محمد ارشاد ایوبی ،پوسد
اسلام ایک فطری اور آفاقی دین ہے۔ قدرت کے فطری قوانین کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے ماننے والوں نے ہردورمیں دین کی اشاعت و سربلندی میں حصہ لیا۔ قرون اول میں اس کی کیفیت مقام کمال کو تھی اور وقت کے دھارے کے ساتھ اس کے ماننے والوں اور اس کے لئے جہدوپیہم کرنے والوں کی کیفیات میں بھی تبدیلیاںرونما ہوئیں۔ فطرت کا سب سے اہم عنصر جو ہر دور میں داعیان حق اور پیغمبران قوم کا وصف رہی ہے وہ ہے محبت و الفت۔ اسی محبت کے ہتھیار نے ان قوموں کو آسانی سے زیر کردیا جو تلوار اور نفرت کی زبان ہی سمجھتی تھی۔ ان اقوام کو شیروشکرکردیاجو صدیوں آپس میں دست و پا ہوتی رہی تھیں۔ محبت نے نہ صرف دلوں کو مسخر کیا بلکے سماج کے تعمیر نو کی بنیاد ہی محبت پررکھی گئی۔ محبت کی یہ صفت نبی محمدؐ سے صحابہ میں منتقل ہوئی اور صحابہ سے بعد کے داعیان اسلام میں۔ یہ محبت ہی تھی جس نے اسلام کے سپاہیوں کو بنیان مر صوص بنادیا کہ جس سے ٹکراکر قیصروکسریـــ اپنی سلطنتوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
یہ محبت ہی تھی جس کی بنا پر معاویہؓ کو علیؓ سے اختلاف کے باوجود جب دشمن نے امداد کا پیغام بھیجا تو معاویہؓ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ علیؓ کی جانب کوئی آنکھ بھی اٹھا تا ہے تو ان کی جانب سے لڑنے والا پہلا سپاہی معاویہؓ ہوگا۔ آیئے دور محمدیؐ میں محبت کے اس کارواں کے چند مناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ اللہ کے نبی ؐبازار سے گزررہے تھے۔ راستے میں ایک صحابی رسول ؓ اپنی تجارت کا سامان فروخت کررہے تھے۔ یہ وہ صحابی تھے جو عرب کے ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور معاشی اعتبار سے کمزور ہونے کی بنا پر معاشرہ میں بہت زیادہ اثر والے نہ سمجھے جاتے تھے۔ محبت کے پیکر محمدؐ نے جب انھیں دیکھا تو پیچھے سے بازئوں سے پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ اس غلام کو کون خریدے گا۔ پہلے تو وہ صحابی رسولؐچونک گئے اور احساس ہوتے ہی کہنے لگے کہ اس غلام کو خرید نے کا کوئی فائدہ نہیں اوردیر تک اپنے جسم کو نبی ؐ کے جسم سے چمٹا ئے رکھا ۔ پیکر جمیلؐ کا معاشرہ کے کمزور طبقات کے ساتھ محبت سے لبریز ایسا والہانہ تعلق ہی تھا جس نے تحریک اسلامی کو مستحکم اور تیز گام بنایا ۔نبی ؐ محترم کی اس والہانہ قلبی محبت ہی کی وجہ سے تحریک اسلامی کے ہر فرد کو یہ محسوس ہوتا کہ آپؐ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
محبت ،داعیان دین میں جب اپنے عروج کو پہنچتی ہے تو تاریخ کے دامن میں ایسے نقوش بھی چھوڑ جاتی ہے جو رہتی دنیا تک خادمین دین کیلئے نمونہ بن جائیں۔ ایسے ہی ایک منظر سے آپ کو ملاتا چلوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کودربارخلافت میں حاضری کا حکم موصول ہوتا ہے۔ پیغام ملتے ہی سعدؓ اپنی کل جمع پونجی لئے دارالخلافہ کے لئے روانہ ہوجاتے ہی۔ دارالخلافہ میں ان کی حاضری سے قبل عمر ؓ ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں تاکہ سعدؓ کی چال ڈھال اور ساتھ موجود سامان کو دیکھ کر آپ کی کیفیت کا اند ازہ کیا جائے اور آپؓ کا احتساب لیا جائے۔ سعدؓ سادہ لباس میں ،وہی گھوڑا ، اور وہی اندازِ بے نیازی لئے دربار خلافت میںداخل ہوتے ہیں۔ حضرت عمرؓ د یوار کی اوٹ سے نکل کر حضرت سعد ؓ کو سلام کرتے ہوئے والہانہ انداز میں بغلگیر ہوتے ہیں اور آپؓ کی اس شان کو دیکھ کر بے اختیار یہ الفاظ کہتے ہیں کہ ’’ اے سعد تم میرے بھائی ہو‘‘۔ رب کی رضا ء کی خاطر کی جانے ولی محبت فرشتوں سے بھی اپنے حق میں دعا کرواتی ہے۔ یہ محبت جب رزم حق و با طل کے معرکہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے تو شہداء کو مزید مراتب عطا کرتی ہے۔
ایک معرکہ کے موقع پر ایک صحابیٔ رسول ؐزخمی ہوکر گر پڑے اور ان کی صداکوسن کر کو ئی پانی لئے دوڑاچلا آیا۔ پانی کا مشکیزہ منہ کے قریب ہی پہنچا تو قریب سے پانی مانگنے کی آواز آئی۔ ان صحابیٔ رسول ؐنے پانی کا مشکیزہ روک دیا اور اس آواز کی طرف اشارہ کرکے اپنے اس ساتھی کو پانی پلانے کے لئے کہا۔ پانی والا فرد پانی کا مشکیزہ لئے اس آواز دینے والے فرد کی جانب بڑھا تبھی اس سے قریب ایک زخمی صحابی زخموں سے کرراہتے ہوئے پانی کے لئے آواز لگا نے لگے۔ دوسر ے زخمی رفیق نے بھی اپنی ذات پر اپنے بھائی کو فوقیت دی۔ پانی پلانے والا فرد جب تیسرے زخمی کے پاس پہنچا تو اس کی روح مالک حقیقی سے جا ملی تھی۔ پھر وہ فرد پہلے دو زخمیوں کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان اشخاص نے بھی جام شہادت نوش فرما لی ہے۔ محبت کی ایسی مثال شاید دنیا کبھی نہ دیکھ پائے کہ خود مرنا گوارہ کیا لیکن اپنے بھائی سے پہلے پانی پینا گوارہ نہ کیا۔ تاریخ کی کتابوںمیں محبتوں کے اس کارواںنےجونقوش قائم کئےہیںوہ اس سےپہلےدیکھنےکونہیںملتے۔ اللہ کے نبیؐ کے عزیز رفیق اور پہلے امیر المو منین حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے محبتوں کے کاروانِ حق کو اپنی زندگی سے مزید روشن کیا۔ آپؓ کی زندگی کا صرف ایک واقعہ آپ کو سناتا چلوں۔ ہجرت کے موقع پر جب آپؓخاتم النبیؐ کے ساتھ غارمیں تھے اس وقت اللہ کے نبیؐکی آنکھ لگ گئی۔ آپ کا سرمبارک صدیق اکبر کے زانوں پر رکھا تھا۔ غار میں موجود سراخوں کو اپنی چادر سے بند کرنے کے باوجود ایک سراخ کھلا رہ گیا۔ آپ ؓ نے سوراخ پر اپنا پیر رکھ دیا تاکہ کوئی موزی جانور اللہ کے نبی ؐ کو تکلیف نہ پہنچائے۔ سوئے اتفاق کہ اسی سوراخ میں موجود ایک سانپ ابوبکرؓ کو کاٹ لیتا ہے۔ اللہ کے نبیؐکی آنکھ نہ کھلے اس غرض سے آ پ ؓ اپنی تکلیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن یہ گوارہ نہیں کرتے کے اللہ کے نبیؐکی آنکھ بھی کھلنے پائے۔ تکلیف کی زیادتی پر آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں جو آپؐ کے چہرہ مبارک پر پڑتے ہیں اور آپ ؐ آنسووں کا لمس پاکر بیدار ہوجاتے ہیں۔ تاریخ کے دامن میں ایسے بے شمار نقوش ہیں جن سے جِلاپاکرمحبتوں کارواں جہد وعزیمت کی بے شمار داستانیں رقم کرتا ہوا بڑھتا دیکھائی دیتا ہے۔
اپنی حیات کے ابتدائی دور سے اب تک اور آگے چل کر روز آخرتک دین کا یہ کارواں صحیح معنوں میں محبت کا کارواں بن کر ہی اپنی منزل مقصود کو پہنچے گا اور تاریخ میں مزید ایسے واقعات رقم ہوتے رہیں گے جن کی بنیاد صرف اورصرف محبت پر قائم ہوگی۔ دراصل محبت کے ان پیکروں کے مطالق ہی اللہ کے نبیؐ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’جو میری عظمت کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں ان کے لئے آخرت میں نور کے منبر ہوں گے اور انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے۔‘‘ (ترمذی:۴۳۶) اور ایسے ہی افراد کے لیے میدان حشر میں عرش الہی کا سایہ ہوگا کہ جن کی محبتیں صرف اﷲتعالی کے لیے تھیں۔ محبت والفت کا ظہور مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ جیسے اپنے بھائی کی مدد کرنا ،اس کی کسی غلطی پر عفو ودرگزر سے کام لینا،اس کے جان ومال کی حفاظت کرنا،اسے خود پر فوقیت دینا،اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا،اس کی اصلاح کرنا،اور اس کے لیے دنیا کی ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہنا وغیرہ۔ اللہ رب العزت ہمارے قلوب کو آپس میں جوڑدے اور روز محشر ہمیں عرش کا سایہ عطاکرے۔