محافظت بھی کی جاسکے۔ عمل کی حفاظت کا کیا مطلب ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ جو چیزعمل میں رکاوٹ بنے یا رکاوٹ بننے کا ذریعہ بنے تو اس کے فوری تدارک کی کوشش کی جائے۔ اگر عمل اور جذبۂ عمل کی حفاظت کا سامان نہ کیا جائے تو انسان کے اعمال سے استقلال، پائیداری اور تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ نکتہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو کہ انسان ذہنی آمادگی کی حالت میں ازخود اپنے اعمال کی محافظت کا اہتمام کرتا ہے۔ چنانچہ ذہن کی آمادگی کے بغیر شعوری عمل کا تصور بھی محال ہے۔ ذہن کو یکسو اور آمادہ کرنے کے لیے جو چیزیں ناگزیر ہیں وہ ملاحظہ ہو:
- زندگی کا نصب العین: مقصدیت اور مقصد کا فہم وشعور انسان کی فطرت کا امتیازی وصف ہے۔ بےمقصدیت ایک غیر فطری بلکہ غیر انسانی امر ہے۔ جتنا اونچا مقصد ہوگا اتنا ہی موثر انسان کا عمل تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے انسان صحیح مقصد کا بھی محتاج ہے۔ چنانچہ مقصد اور اس کی وضاحت کے بغیر فکری و عملی کاوشیں پراگندہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اب سوچنا چاہیے کہ بامقصد رہنے سے نفسیات اور عمل پر کیا اثر پڑتا ہے؟ جب کوئی انسان غور و فکر اور جائزے کے بعد سچے دل سے اپنی زندگی کا کوئی مقصد طئے کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں دو چیزیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی چیز انسان میں یہ تمیز پیدا ہوجاتی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کیا فائدہ مند ہے اور کیا نقصاندہ۔ دوسری چیز انسان کے شب و روز اور اس کی مجموعی عملی زندگی اسی مقصد کے اطراف گھومتی ہے۔ اس کے مقصد سے غیر متعلق چیزیں اس کے لیے غیر اہم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح انسان خود کو ان مقاصد کے لیے خالص کرلیتا ہے۔ اس کے سامنے دوہی راستے ہوتے ہیں یا تو ان مقاصد پر قائم رہنے کی کوشش کرے یا ان سے دستبردار ہوجائے۔ مقصد سے دلی وابستگی کے سبب، انسان مقصد کی حفاظت کے لیے اپنے اِردگرد ایک مدافعتی قوت (Immune Power)پیدا کرلیتا ہے۔ نیز مقصد سے لگاؤ کی بنا پر خود کو اس کے لیے کھپانے میں سرور ملتا ہے۔ وہ یہاں وہاں سے نظریں ہٹا کر ایک مرکز توجہ بنالیتا ہے۔
- ترجیحات کا تعین : عمل کی حفاظت کے لیے ترجیحات کا تعین بےحد ضروری ہے۔ ورنہ انسان کی قوت منتشر ہوکر رہ جاتی ہے۔ ترجیحات متعین نہیں کرنے پر ضروری نہیں کہ انسان اس کے اثر کو فوری محسوس کرلے۔ ایک وقت گزرنے پر انسان کو اس چیز کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی قوت کسی بےمَصرف کام میں صرف ہوچکی ہے۔ یہاں اہم اور غیر اہم کاموں میں ترجیح پیشِ نظر نہیں ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اہم کاموں میں سے بہت اہم کی تشخیص اور تقسیم کرنا بھی طلبہ کو آنا چاہیے۔ طلبہ کم عمری اور گرم جوشی کی وجہ سے بہ یک وقت خود کو مختلف جگہوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس روش پر گامزن رہنے سے ایک قسم کا وقتی اطمینان تو حاصل ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کیفیت کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں پیدا کرتی ہے۔ اس لیے اہم کاموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، بہت اہم اور ترجیحی کاموں پر متوجہ رہنا چاہیے۔ اس طرح انسان اپنے اعمال کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کے نتائج سے مطمئن بھی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال عبادات کی ہے۔ غور کیجیے، دین میں خدا کے تمام احکام کی بجاآوری لازم ہے۔ لیکن ہر عبادت کی درجہ بندی اس کی اہمیت کے لحاظ سے کس حسن و اہتمام کے ساتھ کی گئی ہے۔ اب کوئی شخص حسبِ ذوق اور اپنی مخصوص اُفتادِ طبع کی تسکین کے لیے اس حسنِ ترتیب کی اہمیت اور پابندی کو نظر انداز کردے، تو ایسے میں انجام کار خوش آئند نہیں ہوگا۔چنانچہ محنتی طبیعت کی برقراری کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی کوششوں کے بعد مثبت نتائج دیکھے اور اس کے جذبۂ عمل کو مہمیز ملتی رہے۔
- نیک صحبت: انسان کی مجموعی تربیت میں صحبت کا رول نہایت ہی کلیدی اور اثر انگیزہوتا ہے۔ صحبت یکایک انسان کا رنگ بدلنے یا کسی رنگ میں اسے ڈھالنے کی قوت رکھتی ہے۔ اس کی قوت کا اس طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاندار صحبت ایک کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ صحبت کے اثرات قابلِ تعین (Measurable)ہوتے ہیں۔ نیک اور اچھی صحبت کا انسان کو حریص ہوناچاہیے، اس کی آرزو رکھنی چاہیے۔ صالح صحبتوں کے نتیجے میں انسان اپنی اخلاقی کمزویوں پر کم وقت میں قابو پالیتا ہے۔
- روز مرہ کے معمولات کی درستگی: روز مرہ کے معمولات کا انسان کی شخصیت سازی میں نمایاں دخل ہوتا ہے۔ معمولات کو اس طرح منظم کرنا چاہیے وہ کہ تعمیرِ حیات میں معاون ثابت ہوسکیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ روز مرّہ کے معمولات کا حصہ بن چکی فضول اور لاحاصل چیزوں سے اپنی توجہ پھیرلی جائے۔ انسان کی طبعی ضروریات اور روزمرہ کے معمولات دونوں جینے کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت یہ ہے کہ انسان کو صحت کے ساتھ زندہ رکھے اور فی الاصل اس کی زندگی کو کارآمد بناسکے۔ اپنی ضروریات کو کم سے کم کرنا اور قناعت پر آمادہ ہوجانا مشکل کام ہے۔ لیکن اس نفس کشی سے انسان خود پر بڑی حد تک قابو پالیتا ہے۔
احساسِ زیاں
انسان اپنے کیے دھرے سے خوب واقف ہوتا ہے۔ اس کا دل بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بروقت اس کو جتادیتا ہے کہ تم نے یہ غلط اور یہ صحیح کیا ہے۔ خدا نے انسان کی فطرت میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ کسی دوسرے سہارے کے بغیر خود اپنا جائزہ لے سکے۔ اس لیے جس کا دل جتنا صاف ہوگااور اصلاح و پاکیزگی کا خوگر ہوگا، ایسا شخص اپنے دَرُون کی آواز کو اَن سنی جانے نہیں دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا(الشمس: 10،9)
یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا
تزکیہ اور تدسیہ یہ دو متضاد رویے ہیں۔ تزکیہ کہتے ہیں کسی چیز کو پاک کرنا اور اسے نشونما دینا۔ اس کے برعکس تدسیہ کے معنی کسی چیز کو دبا دینا یا مَٹّی سے ڈھانک دینا۔ کامیاب ہیں وہ جنہوں نے اپنے آپ کا تزکیہ کیا اور اس کے لیے کوشاں رہے۔ نامراد ہیں وہ جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے خود کو خاک میں ملایا۔ یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ احساس اور رجوع کی مدت مختصر ہوتی ہے۔ جب تک انسان کے اندر شرم و حیا کا احساس باقی رہے تب تک تدبیریں کام آسکتی ہیں۔ جیسے ہی وقت گزرتا ہے تو احساسات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں اور غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے جوں ہی آدمی کو اپنی کسی غفلت اور بےاعتدالی کا احساس ہو تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنے تزکیے کی فکر کرے۔ تساہل اور شخصی تحفظات کی بناء پر انسان اپنے دل کی آواز کو دبا ڈالتا ہے۔ اس لیے محنتی مزاج، انسان سے زندہ احساسات و جذبات کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ڈھیلے ارادے اور کمزور احساسات انسان کے مزاج کے لیے مفید نہیں ہیں۔ چنانچہ نیت صاف اور عزم مصمم ہو تو غیب سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد بھی فرمادیتا ہے۔ عزم و احساس کو جو عوامل تازہ رکھتے ہیں وہ ملاحظہ ہو:
- مثالی لوگوں سے دلی وابستگی: انسان اچھی مثالوں اور اچھے لوگوں کا جلد گرویدہ بن جاتا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انسان جب اپنے سے خوب اور خوب تر کو دیکھتا ہے تو اولاً، اسے اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ثانیاً ،متعلقہ پہلو سے خود کو جانچنے پرکھنے کی ایک کسوٹی اس کے ہاتھ لگتی ہے۔ ثالثاً ایک اخلاقی یا عملی ماڈل اس کی نگاہوں میں ہوتا ہے۔ اصولاً زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ ایک طالب علم کسی مناسب شخص کے زیرِ سایہ اپنی کارکردگی انجام دے۔ اس طرح اس کی فکر و عمل کی راہیں زیادہ کشادہ ہوجاتی ہیں۔ ہمارے سامنے صحابہ و صحابیات کی سدا بہار زندگیاں ہیں۔ جو جامعیت کے کمال درجوں پر فائز ہیں۔ یہی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ مثالی لوگوں کی زندگیوں سے استفادہ کرنا، ان سے تعلق بنائے رکھنا بہت کارآمد چیز ہے۔ چنانچہ اس طریقۂ عمل کے ممکنہ نتائج یہ ہوسکتے ہیں کہ طالب علم کو حوصلہ، ہمت، مثبت سوچ، دل کو اطمینان اور طبیعت کو تازگی ملتی رہتی ہے۔ ایسے میں جذبات کو سرد کرنے والے عوامل اُس طالب علم پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔
- غلطیوں اور غفلتوں پر احساسِ جرم: یقیناً غلطیوں سے انسان سیکھتا ہے۔ لیکن ایسا کب ممکن ہوپاتا ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے، انسان اپنی غلطی کو سچےدل سے تسلیم کرے۔ اس کے بعد ‘شعوری’ طور پر کوشاں رہے کہ آئندہ اُس غلطی کو دہرائے گا نہیں۔ کسی غلطی کو وجۂ اصلاح بنانا بغیر احساس و جذبۂ عمل کے ممکن نہیں ہے۔ دوسری چیز ہے غفلت ۔ غفلت جب عادت میں بدل جائے تو انسان بےحس ہوجاتا ہے۔ بےحسی کے مقامِ افسوس پر پہنچنے سے قبل ہی طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنا محاسبہ کرلے۔ آج کل موٹیویشنل اسپیکرس کا دور دورہ ہے۔ انسانوں کی اصلاح و تربیت کا کام ایک دھندا بن چکا ہے۔ جس میں بڑی بڑی دھاندلیاں بھی ہوتی ہیں۔ عموماً اِن اسپیکرس کی ایک خامی یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ نبض شناس نہیں ہوتے۔ ضرورت مند کو ایک خیالی دنیا کا چکّر لگواکر، ایک وقتی حل (Bandage Solution) پیش کرتے ہیں۔ غلطی کو غلطی اور غفلت کو غفلت کہنا، مناسب نہیں سمجھتے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس پہنچے۔ بہت سے صلاح کاروں کی نگاہیں ضرورت مند کے مال و زر پر جمی رہتی ہے۔ کچھ تو نالائق ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس غیر موثر طریقے سے ضرورت مند کو ایک سطحی اطمینان تو مل جاتا ہے۔ لیکن بعد میں اس فَسوں کے ٹوٹنے کے بعد حقیقت اور بھی پُر خطر معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں انسان پُر امید نہیں رہ پاتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ غلطیوں اور غفلتوں پر بروقت گرفت کی جائے اور ان سے حقیقی معنوں میں بچنے کی تدبیریں نکالی جائیں۔
- نرم مزاجی: خود پرستی اور تکبر سے انسان کے اندر برداشت و تحمل کی کیفیت باقی نہیں رہتی۔ دلوں کے بھید عاجزی اور انکساری سے کھلتے ہیں۔ نرم مزاجی سے انسان اپنی کمزوری اور کوتاہی کو قبول کرتا ہے۔ ایسے میں انسان اپنی شخصی کمزوریوں اور نقائص کا درست ادراک حاصل کرپاتا ہے۔ خود کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی اس کے لیے نسبتاً آسان ہوجاتی ہے۔ نرم مزاجی کے لیے لازمی ہے کہ انسان اپنی اَنا اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر طلبِ حق کے سچے جذبے سے سرشار رہے۔
- وقت گزاری سے اجتناب:تدسیہ (کسی چیز کو دبا دینا یا خاک میں ملادینا) کی سب سے عمدہ مثال وقت گزاری ہے۔ وقت کو قابو میں رکھنا اور اسے موثر بنانا ایک بےحد مشکل کام ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس مشکل کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اب زیرِ غور موضوع محنت شعاری کے تناظر میں اس کو دیکھیے۔ یہاں پر وقت گزاری ایک خطرناک گھات کی مانند ہے۔ مختصراً یہ کہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا اندھا دھند استعمال، بےوقت سیر و تفریح، غیر منصوبہ بند مصروفیت اور غیر موثر شب و روز، بےفکری جیسی چیزیں نظام الاوقات کو تباہ کردیتی ہیں۔ اس سے انسان کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور وہ کسی کام کے لائق نہیں رہتا۔
- اللہ سے دعا اور استعانت: انسان صرف ارادہ اور کوشش ہی کرسکتا ہے۔ اس کے بعد کے معاملات پر اثر انداز ہونا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ایسے میں مخلصانہ رویہ تو یہی ہوگا کہ انسان اپنی بہتری کے حق میں اللہ تعالیٰ سے مدد و استعانت طلب کرے۔ اپنے طور پر پوری کوشش کرلے اور رب کے حضور پیش ہوکر فریادیں کرے۔ دعا سے انسان کا دل مضبوط ہوتا ہے۔ دعا اور استعانت اسے دنیا سے بےنیاز کردیتی ہے۔ اس کی توجہ خدا سے وابستہ ہوجاتی ہے۔
اصل میں انسان کی طبیعت شروعات ہی سے محنتی ہوتی ہے۔ فطرت میں بگاڑ پیدا ہونے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ خصوصاً نامناسب تربیت اور غیر محفوظ ماحول کی وجہ سے انسان اپنی فطرت اور فطری سالمیت سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لیے غیر فطری پہلوؤں پر بعد میں خصوصی توجہ دینی پڑتی ہے۔ بہرحال ذہنی آمادگی اور گرمیٔ احساس یہ دونوں عوامل انسان کی طبیعت کو محنتی بنانے اور برقرار رکھنے میں بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ تربیت کے ان مراحل میں ذہن و دل کا ٹھکانے پر رہنا لازمی ہے۔چنانچہ اوپر درج کی گئی تفصیلات کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں۔ ضروری نہیں کہ سب باتیں یکساں توجہ کے لائق ہوں۔ حسبِ جائزہ جو جو پہلو توجہ طلب ہیں اس کو نوٹ کریں اور سچی طلب کے ساتھ اس جانب متوجہ رہیں۔
جو آبرو کا ہے طالب تو کر عرق ریزی یہ کش مکش ہوئی تب پھول سے گلاب بنا