قسط: 09
مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید
رسول اکرمؐ اور نوجوان
ایک ہی وقت میں ایک باپ، ایک قوم کے رہنما اور عالمی مذہب کے نبی ہونے کے ناطے نبی مبارکؐ نوجوانوں اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے کوتاہ نہیں ہوسکتے تھے۔ بلکہ نوجوانوں سے متعلق تمام باتوں ان کی پرورش، تعلیم، فرائض و ذمہ داریاں اور حقوق آپؐ کے لئے اسی طرح مرکزی اہمیت کے حامل تھے جس طرح آپؐ کے لائے ہوئے اسلام میں ہے۔ قرآن مجید اور حدیث نوجوانوں سے متعلق مختلف سوالات کے حوالہ جات سے بھرے پڑے ہیں اور شریعت میں متعدد احکامات ہیں جو والدین اور سماج کو نوجوانوں کے تعلق ان کی ذمہ داریوں سے اور نوجوانوں کو خود اپنے، اپنے دین ، کنبہ اور اپنے معاشرتی نظام کے حقوق کے بارے میں حساس بناتے ہیں۔ مزید یہ کہ سنت نبویؐ میں خاص طور پر نوجوانوں سے متعلق متعدد عناصر موجود ہیں جن سے معاشرے کو نوجوانوں کے متعلق اپنی روایتی روش کو متعدد طریقوں سے ڈھالنے میں مدد فراہم ہوئی ہے۔
نبی کریمؐ کے نوجوانوں کے ساتھ سلوک کی سب سے واضح خصوصیات ان کی فکر مندی اور ان سے محبت ہے جو نہ صرف حدیث میں بلکہ آپؐ کے روزمرہ کی مشغولیات سے بھی واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے جن کی روایات بہت سارے صحابہ کرام سے ملتی ہیں۔ نبی بابرکتؐ چھوٹے بچوں سے پیار کرتے تھے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے کہ نبوت اور یہاں کہ صرف عرب نہیں بلکہ کائنات کے بڑے حصے کے حکمراں بننے کے بعد بھی آپؐ اپنے نواسوں حسن و حسینؓ کے ساتھ کھیلتے تھے اور انہیں اپنی پشت پر سواری بھی کرواتے تھے۔ آپؐ اپنی بیٹی فاطمہ ؓ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ ان کے تشریف لانے پر آپؐ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے اور ان کو سلام کہتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی ایک مشہور روایت کے مطابق جس میں آپؓ کا ارشاد ہے، ‘میں نے فاطمہؓ کے علاوہ کسی اور کو نبیؐ کے انداز، رہنمائی اور طرز عمل میں مشابہ نہیں دیکھا۔ وہ جب بھی آپؐ کے پاس آتیں آپؐ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ،ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بوسہ دیتے اور ان کو اپنی نشست پر بٹھاتے۔ اور جب بھی آپؐ ان کے پاس جاتے وہ آپؐ کے لئے کھڑی ہو جاتیں، آپؐ کا ہاتھ تھامتیں اور آپؐ کو چومتیں اور اپنے قریب بٹھاتیں۔’ (الحدیث – مشکاۃ المصابیح کا انگریزی ترجمہ و تفسیر، تحریر الحاج مولانا فضل الکریم، کتاب اول ڈھاکہ، مشرقی پاکستان، 1960، صفحہ -163، قدرے ترمیم شدہ ترجمہ ) آپؐ اکثر اپنے بچوں اور نواسوں کو بوسہ دیتے اور مسلمانوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے۔ آپ ؐلوگوں کو اپنی اولادوں کا احترام کرنے ، ان کو نہ صرف جسمانی آرام پہچانے بلکہ گلے لگانے کا بھی حکم دیا۔ آپؐ نے اس بات پر زور دیا کہ بچے والدین کے لئے خدا کا تحفہ ہیں اور ان کی پرورش اور دیکھ بھال مذہبی فریضہ اور ذمہ داریوں میں سے ہے۔ آپؐ نے بچوں کو ” خدا کے پھول ” سے تعبیر دی۔
نبی کریمؐ نے لڑکیوں اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال پر خاص طور پر زور دیا۔ نوجوانوں کے یہ دو گروہ اس وقت آپ کے معاشرے میں اور دوسرے مقامات پر بھی بد سلوکی کا نشانہ بنائے جاتے تھے۔ اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے میں بچیوں کے خلاف انتہائی سخت رواجوں کی وجہ سے نبی پاکؐ لوگوں کواپنی تعلیمات میں بار بار بیٹیوں سے محبت کرنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتےتھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے خود ہی اسلامی معاشرے میں بچیوں کی اہمیت پر زور دینا چاہا اور اس کے لئے فاطمہؓ کو بطور اولاد نبی مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا اور نبی پاکؐ کی نسل کا سلسلہ آپؓ سے ہی جاری فرمایا ۔ کسی مرد وارث کے بغیر بھی آپؐ کو فاطمہؓ کی شکل میں آسمانی پاکیزگی سے آراستہ اولاد نصیب ہوئی جو نہ صرف علیؓ کے پیروکار گیارہ شیعہ اماموں کی بلکہ تمام اہلِ بیت کی ماں بنیں جن کا اسلامی تاریخ میں مرکزی کردار رہا ہے ۔
یتیمی کی زندگی کی تمام مشکلات خود برداشت کرنے کی وجہ سے، نبی پاکؐ ان بچوں کے لئے بہت زیادہ حساس تھے جنہیں اپنے والدین کی حفاظت اور محبت بھری پرورش کے بغیر بلوغت کے مشکل تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی پر زور تاکید اور ان کے متعلق عام قرآنی احکامات کا نتیجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں یتیموں پر خصوصی توجہ دی جاتی رہی ہے۔ شاید کسی بھی روایتی معاشرے نے اسلام سے زیادہ یتیموں کے لئے نہ اتنے ادارے قائم کیے ہیں اور نہ مذہبی طور پر ان کی پرورش کو اتنی اہمیت دی ہے ۔ یتیموں کے لئے اس عام مسلم خیر خواہی اور ان کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کے مذہبی احکامات کے پیچھے ان کے لئے بانی مذہب کی خصوصی محبت اور پیار کو مد نظر رکھا جانا چاہئے۔
نوجوانوں کے لئے نبی مبارکؐ کی فکرمندی اور ان کی فلاح و بہبود کو ان اقدار کی درجہ بندی پر غور کرتے ہوئے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے جن کی روشنی میں آپؐ نے نوجوانوں کے بارے میں اپنی تعلیمات کا اعلان کیا۔ نبی بابرکتؐ نے والدین اور بزرگوں کے لئے احترام، تعلیم اور خاص طور پر ادب کی اہمیت پر زور دیا۔ لیکن آپؐ نے حق، خدا اور دین کے لئے محبت کو سب سے اعلی مقام پر رکھا۔ جس طرح قرآن مال و اولاد کو، اگر وہ دین کی پیروی میں رکاوٹ اور قرآنی اخلاقی ضابطوں سے منہ موڑنے کے بہانے بن جاتے ہیں تو انہیں انسان کا دشمن کہتا ہے۔ اسی طرح اولاد کو بھی ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور کنبہ کے مقابلے، اگر یہ انتخاب کا سوال بن جاتا ہے تو ، خدا اور اس کے دین کا انتخاب کریں۔ اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال صرف ابتدائی اسلامی معاشرے میں ہی پیدا ہوئی ہوگی جہاں بہت سے نوجوانوں کو اپنے والدین کے مشرکانہ طریق کار اور اسلام کے درمیان انتخاب کرنا پڑا ہوگا، لیکن در حقیقت یہ مسئلہ کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ عام طور پر نوجوان اپنے والدین سے اپنا مذہب سیکھتے ہیں اور اپنے ماڈل کی حیثیت سے ان کی تقلید کرتے ہیں۔ روایات کی عام ترسیل والدین سے بچوں میں ہوتی ہے اور جدید دور میں اسلام کے مقدس حالہ سے بتدریج علیحدگی بڑی عمر کے مقابلے میں نوجوان نسل میں زیادہ ظاہر ہو رہی ہے۔ لیکن ایسے معاملات ہمیشہ دیکھے جاتے ہیں جہاں کسی خاص بچے یا نوجوان کی خدا سے محبت اور سنجیدگی سے دین پر عمل پیرا ہونے کی خواہش ایک یا دونوں والدین سے زیادہ ہوتی ہے۔ والدین کی خواہش یا حکم سے بالاتر ہو کر خدا کا انتخاب کرنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ایسے حالات میں خاص اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور اس لئے یہ مسلم نوجوانوں کے لئے ہر مقام اور ہر حالت میں ایک مستقل ہدایت ہے۔
تاہم جوانوں کے لئے نبی مبارکؐ کی تعلیمات اور پیغام میں والدین کا احترام خاص اہمیت کا حامل ہے۔بلکہ آپؐ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ”کوئی بھی فرمانبردار بیٹاجب اپنے والدین کی طرف شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ اس کے لئے ہر ایک نگاہ کے بدلے میں ایک حج قبو ل کر لیتا ہے ۔” لوگوں نے دریافت کیا: ‘اور اگر وہ ہر دن سو بار نگاہ ڈالتا ہے؟’ ‘ہاں “، آپؐ نے فرمایا، “کیونکہ اللہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اجر دینے والا ہے۔ ” (مشکاۃالمصابیح، صفحہ 158، قدرے ترمیم شدہ)
والدین کا احترام عمومی طور پر بزرگوں کے احترام کے ساتھ، خدا کی اطاعت اور اس کے نبی ؐ سے محبت جاری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کی نگاہ میں دینی اقدار کی نمائندگی کرنے اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو والدین کا اختیار کم ہونے لگتا ہے اور اکثر اس کے نتیجے میں پورے روایتی ڈھانچے کے خلاف نوجوانوں میں بغاوت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن والدین کے دینی معاملات میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا نہ ہونے کے باوجود نبی پاک ؐ نوجوانوں کو بزرگ نسل کے مذہبی خیالات کا انکار کرتے ہوئے والدین کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں میں سے ان لوگوں کو جن کی ماؤں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا حکم دیا کہ اس کے باوجود بہرحال ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں۔ نبوی پیغام میں ایک نازک توازن پر مبنی ایک درجہ بندی ہے جس کے مطابق والدین کی محبت و احترام سے پہلے اسلام سے محبت کا مقام ہے ، پھر بھی والدین کا احترام ایک فرض ہے چاہے وہ ایک مسلم مرد یا عورت کی حیثیت سے اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو نبھا نہ رہے ہوں۔ ایسے معاملات میں بچوں کو اپنے والدین کے لئے دعا کرنی چاہئے کیونکہ ان پر فرض ہے کہ والدین کی موت کے بعد ان کے لئے دعا کرتے رہیں۔ ایک بار جب کسی نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ والدین کی وفات کے بعد ان کے لئے کیا کرنا چاہئے تو آپؐ نے جواب دیا، ”ان کے لئے دعا کرو اور ان کے لئے معافی مانگو۔ ان کے وعدے اور خواہشات کو ان کے مرنے کے بعد پورا کرو۔”
باریک سوالات سے ہٹ کر والدین کے لئے احترام اور محبت اسلام کی تعلیمات کا مرکزی جز ہے۔ نبی مبارکؐ کے متعدد اقوال ہیں جن میں والدین کی اطاعت جنت میں داخلہ کی کلید بتائی گئی ہے ۔یہ مشہور حدیث ”جنت ماؤں (امہات) کے پاؤں تلے ہے”، اپنے ما بعد طبیعاتی معنی کے علاوہ ماؤں کے لئے خدا کے نبیؐ کے عظیم احترام کو واضح کرتی ہے ۔ نبی بابرکتؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ والدین اپنے بچوں کی جنت اور جہنم ہیں،یعنی بچوں کا ان کے ساتھ رویہ اور ان کا اپنے بچوں سے اطمینان یا اس میں کمی بچوں کی اخروی زندگی کے حالات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلام میں بعض روحانی اساتذہ نے والدین کی اطاعت کو اعلی روحانی نشونما کی شرط تک بنا دیا ہے۔ اگرچہ یہ بات آفاقی تو نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ والدین کے لئے احترام اور محبت کی اس روحانی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے جو مسلم نوجوان کے خاتمہ بالخیر اور روحانی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
نوجوانوں کے متعلق رسول بابرکتؐ کی تعلیمات کا ایک اور مرکزی عنصر تعلیم ہے۔ اگر اس طرح کی احادیث کہ ”تمام مسلم مردوں اور عورتوں پر علم حاصل کرنا فرض ہے ” ، حصول علم کی ذمہ داری کی آفاقیت کی نشاندہی کرتی ہے تو یہ دوسری حدیث، ” علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک ” ، ابتدائی عمر میں ہی اس عمل کے شروع کرنے پر زور دیتی ہے ۔ علم سیکھنے اور تلاش کرنے کی فضیلت جو روایتی اسلامی تعلیمی نظام کا سنگ بنیاد بنی ، نبی پاکؐ کی تعلیمات اور مسلم نوجوانوں کے لئے آپؐ کی فکرمندی اور زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی قوتیں تعلیمی تجربات کو قبول کرنے کے لئے سب سے زیادہ تیار ہوتی ہیں، سیکھنے کے عمل کی اہمیت پر مبنی ہے۔ پیغمبرؐ سے محبت کا مطلب یہ بھی ہے کہ روایتی تعلیم اور قرآن مجید سے اخذ کئے گئے علم سے بھی محبت کی جائے ، جو سالک کو خدا کی طرف لوٹاتا ہے ۔ یہ ایک دینی عمل ہے۔
نوجوانوں کے لئے علم کے حصول کے ساتھ ادب جو خوش خلقی، شائستگی، نیک سلوک، خوبی کا ایک امتزاج ہے اور جس کا ترجمہ کسی ایک انگریزی لفظ میں نہیں کیا جاسکتا ،اس کا حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ جیسا کہ رسول بابرکتؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”کوئی باپ اپنے بچوں کو ادب سے بہتر تحفہ نہیں دے سکتا،” اور یہ بھی کہ، ”کسی شخص کا اپنی اولاد کو ادب کی تعلیم دینا اس کے لئے بڑے بڑے صدقات سے بہتر ہے۔” ادب صرف مقامی ثقافتی حالات کے ذریعہ تعمیر کردہ عارضی طرز عمل کا نام نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے اس کے مرکز میں سنت رسولؐ کے کچھ پہلوؤں کی موافقت ہے ۔ حالانکہ ادب کے وسیع دائرہ میں کچھ مقامی و اضافی عناصر موجود ہوتے ہیں لیکن اس کے مرکز میں کچھ ایسا ہے جو نوجوان مسلم کے جسم اور روح کی تربیت کے لئے مستقل اہمیت کا حامل ہے۔حق کے بعد سب سے زیادہ اہمیت صرف ادب کی ہے اور اسے ہمیشہ حق کا تابع رہنا چاہئے۔ ادب کے دائرے میں وہ تمام خوبیاں شامل ہیں جن سے مسلم نوجوانوں کو خود کو مزین کرنا چاہئے۔ اس میں وہ تمام افعال اور رویے شامل ہیں جن کا مقصد مسلم نوجوان میں عجز و انکساری ، سخاوت، پاکیزگی، شرافت و نجابت اور دیگر خوبیاں پیدا کرنا ہے جس کی اعلی ترین مثال نبی کریمؐ کے کردار میں ملتی ہے۔ شائستگی سے بیٹھنا اٹھنا، احترام کے ساتھ لوگوں سے پیش آنا، بیٹھے ہوئے یا چلتے ہوئے جسم کو نظم و ضبط میں رکھنا، نہ صرف سچائی کے ساتھ بلکہ احترام کے ساتھ بات کرنا، خاموشی اور وقار کے ساتھ کھانا، اور روایتی اسلامی ادب میں شامل بہت سے دوسرے اقدامات و اقدار ، نوجوانوں میں روایت کی حقانیت یعنی دین کی قبولیت پیدا کرتے ہیں۔ ادب کا جوہر اصل میں وہ سلیقہ ہے جس کے تحت مسلمان اپنے اندر ، اپنے روزمرہ کے افعال اور الفاظ میں دین کی تعلیمات میں حصہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادب کے حصول پر بہت زیادہ زور دیا اور مسلمان والدین کو اپنے بچوں کو ادب سکھانے کی شدید تلقین کی ہے۔
رسولؐ اللہ کی جوانوں کے لئے تشویش و فکر مندی میں نوجوانوں کے ساتھ بزرگ بھی شامل ہیں۔ والدین اور معاشرے پر نوجوانوں کے تعلق سے فرائض کی ایک پوری سیریز ہے۔ ان میں سب سے پہلے ان سے شفقت اور ان کی پرورش شامل ہے۔ اپنے بچوں کے لئے روزی کمانا باپ اور ماں کے لئے بھی ایک مذہبی فریضہ ہے، اسی طرح والدین اور خاندان کے دوسرے بزرگ افراد کی دیکھ بھال کرنا جب وہ عمر کو پہنچ کر کام کرنے کے قابل نہ رہ جائیں ، جوانوں کا فرض ہے۔ جس طرح بچوں کے لئے ممکن حد تک تعلیم کی فراہمی ایک فریضہ ہے اسی طرح انہیں اسلامی اصول کی تعلیم، قرآن پاک کا متن، روزانہ کی نماز اور اس کے ساتھ دیگر ارکان و واجبات کی تعلیم دینا بھی والدین کا مذہبی فریضہ ہے۔ مجموعی طور پر نوجوانوں کے لئے یہ ذمہ داری اسلامی معاشرے پر بھی ہے۔ سماج کو ان کی جسمانی اور دماغی ضروریات کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنمائی فراہم کرنا بھی لازمی ہے کیوں یہی وہ قالب (Matrix) ہے جس میں دوسری تمام سرگرمیاں اپنی معنویت حاصل کرتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ رسول بابرکت ؐ اور آپؐ کی اتباع کرتے ہوئے روایتی اسلامی معاشرے نے ”نوجواں پرستی ” سے گریز کیا ہے جو جدید دنیا کے کچھ خاص طبقات کی خصوصیت ہے اور اس بے لگام نام نہاد ”آزادی” کی مخالفت کی ہے جس نے آج بہت سارے نوجوانوں کو نظریہ فنائیت اور زندگی کی بے معنویت کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اسلام نے نوجوانوں کے حقوق بیان کرنے سے پہلے ان کی ذمہ داری پر زور دیا ہے۔ لیکن نوجوانوں کی ضروریات اور حالات کا جائزہ لینے کے اس طریقے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام اور رسول بابرکتؐ جو خود اس کا کامل مجسمہ تھے ، نوجوانوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ ان نوجوانوں اور ان کی تمام ضرورتوں سے کتنا گہرا تعلق رکھتے ہیں جن کے کندھوں پر مستقبل کے اسلامی معاشرے کا نظام اور ترقی تاریخ کے ہر مرحلے پر منحصر رہا ہے۔ آپؐ کی ہدایات جوانوں اور ان کی ضروریات سے گہری محبت پر مبنی ہیں جو نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی، فکری اور روحانی بھی ہیں۔ آپؐ نوجوانوں کو صرف وہی آزادی حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں جو بامقصد اور دیرپا ہے، وہ آزادی جو خدا کی جانب، کنبہ اور معاشرے میں اپنے فرائض و ذمہ داریاں ادا کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ روایتی اسلامی معاشرے نے جب بھی مکمل طور پر کام کیا ہے نوجوانوں کا چہرہ یقینا مسکراہٹ سےخالی نہیں رہا،وہ مسکراہٹ جس کے ساتھ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور نہ ہی نوجوان معاشرے کے لئے کوئی مسئلہ بنے جس کا آج جدید دنیا میں بڑے پیمانے پر مشاہدہ کیا جارہا ہے۔