محبوب تنظیم  سے فراق

عبید اللہ عامر
مارچ 2025

اس سال اپنی  پیاری تنظیم سے میری رخصتی ہے ۔ “در حقیقت یہ میری محبوبہ سے فراق کا سال ہے” یہ بات لکھنا جتنا آسان ہے اس سے کہیں زیادہ اذیت ناک بھی ہے۔

اس دنیا میں انسان کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ انسان اپنے حقیقی خالق و مالک کو پہچان کر اس کے حقوق کی ادائیگی  کرتے ہوئے  زندگی بسر کرے اور اسے ایسا گروہ میسر آئے جو اس کام کے لیے اس کے اندر قوت و صلاحیت، عزم اور استعداد پیدا کرے اور اس کے لیے معاون و مددگار ہو۔  یہ نعمتیں جس انسان کو حاصل ہوں اس سے بڑھ کر کسی خوش نصیب اور کامیاب انسان کا ہم تصور نہیں کر سکتے۔

الحمدللہ یہ نعمتیں مجھے بچپن سے ہی حاصل رہیں ۔ گھر جو میرا سب سے پہلا مدرسہ تھا، اسی سے مجھے ایک خدا کا تعارف حاصل ہوا۔ محلہ اور اسکول میں مجھے جےاےسی اور ایس آئی او سے واقفیت حاصل ہوئی۔  کچھ وقت بعد ہی  جےاےسی سے وابستگی کا شرف نصیب ہوا۔چند سالوں کے بعد ایس آئی او کے پروگراموں  میں شرکت کی ابتداء  ہوئی اور الحمدللہ 2013 ء میں میری ایس آئی او کی رکنیت منظور ہوئی۔  اور اب مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے میں 2024ء  کے آخر میں پہنچ چکا ہوں جو میری تنظیمی زندگی کا آخری سال ہے۔

اس سال اپنی  پیاری تنظیم سے میری رخصتی ہے ۔ “در حقیقت یہ میری محبوبہ سے فراق کا سال ہے” یہ بات لکھنا جتنا آسان ہے اس سے کہیں زیادہ اذیت ناک بھی ہے۔  میرے لیے تو اس کیفیت سے گزرنا دل کو چیر دینے سے کم نہیں ہے۔ میں اس موقع پر خود کو یا آپ کو اشکبار  نہیں کرنا چاہتا ،میری معروضات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ  جن لوگوں کو اس تنظیم کی صورت میں ایک  نعمت ملی ہے وہ اس کی قدر کریں اور اس کا حق ادا کریں۔  کیونکہ عام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ جب ہمیں کوئی نعمت ملی ہوئی ہوتی ہے تو ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور  پھر جب وہ ہم سے دور ہو جاتی ہے تو سوائے ملال کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا ہم اپنی تنظیم کے ساتھ ایسا ناروا رویہ اختیار نہ کریں۔ 

اکثر یہ دو سوال ہمارے سامنے آتے ہیں کہ میں نے تنظیم کو کیا دیا؟ اور تنظیم نے مجھے کیا دیا؟ میں نے تنظیم کو کیا دیا یہ تو مجھے میرا خدا بتائے گا  آج میں آ پ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری تنظیم نے مجھے کیا دیا، جس میں ہمارے تنظیمی ساتھیوں کے لیے کچھ پیغام اور اسباق ہیں۔

مقصد زندگی :  آج کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے ناآشنا ہے،  اس کو نہیں  معلوم کہ  پیدا کرنے والے نے مجھے پیدا کیوں کیا  ہے اور مجھے اس دنیا میں کرنا کیا ہے ۔یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں میں الجھنیں، بے چینی، مایوسی، بے راہ روی اور فکری و اخلاقی بگاڑ پایا جاتا ہے۔ الحمدللہ ایس آئی او سے وابستگی کے بعد ایسا کوئی سنگین مسئلہ پیش نہیں آیا کیونکہ ایس آئی اواپنے افراد کو خدا اور اس کی مرضی سے متعارف کراتی ہے اور انہیں ان کے مقصد زندگی سے آگاہ کرتی ہے ۔ایس آئی اوانہیں ایک مثالی سماج کا خواب دکھاتی اور اس کے لیے تیار کرتی ہے، ان کو کرنے کا مکمل پروگرام دیتی ہے۔ ایس آئی اواپنے افراد کے اندر پختہ اور معتدل فکر، امنگیں اور عزائم پیدا کرتی ہے،  وہ اپنے افراد کو ناامید یا مرعوب ہونے نہیں دیتی، وہ اپنے افراد کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے یا جذباتی ہونے نہیں دیتی۔ پس ایس آئی اواپنے افراد کے اندر وہ نور پیدا کرتی ہے جس سے وہ سوچ سمجھ کر پورے اطمینان کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر سکتے ہیں۔

سیرت و کردار:  اس وقت طلبہ اور نوجوانوں کی اخلاقی صورتحال کیا ہے اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ چاہے وہ ان کے خیالات ہوں، جذبات ہوں، بول چال ہو، عفت و عصمت ہو، تعلقات ہوں، معاملات ہوں، خلوت ہو یا اجتماعی زندگی غرض  ہر پہلو سے وہ اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور جب پورا تعلیمی نظام اور پورا سماج سیرت و کردار کے بحران میں مبتلا ہو تو ایسے میں اپنےآپ کو اس سیلاب سے بچانا اور اپنی زندگی کو اخلاقی اقدار پر گامزن رکھنا تنہا سیاہ شب جنگل میں سفر کرنے سے کم نہیں۔  ایسے تاریک دور میں ایس آئی او طلبہ اور نوجوانوں کو اعلیٰ اخلاقی معیار پر زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتی ہےاور   صرف دعوت نہیں  دیتی بلکہ  ان کی فکر اور کردارسازی کا مکمل پروگرام بھی دیتی ہے ۔ان کی تعلیم و تربیت اور احتساب و اصلاح کا ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جس سے وہ بآسانی اپنےآپ کو بنانے، سنوارنے اور درجہ کمال پر پہنچانے کا سفر طے کر سکتے ہیں۔ میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھ پر اللہ کافضل نہ ہوا ہوتا اور میں ایس آئی اوسے وابستہ نہ ہوا ہوتا تو میں بھی بے راہ روی کی زندگی بسر کر رہا ہوتا اور نہ جانے کہاں کہاں ملوث ہوتا الحمدللہ ثم الحمد للہ۔

 

محبت و اخوت :  محبت و اخوت دنیا کی عظیم ترین نعمت ہے، یہ کامیابی کی ضمانت ہے ،اس کے بغیر کوئی اجتماعیت نا صحت مند اور مضبوط ہو سکتی ہے نا ہی اپنے مقصد کا حصول کر سکتی ہے۔ لیکن یہ نعمت نا عہدے اور منصب سے حاصل ہوتی ہے نا مال و دولت سے اور نا فقط  علم و ہنر سے ۔یہ خالص اللہ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے۔  میں پورے شرح صدر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس تنظیم کی بدولت مجھے اس عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اس تنظیم کی سب سے بہترین بات یہ ہے کہ یہاں ہمارا کوئی خونی یا خاندانی رشتہ نہیں ہوتا، یہاں اجتماعیت ذاتی اغراض یا دنیوی مفاد کی بنا پر وجود میں نہیں آتی بلکہ محض اللہ  تعالیٰ کی رضا کی بنا پر سچی محبت پائی جاتی ہے،  ایسی محبت کہ جس میں خلوص، خیرخواہی، غم گساری اور والہانہ تعاون (صرف تنظیمی زندگی ہی میں نہیں بلکہ ذاتی، گھریلو، تعلیمی اور معاشی زندگی میں بھی) پایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ دورے کے موقع پر ایک عزیز نے مجھ سے کہا کہ”آپ ہمارے یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں اور آپ ہمیں انصار کی طرح پائیں گے”۔

اہلیت و استعداد:  اس دنیا میں کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے اس کام کی اہلیت و استعداد ناگزیر ہوتی ہے۔ کسی مقصد کے لیے ہزاروں لاکھوں لوگ جمع ہو جائیں لیکن وہ قابلیتوں اور صلاحیتوں سے خالی ہوں تو ان کا اپنے مقصد کو حاصل کرنا تو درکنار مقصد کی جانب آگے بڑھنے کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔  ایس آئی اوجہاں ایک طرف طلبہ اور نوجوانوں کو زندگی کا ایک مقصد دیتی ہے وہیں دوسری طرف اس مقصد کے لیے جو قوتیں اور صلاحیتیں درکار ہیں وہ بھی ان کے اندر پیدا کرتی ہے ۔ایس آئی اوکا ماننا ہے کہ سماج جو کئی مختلف اداروں اور شعبوں کا مجموعہ ہے اس میں تبدیلی تبھی آ سکتی ہے جب تمام شعبوں کے ماہرین ہمارے پاس موجود ہوں، خواہ وہ انفرادی ،اجتماعی ، نفسیاتی ، روحانی ،تصنیفی ،تحقیقی ،صحافتی ، رابطہ عامہ، خاندانی، تعلیمی، معاشی، سیاسی یا ریاستی شعبہ ہو ۔ آج میں فخر سے یہ بات کہہ  سکتا ہوں کہ میں ایس آئی اوکا ادنی ٰسا ایک فرد ہوں اور میں آج جو کچھ بھی ہوں اس میں ایس آئی اوکا بہت غیر معمولی کردار رہا ہے الحمدللہ۔

فلاح دو عالم : دنیا میں کچھ تنظیمیں اور جماعتیں  ایسی ہوتی ہیں جو صرف انسان کی پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کے امور پر بات کرتی ہیں، جو صرف روحانی اور اخروی کامیابی کی بات کرتی ہیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جو صرف دنیا کے معاملات اور دنیا کی کامرانی کی بات کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک راستہ انسان کو رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا راستہ دنیا پرستی کی طرف۔  پہلے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے اور دوسرے انسانوں کے حقوق کو پامال کر دیتا ہے،اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس میں انسانی اور سماجی مسائل سے ادنی سی دلچسپی باقی نہیں رہ جاتی۔  دوسری فکرکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے نفس اور دنیا کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ ان دونوں میں نقطۂ اعتدال نہیں پایا جاتا۔ ایس آئی اوجو ایک اسلامی تنظیم ہے ،کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ہو یا آخرت ،انسان کی کامیابی کے لیے دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔کسی ایک کو نظر انداز کر کے انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔مثال کے طور پر کسی کشتی کے پاس سمندر ہو پر منزل نہ ہو تو وہ سمندر میں ہی بھٹکتی رہے گی اور کسی کشتی کے پاس منزل ہو پر سمندر نہ ہو تو وہ منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ایس آئی اوطلبہ اور نوجوانوں کو دونو ں جہانوں کی کامیابی کی دعوت دیتی ہے۔

 

(مضمون نگار ، ایس آئی او مدھیہ پردیش ایسٹ زون کے صدر حلقہ کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔)

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں