حسان بن عبد الغفار
آج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں اس کے ارد گرد جب ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہر طرف فضائی، زمینی اور آبی آلودگی کا مسئلہ سینہ سپر نظر آتا ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، کوڑوں کے ڈھیر، دریاؤں، راستوں کے کناروں اور دیگر بے محل پھینکی گئی گندگی اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں۔یہ سب ایسے عوامل واسباب ہیں جنھوں نے ماحول کی شکل کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ہم بخوبی جانتے ہیں کی ہماری زندگی کا انحصار ہوا، پانی اور خوراک پر ہے۔ ان تینوں کے اندر ذرا سی بے اعتدالی، تبدیلی اور بے احتیاتی ہم سب کی زندگی چھین سکتی ہے یا کم ازکم مختلف قسم کی بیماریوں کا لباس پہنا کر بستر مرگ کے حوالے کر سکتی ہے۔یہاں مذکورہ اجناس ثلالہ اور ان کی ہیئت وحقیقت تبدیل کرنے والی خطرناک اشیاء پر اجمالی روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
پانی اور ہوا انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود و بقا کے لئے خالق کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمتیں ہیں۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی اور ہوا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے، ”اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی،تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے“۔(سورہ الانبیاء، آیت:30)
خوراک کا تعلق صرف صحت ہی سے نہیں ہے بلکہ ہر جاندار کی زندگی اسی سے وابستہ ہے۔اسی لئے پروردگارعالم نے ہر قسم کی پاکیزہ خوراک کو انسانوں کے لئے جائز اور مباح قراد دیا ہے۔مگر گزشتہ چند دہائیوں میں انسان نے فطرت اور قدرتی نظام میں چھیڑ چھاڑ اور دخل اندازی کر کے انسانیت کے وجود کو چیلنچ کر دیا ہے۔ کھیت،کھلیان،جنگل،ندیاں، تالاب اور دیگر وسائل زندگی کی اصلیت کو اپنی نادانی اور کم ظرفی کی وجہ سے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔جن کھیت کھلیانوں میں جوانسانی غذا ئیں اگائی جاتی ہیں،ان کی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداواراور زیادہ سے زیادہ آمدنی کے لئے ان میں ڈھیر سارے کیمیائی مادے ملائے جاتے ہیں۔زیادہ منفع کے لالچ میں میں ایسے کیمیکلس سے پیدا ہونے والے اجناس اور دیگر پھل و سبزیاں انسانی زندگی کے لئے بے حدمہلک ہو تی ہیں۔ ندیوں اور تالابوں کے کناروں کو کوڑا کرکٹ اور طرح طرح کی غلاظتوں سے بھر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آبی آلودگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ندیوں کا ہجم روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔کیمیائی و صنعتی اخراج اور بعض جگہوں پر کارخانے کا کچا تیل بھی ان ہی ندیوں میں بلا خوف و خطر ڈال دیا جاتاہے۔ کوڑا کرکٹ، فضلہ، غلاظتوں اور نالوں و صنعتی اخراج کی بہتات سے برسات میں پانی کے تیز بہاؤ میں یہ سب مل کر ندی کے صاف پانی کو آلودہ کے اسے مزید زہریلا بنا دیتے ہیں جس کے سبب ان ندیوں کے پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔
ان خراب اور غلیظ اشیاء سے امونیم سائنائڈ،کرومیٹ اور نیپتھین جیسے زہریلے مادے کے مضرو مہلک اثرات انسان، حیوان اور بہت سارے آبی نباتات پر پڑتے ہیں۔ ایسے آلودہ پانی میں پیدا ہونے والے نباتات کلورین کی کمی کے باعث فنا ہونے لگتے ہیں۔جس سے انسان کے ساتھ ساتھ مچھلیوں اور پانی میں رہنے والی کئی دوسری انواع کی غذا ضائع ہو جاتی ہے۔ مچھلیاں بھی ایسے پانی میں رہتے رہتے زہر آلود ہو جاتی ہیں۔ان مچھلیوں کو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں قدرتی طور پرموجود پروٹین سے جو فائدہ پہنچتا، وہ نقصان میں بدل جاتا ہے۔ پانی کی آلودگی کے سبب طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے اور جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں جوپانی کو خطرناک حد تک زہریلا بنا دیتے ہیں۔ نتیجہ کے طورپر انسان کے لیے جزام،کینسر، یرقان اور حیضہ جیسے متعدد مہلک امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اسی پانی سے کھیتوں کی آبپاشی بھی کی جاتی ہے۔اس لیے غلہ اور دیگر پھل و سبزیوں میں بھی خطرناک جراثیم شامل ہوجاتے ہیں جو انسان اور حیوان دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔بعض تحقیقات میں یہ انکشاف بھی کیا گیاہے کہ 2050 تک، تقریبا 1.8 ارب انسانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کا دردناک منظر،خاص طور پر موسم گرما کے شروع ہوتے ہی، ہمارے ملک میں ابھی سے دیکھنے کو ملنے لگا ہے۔ گاؤں دیہات کے بڑی تعداد میں لوگ کئی کئی میل دوری طئے کر اپنی بنیادی ضروریات زندگی کے لئے کسی طرح پانی مہیا کرتے ہیں۔
فضائی آلودگی: کرہ ارض پر صدیو ں سے بسنے والا انسان اب اپنے لیے خود ہی تباہی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ اپنے گوناں گوں مفاد ات کی خاطر ایسے وسائل کا بے احتیاطی سے استعمال کر رہا ہے جوہماری صاف و شفاف فضا کو تیزی سے مکدر کر کے ماحول کو متاثر کررہے ہیں۔ فیکٹریوں،بھٹہ، آمدورفت کے وسائل،گھریلو آگ والے چولہے جن میں لکڑی اور کوئلہ استعمال ہوتا ہو، سے نکلنے والا دھنواں،اسی طرح وہ پاور ہاوس جو کوئلے پر چلتے ہیں اور جو بڑی مقدار میں دھواں خارج کرتے ہیں، ماحول اور فضا کوبری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ کچرے کے ڈھیروں سے نشو ونما پانے والے جراثیم،نالوں اور تالابوں سے نکلنے والے نقصان دہ بخارات،ہوا میں جذب ہو کرسانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ان کی وجہ سے انسانی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔سانس لینے میں تکلیف، جلدی امراض، پیٹ کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جسم کا ایسا کوئی عضو نہیں جو متاثر نہ ہو رہا ہو، حتی کہ انسانی گردے، پھیپھڑے اور بینائی تک متاثر ہو رہی ہے۔ انسانوں کے علاوہ جانور بھی بیمار ہورہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 15 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔اس فہرست میں 11 لاکھ اموات کے ساتھ ہندوستان دوسرے نمبر پرموجود ہے۔
پلاسٹک (Polythene): آلودگی کی شرح میں اضافہ کرنے والے خطرناک وسائل میں پلاسٹک سر فہرست ہے،جوبہت زیادہ مستعمل بھی ہے۔ہندوستان کی ’سب سے مقدس ندی‘ گنگا میں ہر سال تقریبا 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر گندگی ڈالی جاتی ہے۔ یہ عجیب اور افسوسناک سروے بھی سامنے آیا ہے کہ ہندوستان ان چارممالک میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ پلاسٹک آلودگی ہے۔ ہندوستان کے قومی آلودگی کنٹرول بورڈ کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ساٹھ بڑے شہروں میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پر مشتمل غلاظت پیدا ہوتی ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پلاسٹک کی آلودگی کا یہی حال رہا تو 2025 تک سمندروں میں مچھلیوں کے مقابلے پلاسٹک کی مقدار زیادہ ہوگی۔
جنگلات کی کٹائی: جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کا کاروبار بہت دھوم دھام سے جاری ہے۔آن کی آن میں جنگلات صاف کردیے جارہے ہیں۔اس کٹائی کے نتیجے میں جہاں طوفانی سیلاب میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں آکسیجن،مختلف اقسام کے میوہ جات اور پھل فروٹ میں کمی اور نقص واقع ہو رہا ہے۔ حیوانات بھی تیزی سے اپنی پناہ گاہوں سے محروم ہو رہے ہیں۔جس کی وجہ سے بسا اوقات خود انسان ہی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
عام گندگی: صفائی،ستھرائی اور پاکیزہ ماحول تو ویسے ہی سلیم الطبع انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔مذہب اسلام نے بھی اس پر کافی زوردیا ہے۔اسے نصف ایمان قرار دیا ہے۔لوگ جسمانی صفائی کا اہتما م تو ضرور کرتے ہیں،یا کرنا چاہتے ہیں لیکن صرف یہ کافی نہیں ہے۔صفائی میں جسم کے ظاہر و باطن کے ساتھ گھر، محلہ، سڑک، عوامی مقامات،ہاسٹل کے کمروں، غسل خانوں اور پاخانوں کی صفائی کا اہتمام بھی ناگزیر ہے۔پانی سے بغض رکھنے والے بعض حضرات تو عوامی مقامات وبیت الخلاکو اس قدر گندا کئے رکھتے ہیں جس کے بیان سے حیا مانع ہے۔ صفائی سے بے اعتنائی ماحول کی پاکیزگی کو متاثر کرتی ہے۔ پان،تمباکو اورسگریٹ نوشی بھی فضا کو زہریلا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔موجودہ دور میں جب سے فاسٹ فوڈ اور ہوٹل کے کھانوں کا رواج بڑھا ہے،ایک نئی خرابی نے جنم لیا ہے جس کا نام اشیائے خوردونوش کا ضیاع ہے۔اب تو ’نصف کھاؤ، نصف پھینکو‘ جیسے فیشن بن گیا ہے۔
اسلام کی تعلیمات: صفائی ستھرائی کا اہتمام ہمارا اخلاقی اور سماجی فرض توہے ہی،بحیثیت مسلمان ایک اسلامی فریضہ بھی ہے۔اسلام نے ایک طرف صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہ ہے تو دوسری طرف گندگی پھیلانے اور اشیائے خوردونوش کے میں اسراف و افراط سے بھی منع کیا ہے۔ حتی کہ شجر کاری کے بظاہر معمولی معاملے میں بھی واضح احکامات جاری کئے ہیں۔’پانی‘جس کی بقاء میں تمام مخلوقات کی بقاء وحفاظت مضمر ہے،اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ؛ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوہ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ؛ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاہ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکرُونَ“ (سورۃ الواقعۃ:68-69-70)”ذرا غور تو کرو اس پانی پر جو تم پیتے ہو!کیا تم نے اس کواتارا ہے بادلوں سے یااس کو اتارنے والے ہم ہیں؟اگرہم چاہیں تو اس کو بالکل ہی تلخ بنا دیں توتم لوگ شکر کیوں نہیں کرتے!“۔ قرآن میں اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی میں حیات کی تاثیر رکھی ہے،اس لیے پانی پر صرف انسان کا ہی حق نہیں ہے بلکہ جتنا انسان کا حق ہے اتنا ہی دوسری مخلوق کاحق ہے۔ اگر یہ
انسان اپنی ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے گا اس کو ’اسراف‘ کہا جائے گا اور اسراف اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے جیسا کہ اس آیتِ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ارشاد فرما دیا ہے:”وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا، إِن اللہ لَا یُحِبُّ الْمُسْرفِین“ (سورۃ الاعراف:31)۔”کھاؤ پیو البتہ اسراف نہ کرو،خدا اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“۔ اسراف سے جہاں مخلوق کو نقصان پہنچتا ہے وہیں نظام تکوینی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔جس سے زمینی نظام میں فساد پیدا ہوتا ہے جبکہ اس طرح کے فساد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی کے بارے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص انداز میں انسان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ زمین کو برباد کرکے خود بھی اور دوسروں کو بھی اس کے فائدہ سے محروم نہ کرے۔ فرمایا:”وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحھا ذَٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِین“(الاعراف:85)۔”اورزمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے“۔ فساد ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے۔اصل لغت میں فساد کے معنی ہیں کسی چیز کا اپنی حالت سلیم سے بدل کر خراب حالت پر آجانا اور اعتدال سے نکل جانا، اس کی ضدا صلاح ہے۔پانی میں اللہ تعالیٰ نے صحت اور بقائے حیات کی صفت رکھی ہے۔اگر انسان صحت مند ہے تو وہ دین اور دنیا کے تمام امور کو بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”نعمتان غبونٌ فیھما کثیرٌ من الناسِ: الصحۃُ والفراغ“ُ (رواہ البخاری)۔”دو نعمتیں ایسی ہی جن کے بار میں بہت سے لوگ لا پروائی برتتے ہیں۔ صحت اور فراغت۔“اسلام کی نظر میں پانی کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نمازوں کے لیے جو وضو کیا جاتاہے اور اس میں جو پانی استعمال کیا جاتاہے اسلام نے اس پر بھی نظر رکھی ہے۔ نماز پڑھنے والے اللہ کے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وضوتو کریں مگر اسراف نہ کریں۔سلام نے صحت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے پانی کی اہمیت کو کس کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کیا اس کا اندازہ اس طرح کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی او ربہتے ہوئے پانی دونوں میں پیشاکرنے سے منع فرمایا۔ حالانکہ بہتے ہوئے پانی میں تھوڑی بہت نجاست سے اس کی طہارت متاثر نہیں ہوتی لیکن وہ آلودہ ہوجاتا ہے۔ یہ آلودگی اس وقت اور بڑھ سکتی ہے جب لوگ بہتے ہوئے پانی میں پیشاب وغیرہ کرنے کو اپنی عادت بنالیں۔پیشاب پر دوسری نجاستوں اور فضلا ت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔اسلام نے پانی کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی ہے، سو کر اٹھنے کے بعدہاتھوں کو دھوئے بغیر برتن میں ہاتھ ڈالنے کی ممانعت ہے۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر:445) برتن میں سانس لے کر پانی پینا بھی ممنوع ہے۔(صحیح البخاری:حدیث نمبر:153)کیوں کہ سانس کے ذریعے جراثیم پانی کے برتن میں داخل ہوسکتے ہیں، جس سے بچا ہوا پانی بھی آلودہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی اسے استعمال کرے تو پیٹ کی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ ”پانی کا برتن ڈھانپ دیا کرو اور مشکیز ے کا منہ باندھ دیا کرو“۔(صحیح مسلم:حدیث نمبر:5364)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی حفاظت کے سلسلے میں ایک اعلی نمونہ پیش فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ”مد“کی مقدار پانی سے وضوفرمالیا کرتے تھے اور ایک”صاع“کی مقدار پانی سے غسل فرمالیا کر تے تھے۔
اسی طرح درخت اور شجر کاری کا مسئلہ ہے۔ قدرت کا نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے لیے درختوں کے وجود کو لازم و ضروری کر دیا گیا ہے،انسان زندہ رہنے کے لیے جو سانس(آکسیجن)لیتا ہے وہ درختوں سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔اسی وجہ سے ان پیڑ پودوں کو تباہ و برباد کرنے سے اسلام نے سختی کے ساتھ روکا ہے،وہ لوگ جو دنیا میں فساد مچاتے ہیں،کھیتی اور انسانی نسل کو تباہ کرتے ہیں،ان کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔”وَإِذَا تَوَلَّیٰ سَعَیٰ فِي الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیھَا وَیھْلک الْحَرْثَ وَالنَّسْل،وَاللَّہُ لَا یحِبُّ الْفَسَاد“(البقرہ:205)۔”جب وہ فسادی لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے،نسل اور کھیتوں کو برباد کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے“۔
حالت جنگ جس میں انتہائی افرا تفری کا ماحول ہوتا ہے،بھلا دوسرے امور کب قابل اعتناہو سکتے ہیں۔لیکن اس حالت میں بھی اسلام نے درختوں،پودوں اور کھیتوں کو کاٹنے اور جلانے سے منع کیا۔،پیغمبر اسلام نے بھی اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی کو قیامت بالکل سامنے نظر آئے اور اس کے ہاتھ میں ایک پودا ہو تو اس کو لگائے بغیر نہ مرے“(صحیح الجامع، حدیث نمبر:1424)۔
Hassan Bin Abdul Gaffar
UG Student, Jamia Islamiya Sanabil, New Delhi.