امریکن نیشنل بزنس میگزین ’’فوربس‘‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال2013 ء میں 2426؍ ارب پتی دنیا میں موجود ہیں۔ جن کا کل اثاثہ تقریبا 5.4؍ ٹرلین (5400؍ارب)امریکی ڈالر ہے۔ جن میں سے صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 1342؍ ارب پتی ہیں۔ ان میں سے سرفہرست100؍ میں تین ہندوستانی بھی ہیں۔ اس فہرست میں غریب ترین شخص بھی کم از کم 5؍ ارب ڈالر کا مالک ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2000 ء میں پوری دنیا کی تمام دولت کا 40؍ فیصدحصہ صرف ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے قبضے میں ہے اور دنیا کے دس فیصد امیر لوگ دنیا کی 85؍ فیصد دولت پر قابض ہیں۔ دنیا کی آدھی آبادی دنیا کی 99؍ فیصد دولت کی مالک ہے، جبکہ دنیا کی بقیہ آدھی آبادی صرف ایک فیصد دولت پر گزارا کرنے پر مجبور ہے۔ یہ اعداد وشمارتو 2000 ء کے ہیں، 2000 ء اور آج 2014 ء کے درمیان بے جا حمایت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام جس تیزی کے ساتھ پروان چڑھا ہے ، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عدم توازن کس قدر بڑھ گیا ہوگا، اور آج ہم پورے یقین اور دکھ کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ حالات اب تیزی سے امیروں کو مزید امیر بنا رہے ہیں۔
اسی طرح امریکہ کو لیجئے جو کہ ایک عالمی طاقت ہے اور جہاں کی معیشت دنیا میں سب سے اچھی معیشت مانی جاتی ہے۔ جس کی معیشت میں اتار چڑھاؤ کا اثر دنیا کے تقریبا ہر ملک پر پڑتا ہے۔ اور جہاں جانے کا خواب تقریباََہر کس وناکس دیکھتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ میں ہرشخص خوش ہے؟ ہر شخص کو اس کے حقوق مل رہے ہیں؟؟ دولت کی مساویانہ تقسیم نہ سہی ، کیا کم از کم عادلانہ تقسیم امریکن سماج میں پائی جاتی ہے؟؟ ان سوالوں کا جواب ہم خود اخذ کر سکتے ہیں اگر ہم 2001 ء کے ایک جائزے پر نظر ڈالیں جو خود امریکہ کے ہی بارے میں ہے۔اس جائزے کے مطابق امریکہ میں ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس 38%؍ دولت ہے اور دس فیصد لوگوں کے پاس 71%؍ دولت ہے، جبکہ 40%؍ غریب مل کر صرف اور صرف ایک فیصد دولت کے مالک ہیں۔ غریب ملکوں کا حال اس سے بھی کہیں بد تر ہے۔ آسان الفاظ میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک دعوت میں سو مہمان ہیں اور سو روٹیاں ہیں۔ ایک امیر مہمان کو 38 روٹیاں کھانے کو ملیں جبکہ 40 غریب مہمانوں کو مل کر صرف ایک روٹی میں سے ٹکڑا ٹکڑا کھانا پڑے۔ اب ہم اچھے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ترقی یافتہ امریکہ میں عام آدمی کا یہ حال ہے تو دیگر ممالک میں ان کا کیا حال ہوگا؟؟؟ اللہ خیر کرے!!
یہ مال ودولت کی غیر منصفانہ تقسیم دنیا کے بیشتر ممالک میں مختلف انداز اورسطح پر پائی جاتی ہے، اور غریبوں کے اس استحصال میں وہاں کے حکومتی ادارہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ جس کی ایک تازہ مثال ابھی حال ہی میں امبانی گروپ کی طرف سے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے سلسلے میں گانگریس حکومت کی ہمنوائی اور ان کے فیصلے کی تائید نے واضح کر دیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار عالمی اور ملکی واقعات ہیں جنہیں ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں۔
ایک اور بہت ہی چونکا دینے والی رپورٹ جنوری 2014 ء میں ’’ورلڈوائڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ (Oxfam )نے \”Working For The Few\”کے نام سے ’ڈیووس‘ (سوئیزرلینڈ) میں ’ورلڈ ایکونومکس فورم‘ کی میٹنگ کے انعقاد سے ٹھیک پہلے شائع کی تھی ، جس میں تفصیل سے اس مسئلہ پر بحث کی گئی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے ممالک میں پائی جانے والی معاشی ناہمواری کے پیچھے کون کون سے اسباب کارفرماں ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اس رپورٹ نے کچھ ایسے حیران کن اعداد وشمار بھی دیئے ہیں جنہیں دیکھ کر کافی مایوسی اور دکھ ہوتا ہے۔ اس کے مطابق دنیا میں صرف 85؍ صاحب ثروت لوگوں کے پاس جتنا مال و دولت اور اثاثہ ہے وہ اس مجموعی اثاثہ کے بابر ہے جو دنیا میں نچلی سطح کے 3.5 بلین لوگوں کے پاس ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعداد دنیا کی تقریباََ آدھی آبادی ہے۔ اسی طرح یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا کی تقریبا آدھی دولت صرف ایک فیصدمالدار لوگوں کے پاس ہے۔ اور ان ایک فیصد مالدار لوگوں کے پاس جو اثاثہ ہے وہ تقریبا 110؍ ٹرلین امریکی ڈالر ہے اور یہ اس دولت سے65؍ گنا زیادہ ہے جو پوری دنیا کی نچلی سطح کی آدھی آبادی کے پاس ہے۔ دولت کا یہ بڑھتا ہواارتکاز جمہوریت کوبھی نقصان پہنچا سکتاہے بلکہ پہنچانے لگاہے، جس کا مشاہدہ ہم کئی ایک ممالک میں بخوبی کر سکتے ہیں۔
یہ رپورٹ واقعی بہت ہی حیران کن نتائج کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس مالی ناہمواری کے سبب دنیا میں رونما ہورہے ہیں۔ اگر ہم اس رپورٹ کو تھوڑا اور احتیاط سے لیں تو بڑے ہی وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں تقریبا 90؍ فیصد سے زائد اثاثہ وہاں کے صرف 1؍فیصد مالدار لوگوں کے پاس ہے، اور بقیہ 99؍ فیصد آبادی صرف 10؍ فیصد پر گزارا کررہی ہے۔ بلکہ بعض ممالک میں تو اس سے بھی کم حصہ ان کے حق میں آتاہے، جیسا کہ2011 ء کے عرب بہاریہ کے دوران امریکہ میں ہو رہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرین کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے بینرس اور کارڈس کو پڑھ کر اندازہ ہوتاہے۔ امریکہ جوکہ ایک فارغ البال ملک سمجھا جاتا ہے اور وہاں کی معیشت ایک مثالی معیشت سمجھی جاتی ہے، مگر بینرس پر لکھی گئی عبارت(We Are 99%) کو پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ جب امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں لوگوں کی غربت کا یہ عالم ہے کہ انہیں اپنے آپ کو 99؍ فیصدہونے کا احساس دلاتاہے تو دوسرے ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے لوگوں کے درمیان یہ احساس کس قدر ہو گا۔واقعی یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس قدر غیر متوازن مالی تقسیم کے باوجود کیا ایک عام آدمی اپنے سارے انسانی، بنیادی اور دیگر مختلف طرح کے حقوق حاصل کرنے کی ہمت اپنے اندر پاسکتاہے؟؟
دنیا میں پائی جانے والی غربت، فاقہ کشی اور بیروزگاری کو بتانے کے لیے مزید اعداد وشمار کی ضرورت نہیں ہے۔ اوپر بیان کردہ رپورٹس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ یہ مشکلات کس قدر بڑھی اور سماج کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوں گی۔
آئیے اب ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان میں مال ودولت کے اس ارتکاز پر نظر ڈالیں جس کی کل آبادی 2011 ء کے مردم شماری کے مطابق تقریبا 121؍ کروڑ (1.21؍بلین) ہے۔ فوربس میگزین ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 ء میں ہندوستان کے اندر 61؍ ارب پتی ہیں (یعنی جن کا اثاثہ 1؍ارب امریکن ڈالر سے زائد کا ہو) فوربس ہر سال یہ رپورٹ شائع کرتی ہے، اور اس رپورٹ کے مطابق 2012 ء میں ۱۰۰؍مالدار ہندوستانیوں کے پاس 250؍ بلین امریکن ڈالر کی لاگت کا اثاثہ تھا، جو کہ 2011 ء میں 241؍ بلین کا تھا۔ اب 2013 ء اور 2014 ء میں کیا صورتحال ہے، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے اثاثے مزید بڑھے ہی ہوں گے اس لیے کہ انہوں نے حکومتی سانٹھ گانٹھ کے ذریعہ غریبوں کا خون مزید چوساہی ہوگا۔ اس لیے کی ان سے کسی خیر کی توقع کرنا ویسے ہی ناممکن ہے جیسے کہ صحراء میں سبزے کا اگنا۔
چین کی ایک ریسرچ فرم ’’ہورون ‘‘کے مطابق 2013 ء میں ارب پتیوں کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا پانچواں سب سے بڑاملک ہے۔ریلائنس کے چیئرمین مکیش امبانی لگاتار آٹھویں مرتبہ سب سے مالدار ہندوستانی کی حیثیت سے پھر سامنے آئے ہیں۔ جن کا کل اثاثہ تقریباََ18؍ بلین امریکی ڈالر کا ہے، اور یہ رپورٹ آگے کہتی ہے کہ پچھلے سال انڈین روپیہ ڈالرکے مقابلہ میں12؍فیصد کمزور ہواہے،اور اس کا ہندوستانی معیشت پر بہت برا اثربھی پڑاہے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد میں نہ صرف یہ کہ کمی آئی ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہواہے۔ جہاں یہ تعداد 2012 ء میں 61؍تھی اب 70؍ہوگئی ہے، اور اس پر مزید مزے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں پائے جانے والے سپر مالدار لوگوں کی مجموعی تعداد بہت سے ترقی یافتہ ممالک (جرمنی، سوئزرلینڈ، فرانس اور جاپان) کے ارب پتیوں سے کہیں زیادہ ہے، اور ان ارب پتی ہندوستانیوں کے اثاثے کی کل قیمت اب320؍بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
آئیے اب ہندوستانی عوام اور بالخصوص عام آدمی کی حالت زار کا اندازہ خود حکومت ہند کے ہی ایک اہم اور فعال ادارے یعنی پلاننگ کمیشن کے تابع ایک خود مختار ادارے ’انسٹی ٹیوٹ آف اپلائڈ مین پاور ریسرچ‘ (IAMR) کے ذریعہ2011 ء میں تیارکی گئی ایک رپورٹ سے لگاتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دکھائی دینے والی معاشی چمک دمک اور نظروں کو خیرہ کرنے والی اقتصادی ترقی اس ملک کے صرف چند لوگوں کے لیے ہے۔ جس نے سماج کے صرف مالدار اور طاقتور طبقے کے چہرے پر ہی خوشیاں دی ہے، اور رہے بقیہ لوگ تو وہ ابھی تک درد وکرب اور مشقت بھری زندگی گزارنے پرہی مجبور ہیں۔
اس رپورٹ میں آمدنی کی ناہمواری اور بھارت میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ رپورٹ 121؍ کروڑ ہندوستانیوں کی مجموعی حالت کا اندازہ تین زاویے سے لگانے کی کوشش کرتی ہے؛ گھریلو اخراجات، تعلیم اور صحت۔ اس رپورٹ کے نتائج بہت اہم اس لیے بھی ہیں کیونکہ یہ ہندوستان میں مال ودولت اور اثاثوں کی انتہائی غیر مساویانہ تقسیم کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ آج ہندوستان میں سب سے اوپر کے صرف پانچ فیصد گھرانے ملک کے تقربا 38؍ فیصد اثاثے کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ جبکہ نچلے 60؍ فیصد عوام بمشکل ملک کے صرف 13؍ فیصد اثاثے پر گزربسر کر رہی ہے، اور یہ منظر نامہ جب ’ریئل انڈیا‘ یعنی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں پہنچتاہے تو تصویر مزید بھیانک ہوجاتی ہے، اور یہی 60؍فیصد والا نچلا طبقہ وہاں صرف 10؍فیصد اثاثے کا مالک نظر آتاہے، اور یہ اثاثے دیہی علاقوں کے زرعی مزدوری کرنے والے گھرانوں اور شہری علاقوں کے وقتی اور عارضی مزدوری کرنے والے گھرانوں کے پاس تو بالکل نہ کے برابر ہیں۔
یہ رپورٹ ہندوستان میں غربت کی ایک سنگین تصویر پیش کر تی ہے۔ گرچہ ہندوستانی معیشت تقریبا 5؍فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے، مگر یہ شرح اس ملک کو غربت کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے کافی نہیں ہے،اور فی الواقع ہندوستان سے غربت کے خاتمے کا تناسب اس ملک کی اقتصادی ترقی کی اعلی شرح سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہے۔ جس کا ادراک ہمیں بخوبی اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ پچھلے 30؍سالوں کے درمیان ہمارے ملک سے غریب لوگوں کی تعداد بمشکل کم ہوئی ہے۔ 1973 ء۔1974 ء میں غریبوں کی تعداد 332؍ ملین تھی اور اگلی دہائی میں بھی یہ نمبر برقرار رہا، البتہ 1993 ء۔1994 ء اس میں برائے نام سی گراوٹ دیکھنے کو ملی (320؍ ملین )لیکن 2004 ء۔2005 ء میں یہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہی۔ اسی طرح بے روزگاری اور فاقہ کشی بھی آسمان چھورہی ہے۔ خوردنی اشیاء کی بڑھتی قیمتوں نے تو غریبوں کے منھ سے روکھا سوکھا نوالہ بھی چھین لیاہے۔
ان دونوں رپورٹس کے مطالعہ کے بعد ہم اجمالاََ کچھ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر پوری دنیا کی دولت (بہ لحاظ شرح تبادلہ Exchange Rate) کی تقسیم کی جائے تو صورتحال کچھ یوں نظر آتی ہے:
2 شمالی امریکہ کی آبادی 5.17%؍ ہے اور دولت 34.39%؍ ہے۔
2 یورپ کی آبادی 9.62%؍ ہے اور دولت 29.19%؍ ہے۔
2 ایشیا کی آبادی 52.18%؍ ہے اور دولت 25.61%؍ ہے۔
2 جنوبی امریکہ اور وسطی امریکہ کی آبادی 8.52% ؍ہے اور دولت 4.34%؍ ہے۔
2 مشرق وسطیٰ کی آبادی 9.88%؍ ہے اور دولت 3.13%؍ ہے۔
2 افریقہ کی آبادی 10.66%؍ ہے اور دولت 0.54%؍ ہے۔
2 بقیہ دنیا کی آبادی 3.14%؍ ہے اور دولت 2.56%؍ ہے۔
دولت کو جمع کرنے اور اس کی ذخیرہ اندوزی کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہاہے۔ سماج کے نچلے طبقے غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ دولت اوراس کوحاصل کرنے کے مواقع صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتے جارہے ہیں، اور حددرجہ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ اس صورتحال کا تدارک اور اس کے سد باب کی نہ توکوئی کوشش کررہاہے اور نہ اس بارے میں سوچنے کی زحمت کررہاہے۔ اورنہ کسی کے پاس اس مشکل صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی مستقل اور واضح ہدایت اورلائحۂ عمل ہے۔
توکیا اس مشکل سے نکلنے کے لیے بنی نوع انساں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے؟۔۔۔اگر واقعی نہیں ہے تو یہ ناہمواری ایک عظیم فتنہ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اور جس کے اثرات نظر بھی آنے لگے ہیں۔ عرب ممالک سے شروع ہوکر امریکہ ویورپ کے دوسرے ممالک اور ہندوستان کے دیگر شہروں میں پہنچ چکی احتجاج کی لہریں اسی کا نتیجہ ہیں۔
لیکن ابھی تک ان احتجاج کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ کسی ملک میں سامنے نہیں آیاہے، بلکہ اس کے نتیجہ میں جو تصادم ہوئے اس سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ مزید نازک ہوگیا ہے اور اس کا سیدھا اثر ان ممالک کی معیشت پر پڑاہے اور جس سے بنیادی طور پر سماج کا نچلا طبقہ ہی متأثر ہواہے، اور اسی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اب ایسے وقت میں جبکہ دنیا کے بیشتر ماہرین اقتصادیات اس سلسلے میں کوئی ٹھوس لائحۂ عمل اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی طریقہ پیش کرنے سے قاصر ہیں، ہماری نظر اسلام پر پڑتی ہے، جو اپنے آپ میں ایک مکمل نظام حیات ہے، جس میں انسانوں کے سارے مسائل کا حل موجود ہے، بشرطیکہ انسان اس سے استفادہ کرناچاہے۔
اللہ تعالی نے صاحب حیثیت لوگوں کے اموال میں ناداروں کے رزق کوواجب کیا ہے : (وفی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم۔۔ الذریات:19)، تو کوئی بھی شخص دنیا میں اس وقت تک بھوکا نہیں رہے گا، جب تک کہ اہل ثروت اپنے مال میں سے بندوں کے حقوق ادا کرتے رہیں گے،اور روزِ قیامت اللہ تعالی اہل ثروت سے اس بابت بازپرس و مواخذہ کرے گا، جیساکہ روایات اس جانب اشارہ کرتی ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ اہل ثروت اپنی دولت کے ذریعہ حکومتی مشنریوں پر اثر انداز ہوکر ایسی پالیسیز تیار کراتے ہیں جس سے سارے قوانین مالداروں کے حق میں ہوجاتے ہیں جس سے وہ غریبوں کا اور استحصال کرتے ہیں۔
دولت جمع کرنے اور اس کی ذخیرہ اندوزی کے سلسلہ میں کئی ایک روایات آئی ہیں۔اس سلسلے میں تو ایک اسوہ ہمیں صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ملتا ہے جوبڑے ہی قناعت پسند اور سادہ مزاج تھے۔ مال و زر کے معاملے میں قلندرانہ مسلک رکھتے تھے۔ ساری زندگی امرا ء اور اغنیا ء کو زخیرہ اندوزی سے روکتے رہے۔ قرآن کی اس آیت؛(جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں وہ درحقیقت آگ کھاتے ہیں) سے استدلال کرتے تھے اورسونا اور چاندی جمع کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ان کے بارے میں روایتوں میں ملتا ہے کہ وہ ایک وقت سے زیادہ خوراک اپنے پاس رکھتے ہی نہ تھے ، سب اللہ کے راستہ میں انفاق کر دیتے تھے۔ان کا یہ جذبہ انتہائی قابل ستائش ہے اور انسان دوستی اور خدمت خلق کا کام کرنے والوں کے لیے شاندار مثال اور نمونہ ہے، لیکن کیا آج کوئی بڑے سے بڑا اللہ والابھی اس پر عمل کرتا ہے یا کرسکتاہے؟؟۔۔۔۔ ناممکن ہے۔۔۔ لیکن اگر ان کے اس اسوے اور طریقے پر صرف 10؍یا 15؍فیصد ہی عمل کرلیا جائے تو بہت سارے مسئلے خود بخود حل ہوجائیں گے۔
ایک روایت کے مطابق کوئی مال جمع نہیں ہوتا ہے مگر یہ کہ کسی مظلوم کا حق مارا گیا ہو۔اگرچہ بیان کی گئی روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، لیکن اس سلسلے میں جو دوسری روایات آئی ہیں، وہ اس کی سند کے ضعف کو ختم کر رہی ہیں۔ متن ومعنی کے اعتبار سے یہ روایت اس مال کی ذخیرہ اندوزی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو غیر شرعی راستوں سے حاصل ہوتی ہے یا جس میں مالی واجبات ادا نہیں ہوئے ہیں جیسے خمس ، زکوۃ و غیرہ کی ادائیگی نہیں کی گئی ہو۔
اسلا م میں شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے ثروت کو وجود میں لانا اور مال یا سرمایہ اکھٹا کرنا جائز ہے، مال اور دولت والا ہونا، یا اہل ثروت میں سے ہونا اسلام کی نظر میں برا نھیں ہے ، بلکہ دنیا پرستی اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دینا اچھا عمل نہیں ہے۔مال و ثروت کو ایک وسیلے کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے جو اخروی سعادت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، اگر اس نظر سے مال و ثروت کو دیکھا جائے تو حصول مال ، طلب دنیا شمار نھیں ہوگا بلکہ یہ بھی طلب آخرت کا حصہ ہے۔ لیکن ہم جس مال کی ذخیرہ اندوزی کاتذکرہ یہاں کررہے ہیں، وہ وہی مال ہے جسے ناحق طریقوں سے حاصل کیا گیا ہے۔
دولت کی پیداوار کے مواقع میں اعتدال و توازن اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تقسیم میں بھی اس کا خاص خیال رکھنا اسلام کے اقتصادی نظام کا اہم امتیاز ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے : (کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم ۔۔الحشر :۷) ’تاکہ وہ (سارا مال) محض دولت مندوں کے ہاتھوں میں ہی گھومتانہ رہ جائے‘، بلکہ ضرورت مندوں تک اس کا پہنچنابھی ضروری ہے چنانچہ اسلام میں مختلف مالی احکام وضع کئے گئے جیسے زکوۃ ، خمس ، صدقہ ، تاکہ معاشرہ کی دولت عام لوگوں تک بھی پہنچ سکے اور سماج کے افراد ایک سطح پر اقتصادی ترقی حاصل کر سکیں اور ان کے درمیان طبقاتی شگاف کم سے کم ہو جائے اور غریبوں کااستحصال ختم ہو جائے۔ لیکن یہاں پریہ امر ذہن نشیں رہنا چاہیے کہ اگر کوئی شرعی قوانین کے دائرہ میں رہ کر مالدار ہوتا ہے تو اس میں اسلام کی نظر میں کوئی برائی نہیں ہے ، اسلام ثروت کی عادلانہ تقسیم کے لئے جس طریقہ کار کو پیش کرتا ہے وہ دولت حاصل کرنے والے صاحب صلاحیت افراد کو ان کی راہ میں آگے بڑھنے سے نہیں روکتا بلکہ ان کے لئے کچھ مالی وظائف اور قوانین بھی متعین کرتا ہے۔ قرآن کریم جہاں حضرت سلیمان، حضرت داؤد، اور ذوالقرنین علیہم السلام جیسی دولت مند شخصیتوں کا ذکر کرتا ہے جو اہل ایمان تھے ،وہیں اس کے مقابل قارون جیسے اہل ثروت کا بھی تذکرہ کرتا ہے، جن پر اللہ کا سخت عذاب نازل ہوا۔
قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں :(الھاکم التکاثر حتی زرتم المقابر۔التکاثر:۱) تمہیں کثرت مال و اولاد کے باہمی مقابلہ نے غافل بنا دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں چلے گئے۔ ذخیرہ اندوزی اگر انسان کو یادخدا سے غافل کر دے تو یہ مذموم و بری بات ہے اور اسلام نے ایسے مال کی جمع آوری سے روکا ہے ، ثروت سے دل لگانا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا کسی بھی صورت صحیح نہیں ہے، لیکن اگریہی ثروت راہ خدا میں صرف ہو تویہ چیز پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابل تعریف بھی ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان اہل ثروت میں سے تھیں، جنھوں نے اپنے مال کو اسلام کی ترقی اور اس کی تبلیغ و ترویج اور توسیع کے لئے صرف کر دیا۔ قرآن کریم نے بھی ان لوگوں کو دردناک عذاب سے ڈرایا ہے جو مال کو جمع کرتے ہیں لیکن اس کو راہ خد امیں صرف نہیں کرتے۔ ارشار ربانی ہے۔ (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم۔التوبۃ: ۴۳) ’اور جو لوگ سونے چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے اے پیغمبر آپ انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں‘۔اسی آیت کے مفہوم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں : ’’ہر وہ مال جس کی زکوۃ ادا کردی گئی ہو، اس آیت کا حکم اس کو شامل نہیں ہے۔ اگر مال کی ذخیرہ اندوزی شرعی قوانین کے دائرہ میں ہو، اور وہ احتکار (ذخیرہ اندوزی) کے زمرے میں نہ آئے اور اس کے حقوق کو ادا کر دیا گیا ہو، جیسے زکوۃ اور خمس وغیرہ تو ایسی ثروت کی پیداوار اور اس کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
آصف نواز فلاحی،
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی