مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی: اِشکالات و تجاویز

ایڈمن

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک سال مخالف سیاسی جماعتوں کے احتجاجی نعروں اور بیانات کے ساتھ مکمل ہوگیا۔ اس حکومت میں فروغ انسانی وسائل (HRD) کی وزارت نے جنوری 2015 میں ملک کے لیے نئی تعلیمی پالیسی…

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک سال مخالف سیاسی جماعتوں کے احتجاجی نعروں اور بیانات کے ساتھ مکمل ہوگیا۔ اس حکومت میں فروغ انسانی وسائل (HRD) کی وزارت نے جنوری 2015 میں ملک کے لیے نئی تعلیمی پالیسی تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ فروغ انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی نے مرکزی وریاستی وزراء کے علاوہ شعبہ تعلیم سے وابستہ اہم شخصیات کے مشورے سے 33؍ موضوعات (themes) کی شناخت کرتے ہوئے مجوزہ تعلیمی پالیسی کے اہداف مقرر کیے۔ ان موضوعات میں 13؍ کا تعلق اسکول کی تعلیم اور 20؍ موضوعات کا تعلق اعلیٰ تعلیم سے ہے۔ اس مجوزہ تعلیمی پالیسی کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے اہل نظر عوام کو جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے اور عوام کے ردعمل و مشورے بھی طلب کیے گئے ہیں۔
اس مجوزہ تعلیمی پالیسی پر ملّی رہنماؤں اور دانشوروں کا ردعمل دانشورانہ سے زیادہ جذباتی محسوس ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ نئی تعلیمی پالیسی ’مخصوص نظریات‘ کی حامل ہوگی۔ خاص طور سے ’زبان کے توسط سے تہذیبی و ثقافتی یک جہتی کے فروغ‘ پر اردو اخبارات میں شائع بیشتر مضامین محض خدشات کے عکاس ہیں۔ ان میں ’مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی‘ کے علمی تجزیے کا فقدان نظر آتا ہے۔ اسکول اور اعلیٰ تعلیم کی سطح پر ان 33؍ موضوعات میں کتنے تضاد اور کمزور پہلو ہیں، ان پر علمی بحث نہیں کی جارہی ہے۔ اس کے برعکس ملک کے دیگر سماجی اور فرقہ ورانہ مسائل کو ’مجوزہ تعلیمی پالیسی‘ سے جوڑ.ے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک و ملت کے دیگر مسائل بجا طور سے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان مسائل کی سنگینی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہر بات کا موقع ومحل ہوتا ہے۔ تعلیمی پالیسی کا راست تعلق سماج اور ملک کے وقار اور ترقی سے ہے۔ اس موقع پر حکومت کے سامنے سنجیدگی سے ایسی تجاویز رکھنی چاہئیں جن سے ملک کا تعلیمی اعتبار اور وقار بحال ہوجائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اگرچہ ’مخصوص نظریات‘ کے حامل ہیں لیکن بیرون ممالک میں ان کے تازہ روابط سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ ہر ممکن طریقے سے قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ’مخصوص نظریات‘ کا دباؤ اسمرتی ایرانی سے زیادہ نریندر مودی پر ہے لیکن ان کی یہی خواہش ہوگی کہ وہ ملک کی سالمیت کو قائم رکھتے ہوئے بھارت کو اخلاقی اور تعلیمی اعتبار سے بلندی پر لے جائیں۔ اس کے لیے انہیں ایسی پالیسی اختیار کرنی ہوگی جس سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ مسخ نہ ہو۔
’مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی‘ کے ’ابتدائیہ‘ میں ملک کی تعلیمی پالیسی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے معیاری تعلیم، تحقیق اور تعلیم کے میدان میں اختراع (Innovation) پر خاص توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ملک کو نالج سپر پاور (Knowledge Superpower) بنانا ہے تاکہ افرادی قوت (manpower) کی قلت کا خاتمہ ہو۔ اب جبکہ مرکزی حکومت نے اپنی ’مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی‘ کی تمہید (preamble) میں بھارت کو نالج سپرپاور بنانے کا عزم کرلیا ہے تو کیا یہ اس کے شایانِ شان ہوگا کہ وہ ملک کو صدیوں پیچھے دھکیل دے۔ اس ضمن میں حکومت کو یقینی طور پر روشن خیالی کی راہ پر گامزن رہنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ لہٰذا ملک کے اہل نظر اور اہل علم پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ ان کی جانب سے حکومت کی توجہ معیاری تعلیم کے اہم نکات کی طرف مبذول کرائی جائے۔ اس ضمن میں نئی تعلیمی پالیسی کو حتمی شکل دیتے وقت درج ذیل نکات پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے:
۱) بھارت کا ہر شہری بلا تفریق مذہب و ملت یہ حق رکھتا ہے کہ اسے دولت مند طبقے کے مساوی، تعلیم کے مواقع مہیا ہوں۔ اس ملک کی کثیر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ حکومت کے عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ گاؤں کے بچے بھی کم سے کم سنٹرل اسکول کے معیار کی تعلیم حاصل کرسکیں۔
۲) ملک کی مختلف ریاستوں میں بھانت بھانت کے سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ ان اداروں کے بیشتر اساتذہ کا تدریسی خدمات کا معیار ناگفتہ بہ ہے۔ انہی اساتذہ کے سبب dropouts کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان میں طلبہ کی تخلیقی صلاحیت (creativity) شناخت کرنے کی لیاقت نہیں ہوتی۔ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ملک میں رہنے والے تمام علاقوں کے بچوں اور نوجوانوں (لڑکے لڑکیاں دونوں) کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنائے تاکہ ’نالج سپرپاور‘ ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ مختلف ریاستوں کے تعلیمی نظام پر بھی مرکزی حکومت خصوصی نگرانی کا اہتمام کرے۔ تعلیمی معیار اور تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے کسی مصالحت سے کام نہ لیا جائے۔
۳) تعلیمی پالیسی میں ایسے نکات کو جگہ نہ دی جائے جن سے علاقائی و لسانی منافرت کا خدشہ ہو۔ تعلیم کے میدان میں اکثریت و اقلیت اور مخصوص فرقے کو ریزرویشن کی بنیاد بے حد کمزور ہوتی ہے۔ امیر غریب ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ صرف معاشی طور پر پسماندہ طبقوں (بلا تفریق ذات و برادری) کو مالی امداد مہیا کی جائے تاکہ بچے معاشی پسماندگی کے سبب تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔
۴) نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان (mother tongue) کو خصوصی اہمیت دی جائے۔ محض ’یوم مادری زبان‘ کا اعلان کرنے سے ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان قابلِ صد احترام ہے۔ ہم اپنی مادری زبان کے ساتھ سنسکرت سے بھی محبت کرتے ہیں۔ سنسکرت ایک قدیم علمی زبان ہے اس سے یقینی طور پر استفادہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن تعلیمی پالیسی کی عملی صورت یہ بنتی ہے کہ ملک میں مادری زبان کو اولیت دیتے ہوئے دیگر زبانوں کے سیکھنے اور پڑھنے کی ترغیب دی جائے اور کسی بھی زبان کی اہمیت کم نہ کی جائے۔ البتہ موجودہ بین الاقوامی رابطے کی زبان انگریزی پر اسکول میں درجہ اول سے توجہ مرکوز کی جائے اور ملک کے تمام اسکولز میں درجہ اول سے ہی طلبہ کو مادری زبان کے ساتھ انگریزی زبان میں مکالمہ کی ترغیب دی جائے۔
۵) ملک کے اساتذہ (اسکول سے یونیورسٹی تک) کی اکثریت ایک مخصوص قسم کی خودغرضی میں مبتلا ہے جس میں عصبیت شامل ہے۔ ان اساتذہ کے علم کی وسعت محض نصاب تک محدود ہے۔ انہیں اپنے شاگردوں سے زیادہ اپنی تنخواہ اور مراعات کی فکر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تدریسی معیار پستی کی طرف جارہا ہے۔ وہ کلاس میں طلبہ کو پورا وقت نہ دے کر مسلسل خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بہتر تعلیمی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکتی جب تک اساتذہ کا تعلیمی و اخلاقی معیار بلند نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں حکومت کو مصالحت کی پالیسی ترک کرنی ہوگی۔
۶) کسی بھی تعلیمی ادارے کا استاد (اسکول سے یونیورسٹی تک) صرف ٹیچر نہیں ہوتا بلکہ تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تعلیم کو تربیت سے جدا نہیں کیا جاسکتا، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ان کا فریضہ ہے۔
۷) ملک میں یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق کا معیار انتہائی پست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیز کے مقابلے میں ہمارے تعلیمی اداروں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ لہٰذا ملک کی تمام یونیورسٹیز میں تحقیق کے روایتی معیار کو ترک کرکے ریسرچ کا معیار ایسے موضوعات کو بنایا جائے جو انسان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتا ہو۔ تحقیق کا راست تعلق انسانی سماج، عصر حاضر کے مسائل اور ملک کی ضرورت کے مطابق ہو۔
۸) بھارت کو ’نالج سپر پاور‘ بنانے کے لیے ملک میں صدفیصد تعلیمی انقلاب پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تعلیم میں تفوق (Excellence in Education) کو ترجیح دی جائے۔ یعنی صدفی صد تعلیم کے ساتھ کم سے کم تیس فیصد ایسے نوجوان پیدا ہوں جن میں ہمہ جہت صلاحیت کے ساتھ ان کا علمی و تعلیمی معیار بین الاقوامی سطح پر علمی مہارت کے درجے پر ہو۔
ہمیں توقع ہے کہ ’مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی‘ اگر عصبیت سے پاک ہو اور تفوق کے ساتھ صد فیصد تعلیمی انقلاب کا ہدف مقرر کیا جائے تو ہمارا ملک ’نالج سپرپاور‘ کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔

محمد عارف اقبال،
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں