لیتفقھوا فی الدین
ہر دور میں معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لئے حصول علم کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ اسلام میں اس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا کافی ہے کہ حضورؐ پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں ہی اقرأ کا حکم دے کر واضح کیا گیا ہے کہ یہ ایک بنیادی چیز ہے جس کے ذریعہ ہدایت یاب اور گم کردہ راہوں میں امتیاز کیا جاتا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے علوم نافعہ کا حصول ضروری ہے۔ اس لئے کہ یہی ایک چیز ہے جو انسان کو راز خودی سے آگا ہ کرکے اس کے سامنے مقصد حیات کو اچھی طرح واضح کرتی ہے، اور یہی علوم قوموں اور ملتوں کی ترقی کابھی سبب بن جاتے ہیں۔
بے شمار آحادیث اور آیات کی روشنی میں ہم بڑے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے نافع علم حاصل کرنے والوں کو بے پناہ خوشخبریاں دی گئی ہیں، کہیں جنت کا حصول آسان بتایا گیا ہے تو کہیں فرشتوں کے پر بچھانے کا بھی ذکر ملتا ہے، توکہیں اس کو افضل ترین عمل کہا گیا ہے ۔
’’ تفقہ فی الدین‘‘ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ دین کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا ہر قسم کی خیر وبر کت اور صلاح و فلاح کاذریعہ بنتا ہے ، قرآن مجید میں بھی جہاں تفقہ پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا اصل منشا یہی ہے کہ جس قوم کو انسانیت کی امامت سونپی گئی ہے وہ علم اور عمل کے اعتبار سے دوسروں کے مقابلہ میں پوری طرح ممتاز ہو۔ اس لئے کہ جہاں علم روشنی کا کام دیتا ہے وہیں جہالت اور کم علمی بہت سے فتنوں کا سبب بن جاتی ہے ۔ شاید اسی لئے کم از کم قوم کے کچھ لوگوں کو اس کے حصول کی طرف راغب کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ علم حاصل کریں اور دین کی سمجھ پیدا کریں۔ قرآن مجید کی سورۃ التوبہ آیت نمبر۱۲۲؍میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
فلولا نفر من کل فرقہ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذارجعوا الیھم، لعلھم یحذرون ۔
( ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ سے کچھ لوگ نکل کرآتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ چوکنا ہوجائیں۔)
اس آیت میں تفقہ فی الدین کی حکمت اور اس کی علت کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انذار اس کا سب سے بڑا مقصد ہے ، تاکہ وہ جو کچھ الہی ہدایات حاصل کرتے ہیں، ان کے مطابق سماج میں اصلاح کی کوشش کریں، اور لوگوں کو حقائق سے باخبر کریں۔
الحمد للہ آج کے دور میں اس مقصدکے حصو ل کے لیے تیاری کے بہت سے ذرائع ہیں جن میں سب سے اہم ذریعہ مدارس اسلامیہ ہیں۔ ارباب نظر نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے کرب کا اظہار کیا ہے کہ دیگر اداروں کی طرح گزرتے دنوں کے ساتھ مدارس کے تعلیمی نظام میں بھی کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ بلاشبہ مدارس دین کے قلعہ ہیں جہاں مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کا راستہ موجود ہے۔ دور حاضر میں مدارس کی ضروریات کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں میں بھی بیش بہا اضافہ ہوا ہے ۔ اہل مدارس پر ضروری ہے کہ اپنے نظام پر از سر نو غور کر کے اس میں ایسی مثبت’’ تبدیلیاں‘‘ لائیں جن سے مدار س کا بنیادی کردار بھی متأثر نہ ہو، اور ماضی کی طرح جہاں سے کسب فیض کرنے والے اپنے اخلاق و کردار ، اپنے علم و عمل، اور اپنی روحانیت سے سماج پر اثر انداز ہوں، اور جہاں سے آج بھی ایسے افراد پیدا ہوں جو انسانیت کے درد کا مداوا کر سکیں،اور اپنے روشن دل و دماغ کے ذریعہ تنگ نظری اور محدود سوچ کو وسعت نظری میں بدل کر سماج میں مثبت تبدیلی لانے کی جدوجہد کریں۔ اس کے بعد ہی یہ امید کی جائے گی کہ تفقہ فی الدین کے حکم پر عمل کا جذبہ لے کر اٹھنے والے اس حکم کی علت یعنی انذار کا بھی حق ادا کریں گے اور یوں ایک صالح معاشرے کی تشکیل کا فرض بھی بحسن وخوبی اداکر سکیں گے۔
برماور سید احمد سالک ندوی؍ بھٹکل )