’طالب علم‘ کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے تو عموماََ اس سے مراد باقاعدہ کسی یونیورسٹی، کالج، یا اسکول میں پڑھنے والا فرد ہی ہوتا ہے، جس میں مدارس دینیہ بھی شامل ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں سماج کی زمام کار ’ہوتی ہے اور ہونی چاہئے بھی‘، اس لیے سماج کے لیے صحیح یا غلط کا فیصلہ اسی طبقے کے ہاتھ میں ہوتا ہے، البتہ جب ملک کی طلبہ برادری پر نظر ڈالتے ہیں، تو مجموعی صورتحال دیکھنے کے بعد آنکھیں ندامت اور افسوس سے بھرآتی ہیں، اور ذہن ودل بہت کچھ سوچنے اور کرنے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔ اس تحریر میں طلبہ برادری کی مجموعی صورتحال کے پیش نظر ایک مثالی طالب علم کے لیے درکار چند اہم خصوصیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، جن پر انتہائی توجہ دینے کی ضرورت ہے:
مقصد تعلیم: صنعتی انقلاب کے بعد جب دھیرے دھیرے ساری دنیا سکڑ کر ایک ’شہر‘ اور ’ایک گاؤں‘ میں تبدیل ہوگئی، اور کارپوریٹ دنیا کو ہر طرف سے خیرمقدم کہا گیا، تو دوسرے میدانوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی مختلف شعبوں کا قیام عمل میں آیا۔ انجینئرنگ، میڈیکل اور جرنلزم سے آگے شعبہ جات کی ایک طویل فہرست سامنے آئی، جو طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ ان شعبوں کے آنے سے روزگار کے نئے نئے اور خوب مواقع فراہم ہوئے۔ اس تبدیلی کے پیچھے ذہین افراد کی ایک ٹیم تھی، جو سماج کے سیاہ وسپید کا مالک بن جانا چاہتی تھی۔ یقیناًان کا یہ خواب تن تنہا شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا تھا، اس کے لیے انہیں ایک بڑی ٹیم درکار تھی، جو ان کے مفاد کی تکمیل کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہے، حتی کہ اپنے سماجی رشتوں کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔
اِس کے لیے تعلیم کو ایک نیا رخ دیا گیا، تعلیم کو اُس کے بنیادی مقصد سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی، چنانچہ مقصد تعلیم میں تبدیلی روبہ عمل آئی، اور’خود آگاہی‘ و ’تلاش حقیقت‘ کی جگہ ’مادیت‘ یا ’دولت کے حصول‘نے لے لی۔ ’کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے‘ کے نعرے نے سماج کی امیدوں کا گلا گھونٹ دیا۔ کریئرزم کے طوفان بدتمیزی سے طلبہ برادری بری طرح دوچار ہوئی، اور اس کی جڑیں گہری سے گہری تر ہوتی چلی گئیں، آج بھی کریئرزم کا یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ طلبہ کو سماج کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں، اس کے درد سے اسے کوئی سروکار نہیں، نفس پرستی، سماج بیزاری، اور اس طرح کے مہلک امراض کیمپسز کی فضا میں رچ بس گئے ہیں، جس کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے والا یہ طلبائی سماج ’I hate politics‘جیسے نعروں میں فخر اور خوشی محسوس کرنے لگا۔
ایسے میں ایک زندہ اور دردمند مثالی طالب علم کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنا ایک ہدف طے کرے، جس میں صرف مادیت کا حصول پیش نظر نہ ہو، بلکہ خود آگاہی اور خدا آگاہی بھی ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہے۔ جب مقصد تعلیم خود آگاہی ہو تو اس سے صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا خوب خوب موقع ملے گا، اور خدا آگاہی کا جذبہ سماج کے تئیں اس کو ذمہ دار بنائے گا۔ اس طرح وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود اپنے لیے بھی اور سماج کے لیے بھی اسے نفع بخش بنائے گا۔سماج کے لیے فائدے مند وہی طلبہ ہوسکتے ہیں جن کے یہاں تعمیر کا جذبہ پایا جاتا ہو، جو اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کی نشوونما کے تئیں مخلص ہوں، جو انسانیت کو بیدار کرنے اور سماج میں ایک نئی روح پھونک دینے کا جذبہ رکھتے ہوں، جن کو حفیظ میرٹھی کا یہ خیال ہمیشہ بے چین اور پریشان رکھتا ہو کہ
یہ بھی تو سوچئے کبھی تنہائی میں ذرا
دنیا سے ہم نے کیا لیا، دنیا کو کیا دیا
پیہم جدوجہد: دوسری اہم چیز جدوجہد اور پیہم جدوجہد ہے، تساہلی، کاہلی، بزدلی یہ وہ منفی صفات ہیں جو اکثر زمانہ طالب علمی میں طلبہ ساتھیوں کو پیش آتی ہیں، لیکن ایسے میں ایک زندہ اور مثالی طالب علم کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے، حرکت وتحریک اس کی سرگرمیوں سے عیاں ہوتی ہے۔ وہ یاوہ گوئی، غیرضروری شغل اور لایعنی کاموں سے ہمہ وقت دور رہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ حصول علم کے تینوں طریقوں پر کاربند رہتا ہے، مطالعہ، مشاہدہ، مباحثہ۔ تاکہ وہ عقل ودانش کے اس دور میں خود کو پیش کرسکے، اور اپنی رائے کو عقلی اور منطقی دلائل سے ثابت کرسکے، اور یہ کام یقیناًمحض کتاب خوانی سے ممکن نہ ہوگا، بلکہ اس کے لیے یکسوئی اور سنجیدگی کے ساتھ فکری عمل بھی ضروری ہے۔
ایک خیال یہ سامنے آتا ہے کہ طلبہ بڑی کوششوں اور بڑے عزائم کا حوصلہ نہیں رکھتے، لیکن ایک مثالی طالب علم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے، وہ محض خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں اپنے افکار کی عمارت نہیں کھڑی کرتا۔ چنانچہ اس پیہم جدوجہد کے نتیجے میں جو شخصیت سامنے آتی ہے وہ بہت ہی معتدل اور ٹھوس ہوتی ہے، فکرونظر اور نقد وتجزیہ میں وہ ممتاز ہوتا ہے، اور اپنے ساتھیوں کے درمیان اسے مرجع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
کتب دوستی: کتابیں طالب علم کی سب سے گہری دوست ہوتی ہیں، ان کی اہمیت ہردور میں مسلم رہی ہے، بڑے بڑے مفکرین اور اسکالرس نے، ماضی میں بھی اور حال میں بھی، ان سے خوب خوب استفادہ کیا ہے۔ مثالی طالب علم کتابوں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرتا، بلکہ اس کے زمانہ طالب علمی کا ایک بڑا حصہ کتابوں کے ساتھ گزرتا ہے، وہ لائبریری میں ہو، یا چائے خانے میں، کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی قسم کی کتاب اس کے بیگ میں ضرورموجود ہوتی ہے۔ البتہ یہ کتب دوستی محض کتب خوانی یا کتب بینی تک محدود ہوکر رہ جائے یہ بھی مطلوب نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فکری عمل یا تطبیقی وتنقیدی سوچ بھی لازمی ہے، یقیناًاس علم کا کوئی فائدہ نہیں جس کا عملی دنیا سے کوئی رشتہ نہ ہو۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی کافی اہم ہے کہ طالب علم ہر بات کو آنکھ کان بند کرکے قبول کرتا نہ چلا جائے، بلکہ جو کچھ بھی پڑھے اس کو سچائی کی چھلنی میں چھان کردیکھے، اگر وہ قابل قبول ہے تو ٹھیک ورنہ اس کو بلا تردد چھوڑتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ اسلامی علوم میں فقہ کا مطالعہ کرنے میں عموماََ اس بات کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں فقہاء نے بہت ہی شاندار اصول وضع کیا ہے کہ ’حالات اور ظروف کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ فتوے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں‘۔
مطالعہ کتب کے دوران بسااوقات رہنمائی ناگزیر ہوتی ہے، کتابوں کے نہ ختم ہونے والے عظیم ذخیرے میں اگر کوئی طالب علم بغیررہنمائی کے نکل پڑے تو اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے، چنانچہ اپنے اہداف ومقاصد کے تناظر میں ایسی کتابوں کا انتخاب ، جو اس کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوں، ضروری ہے۔
زمانہ طالب علمی میں اکثر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مطالعہ کے لیے مستقل اور سخت محنت کے لیے طلبہ کی تن آسانی، سہل کوشی، اور آرام پسند طبیعت آمادہ نہیں ہوتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت خوب خوب پڑھاجانا چاہئے، خواہ اس کے لیے طبیعت سے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ہمیشہ نفس سے مصالحت کا رویہ ہماری شخصیت کو اس بلندی سے ہمکنار نہیں کرسکتا جس کا ہم خواب رکھتے ہیں۔
بلند حوصلگی: کہا جاتا ہے کہ اونچے خواب دیکھا کرو، تاکہ خوابوں کی بہترین تعبیر سامنے آسکے، زندگی سے اگر اونچے خوابوں کو نکال دیا جائے تو پھر کیا بچتا ہے۔ اسی طرح اعلی نصب العین اعلی کردار کو جنم دیتا ہے، اور ادنی نصب العین گھٹیا اور چھوٹے کردار کو جنم دیتا ہے۔ حوصلے، امنگیں، امیدیں اور خوداعتمادی یہ وہ الفاظ ہیں جو محض الفاظ نہیں بلکہ ایک زندہ اور مثالی طالب علم کے لیے روشن نقوش ہیں، اگر اُن کی زندگی سے ان نقوش کو نکال دیا جائے تو پھر ان کے لیے زندگی میں کوئی کیف اور خوشی باقی نہیں رہ جاتی، اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر احساس کمتری جیسی مہلک بیماری جنم لینے لگتی ہے، جو ان کے پورے وجود کو ’تباہ‘ کردیتی ہے۔
ایک مثالی طالب علم کے پاس بلند حوصلگی اور خوداعتمادی کا ذخیرہ ہوتا ہے، جو اسے بلند سے بلند تر پرواز پر آمادہ کرتا ہے، یہی خوداعتمادی اس کے اندر ستاروں کو گردراہ بنانے کا شوق پیدا کرتی ہے، اور پھر وہ نیا زمانہ اور نئے صبح وشام پیدا کرنے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔
بلند کرداری: ایک طالب علم بہت محنتی ہے، خوب مطالعہ کرتا ہے، معلومات کا ذخیرہ اس قدر ہے کہ لوگوں میں ’علم کا سمندر‘ مانا جاتا ہے،لیکن اس کا یہ سب کچھ کس کام کا جب کہ وہ اپنے اخلاق وکردار سے سماج کومایوس کرتا ہے، اس کو سماج کے افراد اور مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، وہ اپنے علم پر اترانے لگتا ہے، اور دوسروں کو کم تر سمجھنے لگتا ہے۔
اس کے برعکس ایک زندہ اور مثالی طالب علم کردار کی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے، وہ پڑھائی میں خوب دلچسپی تو رکھتا ہے، لیکن ساتھ ہی طلبہ کے مسائل سے دلچسپی لیتا ہے، ان کے حل کے لیے کوشاں وسرگرداں رہتا ہے، زندہ دل ہوتا ہے، گرم جوش اور کشادہ ظرف ہوتا ہے، وسیع النظر اور مثبت طرز فکر کا حامل ہوتا، وہ ہمیشہ اور سب کا بھلا چاہنے والا ہوتا ہے، وہ اپنے طلبہ ساتھیوں کے درمیان حددرجہ خوش مزاج اور ملنسار ہوتا ہے۔
ایسا طالب علم ممتاز، نمایاں اور مثالی ہوتا ہے، ایسا بننا مشکل تو ہے لیکن ’’اتنا‘‘ بھی نہیں!!!
نجم السحر، الجامعۃ الاسلامیۃ، شانتاپرم، کیرلا
مثالی طالب علم
’طالب علم‘ کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے تو عموماََ اس سے مراد باقاعدہ کسی یونیورسٹی، کالج، یا اسکول میں پڑھنے والا فرد ہی ہوتا ہے، جس میں مدارس دینیہ بھی شامل ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں…