مثالی ازدواجی زندگی کا خاکہ ( سیرت امہات المومنین کی روشنی میں)

ایڈمن

ابوالاعلی سید سبحانی اسوۂ حسنہ سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اور آپ کے سفرِ حیات کا ایک ایک…

ابوالاعلی سید سبحانی

اسوۂ حسنہ سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اور آپ کے سفرِ حیات کا ایک ایک مرحلہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اپنے اندر رہنمائی کا بہترین سامان رکھتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کرنے سے مثالی ازدواجی زندگی کے لیے بہت ہی قیمتی اور بہت ہی اعلیٰ اصولوں تک رسائی ہوتی ہے۔

سیرت امہات المومنین میں جو پہلو سب سے نمایاں نظر آتا ہے ، وہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد میں امہات المومنین کا کردار۔امہات المومنین ایمان کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں، اور ایمان کے تقاضوں کی تکمیل میں اول درجہ رکھتی تھیں۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن رات بندوں کو بندوں کے رب سے روشناس کرانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے اسی طرح ازواج مطہرات بھی دن رات اسی جدوجہد میں مصروف رہتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے درمیان دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتے تھے اور امہات المومنین خواتین کے درمیان دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتی تھیں۔ معروف سیرت نگار اور محقق مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی نے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد شادیوں کا مقصد ہی دین کی سربلندی کے لیے جدوجہداور خواتین کے درمیان کارِ رسالت کی انجام دہی قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:

’’یہ شادیاں اپنی روح، اور اپنی غایت کے لحاظ سے بالکل جداگانہ نوعیت کی تھیں، اور اپنی الگ شان رکھتی تھیں!
یہ شادیاں ایک عظیم مقصد کے تحت ہوئی تھیں، وہ عظیم مقصدتھا عورتوں میںاسلام کی دعوت وتبلیغ،عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت،خواتین کی دنیا میںکاررسالت کی انجام دہی !یہ شادیاں ہوئی تھیںصرف اور صرف اللہ کے لیے،اس کے دین کی سربلندی کے لیے، حلقۂ خواتین میںاسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے، عورتوں اور بچوں میں قرآن پاک کی تعلیم وتربیت عام کرنے کے لیے!
یہ تمام شادیاں رحمت عالم ﷺ نے اس وقت کی تھیں جب عمر مبارک کا سورج ڈھل چکا تھا، اور وہ زندگی کی سہ پہر،اور زندگی کی شام کے اشارے دے رہا تھا ! جب تک جوانی تھی، اور جوانی کی توانائیاں تھیں،اس وقت تک آپؐ کی خلوت کی رفیق صرف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
عظمت وکمال کے تاجداروں کو چھوٹی ذہنیت کے ساتھ سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی عظمتوں کوسمجھنے کے لیے اپنی ذہنی اور فکری سطح اونچی کرنی بہت ضروری ہوتی ہے۔جو لوگ رحمت عالمﷺ کی عظمت بے پایاں کو سمجھنا چاہیں، ان کے لیے یہ نکتہ سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے!‘‘ (مہرومحبت جس کی شان!ﷺ، مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، صفحہ ۴۷؍۴۸)

مکی زندگی، دعوت دین کے سخت ترین مراحل پر مشتمل تھی، لیکن ان مراحل میں شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شریکِ مشن بن کر جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد کو تقویت پہنچائی، اور جس طرح سے اپنی زندگی آپؐ کے مشن کے لیے وقف کردی، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے سال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عام الحزن سے تعبیر کیا تھا، اس غم کے سال میں چچا ابوطالبؓ کا سہارا بھی باقی نہیں رہا اور ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا ساتھ بھی باقی نہیں رہا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مدنی دور شروع ہوا تو کام کا میدان بہت زیادہ وسیع ہوگیا تھا۔ اس دور میں آپؐ نے یکے بعد دیگرے متعدد نکاح کیے، یہ تمام نکاح صرف اور صرف دعوتی مقاصد کے تحت ہوئے، اس بات کا آپؐ کی ازواج مطہرات کو پورا پورا اندازہ تھا، چنانچہ تمام ہی ازواج مطہرات ؓنے آپ کے مشن کو تقویت پہنچانے میں اپنی زندگیاں لگادیں۔

یہ ذہنی اور فکری ہم آہنگی ازدواجی زندگی کی کامیابی اور خوش گواری کی ایک اہم بنیاد ہے۔ یہ بنیاد مضبوط ہو تو اس رشتے کے نتیجہ میں تعمیر ہونے والی عمارت بھی اتنی ہی مضبوط اور مستحکم ہوگی۔ خیرامت سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ اس پہلو پر خاص توجہ دی جائے، تاکہ منصب کے تقاضوں کی تکمیل میں مردوزن، دونوں قدم بہ قدم آگے بڑھیں، یا کم ازکم ایک قدم آگے بڑھائے تو دوسرے کی جانب سے زیادہ سے زیادہ سپورٹ مل سکے۔ یہ ذہنی اور فکری ہم آہنگی کبھی اللہ رب العزت کی جانب سے ودیعت کی جاتی ہے اور کبھی اس کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔

امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی سیرت کا سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ مسلم خواتین ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ایمان کے تقاضوں کی تکمیل میں لگ جائیں، وہ اپنے مشن سے وابستگی اختیار کرلیں، بالکل ویسی ہی وابستگی جیسی وابستگی امہات المومنین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ساتھ تھی۔
حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت سودہ بنت زمعہؓ، حضرت حفصہ بنت عمر بن الخطابؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ، حضرت جویریہ بنت الحارثؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ، حضرت میمونہ بنت الحارثؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت ماریہ قبطیہؓیہ سب دور اوّل میں دعوت واصلاح کی تاریخ کے اہم اور نمایاں ترین نام ہیں۔ ان سب کی دعوتی واصلاحی خدمات پر ابھی کام کرنا باقی ہے۔

یہ کام اس وجہ سے بھی اہم ہوجاتا ہے کہ ازواج مطہرات، امہات المومنین رضی ا للہ عنہن کی سیرت کے تعلق سے اپنے بھی غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور دوسرے بھی، اور اس پر مستزاد یہ کہ دشمنان اسلام نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جن گوشوں کو سب سے زیادہ اپنے شیطانی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ہے اس میں سرفہرست آپؐ کی ازدواجی زندگی ہے۔

یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امہات المومنینؓ کی ازدواجی زندگی کا پہلا اور سب سے اہم باب تھا۔ امہات المومنینؓ کی ازدواجی زندگی کا دوسرا اہم باب ازدواجی حقوق اور ازدواجی تقاضوں کی تکمیل سے متعلق ہے۔ ان حقوق اور تقاضوں کی تکمیل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش پیش رہتے اور آپؐ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی پیش پیش رہتیں۔ اللہ کے رسولؐ اپنی غیرمعمولی مصروفیات کے باوجود امہات المومنین کے لیے اپنا قیمتی وقت نکالتے۔ یہ وقت روکھی سوکھی ملاقات یا ان کی دینی سرگرمیوں کی رپورٹ لینے کے لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ یہ ان کی زندگیوں میں کچھ خوبصورت لمحات کے اضافے کے لیے ہوتا تھا۔ اس دوران امہات المومنین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفید ہونے کا خوب موقع ملتا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے اور آپ کے لیے زیادہ سے زیادہ تسکین کا سامان کرنے کا بھی خوب موقع ملتا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا نرالی تھی۔ گھر میں داخل ہونا، ازواج کو مخاطب کرنا، ان سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ کھانا کھانا، ان کے ساتھ آرام کے کچھ لمحات گزارنا، ان کے ساتھ کچھ تفریحی گفتگو کرنا، ان کے گھر کے کاموں میں تعاون کرنا، غرض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امہات المومنین کے ساتھ جو بھی لمحات محفوظ کرلیے گئے، وہ تمام ہی لمحات امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ آپؐ کے اعلیٰ اخلاق وکردار کی گواہی دیتے ہیں اور مثالی ازدواجی زندگی کے لیے رہنما اصول پیش کرتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر مصروفیات اور دوڑ دھوپ کے باوجود دن رات میں ایک بار ضرور اس بات کی کوشش کرتے کہ ازواج مطہرات سے ملاقات کرلیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات میں ایک بار تمام ازواج مطہرات کے ہاں تشریف لے جاتے۔ ’’کان صلی اللہ علیہ وسلم یدور علی نسائہ فی الساعۃ الواحدۃ من اللیل والنہار‘‘۔ (البخاری)
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ آپؐ رات کا ایک بڑا حصہ رب کی عبادت میں گزارتے، (إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَی مِن ثُلُثَیِ اللَّیْْلِ وَنِصْفَہُ وَثُلُثَہُ۔ سورۃ مزمل: ۲۰)لیکن خاص بات یہ ہے کہ جس طرح دن کی جدوجہد میں ازواج کے حقوق متأثر نہیں ہونے دیتے، اسی طرح رات کی اس عبادت کی وجہ سے بھی ازواج کے حقوق متأثر نہیں ہونے دیتے، جس رات میں جس کی باری ہوتی وہ رات اس کی ہوتی۔ روایتوں میں آتا ہے کہ بی بی عائشہ سے ایک بار آنحضور ﷺنے کہا : کیا یہ ممکن ہے کہ آج رات تم مجھے اپنے رب کی عبادت کی اجازت دو۔بی بی عائشہ نے کہا : رسول خدا! میں آپ کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہوں مگر آپ کی خواہش کی تکمیل بھی مجھے بہت محبوب ہے ، میں نے آپ کو اجازت دی۔ ’’یا عائشۃ! ھل لک أن تأذنی لی اللیلۃ فی عبادۃ ربی؟فقلت: یا رسول اللہ، انی لاحب قربک واحب ھواک، قد اذنت لک‘‘، یہ وہ واقعہ ہے جس کو حضرت عائشہ اپنی زندگی کے خوبصورت ترین لمحات میں شمار کرتی تھیں، ایک دفعہ جب حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ ؓ کی نظر میں جو سب سے تعجب انگیز واقعہ ہو، وہ بیان کریں، أخبرینی بأعجب ما رأیت من أمر رسول اللہ ﷺ،تو اس موقع پر حضرت عائشہؓ نے یہی واقعہ بیان کیا۔ (صحیح ابن حبان)

ظاہر سی بات ہے کہ امہات المومنین کی راتیں عام انسانوں کی راتوں سے مختلف ہوتی تھیں، وہ بھی اللہ کے رسولؐ کی طرح دن کے اوقات میں دینی جدوجہد میں مصروف ہوتی تھیں اور رات کا ایک حصہ رب کے حضورسجدوں اور مناجات میں گزارتی تھیں، لیکن جس دن اللہ کے رسولؐ کا ان کے ہاں قیام ہوتا تھا، اس دن ان کے لیے سب سے بڑی عبادت یہی ہوتی تھی کہ وہ اللہ کے رسولؐ کا دل خوش کریں، اور ان کے ساتھ کچھ حسین لمحات گزارنے کی سعادت حاصل کرلیں، اور اللہ کے رسولؐ بھی اس کا پورا خیال رکھتے کہ ازواج مطہرات کی دلجوئی اور ان کی تسکین کا زیادہ سے زیادہ سامان کرسکیں۔

ایک سے زائد نکاح کی صورت میں جو شکایت سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے وہ مرد کا کسی ایک کی جانب مائل ہوجانا اور دوسری کو جان بوجھ کر نظرانداز کردینا ہے۔ یہ ایک شکایت اپنے ساتھ بہت سی شکایتوں کو لے کر آتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ہی ازواج مطہرات کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کرتے، ان کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتے، کبھی کوئی ایسی بات نہ ہونے دیتے جس سے دوسری ازواج کو تکلیف پہنچنے کا امکان ہو۔ اللہ کے رسول ؐ نے اس سلسلے میں بہت سخت تنبیہ فرمائی ہے، ترمذی کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک ہی کی جانب مائل رہتا ہو دوسری کو نظرانداز کرتے ہوئے، تو قیامت کے دن اس کا ایک کندھا جھکا ہوا ہوگا۔ ’’من کان لہ امرأتان یمیل لاحداھما علی الاخری، جاء یوم القیامۃ أحد شقیہ مائل‘‘۔(الترمذی، صححہ الالبانی)

آپؐ کا معمول تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو ازواج مطہرات کو الگ الگ اور انوکھے ناموں سے پکارتے، کبھی متعدد افراد موجود ہوتے تو اس کے لیے بھی نرالا انداز اختیار کرتے، روایتوں میں آتا ہے کہ آپؐ حضرت عائشہؓ کو کبھی ’’یا عائش‘‘ کہہ کر پکارتے، کبھی ’’یا موفقۃ‘‘ کہہ کر پکارتے، (الترمذی) کبھی ’’یابنت الصدیق‘‘ کہہ کر بلاتے، کبھی ’’یابنت ابی بکر‘‘ کہہ کر متوجہ کرتے، کبھی ’’الحمیراء‘‘ کہہ کر بلاتے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دیگر خواتین بھی وہاں موجود تھیں، چنانچہ آپ نے عام اسلوب سے ہٹ کر مخاطب فرمایا: ’’کیف تیکم‘‘۔ حضرت عروہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شکوہ کیا کہ ہماری تمام سہیلیوں کی کچھ نہ کچھ کنیت ہے، لیکن میری کوئی کنیت نہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنی کنیت اپنی بہن اسماءؓ کے بیٹے عبداللہؓ کے نام پر رکھ لو۔ عروہؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے آپؓ کی کنیت ام عبداللہ ہوگئی۔ (سنن ابی داؤد)

آپؐ کا یہ بھی معمول تھا کہ جب بھی موقع ملتا ، اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ کھانے پینے کا اہتمام فرماتے، حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ میں پانی پیتی پھر اللہ کے رسولؐ کو پلاتی، وہ پیالے میں منھ لگاکر اسی جگہ سے پیتے جہاں سے منھ لگاکر میں نے پیا ہوتا، پھر میں اس جگہ کو چوس لیتی، تو آپ پھر اسی جگہ سے پیتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔ کنت أشرب فأناولہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیضع فاہ علی موضع فیّ، واتعرق العرق فیضع فاہ علی موضع فیّ۔ (مسلم) اللہ کے رسولؐ نے اس کی ترغیب بھی دی ہے کہ کھانا ایک ساتھ کھایا جائے اور ایک دوسرے کو اپنے ہاتھ سے لقمہ دیا جائے، ایک روایت میں ہے کہ تم جو بھی نیکی کا کام کرتے ہو اس پر تمہیں اجر ملتا ہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو، اس پر بھی تمہیں اجر ملے گا، انک لن تنفق نفقۃ الا اجرت علیھا حتی اللقمۃ ترفعھا الی فی امرأتک۔ (بخاری) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب بھی دی ہے کہ بیویوں کے جائز مطالبات پورے کرنے کی کوشش کی جائے، جب کچھ کھائیں تو انہیں بھی کھانے پر یاد کرلیں، اور جب اپنے لیے کپڑے بنوائیں تو ان کے لیے بھی بنوادیا کریں، یہ زوجین میں محبت کے اضافہ کا ایک اہم اصول ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا اس قدر خیال رکھیں کہ جب وہ اپنے لیے کچھ کریں تو ان کو فوراً ہی اپنے شریک حیات کا خیال آجائے، اور اس طرح زندگی کو مزید خوب صورت بناتے چلے جائیں، نبی صلی اللہ کا فرمان ہے: اطعم اذا طعمت واکس اذا اکتسیت۔(مستدرک حاکم)

اللہ کے رسولؐ نے ازواج مطہرات کو خود سے بہت قریب رکھا۔ آپؐ بار بار ان کے ساتھ اپنائیت کا اظہار کرتے اور وہ بار بار اس اظہار کی طالب ہوتیں، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے ، کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتکیء فی حجری وأنا حائض۔ (مسلم) ام المومنین عائشہؓ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ تو روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا کرتے تھے، کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبل وھو صائم۔ (مسلم)ان روایات سے اللہ کے رسولؐ کے ازواج مطہرات کے ساتھ تعلق اور لگاؤ کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔

امہات المومنین بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی ہی قربت اور لگاؤ محسوس کرتی تھیں، چنانچہ وہ اللہ کے رسولؐ کی ہر طرح سے خدمت کرنے اور آپؐ کا دل خوش کرنے کی کوشش کرتیں، کبھی وہ اللہ کے رسولؐ کے بالوں میں کنگھی کررہی ہوتیں اور کبھی وہ آپؐ کے ناخن تراش رہی ہوتیں، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ مسجد میں ہوتے تھے، وہیں لیٹے لیٹے میرے حجرے میں سر داخل کردیتے تھے، اور میں ان کے بالوں میں کنگھی کردیا کرتی تھی۔ لیدخل علیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رأسہ وھو فی المسجد فأرجلہ۔ (مسلم)

اللہ کے رسولؐ کو خوشبو بہت پسند تھی، آپ کا معمول تھا کہ ہمیشہ خوشبو استعمال کرتے، ازواج مطہرات کو اس سے بڑی خوشی ہوتی، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، کہتی ہیںکہ میں حالت احرام میں بھی اللہ کے رسولؐ کے بالوں کے درمیانی حصے (مانگھ) میں مشک کی چمک محسوس کرتی تھی، کأنی انظر الی وبیص المسک فی مفرق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو محرم۔(مسلم)

رات کے ابتدائی حصے میں اللہ کے رسولؐ ازواج مطہرات کے ساتھ چہل قدمی کے لیے بھی نکلا کرتے تھے، بخاری کی روایت ہے کہ رات کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے ساتھ ٹہل ٹہل کر گفتگو کیا کرتے تھے۔ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان باللیل سار مع عائشۃ یتحدث۔ (البخاری)اسی طرح کبھی کبھی آپ کچھ قصے اور واقعات بھی سناتے تھے، جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہؓ سے ام زرع کی تفصیلی حدیث مروی ہے۔اللہ کے رسولؐ کا یہ معمول یقینا تمام ہی ازواج کے ساتھ رہا ہوگا، جس دن عائشہؓ کی باری ہوتی اس دن آپ کے ساتھ چہل قدمی کرتے اور جس دن دوسری ازواج مطہرات کی باری ہوتی اس دن ان کے ساتھ چہل قدمی کرتے۔

اللہ کے رسولؐ کے ذوق اور مزاج کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ ازواج مطہرات کے ساتھ تفریحی گفتگوئیں بھی کیا کرتے، اور ازواج مطہرات جب کوئی تفریح کی بات کرتیں تو آپ خوب محظوظ ہوتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فرض کیجئے آپ ایک وادی میں گئے، وہاں ایک درخت ملا جس سے کچھ کھایا جاچکا ہے، اور ایک درخت ملا جس سے کچھ بھی نہیں کھایا گیا ہے، تو آپ ان دونوں درختوں میں سے کس سے اپنے اونٹ کو کھلانا پسند کریں گے؟ اس پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: جس سے نہیں کھایا گیا ہے۔ (بخاری) حضرت عائشہؓ یہاں بتانا چاہ رہی تھیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کے علاوہ کسی بھی کنواری لڑکی سے شادی نہیں کی۔ معروف مصری عالم ڈاکٹر صلاح سلطان اللہ کے رسولؐ کے مزاح اور ظرافت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’پیارے نبی ﷺ حضرت عائشہؓ کے ساتھ دو بار دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺسے زیادہ فکرمندی اور بے قراری کی زندگی کس کی تھی، پھر بھی اہل خانہ کا دل بہلانے کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے۔آخر اس میں کیا حرج ہے کہ کوئی خالی جگہ تلاش کرکے دونوں دوڑ کا مقابلہ کریں اور ایک ایک بار ہر ایک کو جیتنے کا موقعہ دے دیا جائے ، کیونکہ یہ اولمپک کی دوڑ کا مقابلہ تھوڑی ہی ہے ، یہ تو شوہر بیوی کے بیچ تفریح کا ایک بہانہ ہے اس میں دوسرے کی خاطر ایک خود سے ہار جائے ،تو اس ہار میں بھی کتنا لطف ہے ۔‘‘

آگے وہ لکھتے ہیں : ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :آپﷺ تفریح بھی کرتے تھے البتہ تفریح میں بھی سچ بولتے تھے ۔
حضرت عائشہؓ کے ساتھ آپ ﷺ نے دوڑ کا مقابلہ کیا اور دوسری بار جیت جانے کے بعد ازراہِ ظرافت کہا یہ پچھلی بار کابدلہ ہے ۔
آپ ﷺ نے ایک صحابی کو مشورہ دیا : کنواری سے شادی کیوں نہیں کرتے کہ آپس میں کھیل کود اور ہنسی مذاق بھی کرسکو۔‘‘(محبت کی کنجیاں، ڈاکٹر صلاح سلطان، اردو ترجمہ: محی الدین غازی، صفحہ ۳۹؍۴۰)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے ساتھ معاملہ کرنے میں ان کے نسوانی جذبات اور ان کے نازوانداز کی بھی پوری رعایت کرتے،حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی بی بی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، ما ضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امرأۃ قط۔(النسائی)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب بھی سفر پر جاتے تو قرعہ ڈالتے اور جس کے نام کا قرعہ نکل جاتا اس کو اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے۔ ایک بار وہ ام المومنین حضرت صفیہؓ کے ساتھ سفر پر تھے، اس دن سفر میں ساتھ جانے کی باری ان کی تھی، دوران سفر صفیہؓ کی سواری کچھ پیچھے رہ گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ پیچھے رہ گئیں تو بڑھ کر ان کے پاس گئے، دیکھا وہ رو رہی تھیں، اور شکوہ کر رہی تھیں کہ آپؐ نے مجھے بہت ہی سست سرفتار اونٹ پر سوار کیا ہے، اللہ کے رسولؐ نے اپنے ہاتھوں سے حضرت صفیہ ؓ کے آنسو پونچھے،اور انہیں چپ کرایا۔ کانت صفیۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، وکان ذلک یومھا، فأبطأت فی المسیر، فاستقبلھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھی تبکی، وتقول حملتنی علی بعیر بطیء، فجعل رسول اللہ یمسح بیدیہ عینھا ویسکتھا۔(النسائی)

آپؐ ازواج مطہرات کو خود ہی اونٹ پر سوار کرتے اور خود ہی اتارتے، اس میں کبھی کسی قسم کا تکلف حائل نہ ہوتا، حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ خیبر سے واپسی پر ہم مدینہ کے لیے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، آپؐ نے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے ہوئے ہیں اور حضرت صفیہؓ ان کے گھٹنوں پر پیر رکھ کر اونٹ پر سوار ہورہی ہیں۔ خرجنا الی المدینۃ۔ قادمین من خیبر۔ فرأیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یجلس عند بعیرہ، فیضع رکبتہ وتضع صفیۃ رجلھا علی رکبتیہ حتی ترکب البعیر۔ (بخاری)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر اپنی ازواج مطہرات کو ساتھ رکھتے تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ کچھ حبشی اپنے مخصوص کھیل کھیل رہے تھے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اَوٹ میں کھڑی وہ کھیل دیکھ رہی تھیں۔(بخاری)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موقع بہ موقع ازواج مطہرات کی تعریف بھی کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے۔ حضرت خدیجہ کی تو بات ہی الگ ہے، وہ سخت ترین ایام میں آپ کے ساتھ تھیں، چنانچہ آپؐ ان کا بار بار تذکرہ کرتے، اور کہا کرتے کہ خدیجہ کی محبت میرے لیے عطیہ خداوندی ہے، انی رزقت حبھا۔ (مسلم)آپؐ کی حضرت خدیجہ سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ جب قربانی کرتے تو فرماتے کہ اس کا کچھ حصہ خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھی بھیج دو، کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا ذبح شاۃ یقول: أرسلوا بھا الی اصدقاء خدیجۃ۔ (مسلم)اسی طرح آپؐ تمام ہی ازواج مطہرات کا خیال رکھتے، ان کی دلجوئی کرتے اور موقع بہ موقع ان کی تعریف وتحسین کرتے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔

حیرت ہوتی ہے کہ رسول پاکؐ اپنی تمام تر مصروفیات اور دوڑ دھوپ کے باوجود کس قدر اپنی ازواج مطہرات کا خیال رکھتے، کس قدر ان کی دلجوئی فرماتے، یہاں تک کہ گھر کے کام کاج میں بھی ان کا ہاتھ بٹاتے تھے، امہات المومنین کی ازدواجی زندگی کے یہ تمام ہی پہلو اپنے اندر کتنا بہترین پیغام رکھتے ہیں، اور ایک مثالی ازدواجی زندگی کی طرف پیش قدمی کے لیے کس قدر مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ ایک بار حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر پر ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ سئلت عائشۃ ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصنع فی بیتہ؟ قالت: کان فی مھنۃ اھلہ۔ (بخاری)

اس تحریر میں امہات المومنینرضی اللہ عنہن کی مثالی ازدواجی زندگی سے متعلق کچھ واقعات پیش کیے گئے ہیں، ان واقعات کے علاوہ بھی کتب احادیث اور کتب تاریخ میں بہت سے واقعات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امہات المومنینرضی اللہ عنہن کی ازدواجی زندگی کس قدر مثالی اور کس قدر حسن ورعنائی سے بھرپور تھی۔

آج جبکہ خاندان کا شیرازہ بری طرح بکھرتا جارہا ہے، ازدواجی زندگی کے مسائل میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے، غیرمسلم سماج بھی اس مصیبت سے دوچار ہے اور مسلم سماج بھی اس مصیبت کا شکار ہے، ضرورت ہے کہ اِن حالات میں امہات المومنین کی ازدواجی زندگی کا بار بار مطالعہ کیا جائے، امہات المومنین کی مثالی ازدواجی زندگی سے فکری وعملی ہر سطح پر رہنمائی حاصل کی جائے اور اس رہنمائی کو عام کرنے کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کیا جائے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں