فلم پدماوتی نے بڑا اچھا کام کیا ہے۔ ایک دفعہ پھر سے ہندوستان کے تصور ہی پرسوال کھڑا کر دیا۔ یہ ملک سیکولر ہے؟ جمہوری ہے؟ ہندوؤںکاہے؟ آزاد ہے؟ ؟ وغیرہ۔اگرچہ کورٹ نے کہا ہے کہ فلم کو روکنا مناسب نہیں، لیکن اس کے باوجود ہندوستانی سماج اس فلم کی اسکریننگ کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ ایک طرف یہ دستور ہے؛ جس کو سیکولرزم کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وہ سماج ہے جس کا مذہب سے ضرور بہ ضرور ایک تہذیبی تعلق ہے۔ چونکہ سماج دستور سے زیادہ طاقتور ہے، اس لئے جمہوریت نے سیکولرزم کو شکست دے دی ہے۔ یہ معاملہ بھی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب پرجب راجیو گاندھی نے پڑھے بغیر ہندوستان میں امتناع کا حکم جاری کیا تھااس وقت بھی ہندوستان میں جمہوریت نے سیکولرزم کو شکست ہی دی تھی۔ ہندوستان کا لبرل طبقہ ان تمام غیر دستوری امتناعات پر چیخیں مارتا رہا۔ لیکن جمہوریت ان کا گلا دباتی رہی۔
سیکولرزم بھی جمہوریت کو کمزور کرنے میں کچھ پیچھے نہیں ہے۔ ہندو میرج ایکٹ، دلتوں کے لئے رزرویشن، تین طلاق پر امتناع وغیرہ کی ایسی مثالیں موجود ہیں جس میںسیکولر الحاد نے جمہوری مزاج کے بر خلاف اپنا فیصلہ نافذ کیا۔ ایسے مواقع پر جمہوریت کے علمبردارن چیختے رہے۔ اور سیکولرزم ان کا مذاق اڑاتا رہا۔ نام رکھتا رہا۔
سالوں پرانا یہ مفروضہ غلط ثابت ہوگیا کہ سیکولرزم اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ اور دونوں لبرلزم اور آزادی کے شعائر میں سے ہیں۔ اور اب ان دو اقدار پر کوئی سوال نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔ مسلمانوں پر تعجب ہے۔ انہوں نے اپنے آزمودہ نسخے چھوڑے اور سماجی دھارے کا ساتھ دیتے ہوئے، غلبہ اسلام کا خواب چھوڑ، دھڑا دھڑ سیکولرزم کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی صلاحیتوں کو جھونکنے لگے۔ اب اسلام کی صاف سیدھی، شستہ و شائستہ ، پیچ وخم سے عاری دعوت کے مقابلے میں سیکولرزم اور جمہوریت میں ان کو تحفظ امت کے مواقع دکھائی دینے لگے۔ ابھی ان میں یہ ’بیداری‘ پیدا بھی نہ ہوئی تھی کہ لبرل طبقہ جس کی آزادیٔ افکار یا پریشاں خیالی سے متاثر ہوکر ’تبدیلی‘ کی ہوا آنے لگی تھی؛ وہی طبقہ سیکولرزم اور جمہوریت کے تصورات کی ناکامی پر صفحات سیاہ کرنے لگا۔ ؎ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔
منوہر جوشی نے مہاراشٹر میں انتخابات کے موقع سے کہا تھا کہ ہم مہاراشٹر کو پہلی ہندو ریاست بنائیں گے۔ سپریم کورٹ میں عرضی پڑی۔ کہا گیا دستور کی خلاف ورزی ہے۔مذہبی بنیادوں پر ووٹ بٹورنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کورٹ نے کورا جواب دے دیا کہ ہندومذہب اور ہندوتوا کا مطلب ایک ’دین‘ ہے۔ یعنی زندگی گذارنے کا طریقہ ۔ مولانا مودودیؒ نے جن الفاظ کا استعمال ’اسلام‘ نامی مذہب کے لئے کیا تھا۔ اس کا استعمال عدالت عالیہ نے ہندو مذہب کی تعریف کرتے ہوئے کیا۔ گویا منوہر جوشی نے ہندو مذہب کی تبلیغ ایسے کی کہ اس کی بازگشت کورٹ کے ایوانوں میںسنائی دی۔
گذشتہ ۶۰ سالوں کی دعوت و تبلیغ کی ناکامی کے بعد اسلام کی احیا پرست تحریکیں ہندوستان میں اقامت دین کی تعبیر نو، اقامت دین کے ممکنہ ذرائع، نصب العین کی تبدیلی ان عنوانات پر کانفرنس پر کانفرنس منعقد کرتی نظر آتی ہیں۔ کب اسلام کے سادہ و سلیس پیغام کے ساتھ اللہ پر بھروسہ شامل ہوگا؟ کب اسلام کے دین ہونے کا تصور کورٹ کے ایوانوں میں گردش کرے گا؟ کب سماج اسلام کو ایک قابل قدر تصور کی حیثیت میں دیکھے گا؟
ہندوستان اور اس کا سارا نظام مجبوری پر مبنی نظام ہے۔ ہر جگہ منافقین ہیں۔ اپنے آپ کو لبرل، ملحد، ہندو، مسلم ، سیکولر، آزاد کہنے والے ان الفاظ کے مطالب ہی نہیں جانتے۔ ایسے ماحول میں بڑی آسانی سے اسلام کی دعوت کو من و عن پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ نظام تضادات پر مبنی ہے۔ اور ان تضادات کا عقل مندی سے استعمال کرنا ضروری ہے۔ آخر یہی وجہ تو ہے کہ جس کی وجہ سے ہندوستان کے وسیع و عریض دستور کو وکیلوں کی جنت کہا جاتا ہے۔