قسط: 08
مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید
رسول اللہ ﷺ کا اخلاق و کردار
قرآن مجید کی متعدد آیات مثلا (34:50)، (40:55) ، اور (47:19) میں اس حقیقت کا حوالہ ملتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ انسان تھے اور کسی اوتار جیسی الوہیت کے حامل نہیں تھے۔ لیکن یہ آیات مبارکہ نبیؐ کے بطور کامل ترین انسانی وجود کی ہرگز نفی نہیں کرتی ہیں۔ اس تعلق سے عربی کہاوت ”پتھروں کے درمیان لعل ” پہلے ہی نقل کی جا چکی ہے۔ ورنہ قرآن کیسے دعویٰ کرسکتا تھا کہ آپؐ کو مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ (اسوہ) کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ یہ آپؐ کا کمال ہے کہ آپؐ قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے بہترین معیار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؐ کو خدا کی طرف سے ایک ایسا اعزاز دیا گیا جو یقینا معمولی نہیں تھا اور نہ ہی رائج معنی میں محض انسانی تھا حالانکہ دینی اعتبار سے آپ الوہی اوتار نہیں ہیں بلکہ ایک انسان ہی ہیں۔ آپؐ کی غیر معمولی شان و شوکت کا کوئی اور ثبوت آپؐ کی عصمت سے بڑا نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ آپؐ خدا کی طرف غلطی کرنے سے محفوظ تھے، آیا اس تحفظ کو خاص طور پر شیعہ معنوں میں سمجھا جائے کہ آپؐ کی ذات مبارکہ کو ابتداء سے ہی گناہ سے استثنیٰ حاصل تھا یا یہ اس طرح کہ فرشتوں کے ذریعہ آپؐ کو ”دھویا” گیا تھا اور پاک کردیا گیا تھا جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں بیان کیا جا چکا ہے۔
بہرحال آج مسلمانوں کے لئے اس سے بڑا خطرہ کوئی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو صرف اس ظاہری عذر کی بنیاد پر کہ آپؐ انسان تھے، گھٹا دیا جائے جبکہ اس کی بنیاد میں اصلا جدید مغرب کے مروجہ Humanism کے نظریات کار فرما ہیں۔ رسول بابرکتؐ ایک انسان تھے لیکن اس حقیقت کا یہ مطلب نہیں کہ آپؐ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح عام انسان تھے،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی وجود میں، آپؐ کی شخصیت اور کردار سے ظاہر ہونے والی عظمت اور تکمیل کا بھرپور امکان موجود ہے ۔ نبی پاکؐ کی حیات، آپ کی خوبیوں اور کارناموں پر غور صرف خدا کی قدرت اور اس کے انبیاء کی عظمت کے احساس کے لئے نہ کیا جائے، بلکہ اس حقیقت کا بھی ادراک حاصل کیا جائے کہ بنی نوع انسان اصل انسانی سطح سے کس قدر نیچے جا گرا ہے۔ نبیوں اور اولیاء کرام نے انسانیت کے وجود کے کل امکان کو ظاہر کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ”انسان” کے معنی کو اس کے اعلیٰ مفہوم تک پہنچایا ہے۔ انبیائے کرام کو ایک ہمیشہ قائم رہنے والے آدرش اور مثال کی طرح پیش کرنے کے بجائے، جو انسانوں کے لئے انسانی وجود کی مکمل حقیقت کا احساس کرنے میں مددگار ہوتے ہیں، جدید انسان کے معمولی معیار پر محض ایک عام انسان کہ دینا، انسانیت کے خلاف اس سے بڑا جرم ہو نہیں سکتا۔
اس سے پہلے کہ جدید دنیا کا نظریہ Humanism مسلمانوں کی ایک تعداد کے ذہنوں اور روحوں کو آلودہ کرتا ، نبی مبارکؐ کی سیرت ان کے لئے صدیوں سے یہ کردار اعلی سطح پر ادا کرتی رہی ہے، کر رہی ہے اور جب تک اسلام ایک دین کی حیثیت سے زندہ رہے گا ، انسانوں کے لئے عمل کرنے کی اعلیٰ مثال کے طور پر کرتی رہے گی۔ نبی بابرکتؐ نے ایک طرح سے ان تمام چیزوں کا تکمیلی تجربہ کیا جسے انسانی کہا جا سکتا ہے تاکہ آپؐ اسلام کے نبی کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دینے کے قابل ہوسکیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نبوی فرائض میں انسانی زندگی کا ہر پہلو شامل ہے تاکہ تمام زندگی کو ایک مرکز میں ضم کر کے اسے تقویت اور معنی بخشا جا سکے ۔
انسانی زندگی کا ایسا کوئی پہلو نہیں ہے جس کا تجربہ پیغمبر اسلامؐ نے عملی طور پر نہ کیا ہو۔ ذاتی اور انسانی سطح پر آپؐ نے کم عمر میں ہی یتیمی، تنہائی، معاشرتی دباؤ، مادی غربت اور عملی طور پر ہر قسم کی آزمائش جس سے ایک نوجوان کسی معاشرے میں گزر سکتا تھا، آپؐ گزرے۔ بعد کی زندگی میں بھی آپؐ کو ہر طرح کے غم کا مشاہدہ کرنا پڑا، پیاری بیوی خدیجہؓ کا انتقال، کمسن بیٹوں کی موت، اپنے ہی قبیلے کے لوگوں کی غداری، آپؐ کی جان، مال اور کنبہ کے لئے مستقل دھمکی و خطرات کا سامنا،اور اس مقصد کے اوپر منڈراتا مستقل خطرہ جس کے لئے آپؐ کا انتخاب کیا گیا تھا اور جس کے لئے آپؐ نے خود کو پوری طرح وقف کر رکھا تھا، یعنی اسلام ۔
چونکہ انسانی زندگی خوشی اور غم کے دھاگوں سے بنی ہوئی ہے، لہذا پیغمبر اسلام کو انسانوں کے لئےہر ممکن خوشی کے تجربے سے بھی گزارا گیا۔ یقینا اس میں اعلی ترین خوشی خدا کا ادراک اور اس سے محبت ہے۔ یہ اعلی ترین تحفہ آپؐ کو خدا کی جانب سے ایک ایسی خصوصی برکت اور شدت کے ساتھ عطا کیا گیا تھا جو دوسرے انسان کے لئے ناقابلِ تصور ہے۔ انسانی زندگی کی عام سطح پر بھی آپؐ کو خدیجہ کے ساتھ ایک خوشگوار شادی کی خوشی سے، فاطمہ جیسی بیٹی سے جو زمین پر اترنے والی فرشتہ صفت مخلوق کی طرح تھیں، علی جیسے چچازاد بھائی اور داماد سے ، جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور آپؐکے مشن سے ان کی لگن کسی بھی معیار پر غیر معمولی تھی، نوازا گیا۔ نبی مبارکؐ کے ساتھ ابو بکرؓ اور سلمانؓ جیسے دوست اور شاگرد بھی تھے اور آپؐ نے انسان دوستی کے ساتھ ساتھ خدائی دوستی (حبیب اللہ) کے پورے معنی کا بھی مزہ چکھا۔آپؐ نے ایک غریب یتیم، ایک کامیاب سوداگر، مسلسل خطرے میں پڑی ایک نیم خفیہ جماعت کے رہنما اور ایک نئے معاشرے کے فاتح رہنما جو جلد ہی دنیا کا بیشتر حصہ فتح کرنے والا تھا، کے مقام سے انسانی فطرت کے تمام پہلوؤں کا تجربہ کیا ۔ آپؐ نے چھوٹے موٹے تاجروں کے ساتھ تجارت بھی کی اور زمین کے طاقتور شہنشاہوں اور حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خط و کتابت بھی ۔ آپؐ نے فتح کے ساتھ شکست کا مزہ بھی چکھا اور فتح مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کرنے کی لاجواب خوشی محسوس کرنے کے موقع سے بھی نوازے گئے۔ آخر کار، آپؐ نے ناکامی اور کامیابی دونوں کا تجربہ کر لیا۔ آپؐ خدا سے امید اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے برسوں تلخ ناکامیوں کا مشاہدہ کرتے رہے اور پھر آپؐ نے ایک کے بعد ایک کامیابیوں کی مٹھاس کا مزہ چکھا ، آپؐ نے اپنی موت سے قبل ان تمام کامیابیوں کا مشاہدہ کر لیاجن کے لئے آپ نے کوشش کی تھی۔ اس بات کا امکان یقینا بہت کم ہے کہ ایک مسلمان سیرت مبارکہ میں ان تمام حالات کے لئے کوئی نمونہ یا رہنمائی نہ پائے جس کا وہ انسانی زندگی میں سامنا کرسکتا ہے ۔
جہاں تک معاشرے میں بنیادی کردار کا تعلق ہے، نبی کریمؐ خدا کی جانب سے ان سب کو پُر کرنے کے لئے بھی بھیجے گئے تھے۔ آپؐ اپنے خاص نبوی فرائض جیسے انسانوں تک خدائی قانون اور کلام الہی پہنچانے، باطنی علم کے ساتھ خارجی علم میں بھی انسانوں کی رہنمائی کرنے، مختلف لمحات اور مختلف مواقع پر انسانی فطرت اور نفسیات میں مکمل بصیرت کا تحفہ دئے جانے کے علاوہ ، ایک استاد ، ایک گھریلو سرپرست، تاجر،، سیاست دان، سیاسی اور معاشرتی رہنما، فوجی کمانڈر، جج اور سپریم حکمران بھی تھے ۔
ان میں سے ہر ایک کام میں آپؐ نے ایک قیمتی ورثہ چھوڑا جو اسلام اور اس کی ثقافت کا حصہ بن گیا ۔ بحیثیت استاد نبی مبارکؐ بہت ہی متنوع قسم کے لوگوں کو مختلف احکامات کا علم فراہم کرنے میں نمایاں طور پر کامیاب رہے۔ در حقیقت ، آپؐ معلم اعلی ہیں۔ آپؐ اس کام میں ایسے کامیاب ہیں کہ آج بھی آپؐ مسلمانوں کے لئے سب سے اہم اور موثر استاد ہیں۔ آپؐ کے اقوال و اعمال، آپؐ کے افکار و کردار ، آپؐ امت کو دن رات ایک درس دیتے رہتے ہیں جبکہ آپؐ کے ذریعہ دی گئیں زیادہ دانشورانہ اور روحانی ہدایات ، اسلامی معاشرے کے ان افراد کے ذہنوں اور روحوں کی تشکیل و تربیت کرتی رہتی ہیں جو روحانی کمال کی جستجو میں ہیں۔
ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے نبی پاک ؐ نے چھوٹے اورایک ایسے معاشرے بلکہ در حقیقت، ایک کائنات کی تشکیل کی جس کی ساخت اور اندرونی تعلقات آج تک عقیدت مند مسلمانوں کے لئے گہری دلچسپی کا سامان ہیں۔ آپؐ کا اپنی بیویوں، بچوں اور چھوٹے نواسوں حسن اور حسین کے ساتھ سلوک و آداب، گھر میں آپؐ کے فرائض و کردار، اہل خانہ کے لئے آپ کا احساس ذمہ داری ، ارکان خاندان میں آپؐ کے لئے محبت اور اعتماد کا جذبہ اور بہت سے دوسرے عناصر آپؐ کی سنت کا حصہ اور آپؐ کے کردار کے عناصر ہیں جو آپؐ کو صرف ایک فرد کے لئے نہیں بلکہ انسانی خاندان کے تناظر میں پیروی کئے جانے والی ایک بہترین مثال بناتے ہیں ۔ اسی طرح ایک سوداگر، کسی معاملے میں فیصلہ کرنے والے جج یا جنگ کے میدان میں فوجی رہنما کی حیثیت سے، یا کسی قوم پربطور حکمراں یا سفارت کار کی حیثیت سے آپؐ نے جس طرح سے سلوک کیا اس سے ایک ایسے وجود کا انکشاف ہوتا ہے جسے انسانی جبلت میں پوشیدہ تمام ممکنات کو مکمل کرنے کے لئے چنا گیا تھا ۔ یہ اعلیٰ ظرفی کی ایک عظیم مثال ہے کہ وہ شخص جس نے جنگ بدر کی قیادت کی اور جس نے بعد میں کائنات کے ایک پورے طبقے پر حکمرانی کی وہ اپنے معمولی گھر کے فرش پر جھک جائے تاکہ اس کے نواسے اس کی پیٹھ پر سواری کر سکیں۔ صرف ایک نبی ہی عظمت اور عاجزی، طاقت اور سخاوت کے اس کمال کو پہنچ سکتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت یہ بتاتی ہے کہ ایک انسان جو یہاں تک پہنچ سکتا ہے وہ کتنا عظیم ہے بشرطیکہ اسے معلوم ہو کہ وہ کون ہے۔
بلاشبہ ہر نبی اور خاص طور پر نبی آخرالزماںﷺ تمام انسانی خوبیوں کے مالک ہیں۔ لیکن ہر نبی کے معاملے میں کچھ خوبیاں اور فضائل منفرد ہوتےہیں جن پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، یہ وہ خوبیاں ہوتی ہیں جو اس نبی کے ذریعہ لائے گئے دین کے مزاج اور ڈھانچے سے وابستہ ہوتی ہیں۔ کچھ انبیاء کی خاص فضیلت محبت ، دستبرداری، خدا کا خوف اور زہد ہے۔ جہاں تک رسول بابرکتؐ کا تعلق ہے آپؐ کی نمایاں خوبی خدا اور حق کے ساتھ اخلاص، تمام مخلوقات کے ساتھ سخاوت، سادگی اور عاجزی سے وابستہ روحانی فقر تھی۔ رسول مبارکؐ نے فرمایا ہے، ”فقر میرا فخر ہے” (الفقر فخری) اور اسلامی روحانیت کو اکثر ”فقر محمدی ” (الفقر المحمدی) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ نبی بابرکتؐ دولت مند لوگوں کے مخالف تھے یا دنیاوی وسائل کو نا پسند فرماتے تھے۔ آپؐ کی اپنی اہلیہ خدیجہؓ آخر ایک دولت مند تاجر تھیں۔ اس فقر کا مطلب بنیادی طور پر عاجزی اور خدا کے حضور اپنی بے بسی و حقارت کا شعور اور زینت و عیش و عشرت پر سادگی کو ترجیح دینا تھا۔ نبی بابرکتؐ سخت گزار ی اور صبر و ضبط کے پیکر تھے۔ آپؐ نے ہمیشہ عاجزی پر زور دیا اگرچہ آپ تمام انسانوں میں سب سے عظمت والے ہیں اور یقینا اپنے مرتبہ سے واقف تھے۔ لیکن آپؐ کی زیادہ تر سنتیں اور اس کے ساتھ وابستہ طرز عمل ادب و عاجزی کی صفت پیدا کرتی ہیں ( خشو) جس کی اعلی ترین شکل خدا کے حضور ہماری بے وقعتی سے آگاہی ہے۔ جس کی ایک علامت نمازوں کے دوران سجدہ بھی ہے۔
نبی مبارک ؐ سخاوت اور شان (کرامت یا شرف) کے معیار بھی ہیں۔ آپؐ جس حد تک خود پر سخت تھے، دوسروں کے ساتھ اتنے ہی فراخ دل تھے۔ کردار کی شرافت کا مطلب دینا اور معاف کر دینا دونوں ہی ہے، دوسروں کے لئے خود کو، اپنی کوششوں کو، اپنے خیالات اور مال و متاع کو وقف کر دینا اور دوسروں کے عیبوں اور اپنے ساتھ کئے گئے سلوک کو معاف کر دینا اس کی مثال ہے ۔ نبی کریمؐ کی زندگی ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جس میں آپؐ نے دوسروں کو خود پر ترجیح دی اور اس اصطلاح کے مکمل معنوں میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، اس میں معافی کے ایسے لمحات بھی ہیں جن کی فتح مکہ ایک بہترین مثال ہے۔ اس واقعہ نے آپؐ کے کردار کی عظمت کے عروج کو ظاہر کیا۔آپؐ نے ایسے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا جب آپؐ اقتدار کے اعلی ترین مقام پر تھے اور ایسے لوگوں کو معاف کیا جن لوگوں نے آپ کے ساتھ برسوں بدترین سلوک کیا تھا۔ ان کچھ لمحات میں جب آپؐ نے جج کی حیثیت سے فیصلہ کرتے ہوئے کسی کی غلطیاں معاف نہیں کیں، تو اس وقت بھی آپ کے مد نظر خدائی انصاف اور معاشرے کی فلاح و بہبود ہی تھی۔ یہاں آپؐ نے ایک فرد نہیں بلکہ انسانی اجتماعیت کے ایک عہدہ دار کے طور پر عمل کیا۔ ورنہ دوسروں کے ساتھ آپؐ کے معاملات اور سلوک میں کبھی ذاتی انتقام اور عداوت کا احساس تک نہیں تھا۔
نبی پاک کو اخلاص کی اعلی ترین فضیلت حاصل تھی۔ ایسا کوئی عمل یا ایسا کوئی لفظ نہیں کہ جس کو آپؐ نے مکمل خلوص کے بغیر ادا کیا ہو۔ لیکن آپؐ سب سے زیادہ خدا کے ساتھ مخلص تھے اور آپ کا خلوص صدق کے مقام تک پہنچا ہوا تھا۔ یہ حقیقت کہ آپؐ کو جوانی ہی سے الامین، یعنی معتبر کہا جاتا تھا۔ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ خوبی آپؐ کے اندر بچپن سے ہی اعلیٰ درجہ میں موجود تھی اور جب آپؐ کو خدا نے نبی کے طور پر منتخب کیا تو یہ کمال کو پہنچ گئی۔ نہ کہ صرف رسول بابرکتؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بلکہ اخلاص اور سچائی کی اس خوبی کے نتیجے میں آپ ہر چیز کو اس کا درست مقام دینے، واقعات، نظریات اور افراد کے فیصلے میں منطق اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے اور اس میں موضوعی یا شخصی غلطی سے بچنے کے قابل تھے ۔ لیکن سب سے بڑھ کر اس کا مطلب یہ تھا کہ آپؐ کو حقیقت کو دیکھنے ، اس کی نوعیت اور مواد کو بدلے بغیر اسے قبول کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کو لا الہ الا اللہ کے اعلیٰ ترین حقیقی علم سے نوازا گیا اور اس مرکزی اور ضروری سچائی کو زمین کی سطح پر پھیلانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔
اخلاص، فراخدلی اور عاجزی ، حقانیت، شرافت اور سادگی کی خوبیوں سے آراستہ رسول بابرکتؐکے کردار کو احسان کی خوشبو اور خوش دلی سے بھی آراستہ گیا تھا جس کے لئے آپؐ کو آج تک پوری دنیا میں یاد کیا جاتا ہے۔ اصطلاح ”محمدی کردار” (عربی میں الخلق المحمدی یا فارسی اور اردو میں خوئی محمدی) جب مختلف اسلامی زبانوں میں استعمال ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہمیشہ مندرجہ بالا سادگی ، شرافت اور سچائی کے ساتھ احسان اور مسرت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جب کسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسے خلق محمدی سے نوازا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص ان خوبیوں سے نوازا گیا ہے کہ وہ غیرضروری طور پر ناراض نہیں ہوتا، پرسکون اور یکسوء ہے، صبر کرتا ہے اور دوسروں پر مہربان ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خوشی و مسرت کی کیفیت میں ہے اور اضطراب و احتجاج میں مبتلا نہیں ہے ۔ مسلمان یہ کبھی نہیں بھولتے کہ نبی پاکؐ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اور ان کے چہرے سے خوشی اور مسرت کا احساس جھلکتا رہتا تھا، لیکن حق کی مخالفت کرنے والوں کا سامنا ہونے پر ”مقدس قہر” کو بھی ظاہر کرتا تھا۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ آپؐ کی روح میں مضبوطی اور نرمی، صحرا کی شدت و پاکیزگی اور باغِ گلاب کی ہوا کی نرمی و خوشبو دونوں موجود تھی۔ آپؐ نے دنیا کو تبدیل کیا اور ناقابل یقین مشکل حالات میں عظیم کارنامے انجام دئے لیکن کبھی مہربانی اور سخاوت کا رویہ نہ چھوڑا، یہی خدا کے دوستوں کی نمایاں صفت ہے۔ آپؐ کے اندر اعلی ترین صفات اپنے کمال درجہ میں جمع کر ددی گئی تھی۔ حقیقت میں آپؐ وہ کامل انسان ہیں جس کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی لئے خدا اور اس کے فرشتے آپؐ کی تعریف بیان کرتے ہیں اور آپ پر صلاۃ و سلام بھیجتے ہیں اور جو ایمان والے ہیں ان کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ آپؐ کی تعریف بیان کریں ، صلاۃ و درود بھیجیں اور آپؐ کی سیرت مبارکہ پر اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ در حقیقت نبی کریمﷺ کی تعریف ہی واحد فعل ہے جس میں انسان، خدا اور فرشتوں کے ساتھ شامل ہے۔