سید سعادت اللہ حسینی، رکن مرکزی مجلس شوری، جماعت اسلامی ہند
۱۶؍ مئی ۲۰۱۴ ء کا دن ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات کے لئے ایک اور بڑی دھماکہ خیز خبر لے کر طلوع ہوا۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے ایسی کامیابی حاصل کی جس کا اندازہ بی جے پی کے بڑے سے بڑے حمایتی مبالغہ نگار نے بھی نہیں کیا تھا۔ یہ آزاد ہندوستان میں کسی غیر کانگریسی جماعت کی اب تک کی دوسری بڑی کامیابی تھی اور کانگریس کی اب تک کی سب سے بد ترین شکست۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلہ میں بی جے پی کے ووٹوں میں 67؍ٰٖ ٰٖفیصد کا اضافہ ہوا جبکہ نشستیں تقریباً ڈھائی گنا ہوگئیں۔
یہ بلاشبہہ اس ملک کے سیکولر عوام، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے بہت بڑا جذباتی دھکہ تھا (غالباً چھ دسمبر ۱۹۹۲ ء کے بعد سب سے بڑا جذباتی دھکہ)۔کئی مہینوں سے وہ اس خوش گمانی میں تھے کہ بی جے پی 160؍کے ہندسے کو تجاوز نہیں کرپائے گی۔ اوپینین پولس، بکے ہوئے میڈیا کے تخلیق کردہ ہیں۔ ایگزٹ پول تو ہمیشہ بی جے پی کے حق میں جانب دار رہے ہیں۔ یوپی میں بی جے پی ،پچاس کا ہندسہ پار کرے یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔لیکن بالآخر نتائج ظاہر ہوئے اور ریت سے سر نکال کر ہمیں طوفان کی تیزی و تمازت کا سامنا کرنا ہی پڑا۔
اب سوالات کا انبار ہماری نیندیں حرام کئے ہوئے ہے؟ آخر کیسے ملک کے سارے عوام ’’فاشسٹ‘‘ ہو گئے؟ ’’سیکولر ‘‘ طاقتیں کیسے اتنی کمزور ہوگئیں؟نئی حکومت کی پالیسی کیا ہوگی؟ گجرات ماڈل کا مطلب کیا گجرات کی طرح کا قتل عام ہے؟ کیا اب یہ ملک ہندو راشٹر بن گیا ہے؟ کیا یہ سیکولر زم کی موت ہے؟ کیا اب اس ملک میں مسلمانوں کا جینا آسان نہیں رہا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو گلی گوچوں سے لے کر دانشوارانہ محفلوں اور اخبارات کے کالموں تک ہر جگہ زیر بحث ہیں۔
ان سوالات کی گہرائی میں جانے سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔
اس ووٹ کا کیا مطلب ہے؟
اس ووٹ کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ آر ایس ایس کے ہندتو کے حق میں ووٹ ہے۔ ہمیں یہ حیرت انگیز حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ بی جے پی کو صرف اکتیس 31%فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یہ آزادی کے بعد سے اب تک، مکمل اکثریت حاصل کرنے والی کسی پارٹی کو، ملنے والے سب سے کم ووٹ ہیں۔ (اب تک کا ریکارڈ 1967 کے انتخابات میں کانگریس کا تھا ۔جب اندرا گاندھی کی پارٹی نے اکتالیس فیصد ووٹ لے کر 287نشستیں حاصل کی تھیں ) گویا ووٹروں کی دوتہائی سے زیادہ اکثریت نے بی جے پی کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔اگر آپ این ڈی اے کے دیگر حلیفوں کو بھی شامل کرلیں( این ڈی اے کا مجموعی تناسب 38.2%) تب بھی ،تقریباً 62فیصد ووٹروں نے بی جے پی اور اس کے حلیفوں کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ گویا بی جے پی کی اس حیرت انگیز کامیابی کا راز صرف یہ ہے کہ بی جے پی کے ذہین منصوبہ سازوں نے بڑی مہارت کے ساتھ مخالف ووٹوں کو تقسیم در تقسیم کراکے بے اثر کردیا، اور بی جے پی کے ہمنوا ووٹوں کی بڑی شاندار شیرازہ بندی کردی۔
جن اکتیس فیصد لوگوں نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا ہے ان کی اکثریت کا ووٹ بھی آر ایس ایس کے سخت گیر ہندتو کے حق میں نہیں تھا۔اخبارات کے تجزیوں ، خود بی جے پی کی انتخابی مہم ، ووٹروں کے رجحانات پر مبنی تجزیوں وغیرہ سے اس ووٹ کا جو پیغام ابھر کر سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے:
۱) یہ ووٹ تبدیلی کی ایک شدید قومی امنگ کا اظہار ہے۔کرپشن، خاندانی سیاست، مہنگائی، اور سب سے بڑھ کر حکومت اور حکومتی اداروں کی حد سے زیادہ سست روی، اُس پر عزم اور حوصلہ مند ہندوستانی قوم کے لئے اب ناقابل برداشت ہوچکی تھی جو ایک عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہی ہے۔بے شک ان حوصلوں اور امنگوں کا تعلق ملک کی آبادی کے صرف اس طبقہ سے ہے جسے شہری مڈل کلاس کہا جاتا ہے، اور غربت و افلاس کے چکوں میں پستی ہوئی اکثریت ان خوابوں سے ابھی کوسوں دور ہے۔ لیکن اول تو شہری مڈل کلاس بھی اب ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی کلاس بن گئی ہے اور دوسرے بی جے پی کی ترقی یافتہ مواصلاتی حکمت عملی کے ذریعہ ملک کے غریب عوام کو بھی اس خواب میں شریک کردیا گیا۔انتخابی مہم میں بی جے پی کے مقرروں نے سب سے زیادہ ، موروثی سیاست، کرپشن، انتظامیہ کی سست روی، ترقی کے واضح منصوبوں کی کمی جیسے امور کو موضوع بحث بنایا۔ اس کے جواب میں گجرات کی ترقی کو سیاق سے ہٹا کر مبالغہ کے ساتھ اس طرح پیش کیا گیا کہ گویا ایک مضبوط، مستحکم، قوت ارادی سے مالامال اور قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار قیادت نے ریاست کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ دعوی کتنا درست ہے، اس سے قطع نظر اس نے ووٹرز کو اپیل ضرور کیا ہے۔اس انتخاب میں بی جے پی نے بھی، بعض استثنائیات کے ساتھ، حساس فرقہ وارانہ موضوعات کو بہت کم چھیڑا ہے۔ اس لئے یہ تجزیہ غیر منصفانہ ہوگا کہ بی جے پی کو ملنے والے ووٹ دراصل ہندتوا کے حق میں ووٹ ہیں۔
۲) بدقسمتی سے سیکولر قافلہ کی قیادت کرنے والی جماعت کو بھی ،سیکولر قدروں کی بقا اور خود اپنی پارٹی کی جیت سے زیادہ حکمراں خاندان کا مفاد عزیز تھا۔ کرپشن کے الزامات اور حکومت مخالف لہر Anti incumbencyکے بوجھ تلے دبی پارٹی کو عین انتخابات کے زمانہ میں ، صرف ایک خاندان کے مفاد کی خاطر، ایسی ناقص وناتجربہ کار قیادتکے حوالہ کردیا گیا جو نااہل مشیروں کے نرغے میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس قیادت نے انتخابات سے قبل بعض بیش قیمت حلیف ضائع کر دیئے( مثلاً ایل جے پی اور ٹی آر ایس)۔سخت متنازعہ فیصلے ، عین انتخابات کے زمانے میں کئے۔ بڑے غلط اندازے قائم کئے اوربہت بودی اور کمزور مہم چلائی۔کانگریس کا اپروچ بحیثیت مجموعی یہ تھا کہ بی جے پی جیتتی ہے تو جیت جائے لیکن راہل کی تاج پوشی میں مزید تاخیر ممکن نہیں ہے! اس صورت حال نے ووٹروں کو کانگریس سے اور زیادہ مایوس کردیا، اور ان کے پاس بی جے پی کے علاوہ کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔عام آدمی پارٹی ایک اہم عنصر ضرور بن سکتی تھی لیکن اس سے یہ توقع بے جا تھی کہ وہ ملک گیر سطح کی قدیم اور منظم پارٹیوں کی متبادل بن سکے۔
۳) سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات کا سب سے بڑا فاتح، نہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور نہ بی جے پی کی سیاست۔ بلکہ فاتح اعظم دراصل اس ملک کا سرمایہ دار ہے۔یہ ہمارے ملک کی انتخابی تاریخ میں سرمایے کی اب تک کی سب سے بڑی فتح ہے۔2009کے انتخابات میں سرمایہ کی طاقت بی جے پی کی طرف جھکاؤ کے باوجود، کانگریس اور بی جے پی میں منقسم تھی۔ انہیں امید تھی کہ کمیونسٹوں کے دباؤ سے آزاد ہوجانے کے بعد، منموہن، چدمبرم اور اہلووالیہ کی ’’ڈریم ٹیم‘‘ کچھ چمتکار ضرور دکھائے گی۔ اور ’’اصلاحات‘‘ کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھائے گی۔2014میں صورت حال بدل گئی۔’’مودی مودی‘‘، ہندستانی سرمایہ داری کا قومی گیت بن گیا۔ اور سرمایہ داری نے اپنے طاقتور ترین حلیف یعنی میڈیا کے ساتھ اشتراک کرکے اپنی ساری طاقت جھونک دی۔
مختصر یہ کہ اس ووٹ کو آر ایس ایس کے سخت گیر ہندتو کے حق میں ووٹ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ دراصل یہ ووٹ ایک بہتر مستقبل کے لئے اور کرپشن سے پاک ، مستعد حکومت کی تشکیل کے لئے ووٹ ہے۔ سرمایہ کی قوت اور میڈیا نے اپنے مفادات کے لئے عوام کے ایک طبقے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ باور کرانے میں کامیابی حاصل کی کہ مطلوب تبدیلی صرف جنابِ مودی کی قیادت میں گجرات کے طرز کی حکمرانی کے ذریعہ ممکن ہے۔ کانگریس کی کمزور قیادت اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے اس پروپگنڈے کا رد نہیں ہوسکا، اور نہ دوسرا نقطہ نظر یا ماڈل سامنے آسکا ۔ نتیجتاً تقریباً ایک تہائی ووٹ حاصل کرنے میں بی جے پی کامیاب ہوگئی، اور بہتر منصوبہ بندی اور انتخابی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کی تاریخ میں پہلی بار اکتیس فیصد ووٹ دو سو بیاسی نشستوں میں بدل گئے۔یہ اس ا نتخاب کی پوری داستان ہے۔
حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
اب سوال یہ ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟ بی جے پی حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیا نریندر مودی کی حکومت سخت گیر ہندتو کے ایجنڈے کو نافذ کرے گی یا ترقی اور خوشحالی کے اُس ایجنڈے پر مرکوز رہے گی جس کے لئے اسے ملک کے عوام نے منتخب کیا ہے؟
اس سلسلہ میں پہلی بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بی جے پی صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور ۲۰۱۴ کے نتائج سے بہت پہلے اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے فوری بعد خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اس نظریے کی سیاسی نمائندگی کرتا تھا۔ یہی طبقہ اس ملک کی تقسیم کا اصلاً ذمہ دار ہے۔ اسی نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقہ سے اردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کئے۔پولس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو الجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ملک کی ڈیپ اسٹیٹ اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لئے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے انقلاب کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے اور مسلمان اس کا سامنا کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
جہاں تک بی جے پی کی موجودہ فتح کا تعلق ہے،نریندر مودی اور ان کے مشیرپارلیمنٹ میں اپنی زبردست اکثریت کو ایک نادر موقع سمجھیں گے اور ان کی کو شش ہوگی کہ اس موقع کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ پارٹی کی جڑیں مضبوط ہوں۔ حکومت کی مقبولیت بڑھے اور آئندہ دو چار میقاتوں تک اسے شکست دینا ممکن نہ ہو۔
جو صورت حال اس وقت پیدا ہوئی اور بی جے پی کی کامیابی کا سبب بنی، بی جے پی کے پالیسی ساز اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس کا آئندہ باقی رہنا آسان نہیں ہے۔ جس حکومت مخالف لہر کا کانگریس کو اس دفعہ سامنا کرنا پڑا، آئندہ اس کا بی جے پی حکومت کو بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سرمایہ دار آئندہ بھی یقیناًبی جے پی کی پشت پر کھڑا رہے گا لیکن اس کا امکان کم ہے کہ جس طرح متحد ہوکر ملک کے سرمایہ داروں اور میڈیا نے اپنی ساری طاقت مودی کی کامیابی کے لئے جھونکی تھی، آئندہ بھی جھونکیں گے۔ آئندہ کا نگریس کی قیادت اس قدر کمزور اور بودی رہے گی اور سیکولر خیمہ اس طرح منتشر رہے گا، اس کا امکان بھی کم ہے۔ اس پس منظر میں طویل المیعاد استحکام کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی اپنے روایتی ہندتو ووٹ بنک کے ساتھ،شہری متوسط طبقے کے اس ووٹ بنک کو بھی محفو ظ رکھے جس نے اسے ترقی اور خوشحالی کے لئے ووٹ دیا ہے۔ اور جسے ہندتو سے زیادہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ ملک میں امن و امان باقی رہے اور صنعت و تجارت کے لئے سازگار ماحول بنا رہے۔اس کے علاوہ بی جے پی کی یہ بھی ضرورت ہوگی کہ وہ نئے طبقات تک پہنچے۔ اقلیت مخالف امیج کو درست کرے۔ اور ملک کے امن پسند عوام کے ساتھ ساتھ ، عالمی سطح پر اپنے آپ کو زیادہ قابل قبول بنائے۔
یہی وجہ ہے کہ خود بی جے پی میں ایک بااثر لابی یہ چاہتی ہے کہ حکومت آر ایس ایس کے دباؤ سے آزاد ہوکر کام کرے۔ یورپ کی اکثر جمہوریتوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک میں اکثر مقابلہ درمیانی دائیں بازو Centre Right اور درمیانی بائیں بازوCentre Left جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ بہت سے دانشور اور خاص طور پر بی جے پی سے ہمدردی سے رکھنے والے دانشور یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان کی جمہوریت بھی اب تیزی سے اسی دو قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یو پی اے کی گذشتہ دوحکومتوں نے بڑی حد تک کا نگریس کی امیج ایک ایسی سینٹر لیفٹ جماعت کی بنائی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصولوں کو مانتے ہوئے، فلاحی اور بہبودی اسکیموں پر بھی یقین رکھتی ہے۔ اس صورت میں اب بھی ایک درمیانی دائیں بازو کی پارٹی کی جگہ Centre Right ملک کے سیاسی نظام میں خالی ہے۔ سینٹر رائٹ کا مطلب ایک ایسی جماعت ہے جو معیشت کے معاملہ میں سرمایہ دارانہ اصولوں کی قائل ہوتی ہے۔ قوم پرستی پر اصرار کرتی ہے اور قومی تہذیب کی بقا اور روایتوں کے تحفظ سے دلچسپی رکھتی ہے لیکن اقلیتوں کے معاملہ میں جارح نہیں ہوتی او ر ان کے حقوق کو بھی اہمیت دیتی ہے۔
بی جے پی کے اس نسبتاً اعتدال پسند گروہ کا یہ خیال ہے کہ بی جے پی کو یہ جگہ پر کرنی چاہیے۔ اور نسبتاً زیادہ معتدل گروہ کی حیثیت سے ابھرنا چاہیے اور اپنی شناخت بنانی چاہیے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے گجراتی نژاد رکن اور معروف دانشور و ماہر معاشیات، میگھناد ڈیسائی نے، جو نریندر مودی کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں، چند ماہ قبل ایک مضمون لکھا تھا ۔(انڈین ایکسپریس ، ۲۳؍ جون ۲۰۱۳ ء)جس میں انہوں نے نریندر مودی کا موازنہ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان سے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردوگان نے بڑی کامیابی سے ترکی کے سیکولر دستور کی بنیادی اسپرٹ کو چھیڑے بغیر اکثریتی مذہبی طبقہ کی امنگوں کی تسکین کا سامان فراہم کیا ہے۔ اور ترکی کی اقلیتوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچائی بلکہ الٹا اردوگان کی قیادت میں کرد اقلیت کے قدیم مسائل بہت خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہوئے۔اس کے نتیجہ میں مسلسل اردوگان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور ان کی قیادت میں ترکی نے ترقی اور خوشحالی کا بے نظیر سفر طے کیا۔ میگھناد ڈیسائی نے ترکی کے تجربہ سے سبق لینے کا مشورہ دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی حکومت کا ماڈل بھی لگ بھگ ایسا ہی ہوگا ۔اس لئے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں ہمارا موضوع یہ نہیں ہے کہ یہ تجزیئے کتنے درست ہیں۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ بی جے پی کے حلقوں میں اور اس سے ہمدردی رکھنے والے دانشورانہ حلقوں میں ایک طاقتور رجحان یہ ہے کہ بی جے پی بجائے انقلابی ہندتو کے ، ترقی اور خوشحالی کی علم بردار بن کر سامنے آئے اور صرف اسی صورت میں وہ لمبی اننگ کھیل سکتی ہے اور کانگریس کے مقابلہ میں ایک مستقل متبادل بن سکتی ہے۔
لیکن دوسری طرف آر ایس ایس ہے۔ جس نے اس دفعہ نریندر مودی کو بھر پور آزادی دی۔ اپنی عام روش سے ہٹ کر، مودی کی ذات کو ابھارنے اور انہیں واحد ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی نہ صرف آزادی دی بلکہ اس کے لئے کام بھی کیا۔اور اپنے لاکھوں کارکنوں کی پوری فوج اور اپنا زبردست اثر ورسوخ ، سارا کا سارا، مودی کی کامیابی کے لئے جھونک دیا۔ وہ اس کے بھرپور صلہ کی طالب ہوگی۔آر ایس ایس اور اس کے سخت گیر عناصر کی کوشش ہوگی کہ اس موقع کو ہندتو وادیوں کے دیرینہ خوابوں کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جائے۔ آر ایس ایس کا اصل ہدف تو ذہن سازی کا کام ہے۔ وہ نظام تعلیم، میڈیا، تحقیق جیسے محاذوں پر اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے مواقع چاہے گی۔ مراکز قوت میں اپنے عناصر کا نفوذ چاہے گی۔ دفاعی اور خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہونا چاہے گی۔ اور یکساں سول کوڈ، رام جنم بھو می کی تعمیر ،اور دفعہ۳۷۰؍ کی برخاستگی کے اپنے دیرینہ ایجنڈے پر اصرار کرے گی۔
ان دو رجحانات میں سے کون سا رجحان حکومت پر غالب آئے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں امید کرنی چاہیے اور یہی ہماری کوشش بھی ہونی چاہیے کہ حکومت معقولیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ اور خود پارٹی کے طویل المیعاد مفاد کو پیش نظر رکھ کر، زیادہ معتدل اور منصف مزاج حکومت کے طور پر سامنے آئے۔ابھی تک بی جے پی قائدین اور خود نریندر مودی کے جو بیانات سامنے آرہے ہیں، وہ بڑی حد تک مثبت ہی ہیں۔اندازہ یہ ہے کہ نظام تعلیم ، بیوروکریسی وغیرہ میں نفوذ کے سلسلہ میں تو حکومت شاید آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کرے گی۔ لیکن حساس متنازعہ مسائل کو چھیڑنے سے فی الحال گریز کرے گی۔
اس کامیابی کے سیاسی اثر کے ساتھ ساتھ، اس کا بڑا اثر سماجی سطح پر محسوس ہوگا۔ دائیں بازو کے سخت گیر عناصر کا حوصلہ بہت بلند ہوگا۔ اس کا اثر گلیوں اور محلوں میں ہر جگہ نمایاں ہوگا۔ انتظامیہ، میڈیا وغیرہ میں موجود ان عناصر کی خود اعتمادی اور بڑھے گی۔ سول سوسائٹی میں ان کا اثر ورسوخ بڑھے گا۔ مخالف عناصر کو کمزورکرنے کے لئے ریاستی جبر کے استعمال کا کام اورآسان ہوجائے گا۔ذہنوں کو مسموم کرنے کی مہم اور تیز ہوگی۔
مسلمان کیا کریں؟
اس سانحہ کے ذریعہ پھر ایک دفعہ قدرت نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے۔ہماری کمزور بصارت کا لحاظ کرکے آئینہ کے سامنے خورد بین بھی رکھ دی ہے۔ پھر ایک دفعہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہم کتنے بے خبر اور نادان ہیں۔ سیاست کا کھیل ہم کتنی معصومیت اور سادہ لوحی کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ طاقتور میڈیا کے اس زمانہ میں چلائی جانے والی اس لمبی سیاسی مہم میں ، ہم پوری طرح غائب تھے۔ نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہم ڈھنگ سے مذاکرات کرسکے نہ سلیقہ سے اہل ملک کے سامنے اپنا ایجنڈا ہی پیش کرسکے۔ نہ سیکولر جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوششوں میں ہمارا کوئی رول رہا اور نہ فسطائیت کے خطرہ سے اہل ملک کو باخبر کرنے میں ہم کچھ کردار ادا کرسکے۔ اور نہ ہی بی جے پی کی جیت کی اتنی ساری پیشین گوئیاں ہماری صفوں میں اتحاد پیدا کرسکی۔ بنارس جیسی نشست تک پر ، ہم مل جل کر کسی مشترکہ امیدوار پر متفق نہیں ہوسکے۔ نہ انتخابات سے قبل ہمارے اندر کوئی اضطراب تھا اور نہ نتائج کے بعد ہمارا سکون درہم برہم ہوا۔اپنے اپنے عقیدت مندوں کے حلقوں میں جوہر خطابت دکھا کر ہم سمجھتے رہے کہ ہم نے سیاسی مہم کا حق ادا کردیا۔ جو کچھ کوششیں ہم ۹۸؍، ۹۹؍ اور ۲۰۰۴ کے انتخابات میں کرسکے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکثر جگہ وہ بھی ہم اس بار نہیں کرپائے۔
کاش کہ یہ نتائج ایک سبق ثابت ہوں اور اس تلا طم دریا سے گہر بر آمد ہوں۔ بظاہر تو خالق کائنات کا منشا یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مودی کے نقارہ سے از خواب گراں ، خواب گراں، خواب گراں خیز کی نفیر بلند کرانا چاہتا ہے۔ کیا اتنی پر شور نفیر کم از کم ہم کو بیدار کرپائے گی؟
بیداری کے لئے اولین ضرورت یہ ہے کہ ہم مایوسی اور شکست خوردگی کے احساس سے باہر آئیں۔اگر ہمارا حوصلہ اور بحیثیت ایک امت کے جینے کی امنگ زندہ ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔مایوسی اورخوف کے عالم میں ہم کچھ نہیں کرسکتے اور کچھ نہ کرنا ہمارے لیے سم قاتل ہوگا۔ حوصلہ، اعتماد اور ایمانی حمیت کے ساتھ ہمیں اپنی جدوجہد صحیح رخ پر جاری رکھنی ہے اور دانشمندی کے ساتھ صورت حال کو بہتر بنانے کی سعی کرنی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری اجتماعی نفسیاتی صحت درست ہو۔ اور ہمارے اعصاب ہمارے کنٹرول میں ہوں۔ جس طرح مایوسی کے نتیجہ میں تعطل اور بے عملی مہلک ہے اسی طرح اشتعال اور انتہا پسندانہ جذبات بھی مہلک ہیں۔ نہ اس اچانک تبدیلی سے گھبرا کرخوف و دہشت خود پر مسلط کرنے کا کوئی جواز ہے نہ اس کی وجہ سے معقول اور پر امن جدوجہد سے ڈرنے کی کوئی وجہ۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ نتیجہ ہمارے لئے ڈیڈ اینڈ نہیں ہے بلکہ قدرت تنگ گلیوں سے نکال کر ایک روشن شاہراہ کی طرف ہماری رہنمائی کررہی ہے۔اس رہنمائی کو سمجھیں اور اُس شاہراہ کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کی بیداری اور احیاء کے دروازے اکثر ناگوار حالات کی آندھیوں سے کھولے ہیں اور کئی بار صنم خانوں سے کعبہ کے پاسبان پیدا کئے ہیں۔
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکہ ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
اس شاہراہ کو دیکھنے کے لئے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنا چارج خود لیں۔بچہ اگر کھڑا ہونے کی ہلکی سی کوشش کرے تو کائنات کی ساری قوتیں اس کی مدد کے لئے آموجود ہوتی ہیں۔ لیکن اگر وہ خود ہی کھڑا نہ ہونا چاہے، تو اس کے ماں باپ بھی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ ہم یہ مان لیں کہ ہماری ساری کمزوری صرف ہماری اپنی وجہ سے ہے۔ہم تعلیم میں پیچھے ہیں، ہماری معیشت کمزور ہے، جیلوں میں زیادہ ہمارے لوگ ہیں، سیاست میں ہمارا وزن نہیں ہے، میڈیا میں ہمارے موقف کی نمائندگی نہیں ہوتی تو ان سب کے اسباب حکومت کی پالیسیوں، فلاں فلاں کی سازشوں وغیرہ وغیرہ میں دیکھنے کی بجائے ہم اپنے اندر دیکھیں۔ ہم یہ مان لیں کہ ان سب کے لئے سب سے زیادہ ہم خود، ہماری قیادتیں، ہمارا اشرافیہElites، ہماری تنظیمیں اور ہمارا معاشرہ ذمہ دار ہے۔جس دن ہم اپنے مسائل کے لئے خود کو ذمہ دار سمجھیں گے اور ان کے حل کا پورا چارج خود لیں گے، وہ ترقی اور کامیابی کی شاہراہ پر ہمارا پہلا قدم ہوگا۔
دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہم شدت جذبات کی اُس سیاہ عینک کو اتار پھینکیں جو برسوں سے ہماری بصیرت کی آنکھوں کو اندھا کئے ہوئے ہے۔ یہ شدت جذبات ہی ہے جو ہم میں سے بعض پر انتہا پسندی کا بخار طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت کا مالیخولیا۔اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہر چیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اسی شدت کے نتیجہ میں ہم یہاں کے اکثریتی طبقہ کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے کمیو نکیٹ کرپاتے ہیں۔
بدقسمتی سے قیادت کا عمل بھی انہی عوامی جذبات کی ترجمانی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ قیادت نام ہے تبدیلی کے وژن کا۔ صحیح قیادت وہ ہے جو موجود کو بدلنے کا خواب بھی دکھائے اور حوصلہ بھی پیدا کرے۔ بدقسمتی سے ملت اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے۔ بلکہ صحافت و دانشوری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔یہ صورت حال بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو جرأ ت مند اقدامات کرسکے۔ عوام کو جذبات کے ریلے میں بہنے نہ دے۔ سخت فیصلے کرسکے اور ان فیصلوں پر امت کو ساتھ لے کر چل سکے۔
تیسری ضرورت یہ ہے کہ ہم اختلاف کے باوجود مل جل کر کام کرنے اور ترجیحات کی ترتیبHierarchyکے مطابق اشتراک و اتفاق کی ترتیب کا مزاج اور صلاحیت پیدا کریں۔ ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت میں مفادات اور خیالات کی مختلف دھارائیں موجود ہیں۔ اس کے باوجود ایک وسیع تر مقصد یا مفاد کے لئے وہ ایک ہوجاتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں کچھ اور زیادہ وسیع تر مقاصد کے لئے وفاق بناتی ہیں۔ بعض وقت علاقائی وفاق کسی قومی وفاق کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح اختلافات کے باوجود وہ مقاصد کی ترجیحی ترتیب سے مرتکز Converge ہوتے جاتے ہیں۔ یہی کیفیت بین الاقوامی سطح پر ہے جہاں علاقائی وفاق ہیں۔ علاقائی وفاق ، کسی اور وسیع تر وفاق کا حصہ ہیں۔ مفادات کی بنیاد پر وفاق ہیں۔ ترقی اور عدم ترقی کی بنیاد پر ہیں۔
ملت اسلامیہ ہند میں یہ عمل ابھی بھی ناقص ہے۔ ہمارے بعض وفاق جو موجود ہیں وہ بھی بے اثر ہیں۔ہمارے یہاں اتفاق کے لئے مکمل اتفاق ضروری ہے۔ اور یہ احساس ہی مفقود ہے کہ اختلاف کے ساتھ بھی مل جل کر کام کیا جاسکتا ہے۔ مسالک، فرقوں، جماعتوں و تنظیموں وغیرہ کے درمیان باہمی گفت و شنید، اہم تر معاملات میں مشاورت وغیرہ کا عمل ابھی بھی کمزور ہے بلکہ غالباً پہلے سے زیادہ کمزور ہے۔
چوتھی ضرورت یہ ہے کہ ہم بحیثیت ملت، اس ملک کی اکثریت سے کمیو نکیشن کی ضرورت کو سمجھیں اور اس کی صلاحیت پیدا کریں۔ ہمیں ان کے ذہن کو بھی سمجھنا ہے اور اپنا ذہن ان کو بھی سمجھانا ہے۔یہ کام ہر سطح پر ہونا ہے۔ ہمارے قائدین کو صحت مند اور بامقصد مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ہے اور آگے بڑھانا ہے۔ ہمارے دانشوروں کو ٹی وی کے مباحث میں ، اخبارات کے کالموں میں اور علمی محفلوں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر صحت مند مباحث چھیڑنا ہے اور ان میں شریک ہونا ہے۔ یہ سارا کام غیر جذباتی طریقہ سے، معقولیت اور معروضیت کے ساتھ اور مخاطب کے ذہن و نفسیات کو سمجھ کر سلیقہ کے ساتھ انجام دینا ہے۔
اسی سے متعلق ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمیں بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوششوں میں بھی کسی تکلف اور پس و پیش سے کام لینا نہیں ہے اور نہ غیر ضروری جذباتیت کو اس راہ میں حائل ہونے دینا ہے۔آنے والے وقتوں میں مسلم قیادت کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ نئے حکمرانوں سے اور حکمراں جماعت سے اپنے تعلقات میں وہ کیسے ملی غیرت و حمیت ، عزت و وقار اور دانشمندی و تحمل و بصیرت کے تقاضوں کو توازن کے ساتھ نبھاتی ہے۔ ایک جمہوری معاشرہ میں حکومت بننے تک، ایک شہری کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر افراد کے انتخاب کی کوشش کرے۔ بن جانے کے بعد حکومت صرف ان لوگوں کی نہیں ہوتی جنہوں نے اسے ووٹ دیا ہے۔حکومت تو سارے شہریوں کی ہوتی ہے اور ہر شہری کا اس میں برابر حق ہوتا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس منتخب حکومت کو صحیح راستہ پر قائم رکھنے کی جدوجہد کریں اور اگر وہ نقصان دہ پالیسیوں پر گامزن ہو تو ہماری کوشش ہو کہ اس کا نقصان کم سے کم ہو اور ممکنہ حد تک فساد ٹلے اور صلاح و خیر پروان چڑھے۔اس کے لئے حکومت سے بھی ہمارے کمیونکیشن کے چینل کا کھلا رہنا ضروری ہے۔
گاندھی جی کے پوتے اور مغربی بنگال کے سابق گورنر ، راج موہن گاندھی کا خط جو انہوں نے انتخابی نتائج کے بعد نریندر مودی کے نام لکھا ہے(دی ہندو، ۱۹؍ مئی ۲۰۱۴) وہ اس طرح کے کمیونکیشن کی خوبصورت مثال ہے۔ اس میں مودی کی سیاسی پوزیشن اور نظریاتی موقف کا لحاظ رکھتے ہوئے بعض اہم گذارشات کی گئی ہیں۔اور ان کے نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے، ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی گئی ہیں۔کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اس طرح کی واضح بات چیت حکومت سے نہ کریں یا نہ کرسکیں۔
اک طرز تغافل ہے سو ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
بدقسمتی سے ہماری ماقبل انتخابات سیاسی حکمت عملی جتنی ناقص ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ ناقص مابعد انتخابات حکمت عملی ہوتی ہے۔بلکہ اکثر شعور ہی نہیں ہوتا کہ انتخابات کے بعد بھی کرنے کے کوئی کام ہیں۔ایک جمہوری معاشرہ میں انتخابات کے بعد بھی ووٹر چوکس اور باخبر ہوتا ہے۔ اور اپنے پریشر گروپس کے ذریعہ، لابیز کے ذریعہ، میڈیا کے ذریعہ اور منتخب نمائندوں کے ذریعہ نئی حکومت سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کراتا ہے۔
دیگر سیکولر اور انصاف پسند عوام کے ساتھ مل کر ہمیں اس ملک میں سول سوسائٹی کو مضبوط کرنا چاہیے۔ حکومت سے بامقصد مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ قانون سازی کے عمل اور اس کے لئے مباحث میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔حکومت کے قریبی اعتدال پسنددانشوروں اور ارباب اختیار پر اثر انداز ہونے اور ان کے ذریعہ حکومت کی پالیسیوں کو ممکنہ حد تک اعتدال پر رکھنے کی جدوجہد ہونی چاہیے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم ، ہمارے ادارے اور تنظیمیں ، اپنے خول سے نکلیں۔اس امت کی پہچان بہت تیزی سے ایک ایسے گروہ کی بنتی جارہی ہے جس کی ساری دلچسپیاں صرف اپنے آپ تک محدود ہیں۔ جو ملک کے لئے ایک بوجھ Liability ہے۔ جو کچھ تعمیری کام کرتی بھی ہے تو صرف اپنے آپ کے لئے اور اپنے ہم مذہبوں کے لئے کرتی ہے۔ جس کا باقی ملک اور سماج سے صرف احتجاج یامانگنے کا تعلق ہے۔یہ پہچان (یقیناً اس کی ذمہ داری غلط پروپگنڈہ پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن اس سے انکار مشکل ہے کہ کسی نہ کسی درجہ میں ہمارے رویئے بھی اس کے لئے ذمہ دار ہیں) ہمارے مخالفین کے اندر نفرت اور بے اعتنائی بڑھاتی ہے اور ہمارے دوستوں میں ہمارے تئیں رحم اور ترس کے جذبات پروان چڑھاتی ہے۔ دونوں جذبات ہمارے ملی وجود کے لئے مہلک ہیں۔ہم سب کو سر جوڑ کر اس پر سوچنا چاہیے کہ کیسے ہم اس ملک کو اور یہاں کے سماج کو’’دینے والے‘‘ بن سکتے ہیں؟
اس سرگرمی ، پیش قدمی، زیرکی، اور جرأ ت کی توقع، ہم ملت کی روایتی نیم خواندہ قیادت سے نہیں کرسکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئیں۔ وہ لوگ آگے آئیں جو اس جدید دنیا کو سمجھتے ہیں۔صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے ، دنیا کے معتبر ترین فورموں میں ٹھہر کر بات کرسکتے ہیں۔ مواصلات کے جدید وسائل کے استعمال اور جدید زبان اور لب و لہجہ پر قدرت رکھتے ہیں۔ دنیا میں منصوبہ بندی، ویژننگ، اسٹریڈجی میکنگ، نفاذ، ڈائیلاگ، نیگوشی ایشن، لابنگ وغیرہ کے جو پروفیشنل طریقے رائج ہیں ان کا فہم وشعور رکھتے ہیں۔جن کا انداز کار، طرز گفتگو اور باڈی لینگویج، اعتماد، حوصلہ اور حرکت و توانائی کا اظہار کرتے ہوں۔ ہماری ہر تنظیم اور ہر ملی سرگرمی کو ایسے افراد کی ضرورت ہے۔
اگر ہمارے ایسے نوجوان، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ نان و جو (اور کار و فلیٹ) کی کشمکش سے پرے بھی ان کی کچھ وسیع تر ذمہ داریاں ہیں تو ان شاء اللہ خود بخود حالات بدلنا شروع ہوں گے۔
کچھ اور بڑھ گئے اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
سید سعادت اللہ حسینی، رکن مرکزی مجلس شوری، جماعت اسلامی ہند ۱۶؍ مئی ۲۰۱۴ ء کا دن ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات کے لئے ایک اور بڑی دھماکہ خیز خبر لے کر طلوع ہوا۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی…