محمد ﷺ مرد ربانی

ایڈمن

آخری قسطمصنف: سید حسین نصرمترجم: اسامہ حمیدآپﷺ کی سنت اور حدیثآپؐ کی وفات سے قبل رسول مبارکؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کے جانے کے بعد آپ کو کس طرح یاد رکھا جائے ۔ آپؐ نے جواب دیا قرآن مجید…

آخری قسط

مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید

آپﷺ کی سنت اور حدیث

آپؐ کی وفات سے قبل رسول مبارکؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کے جانے کے بعد آپ کو کس طرح یاد رکھا جائے ۔ آپؐ نے جواب دیا قرآن مجید کے ذریعہ جس کی تلاوت آپؐ کی امت کے درمیان آپؐ کی موجودگی برقرار رکھے گی۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ اپنے پیچھے قرآن مجید اور اپنے اہل خانہ (اہل بیت) کو چھوڑ رہے ہیں۔ در اصل نبی پاکؐ نے نہ صرف کتاب اللہ اور اہل بیت کو چھوڑ ا، جسے حیاتیاتی اور روحانی دونوں طور پر سمجھنا ضروری ہے، بلکہ آپؐ کے ورثہ میں آپ کی سنت و حدیث بھی شامل ہے جن کا پہلی دونوں چیزوں سے گہرا تعلق ہے۔ نبی بابرکتؐ نے مختلف حالات میں برتاؤ اور عمل کرنے کی مثالوں کا ایک وسیع خزانہ چھوڑا ہے جسے آپ کی سنت کہا جاتا ہے اور آپ کے اقوال حدیث کہلاتے ہیں، شیعہ اسلام کی روایات میں اہل بیت کے قائدین ائمہ کے اقوال بھی حدیث میں شامل ہیں۔
نبی کریم ؐ کی سنت و حدیث قرآن مجید کی تکمیل اور کتاب اللہ کی تفسیر ہے۔ ان کے بغیر نہ کتاب اللہ کو ٹھیک سے سمجھ پانا ممکن ہے اور نہ ہی قرآن کریم میں مذکور اسلام کی بنیادی ارکان پر عمل ۔ بلکہ اس سے صرف ان کے اصول اور عمومی خاکہ کو جانا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر روزانہ کی نماز کے معاملہ میں مقدس متن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ انہیں ادا کریں ، لیکن نمازوں کی تفصیلات سنت رسولؐ ہی پر مبنی ہیں۔ روزہ، حج اور اسی طرح دوسرے ارکان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب اللہ کے ساتھ سنت و حدیث اسلام کے بنیادی ستون اور الٰہی قانون ہیں ، انتہائی قیمتی سمجھے جاتے ہیں اور بڑے جوش و خروش سے ان کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ حدیث کے خلاف جدید اسکالروں کا حملہ گھاتک ہے۔ جن میں تاریخ دانی کے پر فریب دعووں سے مسحور کچھ مسلمان بھی شامل ہیں۔یہ حملہ در اصل اسلامی روایت کی بنیاد پر ہے۔
چودہ صدیوں تک نسل در نسل مسلمانوں کے ذریعہ روایتی طور پر سمجھی اور تقلید کی گئی سنت نبویؐ بانی اسلام کی بیش قیمتی وراثت ہے اورجدیدیت پسندوں اور مادہ پرستوں کی قیاسی طور پر تمام علمی و سائنسی لیکن اصلا ناقص و معمولی نکتہ چینی کے باوجود ناقابل شکست ہے۔ سنت کی مختلف جہتیں اور پہلو ، ناخن کاٹنے کے طریقے سے لے کر عبادت میں خدا کے سامنے حاضری تک تمام زندگی کو سمیٹے ہوئے ہیں ۔ اس میں سے کچھ عرب رواج تھے جو رسول اکرمؐ کے ذریعہ اپنا لینے سے اسلامی ہو گئے ہیں، کیوں کہ اصول یہ ہے کہ نبی یا رسول ، خاص طور پر ایک اعلی مرطبت رسول جو کچھ بھی کرتا اور کہتا ہے وہ بات یا عمل اپنے اصل تاریخی لمحے اور ثقافتی تناظر سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ سنت کے کچھ عناصر زیادہ براہ راست طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے ساتھ اور اس کے علاوہ مزید کچھ سنتیں اسلامی روایت کی مخصوص شکل اور جوہر سے وابستہ ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ سنتیں آفاقی ہیں جن کی پابندی اسلامی عقیدے کی ہیئت سالمہ کو برقرار رکھنے کے لئے تمام حالات و اوقات میں کی جانی لازم ہیںاور کچھ کم ضروری چھوٹی سنتیں ہیں جو یقینا یکساں احترام کی حامل ہیں لیکن جن کی نویت آفاقی نہیں ہے۔تاریخ میں پوری دنیا کے مختلف گوشوں میں اور مختلف اقوام کے درمیان اسلام کا پھیلاؤ ممکن ہونا خود اس امتیاز کا ثبوت ہے۔ آفاقی و لازمی سنتیں اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہر جگہ گئیں اور قائم ہوئیں لیکن کچھ دوسری تجویز کردہ غیر لازمی سنتوں پر عمل حالات کے اعتبار سے مشکل اور ناممکن ہوا۔ یہ بات جدید دنیا اور ان مسلمانوں کے معاملے میں خاص طور پر سچ ہے جو ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو نہ تو مکمل طور پر مسلم ہے اور نہ ہی خدا کے بھیجے گئے مذاہب میں سے کسی ایک کے مطابق بھی مذہبی ہے۔
جہاں تک حدیث کی بات ہے ، اس میں بھی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لئے حکمت کا ایک سمندر موجود ہے۔ صحابہ نے اسے حفظ کیا اور اگلی نسلوں تک منتقل کیا ، نہایت عقیدت مند علماء ،سنی اور شیعہ دونوں کی نسلوں نے اس کی جانچ پڑتال کی اور بغور جائزہ لیا ، ان علماء نے غیر مستند اقوال کو نبوی روایات میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ہر ممکن ذرائع کا استعمال کیا اور کچھ جدید نقادوں کے دعوے کے برخلاف یہ علماء درحقیقت دنیا کے آخری افراد ہو سکتے تھے جنہوں نے جعلی حدیث گڑھی ہو۔ ان کی ناقابل یقین قابلیت اور علم و فضل کا نتیجہ حدیث کے وہ مجموعے ہیں جنہیں ملت اسلامی صدیوں سے قبول کرتی رہی ہے، ان میں چھ کتابیں سنیوں میں مروجہ ہیں اور ”چھ درست کتب” (الصحاح الستہ) کہلاتی ہیں اور چار اسنا ء اشعری شیعہ فرقہ کی ہیں ، جنہیں ”الکتب الارباب” کہا جاتا ہے۔ ان دونوں سلسوں میں اگرچہ اصل اقوال بہت مماثل ہیں، لیکن ترسیل روایت کی زنجیریں دونوں میں قدر مختلف ہیں۔ یہ حقیقت خود علماء حدیث کے طریقہ کار کی درستی اور ان کے کام کے مستند ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ نیز چار شیعہ کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کے ساتھ اس فرقہ کے بارہ اماموں کے اقوال مبارک بھی درج ہیں۔ مزیددونوں ہی سلسلوں میں احادیث کو صحیح، نسبتا صحیح، ضعیف، مشتبہ اور مکمل طور پر جعلی اقوال میں تقسیم کیا گیا ہے اور توثیق اور تجزیہ کے وسیع طریقہ تیار کیے گئے ہیں جس نے مطالعہ حدیث سے وابستہ مضمون کو علوم اسلامیہ کی ایک مشکل شاخ بنا دیا ہے۔
حدیث، سنت کی طرح ایک وسیع میدان کو سمیٹے ہوئے ہے اور اس میں انسانی وجود کا ہر پہلو شامل ہے۔ کچھ خدا کی ذات و صفات اور اس کی عبادت سے وابستہ ہیںاور کچھ روز مرہ کی زندگی سے۔ ان میں اخلاقیات، معاشرتی و معاشی زندگی، علم و تعلیم، فطرت عالم، معاد و آخرت اور روحانی زندگی شامل ہیں۔ حدیث میں اس طرح کی روایات جو خدا کی فطرت کے بارے میں ہے ، جیسے ”خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی سے پیار کرتا ہے” ، سے لے کر مزدوروں کے تعلق سے روایات جیسے ، ” مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ادا کر دو” تک شامل ہیں۔ مطالعات اور انسانی زندگی برتنے کے لئے حدیث ایک لازوال خزانہ ہے۔یہ ایک ہی وقت قرآن پاک کی تفسیر بھی ہے اور اس شخص کے قلب و روح کا آئینہ بھی جو خدا کے کلام کو انسانیت تک پہنچانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ در حقیقت یہ تحریری و زبانی، کتابوں میں درج ، مردوں اور عورتوں کے دلوں، ان کی روحوں پر کندہ حدیث و سنت ہی ہے جس نے مسلمانوں کو صدیوں سے رسول بابرکتؐ کی تقلید اور اسلام کی مشعل کو زندہ رکھنے کے قابل بنایا ہے۔ لیکن سنت و حدیث تاریخ کا صرف ایک ورثہ نہیں ہے۔ وہ اس شخص کے ساتھ وابستہ ہیں جو ”زندہ” ہے اور ابھی اور یہاں موجود ہے ۔جو آج بھی تمام مسلمانوں کے دلوں میں ایسا ہی محترم اور محبوب ہے جیسا کہ وہ چودہ صدیوں پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ذریعہ آپؐ کی سیرت کی تعلیم ہر جگہ دی جاتی ہے اور اس کی تقلید کی جاتی ہے، آپؐ کی تعریف بیان کی جاتی ہے ، آپؐ پر اور آپؐ کے اہل خانہ پر ، جو صدیوں سے ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان روشن روحوں کی نگاہ کا ثمر ہیں جنہوں نے نبی مبارکؐ کی پیروی کی، آپ کی قربت و شفقت اور آپ کی بعید از تاریخی حقائق سے فیض یاب ہوئے ،ان پر عبادات و دعاؤں میں درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔ اس قربت و شفقت سے وہ صلوٰۃ اور دعائیں جا ری ہوتی ہیں جس کے ذریعہ مسلما ن رسول اللہ کے لئے محبت و احترام کا اظہار کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں جو اس دنیا میں ان کا رہنماء ہے اور آنے والی دنیا میں ان کی شفاعت کرنے والا ہوگا۔
بے شک جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین انجام تک پہنچانے والا ہے۔ (قرآن،28:85)
اے ہمارے پروردگار، ہمیں اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔ (قرآن،18:10)
بیشک خدا اور اس کے فرشتے نبی ؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو،تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ (قرآن،33:56)
اے اللہ، ہمارے آقا اور تیرے بندے، تیرے رسول، نبی الامی محمد ؐ پر اوران کے اہل خانہ اور ان کے ساتھیوں پر تیری صلوٰت ، تیری سلامتی، تیری رحمت اور تیری برکات نازل فرما۔
پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔اور سلام ہے مرسلین پر، اور ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے۔ (قرآن، 37:180-180)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں