قسط: 02
مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید
نبی کریم ﷺ کا نکاح
آپؐ اپنی صداقت،دیانتداری،مقصدیت اور انصاف پسندی کی وجہ سے مشہور تھے۔ جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ کی ایک دولت مند اور نیک تاجر بیوہ خاتون خدیجہؓ نے اپنے تجارتی معاملات سنبھالنے کے لئے آپؐ کو دعوت دی ۔ اپنے چچا کی اجازت اورنصیحت پر،نبی پاکؐ نے اس پیش کش کوقبول کیا اور پچیس سال کی عمر میں مکہ مکرمہ ، شام اور بصرہ کے درمیان سفر کرنے والے ان کے قافلوں کا چارج سنبھال لیا۔آپؐ کاپیکر،کردار، آداب اورمعاملات خدیجہؓ کے لئے اس قد ر متاثر کن تھے کہ انہوں نے آپؐ سے شادی کی تجویز پیش کی۔ آپ ؐ نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔خدیجہؓ کردار اور روح کی خوب صورتی کی مالک ایک بڑی شخصیت تھیں۔جب آپؐ کی ان سے شادی ہوئی تو آپ پچیس سال کے تھے اور وہ چالیس۔وہ یتیم جس نے روز مرہ کی زندگی میں تنہائی، مالی مشکلات اور تمام تر سختیوں کو بر داشت کیاتھا ،اللہ نے اسے ایک ایسی بیوی سے نوازا جو آپؐ سے انتہائی محبت کرتی تھی اور جسے آپ پر مکمل یقین تھا۔خدیجہؓ کے پاس مکہ مکرمہ میںاس قسم کی معاشرتی حیثیت مہیا کرنے کا ذریعہ تھا جو بعد میں آپؐ کواپنی مذہبی سرگرمیاںوسیع پیمانے پر انجام دینے کی سہولت فراہم کرنے والی تھی اور اللہ کا پیغام آ جانے کے بعد،اسلام کی مذہبی جماعت کی بنیاد کو مضبوطی سے قائم کرنے میں مددگار ہوئی۔
پیغمبر اسلامؐ کی سیرت میں خدیجہؓ کے ساتھ آپؐ کے نکاح کی ایک خاص اہمیت و معنویت ہے۔ اس نکاح سے اللہ نے آپ ؐ کووہ ساتھی عطا کیا جس پر آپ زندگی کے مشکل ترین دور میں مکمل طورپربھروسہ کر سکتے تھے ۔ جنہیں تمام ضروری اخلاقی اور روحانی خوبیوں سے نوازا گیاتھا تاکہ وہ خدا کی کامل ترین مخلوق کی کامل بیوی اور نبوی گھرانے، یعنی اہل بیت کی ماں بن سکیں، جن کی روشنی آنے والے وقت میں دنیا کو روشن کرنے والی تھی۔
نبی پاکؐکے نکاح میں آنے سے پہلے خدیجہ ؓ کی دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی۔ جن سے خدیجہؓ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔آپ کے بطن سے نبی پاکؐ کی چھ اولادیں ہوئیں۔آپؐ کے سب سے پہلے بیٹے کا نام قاسم تھا جن کی وجہ سے پیغمبر اسلامؐ کو ابو القاسم کا لقب دیا گیا ،لیکن دو سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔دوسرے بیٹے کا نام عبد اللہ اور کنیت الطاہر اور الطیب تھی لیکن وہ بھی بچپن میںچل بسے۔ نبی بابرکت ؐکی چار بیٹیاں بھی ہوئیں:زینب،رقیہ،ام کلثوم اور فاطمہ،یہ سب بیٹوں کے برخلاف پختگی کی عمر تک حیات رہیں۔سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ ایک خاص تقدس کی حامل تھیں۔ایک روح جو جنت کے لئے بنی تھیں ۔ جنہوں نے اس دنیا میں ہی تکلیف اٹھائی۔وہ علیؓکی زوجہ بنیں اور تمام دنیا کے شیعہ اماموں اور نبیؐ کی نسل کی والدہ بنیں۔در حقیقت آپؓنے اس مذہبی کہکشاں میںایک خاص کردار نبھایا جس کے روحانی محور پیغمبر اسلامؐ تھے۔اسلامی تقویٰ اورمذہبی عمل میںان کاکردار نبی مبارکؐ اورخدیجہؓ کی تمام اولادوں اورحقیقت میں تمام مسلمان خواتین میں ایک بے مثال مقام پرہے۔آپ اس کامل نکاح کے روحانی پھل کی علامت ہیں جو نبی بابرکتؐ اور خدیجہ کا تھا،ایک ایسی شادی جو اتنی مکمل اور ایک لحاظ سے مطلق تھی کہ جب تک خدیجہ زندہ رہیں رسولِ مبارکؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔یہ حقیقت خاص طور پر اہم ہے کیوںکہ وہ نبی مبارکؐ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں اور اس وقت کی دنیا کے دوسرے حصوں کی مانند عرب میںبھی کثرت ازدواج کا رواج عام تھا۔
چونکہ مغربی مصنفین نے اس پربہت تنقیدکی ہے اس لئے یہاں نبی مبارکؐ کی شادیوں اور جنسی تعلقات کے بارے میںان کے رویے کے متعلق کچھ باتیں عرض کر دینا چاہیے،جو واقعتا اس ضمن میںاسلامی طرزعمل کی بنیاد ہیں۔جنسیت( sexuality) کے دو پہلو ہیں؛اول یہ کہ یہ ایک خطرناک جذبہ ہوسکتا ہے جس سے جسم اورروح دونوں کونقصان ہوتا ہے دوسرا یہ کہ یہ خدا کی جانب سے ایک مثبت تحفہ ہو سکتا ہے جو نہ صرف نسل انسانی کی آفرینش کے لئے ضروری ہے بلکہ اﷲ کے قریب ہونے کاایک ذریعہ بھی ۔عیسائیت نے عام طور پر اول اور اسلام نے دوسرے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے۔لہذا،اسلام میں کوئی برہمیت celibacyیا کنوارگی نہیں ہے اور لوگوں کواس حد تک شادی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا ،ـــــــــــــــ’’نکاح دین کا نصف حصہ ہے‘‘۔ اسلام نے جہاں جنسیت کے مثبت پہلو کو قبول کیا ہے وہیں تمام جنسی تعلقات کے لئے سخت قوانین بھی تفویض کئے ہیں اور ساتھ ہی خدائی قانون یا شریعت کے اصول کے باہر کسی بھی جنسی سرگرمی کے لئے کڑی سزا بھی رکھی ہے ۔
جہاں تک کثرت ازواج کی بات ہے تو، خود اس میں عملی طور پر اخلاقی یا غیر اخلاقی کوئی چیز نہیں ہے جب تک کہ اس معاشرے کے قوانین کی روشنی میں اس پر غور نہیں کیا جائےجس میں یہ رواج پایا جاتا ہے۔ کسی مذہب یا قوم کے مذہبی یا روایتی قوانین کو توڑنا اصل میں حدود سے تجاوز کا تعین کرتا ہے اور ایک معاشرے کے اقدار کو دوسرے معاشرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔تعدد ازواج کا رواج قدیم دنیا میں اور یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی پایا جاتا رہا ہے۔ کچھ عبرانی نبیوں کی سیکڑوں بیویاں تھیں۔ جنگجو معاشروں میں جہاں مردوں کی موت کا تناسب انتہائی زیادہ ہوتا ہے اور زرعی معاشروں میں جہاں خاندان ایک ساتھ مل کر کام کرتا ہے، وہاںتعدد ازواج کنبہ اور معاشرے کو متحد کرنے میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ اس نے جسم فروشی اور غیر قانونی جنسی تعلقات کو بڑی حد تک روکا اور اس کے اہم معاشی نتائج بھی برآمد ہوئے۔ اسلام نے سخت شرائط اور قانون سازی کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت دے کر عملی طور پر خاندانی رشتوں کو تقویت بخشی جس میں تقریبا تمام خواتین کو خاندانی ڈھانچے میں ضم کرنے اور معاشرے کو استحکام بخشنے میں مدد ملی۔
جہاں تک نبی مبارکؐ کی متعدد شادیوں کا تعلق ہے، وہ یقینا جنسی لذت کے لئے نہیں تھیں۔ آپ نے تب تک نکاح نہیں کیا جب تک کہ آپؐ پچیس برس کے نہیں ہو گئے اور پھر اس تمام عمر میں جب مردانہ جنسی جذبات سب سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ، آپؐ نے صرف ایک بیوی کے ساتھ رہائش اختیار کی جو آپؐ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ مزید یہ کہ آپؐ کی بعد کی شادیاں عام طور پر سیاسی اور معاشرتی وجوہات کی بناء پر ہوئیں۔ یہ شادیاں عرب کے مختلف قبائل کو اسلام کے دائرے میں لانے اور اس علاقے کو متحد کرنے کا ذریعہ تھیں جو اسلام کے لئے مرکزی سرزمین کا کام کرنے والی تھی۔ اگر نبی بابرکتؐ نے صرف جنسی لذت کے لئے شادیوں کا معاہدہ کیا ہوتا، جیسا کہ بہت سارے مغربی سوانح نگار لکھتے رہے ہیں تو یقینا آپ نے یہ نکاح تب کیے ہوتے جب آپؐ خود جوان تھے اور جب مردانہ جنسی جذبات شباب پر ہوتے ہیں اور اپنی تمام بیویاں نوجوان عورتوں میں سے منتخب کرتے۔لیکن آپؐ کی سیرت کا مطالعہ بہت ہی مختلف حقائق کو ظاہر کرتا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق اگر مسلمان ان سب کے ساتھ منصفانہ سلوک کر سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اس کے ذرائع ہیں تو انہیں چار بیویوں تک شادی کرنے کی اجازت ہے۔لیکن نبی کریمؐ کو چار سے زیادہ کی اجازت دی گئی تھی اور آپؐ کی نو بیویاں تھیں۔ یہ ایک خاص سعادت تھی جو خدا نے اپنے آخری نبیؐ کو عطا کی تھی۔ یہ آپؐ کی زندگی کا ایک خاص پہلو ہے جس کے بہت سے معنی ہیں۔ اس کے سیاسی اور معاشرتی مضمرات ہیں وہ یہ کہ رسول اکرمؐ کے پیش نظرقبیلوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلامی برادری میں ضم کرنا تھا۔اس کے علاوہ اس خصوصی اجازت کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگرچہ رسولِ مبارکؐ دوسرے مردوں کی طرح ایک بشر ہیں، لیکن آپ کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ خدا کی نظر میں آپؐ ایک خاص شخصیت ہیں ۔ آپؐ کوئی اوتار یا مافوق الفطرت وجود نہیں ہیں بلکہ اپنے ہی قول کے مطابق ایک بشر ہیں، ”میں تم جیسا ہی بشر ہوں۔” عربی کی مشہور نظم کے مطابق، ” انسانوں میں محمدؐ کی مثال پتھروں میں ایک ہیرے کی ہے۔” ”ہیرے” اور ”پتھر” کے مابین یہ فرق خدا کی طرف سے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے خصوصی استحقاق سے ظاہر ہوتا ہے جس میںآپ کو اس قید سے زیادہ تعداد میں نکاح کرنے کی اجازت تھی جس کا اسلامی قانون دوسرے تمام مسلمان مردوں کو پابند کرتا ہے۔ لیکن یقینا ” استحقاق ”کا مطلب بھی ذمہ داری ہی ہے جیسا کہ مغربی کہاوت ‘nobless oblige’ عکاسی کرتی ہے۔ نبی مبارکؐ نے ایسی ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا جو غیر معمولی طور پر ہنر مند انسان کے لئے بھی ناممکن تھا۔ یہ ”استحقاق” انسانی طور پر بھی آپؐ کے غیر معمولی ہونے کی علامت تھا،نہ صرف استحقاق کے نقطہ نظر سے بلکہ ذمہ داری کے اعتبار سے بھی کیوں کہ شادی جہاں خوشی و مسرت کا ذریعہ ہے وہیں ذمہ داری اور مشقت بھی۔
نزول وحی سے قبل پیغمبر اسلام نہ صرف خدیجہؓ کے امور تجارت میں مصروف رہے، بلکہ مکی برادری کی سرگرمیوں میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیتے رہے۔ آہستہ آہستہ آپؐ معروف ہوتے گئے اور مکی معاشرے کے ایک ممتاز رکن کی حیثیت سے آپ کا قد بڑھتا رہا۔ ایسا شخص جو اپنی صلاحیت ، ایمانداری و انصاف پسندی کے لحاظ سے قابل احترام تھا۔ آپؐ کے معزز منصب کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپؐ کی عمر پینتیس سال تھی، تو مکہ کے لوگوں نے دوبارہ تعمیر ہو رہے کعبہ کے مقدس پتھر کو اٹھانے کے لئے آپؐ کو منتخب کیا۔ اگر آپؐ کسی خاص قبیلے کے رکن سے یہ پتھر اٹھانے میں مدد کے لئے کہتے تو دوسرے قبائل اس پر اعتراض کرتے اور مختلف قبائل کے مابین تنازعات پیدا ہوجاتے۔ یہ اس شخص کی دانشمندی اور سیاسی عبقریت تھی جس پرقرآن مجید کو جلد ہی نازل کیا جانا تھا، کہ آپؐ نے پتھر کوچادرمیں رکھا اور تمام قبیلوں کے ارکان سے اس چادر کو اٹھانے کے لئے کہا ۔ اس طرح سارے قبیلوں نے مقدس پتھر کو اپنی جگہ رکھنے کے اس اعزاز میں حصہ لے لیا۔